یہ اُن دِنوں کی بات ہے

پہلے عرض کیا تھا کہ جناب مولوی عبداللہ صاحبؒ (مرحوم) اور لیفٹینٹ راجہ مظفر خان شہید ستارہ جراٗت (دوبار) کا ذکر کیئے بغیر ہری پور سے آگے چلنا مشکل ہے ۔ لیفٹینٹ راجہ مظفر خان شہید کا تعلق نارمہ راجپوت قبیلے سے تھا۔ ٹاڈا راجستان کے مطابق مغل بادشاہ اورنگزیب کے دور میں اِس قبیلے نے اسلام قبول کیا اور اپنی پشتی ریاست میواڑ چھوڑ کر پہلے جہلم کے علاقہ پلان اور پھر منہاس راجپوتوں سے خونریز جنگ کے بعد علاقہ پنجن پلاہل اور گردو نواح میں آباد ہوگئے۔
مصنف سراج الدین فورمین لکھتے ہیں کہ کشمیر میں جہاں جہاں مسلم نارمہ راجپوت آباد ہیں اُن کا تعلق علاقہ پنجن و پلاہل سے ہی ہے۔ لیفٹینٹ راجہ مظفر خان شہید ستارہ جراٗت (دوبار) نے اپنی فوجی زندگی کا آغاز 2 کشمیر رائفل رجمنٹ سے کیا۔ پہلی جنگ عظیم میں آپ کی یونٹ افریقی محاذ پر لڑی اور دوسری عالمی جنگ کے دوران آپ کی تعیناتی ‘‘برماـ’’ فرنٹ پر رہی۔1946ء میں جب تحریک آزادی پاکستان اپنے عروج پر تھی تو آپ نے کشمیر کے سیاسی حالات کا جائیزہ لیتے ہوئے بھانپ لیا تھا کہ مہا راجہ کشمیر برٹش انڈین سرکار، شیخ عبداللہ اور بظاہر مسلمان کہلانے والے کانگریسی ملاوٗں اور سوشلسٹوں کے آگے بے بس ہے ۔ 1945ء میں برٹش انڈ ین سرکار نے ڈوگرہ فوج جس کی کل تعداد نو انفینٹری بٹالین اور ایک ہارس کیولری پر مشتمل تھی کی قوت بڑھا نے کی خاطر راشٹریہ سیوک سنکھیوں کے کئی دستوں کے علاوہ چھوٹے ٹینک اور بکتر بند گاڑیوں کے درجنوں سکواڈرن ڈوگرہ فوج میں شامل کر دیے۔1946ء میں شیخ عبداللہ نے قائداعظم ؒ کیخلاف سخت اور بڑی حد تک گستاخانہ زبان استعمال شروع کر دی اور ریاست میں اپنی حیثیت منوانے اور مسلمانوں کے واحد اور متفقہ لیڈر کی حیثیت سے دوروں کا آغاز کر دیا۔
ایک دورے کے دوران وہ کوٹلی ، کھوئیرٹہ اور کوٹلی سہولناں آیا جہاں کچھ لوگ اُس کی پارٹی میں شامل ہُوئے ۔ لیفٹینٹ راجہ مظفر خان شہید کی ڈائیری کے مطابق کوٹلی سہولناں کے کامریڈ تر لوک چند اور کھوئیرٹہ کے کامریڈ غازی عبدالرحمٰن کے علاوہ بہت سے اہم خاندانوں نے نیشنل کانفرنس میں شمولیت اختیار کی ۔ سبھی لوگ جانتے تھے کہ شیخ عبداللہ کانگریس کا پٹھو، حکومت ہند کا ایجنٹ ، گاندھی اور نہرو کا چیلہ اور موقع پرست مفاد پرست ہے۔ آپ نے اپنی ڈائیری میں لکھا کہ شیخ عبداللہ ابتداٗ ہی سے نیچ اور پست خیالات کا حامل شخص تھا جس کی شخصیت کے کئی روپ تھے۔ آپ شیخ عبداللہ کی ابتدائی زندگی سے خوب واقف تھے۔ً عبداللہ کے نام ایک خط اپنی ڈائیری میں نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ۔ اے غدار عبداللہ تھڑوں پر بیٹھ کر مانگے تانگے کی چائے پینے والے اب تم عالیشان ہوٹلوں کے عادی ہو اور لیڈر بن کر قوم کو دھوکا دے رہے ہو۔ تمہاری مثال اُس عورت جیسی ہے جس نے یزید کیساتھ شادی کے لالچ میں نواسہ رسولؐ حضرت حسنؓ کو زہر دے کر شہید کیا مگر یزید کی ملکہ بننے کے خواب نے اسے ذلت کی موت مارا۔ امیر معاویہ کے پاس آئی تو اُنہوں نے اس کا سر قلم کروا دیا۔ دیکھ لینا تمہارا حشر بھی ایسا ہی ہوگا ۔ تم نے قوم کو تقسیم کیا اور لاکھوں مسلمان مرد و زن تمہارے لالچ کی وجہ سے شہید ہو گئے ۔ دنیا تا قیامت تم پر لعنت بھیجے گی اور آخرت میں تم جہنم کا ایندھن بنو گے (انشااللہ) ۔
غالباً یہ خط عبداللہ کی مسٹر نیڈو کی بیٹی اور برطانوی جاسوس کرنل ٹی ای لارنس کی مطلقہ عظمت جہاں سے شادی کی طرف اشارہ ہے۔ اِس شادی کا اہتمام فیض احمد فیض ، ایم ڈی تاثیر ، لاہوری پنجابی سوشلسٹوں اور کیمونسٹوں اور لاہوری پریس کے مالکان حمید نظامی، مولانا ظفر علی خان ، میکش اورد یگر نے کیا تھا ۔ یہی وہ لوگ تھے جنھہوں نے شیخ عبداللہ کو مسلم کانفرنس چھوڑ کر نیشنل کانفرنس بنانے کی ترغیب دی ۔ شیخ نے پہلے پشاور کا طویل دورہ کیا جہاں امیر کابل کے نمائیندے ، فقیر آف ایپی، جمعیت علمائے اسلام ہند کے نمائیندوں ، سرحدی گاندھی باچا خان اور عبدالصمد اچکزئی سے طویل ملاقاتیں کیں ۔ لاہور آکر عبداللہ نے لاہوری پریس اور سوشلسٹوں سے ملاقاتوں کے بعد دہلی کا رخ کیا جہاں نہرو ، گاندھی ، مولانا آزاد اور جمعیت علمائے اسلام ہند کے اکابرین کے علاوہ وائسرائے ہند کے نمائیندے سے صلاح مشورے کے بعد نیشنل کانفرنس کے قیام کا اعلان کیا۔
چودھری غلام عباس کی سوانح حیات ‘‘کشمکش’’ کا میں اکثر حوالہ دیتا ہوں جس میں وہ مایوسی کے عالم میں لکھتے ہیں کہ میں اور اے۔آر۔ساغر جیل سے چھوٹتے ہی لاہور گئے اور لاہوری پنجابی پریس کے مالکان سے ملے مگر کسی نے ہماری بات نہ سُنی ۔ ہم نے واضع کیا کہ آپ لوگوں نے تحریک آزادی کشمیر کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔ جبکہ قائد اعظم ؒ نے اس شخص (غدار عبداللہ) سے لا تعلقی کا حکم دے رکھا ہے۔ آپ کی یہ حرکت قائد کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے ۔ لکھتے ہیں حمید نظامی اور مولانا ظفر علی خان سے تلخ کلامی بھی ہوئی ۔ حمید نظامی نے کہا کہ قائد اعظم ؒ کو آپ نے پٹی پڑھا رکھی ہے ۔ چودھری غلام عباس لکھتے ہیں کہ ہم نے جواباً کہا کہ ہم قائد اعظم ؒ کی بہت عزت کرتے ہیں ۔
لیفٹینٹ راجہ مظفر خان شہید نے غدار عبداللہ کا جس انداز سے اپنی ڈائیری میں ذکر کیا یہ ان ہی سازشوں اور عبداللہ کی مکارانہ اور غدارانہ چالوں کی نشاندھی کرتا ہے۔لکھتے ہیں کہ غدار عبداللہ نے اپنے مریدوں کی خاصی تعداد بنا رکھی ہے جو اُسے امام مہدی مشہور کر رہے ہیں ۔ اگرچہ اِس بات کے شواہد ہیں کہ عبداللہ مرزائیت کا مقلد تھا چونکہ اُس کی جماعت میں مرزائیوں کی خاصی تعداد موجود تھی ۔ کشمیر کی گجر برادری ، ٹیٹوال کے سیدوں اور راجگان کی بڑی تعداد مرزائیت قبول کر چُکی تھی اور نیشنل کانفرنس میں بھی شامل تھی۔ مرزائیت اور عیسائیت کے مبلغین نے کشمیر میں بہت کام کیا اور ہزاروں لوگوں نے مرزائیت قبول کی۔
اِس سلسلے میں یوز آصف کا واقع اور مرزا غلام احمد قادیانی کی تاریخ اعظمی کے علاوہ انگریز مصنفین کی تحریریں پڑھی جا سکتی ہیں ۔ مشہور برطانوی پادری اور کئی کتابوں کے مصنف فادر سی ای ٹفن ڈیل باسکوے کی کتاب ‘‘کشمیر اِن سن لائیٹ اینڈ شیڈ’’ اِس سلسلے کی مستند تحریر ہے۔یاد رہے کہ شیخ عبداللہ کی ساس میر جان کا تعلق گلمرگ کے گجر بکروال خاندان سے تھا ۔ میر جان اور عظمت جہاں کی وجہ سے عبداللہ خاندان کی کشمیر کے گجر بکروال خاندانوں سے رشتہ داری کا تعلق تھا۔ شیخ عبداللہ اور بعد میں فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ کے گجر خاندانوں سے اچھے تعلقات آج بھی قائم ہیں ۔ اِس تعلق کی ایک مثال ژون گجری نامی خاتون ہے جسے محض گجر اور نیشنل کانفرنس سے تعلق کی بنا پر اسقدر اہمیت دی گئی کہ بھارت میں اسپر بے بنیاد تحقیقی کام کیا گیا اور اسے تحریکِ آزادی کی ہیروئین بنا کر پیش کیا گیا ۔ شیخ عبداللہ نے سرینگر میں کشمیر نیشنل گارڈ کی بنیاد رکھی جو لکڑی کی بنی ہوئی ڈمی رائفلیں لیکر سرینگر میں بے ڈھنگا مارچ کرتی اور مجاہدین کے علاوہ پاکستان کے خلاف نعرے لگاتی تھی۔ ژون گجری کو بھی اِس نمایشی دستے کا حصہ بنایا گیا جسے آجکل آزادی کی ھیروئین بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔
ڈوگرہ حکمران بھی گجر قبیلے کو خاص اہمیت دیتے تھے چونکہ گجر ہمیشہ پر امن رہے اور کسی تحریک کا حصہ نہ بنے۔ دوسری وجہ گجروں میں روحانی شخصیات سادات کی نسبت زیادہ تھیں ۔ تیسری وجہ وہ اکثر سفر پر رہتے اور جگہ جگہ سے معلومات اگٹھی کرتے تھے۔ چوتھی وجہ گجر قبائل سارے ہندوستان ، خصوصاً پنجاب ، سرحد ، چترال، گلگت بلتستان سے لیکر افغانستان اور سنٹرل ایشائی ریاستوں تک پھیلے ہوئے تھے ۔ ہندو ڈوگرہ حکمران روحانی شخصیات کی قدر دان تھی چاہے اُن کا تعلق کسی بھی مذھب یا فرقے سے کیوں نہ ہو۔ سوائے مہر گل ھن کے کسی بھی حکمران نے مقابر، مساجد، مندر یا کسی بھی مذہبی مقام کی کبھی توہین نہیں کی ۔ البتہ وہابی عقیدے کے لوگوں کا رویہ اِس سے مختلف ہے جس کی پذیرائی میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ پاکستان میں مرزا جہلمی ، علامہ غامدی اور اسی سلسلے کے علماٗ نے ایک مہم شروع کر رکھی ہے جو آنے والے وقت میں کسی بڑے قومی حادثے کا موجب بن سکتی ہے۔
گجر قبیلے سے تعلق والی بڑی روحانی شخصیت حضرت باجی الف دین ؒ کو کشمیری حکمرانوں نے پونچھ، مظفر آباد اور نیلم تک بیشمار چراگاہیں الاٹ کر رکھی تھیں جہاں صرف باجی صاحبؒ کے ریوڑ چرتے تھے ۔ اگرچہ پونچھ میں جرالوں اور گجروں کے درمیان ہمیشہ سے چپقلش چلی آرہی تھی مگر 1947ء میں دونوں قبیلوں نے ڈوگرہ تسلط اور بھارتی یلغار کے خلاف اتحاد کا مظاہرہ کیا۔ اسی طرح بہت سی روحانی شخصیات بھی حکمران طبقے سے لا تعلق رہیں اور صرف دین کی خدمت پر ہی توجہ مرکوز رکھی ۔ دربار عالیہ کھڑی شریف کے لنگر خانے کیلئے ڈوگروں نے مختلف علاقوں میں زمینیں مختص کر رکھی تھیں۔ اِن زمینوں کی پیداوار کھڑی شریف پہنچائی جاتیں جن پر کوئی ٹیکس یا مالیہ نہ تھا ۔ 1947ء کے بعد یہ زمینیں مقامی مالکان کو واپس مل گئیں چونکہ مزارات کا انتظام محکمہ اوقاف کے سپرد ہو گیا۔
انڈین یونین منسٹر راجیش پائیلٹ کا تعلق بھی کشمیری گجر بکروال خاندان سے تھا۔ ایس ۔ کے۔ دلت اپنی تصنیف ‘‘دِی واجپائی ائیرز’’ میں لکھتا ہے کہ پائیلٹ نے مجھے اور سرینگر کے کور کمانڈر کو اپنے دفتر بلا کر بتایا کہ کشمیر کے جنگلوں ، پہاڑوں اور مرغزاروں میں پھیلے گجروں سے رابطہ کرو اور اُنھیں کچھ مراعات کے علاوہ چھوٹے وائیرلیس سیٹ پر رابطہ کرنے کی تربیت دو۔ اِس کے علاوہ آپ کے پاس مجاہدین جنھیں وہ دھشت گرد لکھتا ہے سے نبٹنے کا کوئی ذریعہ نہیں ۔ دلت لکھتا ہے کہ یہ وہ وقت تھا جب مجاہدین کا سارے کشمیر پر غلبہ تھا ۔ وزیر داخلہ مفتی سعید کی بیٹی ڈاکٹر سعیدہ مفتی اغواٗ ہو چُکی تھی اور وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ مجاہدین سے اسقدر نفرت کرتا تھا کہ وہ اُن سے بات چیت کے حق میں نہ تھا۔ فاروق عبداللہ کو زعم تھا کہ اُسے اِس رویے کے بدلے میں بھارت کا صدر بنا دیا جائے گا اور شاید وزیر اعظم واجپائی نے بھی اسے کوئی اشارہ دے رکھا تھا ۔
دلت لکھتا ہے کہ راجیش پائیلٹ کا فارمولہ کامیاب رہا اور ہم نے مجاہدین کے سبھی ٹھکانے تلاش کر کے اُنھیں ختم کر دیا ۔آگے لکھتا ہے کہ راجیش پائیلٹ اپنے قبیلے کے لوگوں کا خاص خیال رکھتا تھا ۔ اُس نے مجھے ایک منصوبہ بنانے کو کہا تا کہ اُس قبیلے کے افراد کو عرب امارات اور دوسرے ممالک میں بھجوا کر اُن کا معیار زندگی بلند کیا جائے ۔ علاوہ اِس کے سرکاری اداروں میں اِنھیں بھرپور نمائیندگی دیکر اُنھیں ہمدرد اور ہم خیال بنایا جائے۔ راجیش پائیلٹ شہری ہوا بازی کا وزیر تھا مگر اُس کی سوچ کا دائرہ وسیع تھا۔اُس نے اپنے قبیلے کے لوگوں کیلئے بہت کام کیا جس کی وجہ سے کشمیر میں دھشت گردی کی کاروائیاں بڑی حد تک محدود ہو گئیں ۔لیفٹینٹ راجہ مظفر خان شہید ستارہ جراٗت (دوبار) لکھتے ہیں کہ شیخ عبداللہ اور اُس کے حامی کشمیریوں کے قتل عام کے ذمہ دار ہیں ۔ وہ اپنے علاقہ کے لوگوں کے متعلق لکھتے ہیں کہ اکثریت دو کشتیوں کی سوار ہے ۔ آسودہ حال اور عبداللہ کے خاص حامی مسلمان منافقت کا شکار ہیں ۔ وہ اندر سے بھارت اور نیشنل کانفرنس کے حامی ہیں اور خفیہ ساز باز میں شریک ڈوگرہ فوج کی حمائت کرتے ہیں مگر بظاہر تحریک آزادی کا نام بھی لیتے ہیں ۔
(جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے