لیفٹینٹ راجہ مظفر خان شہید لکھتے ہیں کہ 14اگست 1947ء سے پہلے ہی ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات شروع ہو چکے تھے ۔ جگہ جگہ ہندو دھشت گرد سیاسی لیڈروں اور پاکستان مخالف طبقوں کی ایماٗ پر خون کی ندیاں بہا رہے تھے مگر حکومت ہند نے اسپر آنکھیں بند کر رکھی تھیں ۔ مسلمان عورتوں کے اغواٗ کے بعد اُن کی آبرو ریزی کی جاتی اور پھر اُن کی برہنہ لاشیں جنگلوں اور ویرانوں میں پھینک دی جاتیں ۔ مسلمانوں کے قتلِ عام اور اُن کی جائیدادیں جلانا معمول کا حصہ تھا جو اکثر پولیس اور فوج کی موجودگی میں ہوتا مگر کسی کی باز پرس نہ ہوتی۔ ایک طرف پنجاب سے قافلوں پر حملوں اور لوٹ مار کی خبریں آ رہی تھیں تو دوسری طرف کشمیر کے حالات بد سے بد تر ہو رہے تھے۔ میں نے محسوس کیا کہ میرے گاوٗں کے قریب علاقہ جھنگڑ دھر مسال اور نوشہرہ میں ڈوگرہ فوج میں ضرورت سے زیادہ اضافہ کیا جا رہا ہے اور غیر ریاستی ہندو مذہبی جنونی دستوں کو بھی تعینات کیا جا رہا ہے۔
اچانک مقامی ہندو آبادی کا رویہ بھی بدل رہا ہے اور وہ مسلمانوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں ۔ علاقہ کھوئیرٹہ اور ملحقہ پنجن کے کچھ دیہاتوں میں گورکھا بٹالین کے جوانوں کو ہندو کمانڈروں کے ماتحت چوکیاں قائم کرنے کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا ہے۔ اگرچہ اِن پوسٹوں کی تعداد کم تھی مگر مقامی مسلمانوں پر نفسیاتی دباوٗ اور دھشت کا ماحول طاری تھا۔اِس سلسلہ میں ، میں نے علاقہ پنجن کے پانچ گاوٗں اور ملحقہ بل جاگیر کا دورہ کیا اور مقامی ہندو ساہو کاروں ، سیٹھوں اور با اثر افراد سے ملاقاتیں کیں مگر سب نے لا علمی کا اظہار کیا۔
6 اکتوبر 1947ء کے دِن میں جھنگڑدھرمسال بریگیڈ یر ٹھاکر چتر سنگھ کے پاس گیا اور گزارش کی کہ ہمارے علاقہ کے ہندو اپنا سامان اٹھا کر آپ کے بریگیڈ ہیڈ کوارٹر میں پناہ لے رہے ہیں حالانکہ علاقہ پر امن ہے۔ ہندووٗں کے بڑے پیمانے پر انخلاٗ کی وجہ سے سراسیمگی کا ماحول ہے۔ کچھ ہندو خواتین نے دھمکیاں دی ہیں کہ ہم عارضی طور پر فوجی کیمپوں میں منتقل ہو رہے ہیں جلد ہی انڈین یونین فورس تمہارا قتل عام کرے گی اور ہم واپس آجائینگے۔
راجہ مظفر خان لکھتے ہیں کہ بریگیڈ ئیر ٹھاکرنے مسکراتے ہوئے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں ۔ ہندو بزدل قوم ہے وقتی طور پر ڈری ہو ئی ہے۔ جلد ہی حالات بہتر ہو جائینگے اور یہ لوگ بھی اپنے گھروں کو لوٹ جائینگے۔ لکھتے ہیں کہ مجھے یہ بات مطمئن نہ کر سکی ۔ مجھے بریگیڈیر کی مسکراہٹ میں عیاری نظر آئی ۔ چونکہ ایک طرف فوج اور مسلح دستے تعینات ہو رہے تھے اور دوسری جانب ہندووٗں کی از خود نقل مکانی کسی بڑے حادثے کا پیش خیمہ تھی۔ مقامی مسلمان نمبردار اور نیشنل کانفرنس کے حامی مہاراجہ کی بانسری پر ناچ رہے تھے اور ہندووٗں کا سامان اپنے سروں پر اٹھا کر جھنگڑ منتقل کر رہے تھے۔
آپ اہلِ پاکستان سے بھی شکایت کرتے ہیں کہ سُنا ہے کہ پاکستان کے نام سے ایک آزاد اسلامی مملکت وجود میں آئی ہے۔ آج ہم پاکستانی حدود کے قریب ہی دھشت کے ماحول میں جی رہے ہیں ۔ ایک طرف ہندووٗں نے مسلمانوں کا قتل عام شروع کر رکھا ہے۔ بھارتی فوج جوان مسلمان لڑکیوں کو اٹھا کر لے جا رہی ہے ۔ بھارتی درندے اُن کی عزتیں لوٹنے کے بعد اُن کے ٹکڑے کر کے جنگل میں پھینک دیتے ہیں مگر کوئی مسلمان پاکستانی ہماری مدد کو نہیں آ رہا ۔ پھر دیر اور سوات کے سکاوٹوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ دوسری طرف اللہ کے یہ مجاہد ہیں جو سر پر کفن باندھ کر دور دراز کے علاقوں سے چلتے جہاد میں شریک ہوئے ہیں اور محض اللہ کی خوشنودی کی خاطر ہمارے ساتھ شامل ہوئے ہیں ۔ سنا ہے کہ پاک فوج کے کچھ دستے قریبی جگہوں پر موجود ہیں مگر اُنھیں جہاد میں شمولیت کی اجازت نہیں ۔ وہ ہماری بے بسی دیکھ کر حکومت پاکستان کو رپورٹ کرنے کے ہی مجاز ہیں ۔ حکومت نہیں چاہتی کہ پاک فوج کی جہاد میں شمولیت سے بھارت ناراض ہوکر کشمیر پر حملہ کردے ۔ پتہ نہیں اب بھارت نے کونسا حملہ کرنا ہے ۔ بھارتی گورکھا بٹالین کے علاوہ بھارت فوج اور آر۔ایس۔ایس کے خونخوار دستے تو ہر جگہ پہلے سے ہی موجود ہیں جن کی قیادت بھارتی افسر کر رہے ہیں ۔ آخر ہم اپنے آپ کو کیوں دھوکے میں رکھ رہے ہیں۔کیا اس بات کا سمجھنا آسان نہیں ہے؟
ہندو سیٹھوں ، ساہو کاروں اور نمبر داروں سے ملنے کے بعد بریگیڈیئر ٹھاکر کے رویے سے مایوس ہو کر میں نے اپنے لوگوں کی رائے طلب کی تو زیادہ مایوسی ہوئی۔ جن جن لوگوں پر شبہ تھا کہ وہ پاکستان اور تحریکِ آزادی کشمیر کے حامی ہیں مقامی ذیلدار صاحب نے اُن پر پرچہ کٹوا دیا ۔ یہ لوگ سابق فوجی تھے جنھیں چندہ جمع کر کے نو سو کی ضمانت پر رہا کروایا گیا ۔چڑہوئی میں ایک قدیم عید گاہ تھی جہاں سیاہ رنگ کا پرچم جس پر کلمہ طیبہ لکھا ہوا تھا لہراتا تھا۔ علاقہ پنجن کے ذیلدار صاحب نے یہ پرچم بھی اُتروا دیا۔ ستم یہ ہوا کہ ذیلدار صاحب کے حکم پر علاقہ پنجن کے مختلف دیہاتوں سے ہندو آبادی کو جھنگڑ منتقل کرنے کیلئے وسیع پیمانے پر بیگار لی گئی ۔ مسلمان نمبردار وں نے خچروں، گدھوں اور مزدوروں جو دیہات کے ہی لوگ تھے سے سامان اُٹھوا کر جھنگڑ منتقل کیا۔ واپسی پر اِن لوگوں پر تشدد کیا گیا۔ بے سروسامانی اور مایوسی کے اِس عالم میں ، میں نے خطرہ محسوس کیا کہ اب مکڑی ، بوہانی، کھتیالہ، نوشہرہ، علاقہ پنجن اور وادی بناہ میں آباد تقریباً اسی ہزار مسلمانوں کا قتلِ عام شروع ہونے والا ہے۔ ہندو آبادی بحفاظت جموں ، پونچھ روڈ کی دوسری جانب نوشہرہ اور جھنگڑ دھرمسال منتقل ہو چُکی تھی اور اِس علاقے میں تقریباً ایک ڈویژن انڈین یونین آرمی خاموشی سے آکر بیٹھ گئی تھی۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان کی طرف سے بھارتی خفیہ اقدام پر نہ تو کوئی احتجاج ہوا اور نہ ہی علاقہ میں موجود فوجی دستوں کو حرکت پذیر کیا گیا۔ حالات کی سنگینیوں کو دیکھتے ہوئے میں نے علاقہ کا دورہ کیا اور دس بارہ ریٹائیرڈ فوجیوں کو جو قبل از وقت پینشن کے بغیر ہی فوج چھوڑ کر گھر آئے تھے کو دفاع وطن کا فریضہ سر انجام دینے پر قائل کر لیا۔ اِن لوگوں کے پاس بارہ بور اور توڑے دار دیسی ساخت کی رائفلیں تھیں ۔ میں نے اُنھیں دشمن کی قائم کردہ چوکیوں اور فوجی اجتماع کی جگہوں کے سامنے چوٹیوں پر بٹھا دیا ۔ ھدایات دیں کہ رات کے وقت وقفے وقفے سے فائیر کریں تاکہ دُشمن پر نفسیاتی دباوٗ بڑھ جائے کہ شاید پاکستان کی طرف سے فوجی امداد آ چُکی ہے اور اب حملہ کرناآسان نہ ہوگا ۔ میری یہ سکیم بڑی حد تک کامیاب رہی اور کچھ روز تک دُشمن نے کوئی حرکت نہ کی ۔
25 اکتوبر 1947ء کے دِ ن عید قربان تھی۔ اُس روز 2کشمیر رائفل کی کمپنی جو موضع جونا بمقام مورچہ ڈبریاں میں تعینات تھی میں بغاوت ہو گئی ۔ میجر نصر اللہ خان ولد بریگیڈیر رحمت اللہ خان نے مسلمان سپاہیوں کی مدد سے ڈوگروں اور گورکھا سپاہیوں کو نہتا کیا اور اُن سے اسلحہ و سامان چھین کر اُنھیں نوشہرہ کی طرف بھجوا دیا۔ اللہ کی طرف سے یہ غیبی امداد تھی۔ کل تک ہمارے پاس سوائے لاٹھیوں اور کلہاڑیوں کے کوئی ہتھیار نہ تھا ۔ اب اِن چھینے ہوئے ہتھیاروں کی مدد سے میں نے ایک پلاٹون سے زیادہ نفری اگھٹی کر لی اور مختلف جگہوں پر پوسٹیں قائم کر دیں ۔
30اکتوبر 1947ء پندرہ ذی الحجہ کو دُشمن نے وادی چڑہوئی اور بناہ پر کاروائی کا پروگرام بنایا تو میری قائم کردہ چوکیوں سے شدید فائیر کیا گیا۔ دُشمن سمجھا کہ دوسری جانب مجاہدین کافی تعداد میں موجود ہیں لہذا ڈوگرہ فورس اور آر۔ایس۔ایس کا حملہ کامیاب نہ ہو گا ۔ دُشمن پر ہمارا نفسیاتی اور جاریحانہ دباوٗ قائم تھا کہ مہاراجہ کشمیر اور بھارت کے ایجنٹوں نے جو مقامی غدار مسلمان تھے نے دُشمن کو خبر پہنچائی کہ ہماری حالت اچھی نہیں اور نہ ہی ہمیں کوئی کمک میسر آئی ہے۔ پہلے روز دُشمن نے جونہی کاروائی کا آغاز کیا جمعدار فیض طلب خان، کرم اللہ خان اور موضع براٹلہ کے چند جوانوں نے دُشمن پر موثر فائیری حملہ کیا اور اُس کی پیشقدمی روک دی۔
غداروں اور ضمیر فروشوں کی اطلاع پر دوسرے ہی روز دُشمن نے ایک لڑاکا گشت نکالا جس نے موضع کالا دیہہ میں شیخ جمعہ کے تین بیٹوں اور کھیتوں میں کام کرنیوالے کسانوں کو قتل کر دیا۔ دو مکانوں کو آگ لگائی اور علاقہ میں خوف وہراس پھیلا دیا ۔ مجھے یقین ہو گیا کہ یہ کاروائی ہماری قوت کو جانچنے کیلئے کی گئی ہے تاکہ غداروں کی اطلاع کی تصدیق کے بعد بڑی کاروائی کا آغاز کیا جائے۔ میں اُسی روز آزاد فوج کے کیمپ موضع کھجورلہ گیا اور کیپٹن رحمت اللہ سے مدد کی درخواست کی ۔ اُنھیں بتایا کہ اسوقت اسی ہزار مسلمانوں کی زندگیوں کا سوال ہے ۔ اِس کے علاوہ مشرقی علاقوں میں جو درندگی ہو رہی ہے ہزاروں مسلمان نقل مکانی کر کے جنگلوں میں چھپے ہوئے ہیں جو جلد ہی مغرب کی طرف ہجرت کرنیوالے ہیں ۔
میری درخواست پر کیپٹن رحمت اللہ نے ایک پلاٹون زیر کمان کیپٹن سردار نزیر خان میرے ہمراہ کی جنھیں میں نے آتے ہی چند اہم مقامات پر لگا کر جھنگڑ پر فائیری حملہ کیا۔ میرے پاس جو نفری پہلے موجود تھی اسے آگے بڑھا کر متلاہی پر بھی بھرپور کاروائی کی جس کی وجہ سے دُشمن کا بڑا حملہ کچھ دِن کیلئے موخر ہو گیا۔ 20 نومبر 1947کی صبح جب میں اپنی پکٹ پر تھا ، دیکھا کہ دشمن کی ایک سو چالیس گاڑیاں معہ توپخانہ اور مارٹر کمپنی کے کوٹلی کی طرف پیشقدمی شروع کر دی ہے۔ دشمن سڑک کے دونوں جانب آبادیوں پر بھاری توپخانے اور مارٹروں سے غلافی فائیر کر رہا ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں کے گاوٗں مکمل تباہ ہو رہے ہیں اور ہزاروں مسلمان لقمہ اجل بن رہے ہیں ۔ وادی بناہ اور کوٹلی کے مسلمانوں کو تباہی سے بچانے کا واحد حل دشمن پر قریبی جگہوں سے فائیری حملہ تھا۔ منصوبہ ذہن میں آتے ہی نفری جمع کرنے کا آرڈر دیا تو پتہ چلا کہ آزاد آرمی کا کیپٹن سردار نذیر پچھلی رات اپنی نفری لیکر میرپور چلا گیا ہے۔ کیپٹن نذیر کی یہ حرکت ملٹری ڈسپلن کی سخت خلاف ورزی تھی ۔ اگر جانا ہی تھا تو مجھے اطلاع کر جاتا مگر اُس وقت ہر کوئی اپنی مرضی کا مالک تھا۔ کیا اِس طرح ایک مضبوط دشمن کے خلاف آزادی کی جنگیں لڑی جاتی ہیں؟ ۔ یہ سوال بھی میں خود سے ہی کیا کیونکہ کوئی سننے والا ہی نہ تھا۔
مایوس ہوکر میں پنجن میں واقع حضرت میاں محمد بخشؒ کی بیٹھک پر گیا۔ وہاں عرصہ سے ایک صوفی سید صاحب دِن رات عبادت میں مشغول رہتے تھے اور محاذ جنگ پر بھی آتے تھے ۔میں نے اُن کے پاس حاضری دی اور تازہ ترین صورت حال سے آگاہ کیا۔ وہ خاموش رہے تو عرض کیا کہ میں میرپور جا رہا ہوں شاید وہاں سے کوئی امداد مل جائے۔ آپ میرے لیے دعا کریں ۔ آپ نے دعا کی اور فرمایا جلدی جاوٗ۔ شاہ صاحب سے اجازت لیکر دو سو گز دور گیا تھا کہ دو آدمی مجھے تلاش کرتے ہوئے آگئے۔ اُنہوں نے مجھے ایک خط دیا جسپر لکھا تھا کہ ہم لوگ جہادِ کشمیر میں شمولیت کیلئے آئے ہیں مگر علاقہ اور دُشمن کی پوزیشن سے واقف نہیں ہیں ۔ ہم مسلح ہیں اور پوری تیاری کر کے آئے ہیں ۔ اِس وقت ہم موضع سنداڑ میں ٹھہرے ہوئے ہیں ۔ اللہ کی طرف سے اِس غیبی امداد نے میرا حوصلہ بڑھایا اور میں میرپور کے بجائے جلدی سے سنداڑ جا پہنچا ۔ وہاں سید فرزند علی شاہ اور سید اکبر شاہ سے ملاقات ہوئی۔ اُن کے ساتھ بیس پچیس مسلح افراد تھے جن کے پاس ذاتی ہتھیار بھی موجود تھے۔ دشمن کے متعلق آگاہی اور علاقہ کی صورتحال بیان کی تو وہ لوگ وقت ضائع کیے بغیر میرے ہمراہ چل پڑے ۔
22نومبر 9محرم کو جب میں مجاہدین کے ساتھ محاذ کی طرف جا رہا تھا تو ہری پور کے مقام پر دشمن سے شدید جھڑپ ہو گئی۔ دشمن آرمڈ کاروں اور ہلکے ٹینکوں کے ساتھ میرپور کی طرف بڑھ رہا تھا ۔ سڑک تو ہم نے پہلے ہی تباہ کر دی تھی مگر دشمن نے کسی طرح اسے ہلکی ٹریفک اور پیدل دستوں کیلئے موزوں بنا لیا تھا۔ دشمن کی حرکت تدبیراتی اور قدرے سست تھی ۔ ہم نے اس صورتِ حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سڑک کے ساتھ پہاڑیوں میں دفاع لیا اور دشمن کو اپنے گھات میں لے لیا ۔ دشمن کی رفتار پہلے سے سست تھی اور اس اچانک حملے کیلئے تیار نہ تھا ۔ کچھ دیر تک دشمن نے مشین گن اور برین گن سے بھر پور فائیر کیا جو کسی بھی لحاظ سے موثر نہ تھا ۔ البتہ ہماری بہتر پوزیشن کی وجہ سے دشمن کا نقصان ہونے لگا تو اُس نے میر پور کے ساتھ ملاپ کا منصوبہ ترک کرتے ہوئے واپس جھنگڑ کی راہ لی۔
دشمن پر اس بھرپور کاروائی نے جہاں مجاہدین کا حوصلہ بڑہایا وہیں دشمن کو بھی اپنی منصوبہ بندی تبدیل کرنے پر مجبور کیا۔ جنگی حکمتِ عملی میں تبدیلی آسان نہیں ہوتی۔ اگرچہ فوجی کمانڈروں کے ذھن میں متبادل منصوبہ پہلے سے تیار ہوتا ہے مگر زمینی خدوخال، مخالف قوت یعنی دشمن کی صورتِ حال اور حکمتِ عملی سے ناواقفیت منصوبے پر اثر انداز ہوتی ہے۔ یہاں بھی ہر دو جانب یہی صورتِ حال تھی مگر مجاہدین کا جذبہ جہاد اور سرفروشی کاعنصر غالب تھا۔
(جاری ہے)