ادارے کیسے اور کون تباہ کرتا ہے کی بحث سے پہلے یہ دیکھنا ہو گا کہ ادارے کیسے بنتے ہیں، انہیں کون بناتا اور سنوارتا ہے اور کون اِن کی حفاظت اور درستگی کا ذمہ دار ہے۔ خالق (اللہ) کل ہے اور مخلوق جُزیات کا مجموعہ ہے۔ تاریخ میں لکھا ہے کہ اللہ کے حکم سے عشرہ العقول نے کائنات بنائی ۔اور اُسی کے حکم اور ارادے سے اِسے بنایا سنوارا اور ابتدا سے انتہا تک ہر پیدائش و پیداوار کی عمر، حیثیت، بقا و فنا، افادیت اور مضریت کا حساب لوح محفوظ پر لکھ دیا۔ نوری، ناری اور خاکی مخلوق اور خشکی و تری سے لیکر سمندر اور زمین کی تہہ میں رکھی جزیات و مخلوقات کا حساب نہ تو انسانی ذھن کے احاطہ میں آ سکتا ہے اور نہ ہی کوئی سپر کمپیوٹر اور ٹیکنالوجی اسے کھوج سکتی ہے ۔ زلزلوں ، طوفانوں ، آسمانی و زمینی آفات و حادثات کا ایک حد تک اندازہ ہمیشہ سے ہی لگایا جاتا رہا ہے مگر حتمی نتیجہ قدرت کا ملہ پر ہی چھوڑ دیا جاتا ہے ۔اللہ نے انسانی بقا، خوشحالی ، عزت و حفاظت سے لیکر ہر ضرورت کیلئے ادارے بنائے اور اُنہیں اپنی نعمتوں میں شمار کیا۔
حضرت امام غزالؒی لکھتے ہیں کہ فقہ ذاتی بنا پر نہیں بلکہ دنیا کے حوالے سے دین سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ دارالعمل آخرت کی کھیتی ہے اور دنیا کے بغیر دین مکمل نہیں ہو سکتا ۔ سلطنت اور دین یک جان دو قالب ہیں ۔ چنانچہ دین اصل ہے اور سلطنت اُس کی نگہبان و محافظ ہے۔ فرماتے ہیں کہ جس عمارت کی بنیاد نہ ہو وہ جلد یا بدیر گر جاتی ہے ۔ اسی طرح جس عمارت کا کوئی نگہبان نہ ہو وہ برباد ہو کر کھنڈر بن جاتی ہے۔ اسی طرح سلطنت کا نظام و نسق عادل ، رحمدل اور بہادر حکمران کے بغیر کامل نہیں ہو سکتا۔ ریاستی امور کو درست طریقے سے چلانے اور جھگڑوں کے بر وقت اور درست فیصلے فقہ کے بغیر ممکن نہیں ۔ بحثیت مسلمان جب لفظ فقہ ہمارے سامنے آتا ہے تو دھیان انسانی ، جسمانی اور روحانی ضرورتوں کی طرف مبذول ہو جاتا ہے ۔ اگرچہ روحانی ضروریات غیر محسوس ہوتی ہیں مگر غور و فکر کرنیوالے ذھن اِس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ روحانی ، مخفی اور غیر محسوس ضروریات ہی محسوس ضرورتوں کی محافظ ہیں ۔ اگر غیر محسوس ضروریات انسانی ذھن و جسم کو تحریک نہ دیں تو انسان اور حیوان میں فرق مٹ جاتا ہے۔اُسے کُنبے ،قبیلے، معاشرے اور ریاست کی بھی ضرورت نہیں رہتی اور محسوس ضروریات بھی انتہائی محدود ہو جاتی ہیں ۔
چونکہ اللہ خالق و مالک نے انسان کو دیگر مخلوق سے الگ اور ارفعٰ پیدا کیا اور بحثیت خلیفہ اُسے زمین پر برتر حیثیت دیکر زندگی کی ساری ضروریات مہیا کیں ۔ غیر محسوس ضروریات اُس کے جسم یعنی دل و دماغ اور روح حیوانی میں اور غیر محسوس ضرورتیں اُس کے شعور ، تحت الشعور اور روح رحمانی میں ڈال کر اُسے اپنی قربت کا سامان مہیا کر دیا۔ نفس امارہ، نفس لوامہ اور نفس مطمٔنہ کی حدود مقرر کیں تا کہ انسان بھٹک کر شیطان کا راستہ اختیار کرنے اور دُنیا کی لذتوں سے سر شار ہو کر آخرت میں جہنم رسید ہونے سے محفوظ رہے۔ نفس امارہ کے شر سے بچنے اور خود احتسابی کے نظام کو متحرک کرنے کا نام نفس لوامہ ہے۔ نفس مطمٔنہ ظاہری و باطنی عمل کو اللہ اور اُس کے رسولؐ یعنی شریعت و طریقت کے تابع رکھنے اور آخرت میں اللہ کے انعامات سے فیض یاب ہونے کا مرتبہ و مقام ہے۔سورۃ فجر میں قوم عاد و ثمود جو اُس دور کی خوشحال اور عقلمند ترین اقوام تھیں مگر نفس امارہ کے غلبے نے اُنہیں شیطان کے راستے پر ڈالکر تباہی و بربادی کی مثال بنا دیا کا حوالہ دیکر آخر میں فرمایا اے میرے بندے یعنی نفس مطمنہ جو شیطان کے شر سے بچتا رہا اور میرا حکم بردار رہا۔ تو ’’رَب‘‘ سے راضی رہا اور تیرا ’’رَب‘‘ تجھ سے راضی ہوا۔ چل میرے بندوں میں شامل ہو کر جنت میں داخل ہو جا۔
سورۃ الزلزال میں فرمایا جو کچھ انسان اس دُنیا میں کرتا ہے آخرت میں اُسکا عمل اُس کے سامنے ہو گا۔ جس نے ذرہ بھر بھلائی کی وہ دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ بھر بُرائی کی وہ بھی دیکھ لے گا۔انسانی جسم کائیناتی نظام کا ہی ماڈل ہے جو مختلف اداروں پر مشتمل ہے۔ نفس کے تین درجے ہی وہ تین بنیادی ادارے ہیں جو انسانی جسم یعنی کائیناتی ماڈل کے محافظ ہیں۔یہی تین بنیادی ادارے خاندان ، قبیلے ، معاشرے اور ریاستی اداروں کو بنانے سنوارنے اور چلانے کا دستور ہیں اور ان ہی تین اداروں نے کائیناتی نظام کو متحرک کر رکھا ہے۔امام غزالؒی فرماتے ہیں کہ دُنیا کے معاملات لوگوں کے اعمال پر موقوف ہیں ۔ لوگوں کے اعمال اور دُنیاوی کاروبار کا انحصار تین اقسام پر ہے جس میں پہلے نمبر پرچار اصول اور دوسرے نمبر پر معاملات اور تیسرے نمبر پر اعمال ہیں ۔ اعمال کے بغیر دُنیا کا نظام کسی صورت نہیں چل سکتا اور اعمال کی مشین عقل و علم سے چلتی ہے۔ اگرچہ امام غزالؒی نے علم وعقل کی الگ تشریح کی ہے مگر طالب کیلے ضروری ہے کہ وہ بنیادی اصولوں اور اعمال پر بحث سے پہلے عقلیت ، عملیت اور نفس کے تین درجوں یا اداروں کو ذھن نشین کر لے۔ اصولوں ، معاملات اور اعمال کا ایک دوسرے پر انحصار کی مثال دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ کاروبار دُنیا ایسے ہی چلتا ہے جیسے انسانی جسم میں دل، دماغ اور جگر سارے انسانی جسم کی نشو ارتقاٗ کا کام کرتے ہیں ۔ جسم کا ہر خلیہ ان ہی کا محتاج اور معاون ہے۔ انسانی جسم ایک مکمل مشین اور کائیناتی اجزا کا ایک مجموعہ ہے ۔ یہ مشین کائیناتی نظام کا ہی ماڈل ہے۔ فرمایا جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا گویا اُس نے اپنے ’’رَب‘‘ کو پہچان لیا۔ انسانی جسم کی نشوونما، صحت و تندرستی کا دارومدار اچھی، عمدہ، سادہ اور پاکیزہ غذاوں پر ہے نہ کہ مہنگی ، نایاب اور مصنوعی اشیأ پر۔ ہر علاقے اور خطے میں بسنے والے لوگوں کیلئے قدرت نے موسم کے مطابق غذاوں کا بندوبست کر رکھا ہے تاکہ وہ ان کے استعمال سے زندگی برقرار رکھ سکیں ۔
انسانی جسم روح کی قوت سے ہی زندہ ہے جو دیگر مخلوق میں بھی پائی جاتی ہے۔ روح کیا ہے؟
اس کا جواب سائنسدانوں اور حکیموں کے پاس نہیں ۔ فرمایا ’’ اے نبؐی یہ لوگ پوچھتے ہیں کہ روح کیا ہے۔ کہو روح امر رَبّی ہے جسے تم نہیں سمجھ سکتے جونکہ تمہارا علم محدود ہے‘‘۔ ریت کے ادنٰی ذرے سے لیکر کہکشاوں اور دیگر اجرام فلکی اور اُس سے آگے جتنی بھی پیدائش ہے سب میں روح ہی کا رِفرما ہے۔ فرمایا کائینات میں شامل ہر چیز میری حمد کرتی ہے۔ سورۃ الرحمٰن میں ستاروں اور اشجار کے سجدہ ریز ہونے کا ذکر ہے۔ حضورؐ کے سامنے پتھروں نے کلمہ پڑھا اور جنات نے اسلام قبول کیا۔ حضرت داودؑ جب حمد باری تعالٰی کرتے تو پہاڑ اور درخت بھی اُن کی عبادات میں شامل ہوتے۔ جن دو پتھروں سے داود ؑ نے جالوت کو قتل کیا وہ خود حضرت داودؑ سے ہم کلام ہوئے۔ علاوہ اِس کے آدمؑ کو اللہ نے روح رحمانی سے بھی مزین کیا اور یہی روح اولاد آدم میں بھی نفخ کی تا کہ وہ اپنی ذات کی پہچان کرے اور پھر اِسی روح کی قوت سے اپنے رَب کو پہچان سکے۔امام غزالؒی کے بیان کردہ وہ اعمال جن کے بغیر نہ تو انسانی جسم اپنی مادی قوت برقرار رکھ سکتا ہے اور نہ ہی دُنیا کا نظام چل سکتا ہے ۔میں پہلے نمبر پر تین اصول ہیں جن میں کھیتی باڑی یعنی غذائی اجناس اچھی، عمدہ، سادہ، قوت بخش پاکیزہ غذائیں اور رزق حلال۔ دوسرا اصول کپڑے کی بُنائی یعنی کپاس اور دیگر زمینی پیداوار شامل ہیں ۔ تیسرے نمبر پر تعمیرات اور چوتھے نمبر پر سیاست ہے۔ جب تک لوگوں کے درمیان باہمی میل ملاپ، اخوت و محبت ، مساوات، عدل و اعتدال کا رشتہ قائم نہ ہو گا تب تک کسی ادارے کا قیام ممکن نہیں ہو گا ۔ انسانی جسم میں بیان کردہ تین اداروں یا اُن کے معاون اداروں میں سے کوئی چیز منہا کر دی جائے تو جسم بیکار ہو جاتا ہے۔ اسی طرح کائیناتی مشینری کا ایک بھی پرزہ کام چھوڑ دے تو سارا کائیناتی نظام ایک سیکنڈ سے کم دورانیے میں زوال پذیر ہو سکتا ہے۔ فرمایا ’’ تم چاند اور سورج کو نہیں دیکھتے تمہارے رَب نے اُنہیں کام پر لگا دیا ہے۔ سمجھو تو یہ تمہارے لیے بڑی نشانیاں ہیں‘‘۔
دوسرے نمبر پر وہ معاملات ہیں جو اِن اصولوں کے معاون و مددگار ہیں ۔ زراعت، صنعت و حرفت اور تعمیرات جن میں گھر ، سڑکیں ، پانی ذخیرہ کرنے والے بنداور اِن سب اصولوں کو چلانے، بنانے اور انسانوں تک پہنچانے والے ہزاروں ادارے ان معاملات میں شامل ہیں ۔ قرآن کریم کی سورۃ حدید میں لوہے کا ذکر کیا کہ اس میں تمہارے لیے فوائد ہیں جن میں دفاعی سازوسامان سے لے کر زرعی آلات اور دیگر مشینری شامل ہے۔ اسی طرح حضرت سلیمانؑ اور حضرت ذولقرنین ؑ کے واقعات میں لوہے کے علاوہ پیتل اور تانبے کا ذکر ہے۔انسان نے اللہ کی عطا کردہ ان ہی نعمتوں کو اپنی ذھنی صلاحیتوں سے ترقی دی اور پھر کفرانِ نعمت کرتے ہوئے عدل، اعتدال اور مساوات کا راستہ چھوڑ کر ترقی یافتہ حیوان بن گیا۔امام غزالؒی لکھتے ہیں کہ فرض محال انسان اور گدے کے درمیان فطری و طبعی قوت اور چیزوں کے ادراک کو یکساں سمجھ لیا جائے تو انسان اور گدے میں کوئی فرق باقی نہیں رہ جاتا۔ اللہ انسان کو عقل و علم کی دولت دیکر دیگر حیوانات سے الگ اور منفرد مقام عطا کیا۔ انسان عقل کی قوت سے علم سیکھتا ہے ، تجزیہ نگار اور تجربہ کار بن جاتا ہے۔ فطری قوانین کی افادیت سمجھتا اور اچھا انسان ، اچھا گھرانہ و خاندان ، اچھا معاشرہ اور ریاست قائم کرنے کی سعی کرتا ہے اور اسی سعی اور کوشش کا نام سیاست ہے۔انسانی فطرت میں شہوت کا مادہ موجود ہے جو اسے عالم و فاصل، حکیم و دانشور ہونے کے باوجود حرص و ہوس میں مبتلا کر دیتا ہے۔ شہوت کا دوسرا نام نفس امارہ ہے جس کی شہ پر انسان تکبر و غرور کا شکار ہو کر نہ صرف اپنے جسم بلکہ خاندان ، قبیلے، معاشرے اور ریاست اور اُن سے جڑے ہر ادارے کی تباہی کا باعث بنتا ہے۔ اُسکا علم، تجزیہ و تجربہ شیطانی عمل کے تابع استحصالی نظام قائم کرلیتا ہے۔
وہ قدرت کے اصولوں ، ضابطوں ، منفعتوں اور اُن سے جڑے اعمال کی پرواہ نہیں کرتا اور بالاخر معاشرے اور ریاست کی تباہی کا باعث بنتا ہے۔ ایسے لوگوں کا باہمی اشتراک ہی اُن کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے اور پھرحیوانی فطری قوت کے بل بوتے پر ایسے لوگوں کا اتحاد ایک ایسی جماعت قائم کر لیتا ہے جن کی نفس لوامہ کی قوت کم یا کمزور ہو جاتی ہے۔ شیطان ہر لمحے اُنہیں مال و دولت کی کمی، سہولیات اور شاہانہ مراعات اور نفسانی عادات و خواہشات چھن جانے کے ڈر میں مبتلا رکھتا ہے۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کی موجودہ حالت اداروں کی تباہی و بربادی ہی ہے جس کی وجہ شہوت پرست افراد، خاندانوں، جماعتوں اور اتحادوں کی حیوانی ، نفسانی، شیطانی، سفلی اور استدراجی جبلت کے تابع سیاست و حاکمیت ہے۔عدل و مساوات اور معاشرتی اعتدال برقرار رکھنے والے ادارے بھی زوال کا شکار ہیں چونکہ ان اداروں کو چلانے والے افراد نفس لوامہ کی قوت سے خالی نفس امارہ کے تابع فرمان ہیں۔ قوانین بنانے والے، عملیت ، عقلیت، فضلیت، عقیدت، عصبیت اور سیاست سے نا بلد شہوت و شہرت کے غلام اور فطری الہی قوانین کے باغی ہیں۔قوانین کا نفاذ کرنے والے قوانین بنانے والوں کے محافظ اور مددگار ہیں جبکہ اعتدال برقرار رکھنے والے فقہا و سپاہ کے خوف میں مبتلا عوام الناس کو عدل کا شفیق و مہربان سایہ مہیا کرنے سے قاصر ہیں ۔
کسی خطہ زمین کا اسلامی نام یا آئین کی کتاب پر اللہ کا نام لکھنے سے معاشرے اور ریاست کا نظام قدرت کے نظام کا پرتو نہیں ہو سکتا۔ اگر فقہی جاہل، شہرت و شہوت کے عادی اور نفس کے پُجاری ہُوں تو ملکی نظام چلانے والے ادارے کسی بھی صورت میں اللہ کے بنائے ہوے اداروں کا ماڈل نہیں ہو سکتے۔رزقِ حرام سے پلنے والا جسم بھی بیکار اور بدبودار ہوتا ہے۔ جب ایسے انسان معاشرے ، سیاست اور ریاستی اداروں پر غلبہ حاصل کر لیں تو ادارے تباہ حال اور مخلوق بد حال ہو جاتی ہے۔ ادارے اللہ بناتا ہے اور انسان شیطان کے تابع اللہ کے حکم سے باغی ہو کر اُنہیں تباہ کرتا ہے۔