پرنٹ میڈیا ہو یا کرنٹ میڈیا، یا پھر سوشل میڈیا۔ ہر طرف جاھلانہ گفتگو کرنے والے مسخروں کی محفلیں سجی ہیں ۔ وہ سیاسی شعبدہ باز اور کرپشن کے ماہر مافیا کے سرغنہ سیاستدان جو چند روز پہلے اقتدار کے نشے میں مست لوٹ سیل لگائے بیٹھے آئین اور قانون کے پرخچے اُڑا رہے تھے آجکل آئین کی بحالی اور عوام کے حقوق کی بات کرتے ہوئے ہرگز نہیں شرماتے۔ عوام کی یاداشت اگر بالکل ختم نہیں ہوئی تو اُنہیں شاید یاد ہو کہ ہمارے یہی معزز پارلیمنٹرین اسمبلی میں کھڑے ہو کر کہہ رہے تھے کہ اگر عدلیہ نے کوئی فیصلہ دیا تو سخت ری ایکشن آئے گا۔ چند ماہ پہلے ہی صحافی اور وکیل سخت ردِ عمل کے حق میں تھے اور انتظامیہ چودہ جماعتی اتحاد کے فیصلوں کو عدالتی فیصلوں پر ترجیح دے رہی تھی اور اب بھی دے رہی ہے۔ شیخ سعدی ؒ فرماتے ہیں کہ برائی تھوڑی ہو تو اُسے ختم کرنا آسان ہوتا ہے۔ بڑھ جائے تو روائت کا حصہ اور پھر قانون بن جاتی ہے۔ بد قسمتی سے وطن عزیز میں بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے۔ غلطی تو درست ہو سکتی ہے مگر سانحات اور حادثات تباہی و بربادی کے بعد ویرانی اور پشیمانی کے سوا کچھ باقی نہیں چھوڑتے۔
بلاول اندرون ملک دوروں پر ہے اور دعویٰ کر رہا ہے کہ چند ماہ بعد وہ پاکستان کا وزیر اعظم ہو گا۔ ایک جگہ فرمایا کہ جس طرح آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف نے ملک چلایا ہے اب مجھے اور مریم نواز کو اپنا لائحہ عمل تیار کرنا ہے اور اپنے انداز سے ملک چلانا ہے ۔ وہ نیا انداز کیا ہے شاید مریم اور بلاول کو بھی پتہ نہیں۔ ملک کے موجودہ حالات دیکھتے ہوئے جنرل کمال متین اُلدین کی تحریر ‘‘ٹریجڈی آف دِی ایرر’’ اور آئین ٹالبوٹ کی ‘‘تاریخ پاکستان ’’ میں درج واقعات کی طرف دھیان جاتا ہے۔ جنرل کمال متین الدین نے قیام پاکستان کے بعد کے حالات کا جائیزہ لیتے ہوئے لکھا کہ قائد اعظم ؒ کی موجودگی میں ہی کچھ لوگ ملک اپنی مرضی اور ذاتی خواہشات کے مطابق چلانا چاہتے تھے۔ اُن میں اکثریت ایسے لوگوں کی تھی جو کبھی تحریکِ آزادی پاکستان کا حصہ نہ رہے تھے ۔ بہت سے مخالف تھے یا پھر موقع پرست ہوسِ اقتدار کے مرض میں مبتلا مفاد پرست تھے۔ یہ وہی کھوٹے سکے اور مسلم لیگ میں بیٹھ کر انگریزوں کیلئے جاسوسی کرنیوالے جاگیر دار ، گدی نشین پیر اور سرمائیہ دار تھے جنھیں انگریزوں نے مسلم لیگ میں گھسنے اور پاکستان کو کمزور کرنے کا مشن دے رکھا تھا۔ بعد میں کچھ نو دولتیے سیٹھ اور ٹیکس چوروں کے علاوہ مافیا کے سرغنہ خاندان سیاستدانوں کے روپ میں حکمران بنے تو شرافت کی سیاست اور قانون کی حکمرانی کا خاتمہ ہو گیا۔ کمال متین الدین لکھتے ہیں کہ کسطرح سیاسی شعبدہ بازوں نے ہوس اقتدار میں ملکی سلامتی کو داوٗ پر لگایا اور ملک دو لخت کر دیا۔ بتدریج ترقی کرتا ہوا ایک خوشحال اور ہر لحاظ سے خود کفیل پاکستان جمہوریت کے کفن میں لپٹا تابوت بنانے والے سیاستدان غیر ملکی قوتوں کے آلہ کار بنے اور عوام غرض مندی سے غلامی کے دلدل میں دھنس گئے۔ آج تک کسی دانشور نے بھٹو اور شعیب کی چالبازیوں سے پردہ نہیں اُٹھایا کہ کسطرح اِن دو کرداروں نے پہلے ایوب خان کو 65کی جنگ پر آمادہ کیا اور پھر بھٹو نے تاشقند کے رازوں کی پوٹلی کھولنے کے بہانے ایوب کو یحٰیحٰی خان کیساتھ ملکر ایوانِ اقتدار سے رخصت کیا۔ تاشقند میں کیا ہوا؟
اُسکا احوال درگا داس کی کتاب میں موجود ہے مگر پڑھنے اور سمجھنے والا کوئی نہیں۔ سانحہ مشرقی پاکستان کا کریڈٹ بھی بھٹو کو ہی جاتا ہے جبکہ مجیب، یحٰیحٰی اور اندرا گاندھی نے سہولت کاری کا کام کیا۔ سید ضمیر جعفری (مرحوم) کی کتاب ‘‘جدائیوں کے موسم’’ میں بھٹو ، مجیب اور یحٰیحٰی خان کی روزانہ کی بُنیاد پر ہونے والی کاروائیاں درج ہیں ۔ بھٹو نے نیا پاکستان بنایا تو عوام کو روٹی، کپڑے اور مکان کی اُمید دلائی مگر ساتھ ہی کالا باغ ڈیم منصوبے کو ایوبی باقیات کہہ کر ہمیشہ کیلئے ترک کر دیا۔ آج تک کسی عقلمند نے یہ سوال نہیں اُٹھایا کہ پانی اور بجلی کے بغیر روٹی، کپڑے اور مکان کا حصول کیسے ممکن ہے؟۔ یکم جولائی 2018کے روزنامہ نوائے وقت نے منظور حسین کمبوہ کی تحریر کالا باغ ڈیم کی تاریخ بعنوان ‘‘محفوظ مستقبل’’ شائع کی ۔ وہ لکھتے ہیں کہ کالا باغ ڈیم پاکستان کی خوشحالی کا ضامن ہے جو سیاسی بدمعاشیہ کی نظر ہو گیا۔ اسکا پہلا سروے 1873میں انگریزی دور میں ہُوا جس میں پنجاب اور سندھ کا پچاس لاکھ ایکڑ رقبہ سیراب کرنے کا نہری نظام شامل تھا۔ بعد میں ایوب خان کے دور میں اس کی فیزبیلٹی رپورٹ تیار ہوئی اور اس پروجیکٹ کو منگلا اور تربیلہ کی تکمیل کے بعد رکھا گیا۔ تربیلہ اپنی تکمیل کے آخری مراحل میں تھا کہ ایوب کی حکومت ختم کر دی گئی۔ بھٹو نے کالا باغ ڈیم کو مضر قرار دیتے ہوئے اسپر کام بند کروا دیا۔ اقتدار میں آتے ہی نئے پاکستان کے موجد نے پہلا کام ملک کے تابناک مستقبل کو اندھیرے میں دھکیلنے کا کیا مگر عوام نے آنکھیں اور دماغ بند رکھے۔ کالا باغ ڈیم پر صحیح معنوں میں کام جنرل محمد ضیاء الحق کے دور میں شروع ہوا۔ سڑکیں بنیں اور بیرونِ ملک سے مشینری بھی منگوائی گئی۔ چاروں صوبوں کے اعتراضات دور کیے گئے مگر کام کا آغاز ہونے سے پہلے ہی جنرل ضیاء الحق کو شہید کر دیا گیا۔
جنرل ضیاء الحق کے بعد پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کی حکومتوں نے اِس منصوبے کو صوبائیت ، لسانیت اور منفی سیاسی رنگ دیا تو بھارت نے موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ‘‘را’’ کا باقاعدہ کالا باغ ڈیم سپیشل سیل قائم کر دیا۔ بھارتی خفیہ ایجنسی نے سندھی، بلوچی اور پختون قوم پرستوں کو کالا باغ ڈیم کی تعمیر رکوانے کے منصوبے پر لگایا اور ہر سال اُنھیں کروڑوں ڈالر ادا کرنے شروع کر دیے۔ یہ الفاظ میرے نہیں بلکہ مرحوم ڈاکٹر اجمل خان نیازی نے اسپر درجنوں مضمون لکھے جو نوائے وقت آرکائیو میں موجود ہونگے۔ بھٹو کے بعد اگر کسی حکمران نے پاکستانی عوام کا مستقبل تاریک کرنے اور ذاتی مفادات کی خاطر ملکی سلامتی کا سودا کیا ہے تووہ آصف زرداری اور نواز شریف ہیں۔ جنہوں نے پاکستانی عوام سے اُن کا جینے کا حق چھین لیا۔ کون نہیں جانتا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوتے ہی افتتاحی اجلاس میں وزیر توانائی راجہ پرویز اشرف نے کالا باغ ڈیم کبھی تعمیر نہ کرنے کا اعلان کیا تو مقدس پارلیمینٹ میں معزز پارلیمینٹرین نے تالیاں بجا کر اس اعلان کا خیر مقدم کیا۔ اِس کے بعد دونوں جماعتوں نے آئی ۔پی۔پی منصوبوں کے ذریعے قومی خزانے پر مسلسل سرقہ لگانے کا بندوبست کیا جس کے نتائج آج خوابیدہ قوم بُھگت رہی ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے ایک بار پھر پانی کی اہمیت پر لکھا اپنا مقالہ پیش کیا جو اُنہوں نے سٹاف کالج میں بحثیت اُستاد لکھا تھا۔ جنرل پرویز مشرف نے کالا باغ ڈیم سمیت چھ بڑے آبی منصوبوں پر کام کرنے کا آغاز کیا جس میں جہلم نیلم، کالا باغ، بھاشا، منڈا، اکھوڑی اور کرم تنگی ڈیم شامل تھے۔
2005میں جنرل مشرف نے اپنا منصوبہ پیش کیا اور 2006میں اُن کے خلاف وکلاء تحریک شروع ہو گئی ۔ اس تحریک کے مقاصد کیا تھے؟ آج تک وکلاٗ کو بھی اِس کی سمجھ نہیں آئی کہ وہ کس کے ہاتھوں میں کھیلے اور اِس تحریک نے اُنہیں اور قوم کو کیا دیا۔ آنے والے جمہوری تاجروں نے کالا باغ ڈیم منصوبہ ختم کر دیا اور دیگر منصوبوں جنھیں 2018تک مکمل ہونا تھا التواٗ میں ڈالکر کمیشن، کک بیک اور کرپشن کی نذر کر دیا۔ ایک طرف تعمیراتی کمپنیوں سے مال بٹورنا شروع کیا تو دوسری طرف بجلی کے بلوں میں ڈیم فنڈ کی صورت میں عوام سے کھربوں روپے وصول کیے۔ اس کے ساتھ ہی آئی پی پیز کو غیر ملکی گارنٹر مہیا کیے اور ادائیگی روپوں کی بجائے ڈالروں میں کرنے کی سہولت فراہم کی۔ اس ظلم و جبر پر بھی دونوں حکمران خاندانوں کی عوام کش جبلت کو تسکین نہ ملی تو کیپیسٹی چارجز کی مد میں سالانہ کئی ارب ڈالر ہڑپ کرنے کا پروگرام ترتیب دیکر ملک کو آئی۔ ایم ۔ ایف اور عالمی مالیاتی اداروں کی مستقل غلامی میں دے دیا۔ کالا باغ ڈیم منصوبہ ترک کرنے سے زرداری اور شریف خاندانوں نے کھربوں کما لیے مگر قوم کی بھی غلامانہ ذھنیت نہ بدل سکی۔ کالا باغ ڈیم کی تکمیل کی صورت میں سندھ اور جنوبی پنجاب میں کبھی سیلابی صورت ِحال پیدا نہ ہوتی بلکہ پچاس لاکھ ایکڑ بنجر زمین سیراب ہوتی اور پندرہ ارب ڈالر کی زرعی اجناس پیدا ہوتیں ۔ اِس زرعی پیداوار کی صورت میں ملک غذائی لحاظ سے نہ صرف خود کفیل ہو جاتا بلکہ پڑوسی ممالک کی ضروریات بھی پوری کرتا ۔ خیبر پختونخوا کے ضلع کرک ، بنوں ، لکی مروت ، ٹانک اور ڈیرہ اسمعٰیل خان کو بیس لاکھ ایکڑ فٹ پانی میسر ہوجاتا۔ بلوچستان بھی اس ڈیم سے بھر پور فائدہ اُٹھاتا جسے پندرہ لاکھ ایکڑ فٹ پانی میسر ہونے کی صورت میں خوشحالی کے کئی منصوبے شروع کرنے میں مدد ملتی۔ عالمی ماہرین کے مطابق کالا باغ ڈیم سے پاکستان کو پانچ ہزار میگا واٹ بجلی میسر ہوتی جس کی قیمت تین روپے فی یونٹ سے بھی کم ہوتی۔ آجکل پاکستان ستر سے اسی فیصد بجلی تیل سے بنا رہا ہے اور فی یونٹ قیمت پچھتر سے اسی روپے ہے۔ ہر ماہ بجلی اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے اور ٹیکس کی صورت حال یہ ہے کہ عام آدمی کی زندگی غیر محفوظ اور غیر یقینی ہے ۔ ریاستی جبر کی انتہا ہے اور قانون کی حکمرانی کا تصور ہی محال ہے ۔ جنرل کمال متین الدین کی تحریر کا تسلسل جاری ہے اور حکمران خاندان اور بیورو کریسی ملکر ملک کی تباہی کا باعث بن رہی ہے۔ پاکستانی سیاستدانوں اور اُن کی معاون بیورو کریسی نے ملکر پاکستان کی سلامتی پر یلغار کر رکھی ہے ۔ سانحات اور حادثات کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے مگر نہ عوام میں احتجاج کی سکت ہے اور نہ ہی کوئی فرد یا ادارہ اُن کی داد رسی کے قابل ہے۔
شہباز شریف کی سولہ ماہ کی بے رحم حکمرانی کے بعد بقول سید خورشید شاہ کے عبوری حکومت بھی نواز لیگ کی ہی ہے۔ خورشید شاہ صاحب کے اس بیان کو سابق لیڈر آف دی اپوزیشن راجہ ریاض صاحب نے سچ ثابت کرتے ہوئے نواز لیگ میں شمولیت اختیار کر لی ہے جبکہ نون لیگ کا بیورو کریٹک ونگ بھی عبوری حکومت میں اہم وزارتوں پر فائز ہو چکا ہے۔ آئین ٹالبوٹ نے تاریخ پاکستان کے صفحہ 364پر سول سروسز کے متعلق جناب ذوالفقار علی بھٹو کی رائے نقل کرتے ہوئے لکھا کہ ملک کے کسی ادارے نے قومی زندگی کو اتنا پست نہیں کیا جتنا ‘‘نوکر شاہی’’ نے ملک کے اندر طبقاتی نظام رائج کرکے کیا ہے۔ نوکر شاہی نے برہمنوں اور مندروں کا ایک ایسا طبقہ تخلیق کیا جو غرور و نخوت میں بے مثال، عام لوگوں سے الگ تھلگ اور اُن سے مختلف شناخت کا مالک ہے۔
آج جناب بھٹو کی پیپلز پارٹی ‘‘بھٹو زندہ ہے’’ کا نعرہ تو لگاتی ہے مگر عملاً شریف خاندان کی آئیڈیالوجی کی پیروکار ہے۔ شریف خاندان جمہوریت کی آڑ میں بیورو کریٹک نظام حکومت کے طریقہ کار پر گامزن ہے جس میں حکمران مادی خُدا اور بیورو کریسی نائب خدا تصور ہوتی ہے۔ شریف خاندان کا طرزِ حکومت قدیم بابلی اور سومیری ادوار کا پرتو ہے ۔ جس کے مشہور حکمران ارنمو، اشنونا، حمورابی اور نمرود خود کو خُدا اور نوکر شاہی کو نائب خدا کہتے تھے۔ شریف خاندان حکومت میں ہو یا نہ ہو اُن کی نائب بیورو کریسی اُن کی جگہ ہمیشہ حکمران ہی رہتی ہے۔ حکمران خاندانوں نے جسقدر ملک لوٹا اور قومی خزانہ بیرونِ ملک منتقل کیا اتنا ہی بیورو کریسی نے بھی اُن کی معاونت کے صلے میں وصول کیا۔ آئین ٹالبوٹ اپنی تحریر کے صفحہ 568پر لکھتے ہیں کہ مئی 1958میں صدر اسکندر مرزا نے امریکہ کے سفیر کو اعتماد میں لیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں صرف ڈکٹیٹر شپ ہی قابلِ عمل ہے۔
اسکندر مرزا نے سچ ہی کہا تھا مگر ملٹری ڈکٹیٹر شپ سے بڑھ کر سول اور جمہوری ڈکٹیٹروں نے اس ملک کو نقصان پہنچایا۔ ایوب خان کے دور میں کرپشن کا آغاز ہوا مگر ملک میں خوشحالی بھی آئی۔ جنرل محمد ضیاء الحق نے وقت ضائع کیا اور جب مثبت سوچ کی طرف لوٹے تو دُنیا ہی سے رخصت ہو گئے۔ یہی حال جنرل پرویز مشرف کا ہوا ۔ ہر ملٹری ڈکٹیٹر کے بعد ایک جمہوری ڈکٹیٹر اِس قوم پر مسلط ہوا جسکا تسلسل جاری ہے۔ سانحات اور حادثات سے دوچار رہنا پاکستانی قوم کا مقدر بن چکا ہے ۔ مریم نواز تواتر سے قوم کو خوشخبری سنا رہی ہیں کہ اُن کا مسیحا طویل علالت کے بعد وطن واپس آ رہا ہے ۔ خوشحالی اور ترقی کی راہیں کھلنے والی ہیں اور قوم کا مقدر بدلنے والا ہے۔ مریم کے بیانات پڑھ کر شہزادی گلبدن بیگم کا ملکہ ماہم بیگم کے نام خط یاد آگیا ۔ لکھتی ہیں کل رات بادشاہ سلامت (بابر بادشاہ) نے طلب کیا۔ بہت پیار اور شفقت کے بعد اپنے ہاتھوں سے چند لُقمے میرے منہ میں ڈالے اور پھر فرمایا جانِ پدر میں آج بہت خوش ہوں ۔ صبح ہی ایک قافلہ کابل روانہ کیا ہے۔ والی (گورنر) کو چِٹھی لکھ بھیجی ہے کہ جونہی خزانہ قلعے میں پہنچے ایک اشرفی طلائی کابل کہ ہر فرد میں تقسیم کردی جائے۔ جو بچ جائیں غریبوں، مسکینوں ، یتیموں، بوڑھوں اور بیواوٗں میں برابر تقسیم ہوں۔ کسی کو کم یا زیادہ نہ دیا جائے۔ ایسا ہی ایک قافلہ قندہار، مزار شریف اور بدخشاں بھیجنے کا ارادہ ہے۔ لگتا ہے کہ شہزادی مریم بھی ایسا ہی کرنیوالی ہیں ۔ میاں صاحب کی طرف سے ایک ہزار ڈالر ہر غریب پاکستانی کیلئے اسحاق ڈار کے ذریعے بھجوا کر بابر بادشاہ کی بیٹی شہزادی گلبدن بیگم کی یاد تازہ کرنے والی ہے۔ مگر کیا کریں۔ مریم اور گلبدن کی تعلیم و تربیت ، عصبیت، فضیلت اور سوچ و فکر میں صدیوں کا فرق ہے۔ ہر دو جانب دھیان جاتا ہے حضرت سعدیؒ پھر یاد آ جاتے ہیں۔
ابر اگر آب زندگی بارد
ہرگز از شاخ بید برنخوری