فرحانہ نے کہا کہ لکھنے والے کی عصبیت و کردار کا اُسکی علمی نفسیات پر اثر ہوتا ہے۔ عصبیت ہی نفسیات کی بنیاد ہے جو کسی حد تک تو تحلیل ہو سکتی ہے مگر ختم نہیں ہوتی۔ جیسا کہ آپ کی تحریروں میں امام غزالی ؒ اور ابن خلدون کے حوالے سے لکھا ہے کہ عصبیت میں سیاست، علمیت ، فضیلت، روحانیت اور عقیدت شامل نہ ہو تو عصبیت محض ضِد ، ھٹ دھرمی ، اکھڑ پن، نفرت اور خود غرضی میں بدل جاتی ہے۔ ابنِ خلدون نے لکھا کہ جن لوگوں اور قبیلوں کی عصبیت کمزور یا مفقود ہو جاتی ہے وہ عصبیت کے اعلیٰ معیار پر فائز افراد اور قبیلوں کی ہم آہنگی اور ہم عصری سے از خود عصبیت کے معیار پر فائز ہو جاتے ہیں ۔ عصبیت کا عنصر انسان کے پیدائشی عناصر میں شامل ہے۔ عصبیت کا تعلق عقلیت ، سوچ و فکر ، علمیت اور سیاست سے ہے۔ اگر عقیدت کا عنصر غالب ہو تو سوچ و فکر اور علمیت کے درجات بلند اور ارفعٰ ہو جاتے ہیں ۔
بد قسمتی سے علم نفسیات و عمرانیات کے ماہرین نے نفسیات کو عمرانیات سے الگ کر دیا اور عصبیت ، فضیلت، عقیدت، سیاست اور علمیت کو ہر دو علوم سے تقریباً خارج کر دیا ۔ عصبیت سے اس کے بنیادی اجزاٗ کے اخراج نے عالمی سطح پر سوچ و فکر کے زاویے ہی بدل دیے جس کی وجہ سے انسانیت کا معیار پست اور عالمی اداروں کے بنائے فرسودہ قوانین کے تابع استحصالی و جبری نظام کے شکنجوں میں جھکڑ دیا گیا۔میں نے پہلے بھی کہا کہ تخلیق آدم کے بعد ہر دور میں علم و آگاہی کے معیار بدلتے رہے مگر سچائی کا عنصر کبھی مغلوب نہ ہوا اور نہ ہی ہو سکتا ہے۔ سچائی عصبیت اور فوق الانا یا خودی کا ہی ایک پہلو ہے۔ اگر خاندان ، قبیلے اور قومیں مغلوب ہو جائیں ، جابر اور برتر طاغوتی قوتیں اُنھیں تابع فرمان اور ہر لحاظ تہی دست اور مفلوج بھی کر دیں تو ایسے ماحول میں بھی سچائی، عصبیت اور خودی کا عنصر کسی نہ کسی کے سینے میں محفوظ رہتا ہے ۔ چونکہ یہ امر رَبی ، ّ حقیقت اور سچائی ہے۔ امر رَبی ّ ، حقیقت اور سچائی کا اظہار عصبیت کی قوت سے ہی شہود پذیر ہو کر باطل اور فرسودہ سوچ کی قوت کا خاتمہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
فرمانِ رَبی ّ ہے کہ میں نے انسان کو قلم کے ذریعے علم سکھلایا۔ اُسے وہ سکھلایا جو وہ جانتا نہ تھا اور پھر فرمایا کہ انسان کی پیدائش جمے ہوئے خون سے ہوئی ہے اور پہلے انسان کو لیس دار مادے سے بنی کھنکھنی مٹی سے پیدا کیا ۔ مٹی اور مادہ ایک مکمل سائنٹیفک عمل ہے مگر سائینسدان اسپر بحث سے اسلیے اجتناب کرتے ہیں چونکہ وہ کائینات کی سچائیوں کے منکر اور مفرور ہیں ۔پیدائش کے بعد اللہ نے سب سے پہلے انسان کو علم سکھلایا اور فرشتوں کے سامنے اُس کی برتری ثابت کی۔ یہی علم اولادِ آدم ؑ میں نسل در نسل منتقل ہوا۔ اگرچہ اُس کی پیدائش کا طریقہ بدل دیا گیا ۔ فرمایا اے لوگو میں نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری نسلیں اور قومیں زمین پر پھیلا دیں ۔ تمہارے قبیلے اور قومیں رکھیں تا کہ تم ایک دوسرے کی پہچان کرو۔ یہ بھی فرمایا کہ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو گے اور میں تمہارے ہی ذریعے ظالم اور جابر قوتوں کا خاتمہ کرونگا۔ قرآن حکیم کی روشنی میں دیکھا جائے تو اللہ نے انسان کو ہر طرح سے مکمل پیدا کیا ۔ اسے علم کی روشنی عطا کی، پہچان کیلئے قوموں اور قبیلوں میں بانٹ دیا اور شر و فساد اور شیطانی ، استدراجی اور استحصالی قوتوں کے خاتمے کیلئے علم و حکمت کی سچائیوں کیساتھ عصبیت کی برتر قوت بھی عطا کی ۔
اہل مغرب آج بھی اِس حقیقت کے معترف ہیں کہ اُن کی ترقی و خوشحالی کی بنیاد عربوں اور مسلمانوں نے رکھی۔ اُن کی سوچ و فکر اور علم سے اُنہوں نے فائدہ اُٹھایا اور ساری دُنیا پر غلبہ حاصل کر لیا۔ہم نے سوچ و فکر کے ادارے قائم کیے ، تجربہ گاہیں قائم کیں ، یونیورسٹیاں اور تحقیقی ادارے قائم کیے ۔ سر مائیہ دار طبقے کو جدید آلات اور اشیاء ضروریہ کی فیکٹریاں اور کارخانے لگانے اور دیگر دُنیا کے سرمائیہ داروں کو محفوظ تجارتی اور صنعتی ماحول فراہم کیا ۔بینکوں کے ذریعے ساری دُنیا کی دولت اپنی دسترس میں کر لی اور مالیاتی اداروں کے نظام کا مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ۔ میں نے پہلے بھی بات کی ہے کہ موجودہ دور میڈیا کی حکمرانی کا ہے۔ سوشل میڈیا اور مصنوعی ذھانت ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم سے زیادہ خطر ناک اور مہلک ہتھیاروں جیسی صورت اختیار کر چُکا ہے ۔ اگرچہ یہ سب منفی سوچ و فکر ، مجرمانہ علمی ، سیاسی اور صنعتی نفسیات کا شاخسانہ ہے مگر ایسا بھی نہیں کہ یہ سب کچھ ہر لحاظ سے مکمل ، دیرپا اور ہمیشہ برقرار رہنے والے استحصالی اور جبری ماحول کی ضمانت ہے۔ دنیا میں کوئی ایسی مادی استحصالی قوت نہیں جسکا خاتمہ ممکن نہ ہو۔ منفی سوچ وفکر کا خاتمہ مثبت سوچ و عمل سے ہی ممکن ہے۔ جسطرح منفی سوچ و فکر کے ادارے جنھیں تھنک ٹینک یا فورم کہا جاتا ہے دن رات ایسے مفروضوں اور منصوبوں پر کام کرتے ہیں مقابلے میں مثبت سوچ و فکر کے ادارے نہ تو فعال ہیں اور نہ ہی متحرک ہیں ۔ وہ قوتیں اور ملک جو مجرمانہ علمی، سیاسی اور صنعتی نفسیات اور اُس کے اثرات سے متاثر اور مفلوج ہیں ۔ اول وہاں کوئی ایسا فورم ، تھنک ٹینک یا ادارہ ہی نہیں جو کارگر مثبت سوچ و فکر کے نتیجے میں ایسا لائحہ عمل تیار کر لے جسپر عوام ، حکومت اور حکمران متفق ہو کر جبر و ظلم کے اندھیروں سے نکلنے کا راستہ اختیار کر سکیں ۔
فرحانہ نے کہا کہ ہم یعقوب نظامی کی تحریروں ، تجربوں تجزیوں اور علمی صلاحیتوں کی بات کر رہے اور یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ یعقوب نظامی اور دوسرے سفر نامہ نگاروں ، تجزیہ کاروں اور علمی و ادبی شخصیات کی سوچ و فکر اور سخن وری میں کیا فرق ہے ۔ مصر کے اہراموں کی ہی مثال لیں تو آج تک ہزاروں لاکھوں سیاح انھیں دیکھ چکے ہیں اور اُن کی تعمیر و تخلیق اور شان و شوکت پر ہزاروں قصے، کہانیاں اور افسانے لکھ چکے ہیں ۔ حیرت کی بات ہے کہ کسی سفر نامہ نگار نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ آخر صحرا میں پہاڑ جیسی عمارتیں کھڑی کرنے کا مقصد کیا تھا ۔ دیوار چین اور قرآن پاک میں بیان ہوئی اُس دیوارجو دو پہاڑوں کے درمیان ذوالقرنین نے تعمیر کی کے مقاصد واضع ہیں مگر اہراموں کا بظاہر کوئی مقصد سمجھ نہیں آتا ۔ نہ تو یہ رہائشی عمارتیں ہیں ، نہ جنگی قلعے ہیں اور نہ ہی غلہ یا ہتھیار جمع کرنیوالے گودام ہیں مگر باوجود اس کے ہر لحاظ سے منفرد اور شاہکار ہیں ۔
نومبر 2020ء میں نوائے وقت نے قاری بزرگ شاہ الازہری کے چار کالم بعنوان اہرام مصر شائع کیے جن میں لکھا گیا کہ اُس دور میں دریائے نیل کا بہاوٗ اہراموں کے قریب تھا۔ بادشاہوں کی وادی سے ہزاروں غلام پتھر نکال کر بجروں پر لادتے اور پھر اُنھیں اہراموں کے قریب اتار کر بیل گاڑیوں کی مدد سے کھینچ کر لاتے ۔ کالموں کا یہ سلسلہ دلچسپ اور انتہائی سائینٹفک تھا۔ اُس دور میں انتہائی زیرک ماہرین تعمیرات اور لاکھوں مزدوروں ، ہنر مندوں اور غلاموں کو دِن رات کام پر لگا کر یہ پہاڑ نما عمارتیں صرف اس لیے کھڑی کی گئیں تا کہ شاہی خاندان کے لوگوں کو مرنے کے بعد اُن کے غلاموں ، کنیزوں اور محافظوں کو بھی مار کر ان اہراموں کے تہہ خانوں میں رکھ دیا جائے ۔ تصور یہ تھا کے بادشاہ یا ملکہ کو اکیلے نہیں بلکہ اپنے خدام کے ساتھ رہنا چاہیے۔
یعقوب نظامی کے ذکر نے بہت سی بھولی بسری یادیں تازہ کر دیں ۔ 30اگست 1913ء میں نوائے وقت کی کالم نگار نازیہ مصطفی نے ‘‘مصر اے مصر’’ کے عنوان سے لکھا کہ ساڑھے چار ہزار سال قبل مسیح میں مصر دُنیا کی واحد سپر پاور اور تہذیب و ثقافت کا مرکز تھی ۔ ساری دُنیا سے اعلیٰ ذھانت و قابلیت کے حامل لوگ مصر کی طرف کھچے چلے آتے تھے جہاں اُنھیں قابلیت کی بنا پر ترقی اور خوشحالی کے مواقع میسر تھے۔ مصر پہنچ کر اُن لوگوں کیلئے ہائیکہ نامی مذہب اختیار کرنا ضروری تھا ۔
مصری اساطیر کے مطابق ہائیکہ کے پجاروں نے بہت سی فرضی دیویاں اور دیوتا ایجاد کر رکھے تھے ۔ اِن میں سب سے اہم دیوی کا نام ‘‘باعت’’ تھا جو اپنے خاوند جحوتی سے زیادہ طاقتور تھی ۔باعت ہی ساری کائینات کا نظام چلاتی تھی اور ساری دُنیا اُس کے بنائے ہوئے قوانین پر عمل کرنے پر مجبور تھی ۔ آگے لکھتی ہیں کہ 2414قبل مسیح میں مصر کے پانچویں شاہی خاندان کے بادشاہ ‘‘جیدر السیسی ’’ نے فرضی دیوی باعت کو قتل کرنے اور اُسکا نمکین گوشت کھانے کا ارادہ کیا تو ہائیکہ کے پجاروں نے اعلان کر دیا کہ باعت اب جیدر السیسی کے گوشت کا حصہ بن گئی ہے۔
اس کے بعد وہ تمام اختیارات جو باعت کے پاس تھے اب جیدر السیسی کو منتقل ہوگئے۔ جیدر السیسی مصر کے ظالم حکمرانوں میں شمار ہوتا تھا جس کہ دل میں رتی بھر رحم نہ تھا ۔ نازیہ مصطفی نے یہ کالم مصر کے موجودہ صدر سیسی کا جیدر السیسی سے موازنہ کرتے ہوئے لکھا مگر جیدر کی ملکہ کا ذکر نہیں کیا۔یقیناً جیدر کی ملکہ بھی باعت سے کم نہ ہو گی جو اپنے خاوند سے بڑھ کر طاقتور تھی۔ اس سے پہلے امریکہ کے سابق سیکریٹری آف سٹیٹ ‘‘ہنری کسنجر’’ کی مشہور عام تصانیف ‘‘کسنجر آن چائینہ’’ اور ‘‘ورلڈ آرڈر’’ کا باعت اور جیدر سے موازنہ کروں ۔ نظامی صاحب کی مراکش اور اندلس کی یادوں پر چھپ کر نظر ڈالنا ضروری ہے ۔ چھپ کر اس لیے چونکہ میرا تعلق چترال سے ہے اور چترال کے حسن کا تھوڑا سا رنگ مجھ میں بھی ہے ۔ نظامی صاحب کے سامنے آنے سے اُن کی بیگم نے مارشل لاء کا نفاذ نہ بھی کیا تو اُنھیں نقص امن کی دفعات کے تحت چند ماہ کیلئے ہاوٗس اریسٹ کر سکتی ہیں ۔
نظامی صاحب نے اس تحریر کا انتساب اپنی شریکِ سفر ۔۔ شمیم کے نام جو اُن کے دِل میں اور وہ شمیم صاحبہ کے گھر میں رہتے ہیں کیا ہے۔ یہ تو نہیں لکھا کہ وہ مفت رہتے ہیں یا کرایہ دار ہیں ؟ میرے خیال میں محترمہ کو دل میں رکھنا ہی کرایہ ہے چونکہ وہ اُن کے دِل میں مفت اور مستقل رہتی ہیں ۔ دونوں کا تعلق فردوس بریں، کشمیر بینظیر سے ہے جس کے جھرنے اور آبشاریں آج بھی حبہ خاتون اور یوسف شاہ چک کے عشق و محبت کے گیت گاتے ہیں ۔ آپ نے نظامی صاحب کا تعلق پونچھ سے لکھا ہے جہاں کبھی لوہارو خاندان کی حکمرانی تھی ۔ اسی خاندان سے تعلق رکھنے والی کشمیر کی پری چہرہ حکمران دیدہ رانی 950ء سے 958ء تک کشمیر کے اقتدار پر چھائی رہی۔
دیدہ رانی مصر کی دیوی باعت اور بادشاہ السیسی سے کسی بھی طرح کم نہ تھی ۔ نظامی صاحب لکھتے ہیں کہ غرناطہ کی پہلی شام تھی کہ بیگم نے مارشل لاء کا پہلا حکم جاری کرتے ہوئے سوئمنگ پول کی طرف کھلنے والی کھڑکی سے پردہ نہ ہٹانے کا حکم جاری کیا۔ مستنصر حسین تارڑ لکھتے ہیں کہ وہ کسی موذی مرض میں مبتلا ہوئے تو آپریشن کے بعد ہوش آتے ہی اُنھیں کھڑکی کے باہر ایک لاہوری حسینہ باسکٹ بال کھیلتی نظر آئی۔ وہ کھیل کے لباس میں تھی اور بھرپور جسمانی کشش رکھتی تھی۔ وہ دوڑ کر بال باسکٹ میں ڈالنے کے لیے جمپ لگاتی تو اُس کی پونی ہوا میں لہرا کر عجیب منظر پیش کرتی ۔ تارڑ صاحب جتنے دِن ہسپتال رہے وہ حسینہ کی اُچھل کود اور پونی کی خوشبودار ہوا سے دل بہلاتے رہے۔ تارڑ صاحب جیسے عظیم قلمکار نے باسکٹ بال کوٹ کی جو منظر کشی کی وہ نہ صرف قابلِ داد بلکہ شاعروں اور ادیبوں کیلئے مجرد نسخہ بھی ہے ۔ میں اِن شاعروں اور ادیبوں میں نظامی ساحب کو شامل نہیں کرتی چونکہ اُن کا دِل مضبوط اور محفوظ ہے۔
فیضی نے کہا کہ میں نے اپنی بات کا آغاز عصبیت سے کیا چونکہ عصبیت کے بغیر خودی کا تصور محال ہے۔ عصبیت میں دوسری چیز علمیت ہے ۔ علمیت سے مراد کسی مشہور یونیورسٹی کی ڈگری نہیں بلکہ سوچ و فکر کا وہ مادہ ہے جو معاشرے کو بد اعمالی، بذدلی اور طاغوتی قوتوں کے خوف سے نجات دلا سکے۔ پنڈت کلہن کا قول ہے کہ مورخ وہ قابلِ تعریف و توصیف اور شریف النفس انسان ہے جو ماضی کے حقا ئق کو قلمبند کرتے وقت ایک منصف کی طرح محبت اور نفرت سے مبرا ہے ۔
چونکہ ہم ایک مصنف یعقوب نظامی کی بات کر رہے ہیں اِس لیے ضروری ہے کہ نظامی صاحب کو بھی عصبیت، علمیت اور عقیدت کے معیار پر پرکھا جائے۔ یہ پرکھ میں نے اور آپ نے نہیں بلکہ ان کی کتابیں پڑھنے والوں نے کرنی ہے۔ کسی کتاب کی اچھی مارکیٹنگ سے صاحب کتاب کی عصبیت اور علمیت کے معیار کی پرکھ نہیں ہو سکتی ۔ نظامی صاحب کی کتابوں پر آپ نے جو نوٹس اور تبصرے لکھ رکھے ہیں اُن کی وجہ سے ہم اُن کی ادبی زندگی پر تنقید نہیں کر سکتے۔ ہاں ۔ اگر یہی کتابیں ہم نے بازار سے خرید کر پڑھی ہوتیں تو ہماری رائے مختلف ہوتی۔ نظامی صاحب کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اُن میں علمی تکبر اور شہرت کا اثر نہیں ۔ میں کبھی نظامی صاحب سے ملی تو نہیں مگر لگتا یوں ہے کہ وہ سفر نامہ نگار ، ادیب یا مورخ کی حیثیت سے نہیں بلکہ اپنے حسن و اخلاق اور انسانی اقدار و اوصاف کی وجہ سے ہر دلعزیز ہیں۔
(جاری ہے)