جہاں چند لوگ اکٹھے بیٹھنا شروع ہو جائیں اور مختلف موضوعات پر بات کرنے لگیں تو وہ ایک فورم کی شکل اختیار کر جاتا ہے ۔ اگر مل بیٹھنے والے تعلیم یافتہ اور سلجھے ہوئے ہوں تو فورم کا اچھا اثر ہوتا ہے۔ اسلام میں سب سے اچھا اور پاکیزہ فورم گھر اور مسجد ہے ۔ دین اسلام کے ماننے والے اگر اپنے گھروں میں اچھا دینی، اصلاحی اور فلاحی ماحول پیدا کریں تو اسلامی معاشرہ اور ریاست دُنیا میں بسنے والی دیگر اقوام ، معاشروں اور ریاستوں کیلئے اصلاح و فلاح کا نمونہ بن سکتی ہے۔
مسجد اسلامی معاشرے کا اہم فورم ہے ۔ حمد و ثنا کے بعد موذن حَی عَلی الصلواۃ اور حَی عَلی الفلاح پکارتا ہے ۔ آوٗ نماز کیلئے جو بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے اور آو فلاح کی طرف اور نجات حاصل کرو۔ نماز میں اصلاح بھی ہے اور فلاح بھی جو انسانیت کے سارے تقاضے پورے کرتی ہے اور جس میں دنیا و آخرت میں نجات کے اسباب بھی ہیں ۔ مسجدِ نبوی ؐ ایک ایسا لائیٹ ہاوٗس ہے جو ساری دُنیا میں اصلاح و فلاح کا مرکز بنی اور دینِ اسلام کی روشنی عرش سے فرش تک پھیل گئی ۔ ایک ایسی ہی بیٹھک میں فرحانہ فیضی نے مرحوم شکیل احمد برما والا کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ کائیناتی روشنی کی ابتداٗ نورِ محمدی ؐ سے ہوئی ۔ نورِ محمدیؐ سب سے پہلی تخلیق ہے جسکا ذکر علمائے حق اور اولیائے کاملین ، جن کے سینوں میں قرآنِ کا علم اور روشنی یعنی نورِ الہی محفوظ ہے اپنے اپنے انداز میں کر چُکے ہیں ۔ موجودہ سائنسی علوم کے حکماٗ و طلباٗ کی کثیر تعداد مستشرقین کی ہے اور وہ اپنی تحقیقات ، ایجادات اور تشریحات میں علمائے حق اور مسلمان محققین کا حوالہ نہیں دیتے مگر اِس امر سے انکار بھی نہیں کرتے کہ جو کچھ اُن کے مطالعہ میں ہے یہ سب حکمتِ الہی کا کرشمہ ہے جسے وہ نیچر کا نام دیتے ہیں ۔
فرحانہ نے علت و محلول پر گفتگو کرنا چاہی مگر پھر خود ہی بات کا رُخ بدل دیا۔ فرحانہ کی خوبی ہے کہ وہ مخاطبین کے مزاج کو فوراً سمجھ جاتی ہے چونکہ اُس کی بعض باتیں عالمانہ اور حکیمانہ ہوتی ہیں ۔ ایک بار میں نے پوچھا تو کہنے لگی کہ اکثر لوگوں کے مزاج ایسے نہیں ہوتے کہ وہ ایسی گفتگو میں دلچسپی ظاہر کریں ۔
شکیل اور رخسانہ اُس کی باتیں غور سے سنتے تھے ۔ وہ علت و محلول کے موضوع پر خاموش ہوئی تو شاہانہ نے شکیل کو اپنا تازہ کلام سنانے کی کوشش کی مگر وہ اشعار سننے کے موڈ میں نہ تھا ۔ رخسانہ جسے شکیل پیار سے نینا کہتا تھا نے فرحانہ سے مخاطب ہو کر نور اور روشنی پر بات کرنے کی فرمائش کی ۔ ریحانہ ملک جو ہمیشہ اپنے کتے کے ساتھ ہوتی ہے آج کتے کے بغیر اور اُداس تھی ۔ میں نے پریشانی کا باعث پوچھا تو کہنے لگی کتا گم ہو گیا ہے ۔ انصاری صاحب کو ریحانہ کی کتا دوستی اچھی نہ لگتی تھی ۔ بولے کتوں کی کمی نہیں اور مل جائے گا آج بندوں میں بیٹھ جاوٗ۔ انصاری صاحب تو فرحانہ کی دانشورانہ گفتگو کے دیوانے تھے ۔
فرحانہ نے قرآن پاک کی سورۃ الاحزاب کی آیت 43کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اللہ ہی ہے جو رحمت بھیجتا ہے نبیؐ پر اور اُس کے فرشتے حضورؐ پر نور رحمت کے پیغامات اور روشنی کا تسلسل برقرار رکھتے ہیں تاکہ اللہ مخلوق کو پیغام حق کے ذریعے اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لائے۔ اللہ اہلِ ایمان پر بڑا مہربان ہے ۔ پھر سورۃ الرمز کی آیت 32کے حوالے سے بتایا کہ اللہ دین اسلام کی سمجھ کیلئے جسکا سینہ کھول دے اُس کیلئے اللہ کی طرف سے روشنی ہے۔ اُن کے دل نرم ہیں اور خوف خُدا سے اُن کی کھال نرم ہو جاتی ہے ۔ وہ جو اللہ کی یاد سے غافل ہیں اُن کے دِل سخت ہیں اور راہِ راست سے صریحاً بھٹکے ہوئے ہیں ۔ دیکھا جائے تو روشنی اور نور یعنی علم الہی اور نورِ رحمت کا منبع ذات الہی اور وسیلہ اور ذریعہ نبی آخر الزمان ؐ اور رحمت العالمیٰن ہیں ۔ ظاہری و باطنی علوم کا سرچشمہ کتاب ھدایت ہے جسکا نزول قلب رسولؐ پر ہُوا۔ وہ لوگ جھنہوں نے ھدایت کی روشنی میں ظاہری اور باطنی علوم کا اجراٗ کیا اُن کے دِل نرم اور خوف خُدا سے لبریز تھے۔ نہ تو اُنھہوں نے علم کی حدیں مقرر کیں اور نہ ہی اسے خواص تک محدود رکھا ۔ اگر ایسا ہوتا تو آج یورپ جاھلیت کے اندھیروں میں ڈوبا ہوتا ۔
یہ حکمتِ الہی کا ہی کرشمہ ہے کہ جو قوم اللہ کی نعمتوں کی قدر نہیں کرتی اللہ اُس سے حکمت و دانائی چھین کر کسی اور طرف منتقل کر دیتا ہے ۔ سقوط بغداد کے بعد مشرق اندھیروں میں ڈوبتا چلا گیا اور مغرب علم کی روشنی سے منور ہُوا۔ اہلِ مشرق کے سینوں میں جب تک نورِ الہی کی روشنی رہی علم و حکمت کے چشمے بہتے رہے۔ اِن چشموں کا منبع مسجدِ نبویؐ اور ذاتِ رسول ؐ تھی اور تا قیامت رہے گی۔
مسلمان فاتحین کے نرم اور انسان دوست رویے اور مبلغین اسلام کی پُر تاثیر گفتگو نہ صرف دینِ اسلام کے پھیلاوٗ کا باعث بنی بلکہ وہ لوگ جو حلقہ بگوش اسلام نہ ہوئے وہ بھی علم و حکمت کی روشنی سے مالا مال ہو گئے ۔
یہودی اور عیسائی علماٗ کتاب حکمت کے پہلے سے ہی منتظر تھے ۔ نزولِ قرآن کے بعد یہودی اور عیسائی علماٗ و طلباٗ نے مدینہ کے بعد مصر، بغداد، بصرہ اور پھر سمر قند اور بخارا کا رُخ کیا ۔ مساجد میں قائم مدرسوں اور درس گاہوں سے سائنسی اور عمرانی علوم کی روشنی حاصل کی اور یورپ کے اندھیروں میں روشنی کے چراغ روشن کیئے ۔
کیران آرم سٹرانگ نے قرآن کے مطالعہ کے بعد متعدد کتابوں میں لکھا کہ اہلِ یورپ کو عرب معلمین کا شکر گزار ہونا چاہیے جن کی علمی تحقیقات کو آگے بڑھاتے ہوئے مغربی علماٗ و حکماٗ نے جدید علوم تک رسائی حاصل کی ۔
آج کا فُٹ پاتھ فورم فرحانہ کی گفتگو پر اختتام پذیر ہُوا۔ آذانِ مغرب سے پہلے فورم کا اجلاس اختتام پذیر ہوا تو ریحانہ خاموشی سے مارکیٹ کی طرف چلی گئی اسے اپنی بلیوں کا بریک فاسٹ خریدنا تھا ۔ شاہانہ پہلے ہی جا چُکی تھی چونکہ شکیل نے اُسکا تازہ کلام سننے سے معذرت کرلی تھی ۔ فرحانہ ، نینا اور شکیل بھی اُٹھ گئے ۔ میں اور انصاری صاحب بیٹھے رہے ۔ ہم نے کہیں جانا نہیں تھا ۔ پارک کے گِرد بنا فُٹ پاتھ ہمارے گھروں کے سامنے تھا۔ انصاری صاحب نمازِ مغرب کے بعد بیگم کیساتھ فُٹ بال گراونڈ میں واک کرتے تھے ۔ انصاری صاحب کی بیگم فٹ پاتھ فورم کی ممبر نہ تھی ۔ انصاری صاحب کا تعلق جہلم سے تھا اور وہ یعقوب نظامی صاحب کے خاندان سے بھی واقف تھے ۔ انصاری صاحب کے تایا میرپور کی نواحی اور جدید بلکہ امیر بستی کاکڑہ ٹاوٗن میں آباد تھے اور میر پور میں کاروبار تھا۔
میرپور، کوٹلی ، راولا کوٹ ، جہلم ، پنڈ دادن خان اور ڈیرہ اسمعیٰل خان کے جنجوعے ، دت ، انصاری اور ملک ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ڈیرہ اسمٰعیل خان کے ایک آسودہ حال خاندان کے افراد سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا کہ اُن کے آباوٗ اجداد جہلم اور پنڈدادنخان سے ڈیرہ اسمٰعیل خان منتقل ہوئے ۔ اُن ہی میں سے ایک صاحب نے بتایا کہ مشہور بھارتی اداکار سنیل دت کے خاندان کا تعلق بھی جہلم کے مشین محلہ نمبر 2سے تھا ۔ انصاری صاحب سے پتہ چلا کہ میرپور سے تعلق رکھنے والی مشہور شخصیت مرحوم عبدالخالق انصاری ایڈووکیٹ کا فرقہ پرویزیہ سے تعلق تھا۔ وہ غلام احمد پرویز کے مقلد تھے اور اُن کا نظریہ سوشلزم غلام احمد پرویز کی تعلیمات پر استوار تھا ۔ انصاری صاحب نے عبدالخالق انصاری ایڈووکیٹ کی چار کتابیں مجھے دیں جو پرویز یت کی تعلیمات و افکار پر مبنی تھیں ۔
انصاری صاحب کی یعقوب نظامی صاحب کے خاندان سے واقفیت کی وجہ بھی یہی تھی چونکہ نظامی صاحب کے بھائی بھی وکالت کے پیشے سے منسلک رہے ۔ اِس خاندان کی علمی خدمات بھی قابلِ رشک ہیں اور خود نظامی صاحب ادبی حلقوں میں اعلیٰ مقام رکھتے ہیں ۔
انصاری صاحب نے پشاور یونیورسٹی سے ایم اے اکنامکس کیا اور آڈٹ اینڈ اکاونٹس کے محکمے میں آفیسر بھرتی ہو ئے ۔ ریٹائیر ہو کر ہمارے پڑوس میں عارضی رہائیش اختیار کی چونکہ اُن کا مکان راولپنڈی بحریہ ٹاوٗن کے کسی دوسرے سیکٹر میں زیرِ تعمیر تھا۔ میں صبح کی واک کے بعد واپس آتا تو انصاری صاحب اور شکیل صاحب پارک کے گِرد بنے ٹریک کے بڑے بینچ پر بیٹھے محو گفتگو ہوتے۔ ریحانہ ملک سے میری ملاقات واک کے دوران ہی ہوئی۔ وہ علی الصبح درختوں پر مقیم اپنی ایرانی بلیوں کوخوراک ڈالتی۔ ریحانہ جونہی سڑک پر آتی بلیاں درختوں سے اُتر کر اُس کے گِرد جمع ہو تیں اور ناشتے میں مصروف ہو جاتیں ۔ بلیوں سے فارغ ہو کر وہ گھر سے اپنا کتا لے آتی اور پھر ویرانوں کی طرف واک پر نکل جاتی۔ ایک صبح وہ سڑک پر کھڑی تھی جیسے کسی کے انتظار میں ہو۔ میں قریب آیا تو اُس نے سلام کیا ۔ کہنے لگی کہ اگر اعتراض نہ ہو تو میں آپ کے ساتھ واک کر سکتی ہوں ۔
باہمی مشاورت کے بعد واک کے اصول و ضوابط طے ہوئے تو ہم دونوں واک فرینڈ بن گئے ۔ ریحانہ کا کتا تربیت یافتہ تھا اور مالکن کیساتھ با ادب چلتا تھا ۔ راستے میں گھروں کی لائن میں چار گھر فوجی افسران کے تھے ۔ ریحانہ نے بتایا کہ تین خواتین افسر ہیں جنکا تعلق آرمی میڈیکل کور سے ہے ۔ تینوں کی ٹوپیاں کاروں کے ڈیش بورڈ پر رکھی ہوئی تھیں اور ریحانہ اُن سے مل بھی چکی تھی ۔ ریحانہ کا بہنوئی بھی فوج میں ڈاکٹر تھا اور ڈاکٹر خواتین اُن کی جان پہچان والی تھیں ۔ چوتھے گھر کے سامنے کھڑی سوزوکی سوئفٹ کے ڈیش بورڈ پر رکھی پی کیپ پر کور آف سگنلز کا بیچ لگا تھا۔ ریحانہ نے پی کیپ والے افسر کے متعلق کچھ نہ بتایا مگر اسکا کتا وہاں تھوڑی دیر رک کر واک میں شامل ہو جاتا۔ لگتا تھا جیسے کتا اس گھر سے واقف ہے ۔ اس سے پہلے میں نے اس گھر کے سامنے ایک صحت مند اور خوبصورت پختون خاتون کو دیکھا تھا جو بنوچی لہجے والی پشتو میں کسی کو فون پر بتا رہی تھی کہ میں دو دن کیلئے یہاں آئی ہوں ، رہتی میں پنڈی والے گھر میں ہوں۔
بعد میں پتہ چلا کہ ریحانہ اور کتا اس گھر سے واقف ہیں جو بنوچی خاتون نے دو دِن بعد ویران کر دیا ۔ سوزوکی سوئفٹ کی جگہ بڑی ٹیوٹا کار آگئی اور ڈیش بورڈ پر رکھی ٹوپی پر توپخانے کا بیچ نمایاں نظر آنے لگا۔
صبح کے اجلاس میں انصاری صاحب ، میں ، ریحانہ اور اسکا کتا شامل ہوئے ۔ انصاری صاحب کو ڈاگ فوبیا تھا ۔ اس لیے ریحانہ کتے کو تھوڑا دور بٹھاتی ۔ ریحانہ جانوروں سے محبت کے فوائد گنواتی اور انصاری صاحب حالات حاضرہ پر روشنی ڈالتے ۔ انصاری صاحب ملکی حالات پر پریشانی کا اظہار کرتے تو ریحانہ کہتی کہ یہ قوم بدلنے والی نہیں اِن کا یہی علاج ہے ۔ بظاہر پڑھے لکھے اور دانشور کہلوانے والے ٹیلویژن پروگراموں میں یبلیاں اور یاویاں مار رہے ہوتے ہیں ۔ ریحانہ ملک کا تعلق مشہور دانشور عرفان صدیقی کے علاقہ سے ہے ۔ وہ اکثر کہتی آپ کو پتہ ہے کہ اگلے جہاں میں بلم بن با عور اصحاب کہف کے کتے کی شکل میں اور اصحابِ کہف کا کتا بلم بن با عور کی شکل میں اُٹھے گا ۔ قرآن پاک میں ایسے صوفیوں ، عالموں اور دانشوروں کا ذکر ہے جو لوگوں کے مال پر پلتے ہیں اور جہنمی ہیں۔ پھر وہ اپنے کتے کی طرف دیکھتی اور کہتی یہ بیٹھے بیٹھے ہانپ رہا ہے ۔ اس کی مثال بھی قرآن میں موجود ہے کہ کتے پر بوجھ ڈالو یا نہ ڈالو اُس کی فطرت میں ہانپنا ہے۔ یہ مثال بھی عالموں اور دانشوروں کے زمرے میں بیان ہوئی ۔ اللہ نے فرمایا کہ ایسے لوگوں کی مثال گدھے جیسی ہے اگر اسپر کتابوں کا بوجھ ڈال دو تو وہ عالم یا دانشور نہیں بن سکتا۔ مگر یہ سب مثالیں یہودی علماٗ کے متعلق بیان ہوئی ہیں ۔ انصاری صاحب نے کہا ۔ جی ۔ اُن کی مثال ہمارے لیے سبق ہے مگر ہم تو اُن سے بھی بد تر ہو رہے ہیں ۔ وہ خوشحال ہیں اور ہم بد حال ، کنگال اور اُن کے محتاج۔
ایک صبح میں اور ریحانہ واک کے بعد پارک میں آئے تو انصاری صاحب کے ساتھ شکیل ، نینا اور فرحانہ بھی بیٹھی تھی ۔کُتا حسبِ عادت اپنی جگہ بیٹھ گیا اور ہم فورم میں شامل ہو گئے ۔ شکیل نے کتے کی ذات پات کا پوچھا تو ریحانہ نے لیبراڈور نسل کا نام لیا۔ کہنے لگی گاوٗں والے گھر میں گرے ہاوٗنڈ اور ڈالمیشن بھی ہے ۔ میرے بھائی کو بُل ڈاگ کا شوق ہے مگر خالص نہیں مل رہا۔
اور تمہاری بلیاں کونسی نسل کی ہیں ؟ نینا نے پوچھا ۔ بلیاں دراصل شیروں کی نسل سے ہوتی ہیں ۔ میرے پاس ایرانی اور رشین مِکس ہیں ۔ فرحانہ نے کہا آنٹی یوں لگتا ہے جیسے آپ نے وائلڈ اینیمل میں ڈاکڑیٹ کیا ہے ۔ انصاری صاحب بولے کل ریحانہ نے کتوں کی بہت سی مثالیں دیں بلکہ گدھے کی بھی ایک مثال دی جسکا ذکر قرآن میں ہے۔
اللہ نے انسانوں کو سمجھانے کیلئے درجنوں چھوٹی بڑی مثالیں دیں مگر انسان پر نفس امارہ کا غلبہ ہے بہت کم لوگ سمجھنے والے ہیں ۔ میں نے انوار ایوب راجہ کی تحریر ‘‘کتاکہانی’’ پڑھی جو معاشرتی تنزلی پر لکھی جانے والی اچھی تحریر ہے ۔ نوبل انعام یافتہ مصری ادیب نجیب محفوظ کا مشہور ناول ‘‘چور اور کتے’’ اِس عظیم دانشور کی منفرد کاوش ہے۔
ٹریورلی گیسک نے اِس ناول کے تعارف میں لکھا کہ جدید عرب کے کسی ادیب کے لٹریچر نے اتنی کامیابی حاصل نہیں کی جس کی بنا پر اُسے نجیب کا ہم پلہ کہا جائے۔ چور اور کتے ایک نفسیاتی ناول ہے اور حقیقی زندگی کا ترجمان ہے ۔ نجیب محفوظ نے پہلی بار شعوری حکمتِ عملی استعمال کرتے ہوئے ذہنی کرب و عذاب کی تصویر کشی کی ہے کہ ایک فرد واحد معاشرے سے کس قدر بے رحمی سے بدلہ لینا چاہتا ہے جو اسے دھوکہ دہی ، بے انصافی اور بد اخلاقی سے بے یقینی اور مایوسی کے ابدی عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے ۔ چور اور کتے مصری معاشرے کی کہانی نہیں بلکہ یہ ایک عالمگیر مسئلہ ہے۔ دنیا میں جہاں بھی اشرافیہ مافیا کا روپ اختیار کر لے اور شیطانی چالوں اور حربوں سے ریاستی اداروں کو اپنا مطیع و فرمانبردار بنا کر جبر کا قانون نافذ کرنے میں کامیاب ہو جائے وہاں مایوس، مغلوب اور بے بس انسان کے پاس معاشرے سے بدلہ لینے کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہتا۔
کیا نظامی صاحب نے اپنی تصنیف ‘‘مصر کا بازار’’ میں نجیب محفوظ کا ذکر کیا ہے۔ یقیناً اُس کی قبر پر بھی گئے ہونگے۔ ریحانہ نے سوال کیا تو نینا نے جواب دیتے ہوئے کہا اسے شام پرچھوڑ و۔ ہاں۔ تمہارا کتا تو اُٹھ کر چلا گیا ہے ۔ شاید گھر گیا ہوگا ۔ اپنے یا میجر کے گھر فرحانہ نے آہستہ سے کہا اور جلسہ ختم ہوگیا۔