یہ اُن دِنوں کی بات ہے

جن دِنوں کی میں بات کر رہا ہوں تب برادری ازم کی وباٗ کم تھی۔ آزاد کشمیر میں دو ہی بڑی سیاسی جماعتیں تھیں جبکہ آزاد مسلم کانفرنس محض ایک گھر تک ہی محدود تھی ۔ کشمیریوں کی مسلسل غلامی کی ایک وجہ باہمی اتحاد و اتفاق کا فقدان ، دوسری برادری ازم ، قبیلہ پروری اور تیسری آقاوٗں کی خدمت و عقیدت اور اپنوں سے نفرت اور بیووفائی ہے۔ ایک وقت ایسا بھی تھا کہ چودھری غلام عباس (مرحوم) جن کی سیاسی ، سماجی اور اخلاقی جدوجہد کے نتیجے میں کشمیری مسلمان کچھ عرصہ کیلئے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئے اور پھر یوں بکھرے کے شاید ہی کبھی ایک محاذ پر جمع ہو سکیں۔ مرحوم چودھری غلام عباس نے جس انداز سے جدوجہد آزادی کشمیر کی ابتداٗ کی اور مشقتیں اُٹھائیں اُس کی مثال دُنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن سے ریڈنگ روم پارٹی اور پھر آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے قیام تک آپ نے جس جراٗت و استقلال کا مظاہرہ کیا آج وہ کشمیر کی تاریخ کا ایک گم گشتہ باب ہے۔ کرائے کے قائدین نے تحریک آزادی کشمیر کو آزادی بزنس میں بدل کر زیادہ بولی دینے والے بیوپاریوں کو کشمیر کے مالکانہ حقوق دینے کا فیصلہ کیا تو برادری سیاسی نظام کی تشکیل ہو گئی۔چودھری غلام عباس اپنی سوانح ــ‘‘کشمکش’’ میں لکھتے ہیں کہ صوبہ جموں کے ضلع میر پور میں برادری ازم کی لعنت غلام کشمیری مسلمانوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت اور عداوت کا باعث بن رہی ہے۔ جاٹوں، گجروں اور راجپوتوں کے درمیان برادری تعصب ایک ایسا زہر ہے جو آئیندہ نسلوں میں منتقل ہوا تو غیر ریاستی شر پسند اور حکومتی ادارے اسکا نا جائیز فائدہ اُٹھائینگے۔ غاصب ڈوگرہ حکمرانوں کے ہاتھ مضبوط ہونگے اور آزادی کا خواب کبھی حقیقت نہ بن پائیگا ۔ ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن اور ریڈنگ روم پارٹی کی تاریخ کا تو اب کسی کو پتہ ہی نہیں ۔ جب سے بد اطوار معزز اور بد کردار حکمران بنے ہیں تب سے عزت دار گوشہ گمنامی میں چلے گئے ہیں ۔مسلم کانفرنس ٹھیکیداروں اور نیشنل کانفرنس کانگریس کے پجاریوں کی جماعت ٹھہری تو آزادی کا چراغ عملاً 1950 میں ہی بُجھ گیا تھا۔ ایک طرف کانگریس نے مقبوضہ کشمیر میں اجارہ داری قائم کی تو دوسری جانب 1971 کی جنگ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی کی کشمیر برانچ کھول کر مسلم کانفرنس اور لبریشن لیگ کا بچا کچھا سرمائیہ بھی ختم کر دیا۔ پتہ نہیں عوام کی عقل پر پردہ ہے یا سیاسی مافیا کے جبر کا خوف ہے کہ حقیقت پسندی کا رجحان ہی ختم ہو گیا ہے۔ 28 جون 1586 کو مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کا لشکر کشمیر میں داخل ہوا تو کشمیریوں کی پانچ ہزار سالہ حکمرانی اور آزادی یکسر غلامی میں بدل گئی۔ اس غلامی کی اصل وجہ فرقہ پرستی، قبیلہ پروری ، نسلی امتیاز اور باہمی انتشار ہی تھا۔ کہتے ہیں کہ جس غلام اور کنیز کو بکنے کی عادت ہو اُس کی آئیندہ نسلیں بھی آزادی پسند، خود دار اور با عزت زندگی بسر کرنے کی خواہش سے مبرا ہوتی ہیں ۔ کشمیریوں کی مسلسل غلامی کی مدت پانچ صدیوں پر مشتمل ہے ۔ پہلے مغلوں پھر افغانوں اور سکھوں کے بعد ڈوگروں کی غلامی اور جبر و استحصال کا سلسلہ کبھی رکا نہیں صرف انداز بدلتے رہے ہیں ۔ ہر جابر و ظالم حکمران کے معاون و مددگار مقامی کشمیری علماٗ اور ہوس پرست رہنما ہی رہے ہیں۔
مغل جرنیل ‘‘میر قاسم میر بحر’’ کشمیر میں داخل ہوا تو آخری کشمیری حکمران یعقوب شاہ چک کشتواڑ بھاگ گیا۔ کشتواڑ کے حاکم راجہ بہادر سنگھ سے پناہ کی درخواست کی تو راجہ نے اسے غیرت دلوائی کہ مرد میدانِ جنگ میں کام آتے ہیں بھاگتے اور درخواستیں نہیں دیتے۔تمہارے بھائی یوسف شاہ کی بیوی محل سے جھونپڑی میں منتقل ہو گئی ہے مگر وطن نہیں چھوڑا۔ اکبر نے اسے تا حیات کشمیر کی رانی تسلیم کرنے، یا اپنے خاوند کے پاس پٹنہ منتقل ہونے کی دعوت دی تو اُس نے اسے رد کر دیا۔ اُس نے لکھا کہ میرے خاوند کو رہا کر دو اور میرے کشمیر سے نکل جاوٗ۔ تمہاری مرضی مجھے قتل کر دو میں کشمیر کی بیٹی ہوں اسی مٹی میں دفن ہونا پسند کرونگی۔ یعقوب شاہ میں غیرت تھی ۔ وہ کشتواڑ سے واپس آ گیا۔ یوسف خان ، ابراہیم علی چک اور علی ملک سے ملکر مغلوں کے خلاف جدوجہد شروع کر دی۔ اِس سے پہلے کہ وہ کامیاب ہوتا مغلوں نے سید مبارک شاہ ، خان محمد بٹ خلیل بابا (کشمیری اُمراٗ) کو دولت کی چمک دکھلائی اور اپنا اتحادی بنا لیا ۔ افسوس کہ آج آزاد کشمیر کے برادری لیڈروں اور مافیائی سیاستدانوں کو کوئی غیرت دلانے والا بھی نہیں ۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام قربانیاں دے رہے ہیں اور آزاد کشمیر کے حکمران رنگ رلیاں منا رہے ہیں ۔ ویسے تو اسلام آباد میں ایک شاہراہِ کشمیر بھی ہے مگر آزاد کشمیر کے کرپٹ نو دولتیے سیاسی ٹھگوں کی شاہراہ کشمیر لندن سے ہو کر دلی کے شراب خانوں تک ہی محدود ہے۔
اسلام آباد بھی ایک انوکھا شہر ہے جہاں فقیر آف ایپی روڈ ہمارے تاریخ دانوں اور دانشوروں کی سطحی سوچ اور صحافیوں کی علمی گراوٹ کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ مرزا خان عرف فقیر آف ایپی کا سب سے بڑا کارنامہ پاکستان کی مخالفت اور پختونستان کے قیام کی کوشش تھی۔ مرزا خان نے امیر کابل، باچا خان، عبدالصمد اچکزئی، گاندھی ، نہرو ، مولانا آزاد اور جمعیت علمائے اسلام ہند کے اکابرین سے ملکر پہلے تحریک آزادیٗ پاکستان کی مخالفت کی اورپھر اقوامِ متحدہ اور امریکی سفیر مقیم دلی کو خط لکھا ہے کہ پہلے پختونستان اور پھر پاکستان کو تسلیم کیا جائے۔ یاد رہے کہ 14اگست 1947سے پہلے ہی امریکہ اور برطانیہ نے دلی میں اپنے سفیر بھجوا دیے تھے ۔ جبکہ کراچی سے امریکہ کا کونسل جنرل خرابی صحت کا بہانہ بنا کر واپس چلا گیا تھا۔ اگر ہمارے محققین اور دانشور صحافیوں میں سے کسی کو چٹخارے دار اور ملک میں افراتفری کا ماحول پیدا کرنے والی کالم نگاری اور اظہارِ خیال سے تھوڑی فرصت ہو تو وہ‘‘ لائف آف عبدالرحمٰن ’’ جسے منشی سلطان محمد خان نے لکھا ہے پڑھ لیں تو اُنہیں مسٗلہ افغانستان اور طالبان کی نفسیات سمجھنے میں کچھ مدد مل جائے گی۔ امیر عبدالرحمٰن سے لیکر آج تک افغانوں کی موجودہ پاکستان کے متعلق رائے نہیں بدلی اور نہ کبھی بدلے گی۔ ہماری احمقانہ افغانستان پالیسیاں اور خود فہمیاں ہماری اپنی سلامتی کیلئے زہر قاتل ہیں جنھیں ہم مسلسل اپناتے اور نقصان اُٹھاتے آئے ہیں۔
عبدالرحمٰن درپا خیل کی ‘‘ تاریخ وزیر ستان ’’ مرزا خان عرف فقیر آف ایپی کی زندگی اور جدوجہد کی تاریخ ہے مگر پڑھنے والوں کو بِلا معاوضہ پڑھنے کی عادت ہی نہیں ۔ ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بلاول یا مریم میں سے کسی ایک کو ریاست پاکستان کا بادشاہ یا ملکہ بنانا ہے تاکہ ملک مزید کنگال اور بد حال ہو کر اکھنڈ بھارت کا حصہ بن جائے۔کشمیر میں نیشنل کانفرنس نے فتنہ سیاست کا آغاز کیا تو قائد اعظم ؒ نے کشمیر کے متعلق دو فیصلے کیے۔ پہلا فیصلہ کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ اور دوسرا فیصلہ مسلم کانفرنس کو مسلم لیگ کی کشمیر شاخ قرار دیا۔ پاکستانی سیاست دانوں اور اُن کے کشمیری فرنٹ مینوں نے قائد اعظم ؒ کے دونوں فیصلوں کی خلاف ورزی کی اور ساری دُنیا میں کشمیر برائے فروخت کے اشتہار سجا دیے۔ اب نہ کوئی شہ رگ کی بات کرتا ہے اور نہ ہی مسلم کانفرنس کی کوئی اہمیت رہی ہے ۔ ہر پانچ سال بعد اسلام آباد میں آزاد کشمیر پر حکمرانی کی بولی لگتی ہے اور جو زیادہ مال لگاتا ہے اور جس کی برادری زیادہ سرمائیہ کاری کرتی ہے وہ آزاد کشمیر میں کرپشن ، لوٹ مار، لاقانونیت اور جبر و ظلم کا ہتھیار استعمال کرنے کا پروانہ حاصل کر لیتا ہے۔ میر جعفر، میر قاسم اور گھسیٹی بیگم نے بھی تو انگریزوں کے ساتھ ایسے معاہدے کیے تھے ۔ مغل ، افغان اور سکھ گورنر بھی تو اسی کام کیلئے تعینات ہوئے تھے ۔ ڈوگروں نے بھی ایمن آباد گوجرانوالہ کے شیخوں سے پچھتر لاکھ نانک شاہی سات فیصد سود پر قرض لیکر کشمیر خریدا تھا۔ آخر بدلہ کیا ہے؟ عدل کا معیار ، طرزحکومت ، رواداری ، انسانیت کا احترام یا قانون کی حکمرانی۔ دیکھا جائے تو سب کچھ پہلے سے بد تر اور بد ترین ہے۔
پہلے مغل گورنر مرزا قاسم میر بحر اکبری ڈاکٹرائن لیکر آیا اور موجودہ صدر اور آزاد کشمیر کا وزیر اعظم باجوہ ڈاکٹرائن کی پیداوار ہیں ۔ اصل چیز برادری کی سرمائیہ کاری اور اسلام آباد سے حکمرانی کا پروانہ ہے۔ پہلے یہی صدر اور یہی وزیراعظم جیالے تھے ۔ بظاہر کھلاڑی ہیں مگر نظریاتی لحاظ سے کسی اور کے معترف اور مقلد ہیں ۔ 1971سے پہلے آزاد کشمیر کی سیاسی ، اخلاقی اور انتظامی حالت ایسی نہ تھی ۔ دینی تعلیم عام تھی اور ادب و احترام کا رشتہ برادریوں اور خونی رشتوں پر فوقیت رکھتا تھا ۔ میرے سکول کے استاد وں میں سوائے ماسٹر رمضان منہاس صاحب کے سبھی استاد گجر برادری سے تعلق رکھتے تھے اور ایک دوسرے کے رشتہ دار تھے ۔ نہ کوئی تعصب تھا ، نہ بغض تھا اور نہ ہی کسی کو برادری یا رشتہ داری کی وجہ سے زیادہ اہمیت دی جاتی تھی۔ ہیڈ ماسٹر چودھری عبدالعزیز اور ہمارے انگلش کے استاد چودھری غلام شفیع صاحب ایف اے پاس تھے جبکہ دیگر استاد مڈل اور میٹرک تھے ۔ غلام شفیع صاحب کا تعلق کوٹلی کے گاوٗں گوئی کی مشہور گجر برادری سے تھا ۔ جو اُستاد مڈل اور میٹرک پاس تھے قابلیت کے لحاظ سے آج کل کے پی۔ایچ۔ڈی ڈاکٹر بھی اُن کے مقابلے میں زیرو ہیں ۔ اُن کے پڑہانے کا انداز عالمانہ اور مشفقانہ تھا ۔ وہ جو بھی مضمون پڑھاتے تھے اُس کی تاریخ اور اہمیت بھی بیان کرتے تھے ۔ نہ کوئی ہوم ورک، نہ ٹیوشن اور نہ کوئی ٹیسٹ ۔ اِس تعلیمی نظام کا اثر تھا کہ اگر استاد موجود نہ ہو تو ہم میں سے کوئی کھڑا ہو کر اگلا سبق بیان کر دیتا ۔ اُستادوں کی غیر موجودگی بہت کم ہوتی تھی۔ کسی مجبوری کے تحت اگر استاد حاضر نہ ہو تو مولوی عبدالرحمٰن صاحب اُس کی جگہ کلاس لیتے تھے۔
گورنمنٹ مڈل سکول دیوتہ گولہ ایک عظیم درسگاہ ہے۔ پہاڑوں، جنگلوں اور دشوار گزار مقام پر واقع اِس درسگاہ سے ریاست کے کئی نامور لوگ علم کی روشنی سے فیض یاب ہوئے ۔ چودھری عبدالرشید ایڈووکیٹ(مرحوم) کئی بار ایم ایل اے اور حکومتی وزیر رہے ۔ میجر (ر) راجہ منصب (مرحوم) بھی اپنے علاقہ سے ایم ایل اے اور بہت سی وزارتوں پر فائیز رہے ۔ اِن کے علاوہ چودھری منیر احمد سابق سیکرٹری حکومت ٓزاد کشمیر، بریگیڈیر محمد اقبال (مرحوم) ستارہٗ جراٗت، میجر (ر) راجہ نائب خان ، میجر (ر) راجہ معروف خان (مرحوم) میجر (ر) راجہ خضر الرحمٰن ، تحصیلدار (ر) راجہ مقصود احمد کے علاوہ بہت سی نامور علمی ، ادبی ، سماجی اور سیاسی شخصیات اِس ادارے سے فیض یاب ہوئیں ۔ 1947میں نوشہرہ اور دیگر علاقوں میں سے مہاجرین کی بڑی تعداد نقل مکانی کرکے پنجن اور دیوتہ گولہ کے جنگلوں میں مقیم ہوئی اور عرصہ تک یہاں رہی۔ سکول قائم ہوا تو اِن مہاجرین کے بچے بھی یہاں تعلیم حاصل کرتے رہے ۔ ابتدائی طلباٗ میں میجر (ر) ڈاکٹر زبیر احمد(مرحوم) بھی شامل تھے ۔ آپ نامور سرجن اور انتہائی مہربان معالج تھے ۔
پہلے بھی ذکر ہوا ہے کہ سکول کے قریب ہی مغلیہ دور سے پہلے کی ایک باولی اور وسیع قدرتی غار ہے۔ ہمارے بزرگ بتاتے تھے کہ قدرتی وباوٗں اور بیرونی حملہ آوروں سے بچنے کے لیے اس علاقہ کے لوگ غار میں پناہ لیتے تھے۔ جیسا کہ عرض کیا ہے کہ آزاد کشمیر میں برادری ازم اور سیاسی غنڈہ گردی نے نہ صرف برادریوں کے درمیان نفرت کی دیواریں کھڑی کیں بلکہ برادریوں کے اندر بھی شریف، بد معاش ، سیاستدانوں اور تھانیداروں کے ٹاوٗٹ ، قبضہ گروپ، پٹواری گروپ، ماسٹر اور وکیل گروپ تشکیل دیے ۔ اِن گروپ لیڈروں کی مرضی سے ہی آزاد کشمیر کا حکومتی نظام چل رہا ہے۔ صدور اور وزرائے اعظم بھی ان کی اجازت سے کام کرتے ہیں اور حکومتی مشینری کو رشوت ، بلیک لیبل، بیرونِ ملک دعوتیں ، اسلام آباد سے لیکر لندن اور سپین تک جائیدادیں حتٰی کہ حج اور عمرے کی سہولیات بھی یہی لوگ فرہم کرتے ہیں۔ مافیائی سیاستدانوں کو اسلام آباد سے پارٹی ٹکٹ دلوانے کی کروڑوں میں فیس کے علاوہ اعلی حکام اور پارٹی قائدین سے پنج سالہ حکمرانی کا پروانہ بھی اِن ہی سرمائیہ کاروں کے ذریعے ملتا ہے اور ڈوگروں کی روائت کے مطابق اصل زر بمعہ سوفیصد سود عام لوگ انہیں واپس کرتے ہیں ۔
(جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے