یہ اُن دِنوں کی بات ہے

جھنگڑ پر قبضے کے بعد علاقہ تلاشی کے دوران پتہ چلا کہ نوشہرہ کے اردگرد نالوں پر آٹا پیسنے کی چکیاں موجود ہیں ۔ صرف ایک نالے میں سولہ نو عمر مسلمان لڑکیوں کی لاشیں پائی گئیں ۔ بھارتی درندے اِن مظلوم لڑکیوں سے آٹا پسواتے اور اُنھیں شیطانی ہوس کا نشانہ بناتے رہے ۔ بھاگنے سے پہلے اِنھیں بے دردی سے قتل کیا گیا اور لاشیں نالے میں پھینک دیں ۔ یہ سب مسلم دشمنی کی بنیاد پر کیا گیا ۔ پچھلے سال مہاراجہ نے پونچھ کا دورہ کیا تو پلندری کے مقام پر ہزاروں ملازم پیشہ اور ریٹائیرڈ فوجی جوان مہاراجہ کے استقبال کے لیے جمع ہوئے ۔ کسی نے مہاراجہ کے کان میں ڈال دیا کہ یہ لوگ بغاوت کر رہے ہیں ۔ اگر مہاراجہ نے رات پلندری ریسٹ ہاوٗس میں بسر کی تو اسے قتل کر دیا جائے گا۔ مہاراجہ نے بزدلی دکھائی اور پلندری کے بجائے رات پونچھ ریذیڈنسی میں بسر کی ۔ پونچھ پہنچتے ہی حکم دیا کہ مسلمانوں کیخلاف سرچ آپریشن کیا جائے۔ لاٹھی، کلہاڑی، تلوار یا بندوق جو بھی ملے اسے ضبط کر لیا جائے۔
مہاراجہ کے اِس حکم پر ڈوگرہ فوج گھروں میں گھس گئی اور عورتوں کی بے حرمتی شروع کر دی۔ بارل کے صوبیدار شیر محمد نے اس جبروظلم کے خلاف آواز اُٹھائی اور جگہ جگہ ڈوگرہ فوج پر حملے شروع کر دیے۔ اللہ تعالیٰ اس غیرت مندمسلمان مجاہد پر اپنا خاص فضل و کرم کرے۔گزشتہ سال مہاراجہ نے براستہ پونچھ، نوشہرہ، جھنگڑ اور ہری پور ، میر پور کا دورہ کیا تو جگہ جگہ مسلمانوں نے مہاراجہ کیلئے استقبالیہ کیمپ لگائے ۔ لوگ دور دور سے مہاراجہ بہادرکی زیارت کے لیے آتے اور نذرانے پیش کرتے۔
آج اُسی بزدل مہاراجہ نے مذہبی جنون اور مسلم دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے بھارتی درندوں کو مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے کی کھلی چُھٹی دے رکھی ہے۔موضع بوہانی کے بزرگ مسمی رحیم بخش خان جن کی عمر سو سال سے زیادہ تھی کو اُس کی بوڑھی عورت کے ہمراہ صحن میں کھڑا کر کے برین گن فائیر سے شہید کیا گیا۔ اِس علاقہ میں جتنے بھی بوڑھے، بچے، عورتیں اور معذور لوگ جو بھاگ نہیں سکتے تھے اُنھیں گھروں میں بند کر کے آگ لگا دی گئی۔ جوان اور چھوٹی عمر کی لڑکیوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی اور اُن کی چھاتیاں کاٹنے کے بعد اُن پر گھاس ڈال کر جلا دیا گیا۔ بہت سے لوگوں کو پہلے سنگینوں سے چھلنی کیا اور پھر آگ میں جھونک دیا گیا۔
سراہ گاوٗں کے سید حسن علی شاہ صاحب تلاوت قرآن کر رہے تھے کہ اُنھیں گھر سے نکال کر رائفلوں کے بٹ مارے گئے ۔ قرآن پاک کی بے حرمتی کی اور پھر شہید کر دیا گیا۔قلعہ درھال کے ایک عزت دار خاندان کی بیٹی کی شادی ہونے والی تھی ۔ بھارتی اور ڈوگرہ درندے لڑکی اُٹھا کر قلعے میں لے گئے اور اُس کی بے حرمتی کے بعد لاش کے دو ٹکڑے کر کے قلعے کی دیوار سے گرا کر آواز دی کہ اسے اُٹھا کر لے جاوٗ اور شادی کر دو۔بھارتی اور ڈوگرہ فوجی پہلے گاوٗں پر مارٹر اور مشین گنوں سے فائیر کرتے۔ اگر لوگ باہر بھاگتے تو پھر اُن پر مشین گنوں سے فائیر کردیتے ۔ بعض جگہوں پر گاوٗں پر ہوائی حملے بھی ہوئے تو لوگ گھروں میں ہی جل کر مر گئے ۔میرپور میں کھڈ نالے پر عورتیں کپڑے دھو رہی تھیں جنھیں ہوائی جہاز نے نشانہ بنایا اور شہید کر دیا ۔ سکنہ ٹائیں کے صوبیدار سید محمد خان اور اُن کے بھائی شیر محمد خان کے گھر پر حملہ ہوا تو دونوں بھائیوں نے درندہ صفت بھارتیوں کا مقابلہ کیا۔ دونوں بھائی مع خواتین کے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔ بچوں سمیت ان شہیدوں کو گھروں میں ڈال کر آگ لگا دی گئی۔
جس جس جگہ سے بھارتی فوج کا گزر ہوا وہاں کی آبادیوں کو تباہ کر دیا گیا۔ مسجدوں ، گھروں اور فصلوں کو آگ لگائی گئی ۔ جو بچے خوف سے گھروں سے بھاگتے بھارتی ائیر فورس اُنھیں شہید کر دیتی۔آپ لکھتے ہیں کہ دوبار میرپور اوردوبار چڑہوئی پر بھارت نے ایک ایک بریگیڈ ہمراہ توپخانے اور ہلکے ٹینکوں سے حملہ کیا اور ناکام رہا۔ آخری دو حملوں میں اسے بھارتی ایٗر فورس کی بھی مدد حاصل تھی ۔ براستہ پنجن چڑہوئی حملے کے دوران اُسکا ایک ہوائی جہاز گرا دیا گیا مگر ہمارے پاس کوئی اینٹی ایئر کرافٹ گن نہ تھی جس سے جہازوں کے خلاف کاروائی ہو سکے ۔ ایک موقع پر بھارتی لڑاکا گشت نے میری پوزیشن معلوم کر لی اور حملہ کر دیا ۔
میں نے اطلاع پر جگہ چھوڑ کر جنگل میں بھاگنا شروع کر دیا اور دشمن کے فائیر سے محفوظ رہا۔ دشمن نے میرا تعاقب کیا تو ایک مقام پر میں نے جوتے اتار کر بھاگنا شروع کیا اور پھر اونچے ٹیلے سے دوسری جانب چھلانگ لگا دی۔ مجھے پتہ تھا کہ اتنی اونچائی سے گرنے کا مطلب موت کو گلے لگانا ہے مگر میں نے دشمن کی قید میں اذیت ناک موت مرنے سے گر کر شہید ہونا بہتر سمجھا ۔ چھلانگ لگاتے ہی اللہ تعالیٰ کی مدد آ پہنچی ۔غیبی ہاتھ نے مجھے سہارا دیا اور گھنے گھاس کے ایک چھوٹے سے میدان پر اُتار دیا جو اونچے چیڑ کے درختوں کے درمیان تھا۔ مجھے معمولی خراشیں آئیں اور کچھ دیرکے لیے میں وہیں رُکا رہا۔ دشمن کی گشت کافی دیر تک جھاڑیوں پر فائیر کرتی رہی اور پھر میرے بوٹ دیکھ کر واپس چلی گئی ۔ میں اُن کی آوازیں دیر تک سنتا رہا اور پھر دوسرے راستے سے اوپر آگیا ۔دوسرے ہی روز دشمن کی ایک بٹالین نے کیری کی جانب سے نفوذ کیا اور خاموشی سے پنجن پہاڑ کیساتھ جنگل میں آگے بڑھنے لگی۔ ہماری قائم گشت نے اطلاع دی تو میں نفری لیکر اُن کے سر پر آگیا۔ اُس روز ہم نے بڑے بڑے پتھر دشمن پر گرانے شروع کیے تو دشمن حیران ہو گیا۔ پتھروں کی زد گیری فائیر سے بہتر ثابت ہوئی تو دشمن نے پسپائی اختیار کرتے ہوئے آواز دی کہ تمہاری رائفلوں کو کیا ہوا ہے ۔ مجاہدین نے جواب دیا کہ جب پتھر تمہیں ہلاک کر رہے ہیں تو گولیاں ضائع کرنے کا کیا فائدہ ۔ بعد میں پسقدمی کرتی سپاہ پر بھرپور فائیر کیا گیا اور بھاری نقصان پہنچایا۔اسی طرح کے ایک اور حملے میں لیفٹینٹ راجہ مظفر خان شدید زخمی ہوئے تو اُنھیں سنیاہ کے مقام پر اُن کے باغ میں قائم فرسٹ ایڈ پوسٹ پر لایا گیا جہاں وہ کچھ عرصہ تک زیر علاج رہے ۔ سولہ صفحات پر مشتمل یہ ڈائیری آپ نے دورانِ علاج لکھی جو ساری جنگ آزادی کشمیر کی مختصر ، مدلل اور مبنی بر حقیقت داستان الم ہے۔
آپ نے جہاں عزم و ہمت اور خدائی مدد و نصرت کا ذکر کیا ہے وہی غداروں اور دشمن کے ایجنٹوں جنھیں وہ دو کشتیوں کے سوار مسلمان لکھتے ہیں کو بھی نہیں بخشا۔ راجہ مظفر خان شہید کی ڈائیری پڑھ کر ساری جنگ آزادی کا نقشہ سامنے آ جاتا ہے ۔ اصل جنگ نوشہرہ ، ہری پور سیکٹر کے علاوہ پیر پنجال اور شمالی علاقہ جات میں ہوئی۔ اس ڈائیری کے صفحات سے پتہ چلتا ہے کہ ہماری سیاسی قیادت خود غرض ، کم فہم اور ذاتی تشہیر کے دائیرے تک محدود تھی۔ پاک فوج میں کوئی بڑا کمانڈر نہ تھا۔ بالا کمان انگریزوں کے ہاتھ تھی جو بھارتی تسلط کے خواہاں تھے۔باوجود اِس کے بہت سے افسر اور جوان اپنی یونٹوں سے بھاگ کر مجاہدین سے آ ملے جن میں نیوی اور رائل انڈین ائیر فورس کے جوان بھی شامل تھے۔ آزاد آرمی کے افسروں کی کارکردگی صفر اور ذاتی تشہیر تک محدود تھی ۔ نوشہرہ سیکٹر میں سوائے میجر راجہ افضل خان کے کسی نے جنگ میں حصہ نہیں لیا مگر جنگی کارناموں کا ڈھنڈورا خوب پیٹا اور جنگ بندی کے بعد قومی ھیرو بن گئے۔ ایسے فلمی ھیروز کی زیادہ تعداد پونچھ سیکٹر والوں نے پیدا کی جن کے فرضی جنگی کارناموں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔
بھمبھر کی فتح بریگیڈئیر راجہ حبیب الرحمٰن کے نام ہے جن کے نام سے ہی کوئی واقف نہیں ۔ آپ کا اور جنرل ایم۔ زیڈ کیانی کا چناب منصوبہ وزیرِ خارجہ سر ظفر اللہ چودھری (قادیانی) نے مسترد کر دیا تا کہ جموں اور قادیان محفوظ رہیں ۔ رکاوٹ کے طور پر الفرقان بریگیڈ قائم ہوا تا کہ مجاہدین بانہال کی جانب نہ جا سکیں.ابتداٗ میں پونچھ کے مجاہدین متحرک ہوئے مگر تولی پیر کے معرکے میں کیپٹن حسین خان کی شہادت کے بعد پونچھ محاذ مفاد پرست ٹولے کے ہاتھ چلا گیا۔ پہلے بھی عرض کیا ہے کہ نوشہرہ جھنگڑھ سیکٹر کو بھارتی جرنیل نے درہ دانیال قرار دے رکھا تھا جبکہ پونچھ تحریکِ آزادی کا واٹر لو ثابت ہوا۔ تین سدھن بریگیڈ ، ایک بریگیڈ سے زیادہ قبائیلی لشکر بے مہار ، ایک ریگولر بریگیڈ اور باغ بریگیڈ زیرِ کمان مجاھدِ اوّل سردار عبدالقیوم خان چھ ماہ تک پونچھ گیریژن کا محاصرہ کر کے بیٹھے رہے مگر آگے بڑھ کر دو محصور ڈوگرہ کمپنیوں پر حملہ کرنے کی جراٗت نہ کر سکے ۔ جنگِ آزادی کشمیر کی ناکامی کی اصل وجہ چھ بریگیڈوں کی بزدلی اور عدم دلچسپی ہے۔ایسا ہی احوال راجوری اور مینڈھر سیکٹر کا ہے ۔ سردار فتح محمد خان کریلوی نے حیدر ی فورس کے قیام میں جس دلچسپی اور ہمت کا مظاہرہ کیا آگے چلکر سوائے چند مقامات کے باقی جگہوں پر آزاد آرمی نے وہ ہی گل کھلائے جنکا ذکر لیفٹیننٹ راجہ مظفر خان شہید نے اپنی ڈائیری میں کیا ہے۔ لیفٹیننٹ راجہ مظفر خان اور کرنل عبدالحق مرزا فاتح پیر پنجال کے مصائب و الم کی داستان ایک جیسی ہے ۔ دونوں ہی بے سروسامانی اور بالائی سطح پر فیصلے کرنے والوں کی عدم دلچسپی ، منفی پراپیگنڈہ اور ذاتی تشہیر کا نشانہ بنے۔ فاتح گلگت و بلتستان کرنل مرزا حسن کے ساتھ ان دو کی نسبت زیادہ بُرا سلوک کیا گیا۔ فاتح کینڈی (برما) کرنل مرزا حسن (ایم سی) کمانڈر آئی بیکس فورس اور لیفٹیننٹ بابر کمانڈر ٹائیگر فورس نے سارا شمالی سیکٹر فتح کرنے کے بعد سونا مرگ اور دوسری جانب سرینگر دراس روڈ پر اپنی پوزیشنیں مستحکم کر لیں ۔ کرنل مرزا حسن انتظار میں تھے کہ پونچھ کی جانب سے سرینگر میں داخلے کا کوئی پیغام ملے کہ اُنھیں حکومت کی طرف سے حکم ملا کہ وہ اپنی کمان میجر اسلم خان اور کیپٹن طفیل کو سونپ کر فوراً گلگت پہنچیں ۔ گلگت آکر کرنل مرزا نے حکومتِ پاکستان کی طرف سے تعینات کیے گئے پولیٹیکل ایجنٹ محمد عالم خان کو روپورٹ کی تو اُنھیں فوراً جی ایچ کیو (راولپنڈی) پہنچنے کا حکم ملا۔ جنگ آزادی کا باقی عرصہ آپ نے راولپنڈی میں ہی گزارا ۔ جنگ کے بعد آپکا کمیشن بھی مشکوک قرار دیا گیا اور ایک بار پھر آئی ایس ایس بی کا ٹیسٹ پاس کرنے کی شرط عائد کر دی گئی۔جنگِ آزادیِ کشمیر کا جائیزہ لیا جائے تو اصل جنگ بھمبر ، ہری پور ، پیر پنجال سیکٹر اور شمالی علاقوں میں لڑی گئی جسے جان بوجھ کر ناکام بنا دیا گیا۔
کرنل عبدالحق مرزا فاتح پیر پنجال لکھتے ہیں کہ اگر وسائل مہیا ہو بھی جاتے تو قیادت کے بغیر کامیابی ناممکن تھی ۔ ایک طرف میدان جنگ میں لڑنے والوں کی تذلیل کی گئی اور دوسری طرف پونچھ کے محاذ پر پکنک منانے والوں میں بڑے بڑے عہدے اور جنگی اعزازات محض پاپیگنڈے اور ذاتی تشہیر کی بنیاد پر تقسیم ہوئے۔ اسی پراپیگنڈے اور تشہیر نے ایک مجاہدِ اوّل اور درجنوں مجاہدین ملت اور فیلڈ مارشل بھی بنا ڈالے ۔ حوالداروں اور صوبیداروں نے بغیر لڑے کرنیلیاں اور میجریاں لگا لیں اور پھر ان ہی عہدوں پر ریٹائیر ہوکر سیاسی میدان بھی فتح کرلیے۔اس شعبدہ بازی کی ایک مثال میجرخزین شاہ ہے جسکا تعلق آئی این اے سے تھا۔ یہ شخص قبائلی علاقہ میں کوئی جرم کر کے ہندوستان بھاگ گیااور فوج میں بھرتی ہوا۔ وہ کسی پٹھان افسر کا اردلی تھا جس نے آئی این میں شمولیت اختیار کی ۔ افسر اور اردلی دونوں کا کورٹ مارشل ہُوا تو کسی طرح خزین شاہ پونچھ کے منجمد محاذ پر جا پہنچا اور قبائلی جتھے میں شامل ہو گیا۔
یہ شخص چٹا ان پڑھ اور انتہائی شاطر تھا ۔ جنگ کے بعد اسے آزاد کشمیر ریگولر فورس میں بحثیت میجر رکھ لیا گیا ۔خزین شاہ نے نہ جنگ لڑی اور نہ ہی کوئی کارنامہ سرانجام دیا مگر ایک وقت میں جنرل آدم ملک کے انتہائی قریب ہوکر آزاد کشمیر ریگولر فورس کے خاتمے اور ایک ایسی سازش کا حصہ بنا جس کی کامیابی کی صورت میں آزاد کشمیر پر بھارت کا قبضہ یقینی تھا۔خدائی ہاتھ ایک بار پھر متحرک ہُوا اور ڈھائی ٓاضلاع کی ریاست آزاد کشمیر کے عوام بھارت کی غلامی سے بچ گئے ۔ خزین شاہ جرائم پیشہ ہونے کی وجہ سے واپس قبائلی علاقے میں تو جا نہیں سکتا تھا اسلیے ریٹائرڈ ہو کر عباس پور اور ہجیرہ میں ہی قیام پذیر ہو گیا۔ خزین شاہ نے جنرل آدم کے حکم پر آزاد کشمیر کے افسروں اور جوانوں پر غداری کے الزامات لگا کر ٹارچر سیل کھول رکھے تھے جہاں اِن پر تشدد کیا جاتا تھا۔ بہت سے افسر اور جوان مار دیے گئے اور بہت سوں کا کورٹ مارشل کرکے جیلوں میں ڈالا گیا۔ حیرت کی بات ہے کہ خزین شاہ جیسے مجرم کو راولاکوٹ اور باغ کے حکمران خاندانوں نے پھر بھی جنگِ آزادی کا ھیرو تسلیم کیئے رکھا ۔
‘‘دی کشمیر ساگا’’ میں سردار ابراہیم خان لکھتے ہیں کہ ہماری ‘‘وار کونسل’’ نے جنگِ آزادی کی منصوبہ بندی کی، ہیڈ مرالہ سے لیکر گلگت بلتستان تک کمانڈر مقرر کیئے ۔ انھیں اھداف دیے اور اُن کیلئے راشن، ایمونیشن اور دیگر سازوسامان کا بندوبست کیا۔ اسی تحریر میں آگے چلکر لکھتے ہیں کہ پتہ نہیں کیا ہوا کہ بھارتی اور ڈوگرہ فوج پلندری اور ملحقہ علاقہ جات بغیر لڑے ہی خالی کر گئے؟۔
(جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے