میرے کلاس فیلو مشتاق حسین جسکا تعلق کنیڈ پایاں سے تھا نے بتایاکہ وہ کسی کام سے قریبی کمہاروں کے محلے میں گیا تو وہاں ملک ساون کے گھر اُن کی برادری کی عورتیں جمع تھیں ۔ ملک ساون کی بہو زینب کہہ رہی تھی کہ وہ صبح نالے کے کنارے پانی لینے گئی تو نالے کے اندر کوئی چیز چل رہی تھی مگر نظر نہیں آئی۔ نالے سے عجیب و غریب آوازیں آ رہی تھیں اور پرندے درختوں سے اُڑ کر پہاڑ کی طرف جا رہے تھے۔ دوسری عورتوں نے بھی زینب کے بیان کی تصدیق کی۔ زینب کے گھر تریڈی والے ماسٹر یوسف صاحب بھی قیام کرتے تھے۔ یوسف صاحب نے بھی بتایا کہ وہ جب بھی نالے پر غسل کیلئے جاتے ہیں تو کوئی چیز نالے میں حرکت کرتی ہے۔ ایک عورت نے بتایا کہ وہ جمعرات کے دن نالے پر نہانے گئی تھی کہ دو گیدڑ نالے سے بھاگ کر میرے قریب سے گزرے ۔ لگتا تھا کہ گیدڑ ڈر کی وجہ سے بھاگ رہے ہیں ۔ تھوڑی دیر بعد کوئی چیز جھاڑیوں سے گزرتی اڈہ کی طرف چلی گئی مگر نظر نہیں آئی۔
ایک عورت نے کہا کہ جمعرات کے دن شیر سائیں سخی صاحب کے دربار پر سلام کرنے جاتا ہے مگر باقی عورتوں نے اس بیان کو مسترد کر دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ شیر درباروں یعنی زندہ پیروں کے گھر نہیں جاتا وہ صرف مزاروں یعنی جو بزرگ اس دُنیا سے جا چکے ہیں اُن کے دربار پر جاتا ہے۔ ہمارے علاقہ میں یہ قصہ مشہور تھا کہ وہ دربار یا بزرگوں اور شہیدوں کی قبریں جو کشمیر میں جگہ جگہ موجود ہیں مگر وہاں کوئی دربان ،متولی یا سجادہ نشین نہیں ہوتا وہاں جمعرات کے دن شیر حاضری دیتا ہے۔
زندگی کے سفر میں میں نے سندھ ، بلوچستان ، پنجاب، آزاد کشمیر کے علاوہ چترال، دیر ، سوات اور ملحقہ افغانستان کے پہاڑوں میں ایسی قبریں اور مزار دیکھے ہیں جہاں لوگ سلام کرنے اور نظر نیاز کیلئے تو آتے ہیں مگر وہاں کوئی رہائش نہیں رکھتا۔
۱۹۹۳ کی بات ہے کہ میری یونٹ مری کے علاقہ پتریاٹہ میں جنگی مشق میں شامل تھی ۔ یہ ایک بڑے پیمانے کی مشق تھی اور ہمیں دشمن کے دفاع سے گزر کر پتریاٹہ کی پہاڑی پر حملہ کرنا اور قبضہ کرنا تھا۔ دشمن بھی بڑا چوکنا اور غضب ناک تھاجس کے کمانڈر ہمارے ہر دلعزیز اور مہربان سینئر ساتھی کرنل سعد اللہ کھوسہ (مرحوم) تھے ۔ کرنل کھوسہ انتہائی دیندار، محب وطن اور با اصول شخصیت کے مالک تھے۔ ہم سے پہلے جتنے لوگوں نے فرضی بارڈر کراس کرنے کی کوشش کی کرنل صاحب نے سب کو جنگی قیدی بنا لیا۔ فرضی بارڈر گہرے نالے پر تھا اور پھر پتریاٹہ تک مسلسل چڑھائی تھی۔ رات کے اندھیرے میں ہم نالے پر پہنچے ہی تھے کہ طوفانی بارش اور ژالہ باری شروع ہو گئی۔ ہم نے موسم کی شدت کا فائدہ اُٹھایا اور طغیانی سے پہلے نالہ عبور کیا۔ دو گھنٹے تک مسلسل چڑھائی چڑھ کر حضرت بابا لعل شاہؒ کے مزار پر پہنچے تو پتہ چلا کہ آدھے سے زیادہ لوگ زخمی ہیں ۔ وقت ضائع کیے بغیر زخمیوں کو قریبی جنگل میں چھپا کر ہم نے پھر چڑھائی کا سفر شروع کیا اور انتہائی مشکل جگہ سے پتریاٹہ کے شمال مغربی کونے پر پہنچ گئے ۔ حملہ شروع ہوا تو دشمن جو ژالہ باری سے بچنے کے لیے مورچوں میں دُبکا بیٹھا تھا کے کمانڈر نے میگا فون پر اعلان کیا کہ تم لوگوں کا حملہ کامیاب ہو گیا ہے آگے گہری کھائی ہے اسلیے وہاں ہی رُک جاوٗ۔ ابھی ہم فرضی دُشمن اور سینیئر ایمپائر جو ایک بریگیڈئیر صاحب تھے سے رابطہ کرنے کی کوشش میں تھے کہ پتریاٹہ کے جنوب میں بھی حملہ شروع ہو گیا ۔ میں حیران تھا کہ جنوب کی طرف سے حملہ کرنے والی سپاہ کو تو ہم بابا لعل شاہ ؒکے حوالے کر آئے تھے اور وہ بر وقت اتنی مشکل چڑہائی کے علاوہ ہمارا بھاری سامان جو ہم وہاں چھوڑ آئے تھے لیکر ھدف پر کیسے پہنچ آئے۔ بھاری سامان میں ہمارے پیک تھے جن میں ایک ایک کمبل، ایمرجنسی راشن اور ذاتی ضروریات کا سامان تھا جو ہرجوان مشق کے دوران لیکر چلتا ہے۔ بارش کی وجہ سے پیک بھاری ہو گئے تھے اسلیے ہم نے اُنہیں زخمیوں کے حوالے کیا تا کہ سفر میں آسانی ہو۔ سینئر ایمپائر گوجرانوالہ سے آئے تھے چونکہ یہ ایک بڑی مشق تھی ۔ ایمپائر نے کہا کہ آپ کا حملہ کامیاب قرار دیا جاتا ہے آپ جنوبی حصہ پر حملہ آور دستوں سے فوراً رابطہ کریں اور اُنہیں وہیں روک دیں ۔
ایمپائیروں کے جانے کے بعد صوبیدار میجر عبدالکریم صاحب میرے پاس آئے اور ہنسنے لگے۔ وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ سر یہ سب شیر کا کمال ہے ۔ پتہ چلا کہ جنگل میں بٹھاتے وقت صوبیدار میجر عبدالکریم نے زخمی افراد کو وارننگ دی تھی کہ آج جمعرات ہے اور رات کے بارہ بجے آدھی رات ہو گی تو کچھ شیر مزار پر حاضری کے لیے آئیں گے ۔ اس لیے سونا نہیں چوکنا رہنا ہے۔ تھکاوٹ اور زخمی پاوٗں کے ساتھ جاگنا مشکل تھا اسلیے شیروں سے جنگ کرنے کے بجائے وہ لوگ چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں ہمارے ساتھ ہی وہاں سے چلے اور اپنے ھدف پر بر وقت حملہ آور ہوئے۔
اب بھی جب کبھی ریٹائرڈ افسروں اور جوانوں سے ملاقات ہوتی ہے تو ہم بابا لعل شاہ ؒکے شیر صوبیدار میجر عبدالکریم صاحب کو ضرور یاد کیا کرتے ہیں ۔
مزاروں ، درباروں، شیروں، درویشیوں ، سادھوں، چڑیلوں اور جنوں بھوتوں کی کہانیاں الگ الگ سہی مگر ہر ملک اور معاشرے کا حصہ ہیں ۔
تریڈی والے ماسٹر یوسف صاحب کا تعلق بینس برادری سے تھا ۔ کنیڈ پایاں میں وہ پرائیویٹ سکول ماسٹر تھے چونکہ تب تک کنیڈ کا پرائمری سکول حکومت نے منظور نہیں کیا تھا ۔ مقامی لوگوں نے چندہ جمع کیا اور ایک کمرے کا سکول تعمیر کیا اور یوسف صاحب کی تنخواہ کا بھی انتظام کیا ۔ یوسف صاحب کا گھر سکول سے زیادہ دور تو نہ تھا مگر بوجہ وہ کبھی کبھی ملک ساون کے گھر قیام کرتے تھے ۔ یوسف صاحب کی شخصیت بڑی نمایاں اور منفرد تھی۔ وہ دُبلے پتلے اور قد چھ فُٹ سے زیادہ تھا ۔ لمبے شانوں تک بال، بڑی بڑی مونچھیں جو ہر وقت تیل سے تر رہتی تھیں ۔ نیلے رنگ کا تہبند اور لمبی لکیروں والی قمیض شاید اُن کا پسندیدہ لباس تھا ۔ میں نے اُنہیں دو چار بار ہی دیکھا مگر استادوں والی کوئی خوبی اُن میں نظر نہ آئی۔ اخلاقی لحاظ سے وہ اچھے آدمی تھے جسکی وجہ سے لوگ اُن کی عزت کرتے تھے۔
یوسف صاحب کا ذکر اس لیے کیا ہے چونکہ وہ اس وقت کے ہیرو تصور کیے جاتے تھے ۔ دربار کے شیروں کی طرح یوسف صاحب کے متعلق بھی خاصے قصے کہانیاں اہلیانِ کنیڈ میں مشہور تھہیں ۔
یوسف صاحب اور دیگر خواتین کا میری وجہ سے ڈر کر بھاگنا میرے نڈر پن کو تقویت دیتا تھا۔ مشتاق نے کہا کہ تم بھی صبح صبح اسی نالے سے گزرتے ہو اس لیے بہتر ہے کہ تم کالا ڈب والے میاں صاحب سے تعویز لے کر پاس رکھ لو۔ کسی نے مجھے کلمہ طیبہ کا ذکر کرنے کا تو کسی نے لوہے سے بنی کوئی چیز مثلاً چھری یا چاقو بستے میں رکھنے کا مشورہ دیا۔ حاجی گلریز صاحب نے قرآنی آیات کا ورد بتایا تو ڈاکٹر پرویز (مرحوم) نے واپس پلا ہل راجگان جانے کی بات کی۔
چونکہ مجھے معلوم تھا کہ جِن اور شیر میں ہی ہوں اسلیے سب کا مشورہ مان لیا اور ایک سال تک پونہ کا سفر کرتا رہا۔ ایک سال بعد واپس پلاہل راجگان آیا تو سکول کا ماحول بدل چکا تھا۔ سکول کمیٹی نے دو اُستادوں کا اضافہ کر لیا اور ساتویں پاس کرنے والے لڑکوں کیلئے آٹھویں کلاس کا بھی اجراٗ ہوا جس میں طلباٗ کی تعداد زیادہ نہ تھی ۔ موضع سہار سے آنیوالے سبھی طلباٗ نے سکول چھوڑ دیا اور اُن میں سے کچھ حیدرآباد اپنے عزیزوں کے پاس چلے گئے ۔ اُس دور میں سہار کے اکثر لوگ سندھ پولیس اور محکہ انہار میں ملازم تھے۔ ہمارے سکول میں پڑھنے والے طلباٗ کی اکثریت نے بھی حیدرآباد میں ملازمت اختیار کر لی اور کچھ فوج میں بھرتی ہو گئے۔
اسی طرح گاوٗں بُڑجن سے آنیوالے طالب علم بھی سکول چھوڑ گئے ۔ غالب، گلزار اور یونس (مرحوم) سے ایک دوبار ملاقات ہوئی تو پتہ چلا کہ اُن کے دیگر ساتھی اور رشتہ دار گورنمنٹ ہائی سکول اکا لگڑھ (اسلام گڑھ) چلے گئے ہیں اور بعد میں محنت مزدوری پر لگ گئے ۔
ہماری کلاس کے مستری زمان اور مستری حنیف کے علاوہ دو اور لڑکے بھی انگلینڈ چلے گئے۔ اُن دنوں حکومت آزاد کشمیر میں کرپشن انتہائی نچلے درجے پر تھی اور رشوت خور سرکاری ملازمین بھی تھوڑے ہی تھے۔ کرپشن صرف مسلم کانفرنس اور آزاد مسلم کانفرنس تک محدود تھی چونکہ یہی دو جماعتیں میدان سیاست میں تھیں۔ آزاد مسلم کانفرنس ، مسلم کانفرنس سے بغاوت کرنیوالے گروپ نے سردار ابراہیم کی قیادت میں قائم کی مگر سردار ابراہیم خان با اصول سیاستدان تھے۔ اسی طرح لبریشن لیگ کے صدر جناب کے ایچ خورشید بھی درویش صفت سیاستدان تھے جن پر کبھی کسی بھی طرح کا الزام نہ لگا۔ میجر راجہ عباس خان (مرحوم) نے اپنی تصنیف ’’دِ ی رئیل آزاد کشمیر ‘‘ میں اُن سب سیاستدانوں کے نام لکھے جو حکومت پاکستان کے ملازم اور وظیفہ خوار تھے۔ سوائے مرحوم (ر) چیف جسٹس عبدالمجید ملک کے سبھی چھوٹے بڑے سیاستدانوں نے جعلی مہاجر بن کر پاکستان میں ہندووں کی چھوڑی ہوئی بڑی بڑی جائیدادیں الاٹ کروائیں اور پھر بیچ کر نہ صرف امیرکبیر بلکہ آزاد کشمیر کی سیاست کے ٹھیکیدار بھی بن گئے۔ حکومتِ پاکستان وزارتِ خارجہ کے ایک حکم کے مطابق مسلم کانفرنس کی ساری قیادت بحثیت ترجمان حکومتِ پاکستان سے ماہانہ تنخواہ لیتی تھی۔ میجر راجہ عباس کا سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ حکومتِ پاکستان کے تنخواہ دار ملازم آزاد کشمیر کے صدر، وزیرِاعظم اور وزیر کیسے ہو سکتے ہیں۔ اُن میں سے اکثریت نے جہادِ آزادی میں کوئی حصہ نہیں لیا تھا اور نہ ہی عوام کے نمائیندے تھے۔
میرے سکول کے زمانے تک حکومت آزاد کشمیر کے پاس زیادہ فنڈز نہیں ہوتے تھے اور نہ ہی حکومت تعلیم کے شعبے کو ترجیع دیتی تھی۔ سڑکیں تقریباً کچی تھیں جن کی پُلیاں اور حفاظتی دیواریں بارشوں کی وجہ سے ٹوٹ جاتی تھی۔ پی۔ ڈبلیو ۔ڈی کے افسر اپنا حصہ رکھ کر مسلم کانفرنس اور آزاد مسلم کانفرنس کے سیاستدانوں کو ان پُلیوں اور دیواروں کا ٹھیکہ دیتے جو غیر معیاری کام کرتے اور پیسہ جیب میں ڈال لیتے۔ بعد میں یہی ٹھیکیدار وزیر، مشیر اور اُن کی اولادیں امیر کبیر اور اعلیٰ عہدوں پر فائیز ہو کر اپنے والدین کی کماو ٗ سیاست کو چار چاند لگا رہی ہیں ۔
بہر حال سکولوں کی کمی کی وجہ سے پرائمری سکولوں میں مڈل تک پرائیویٹ سکولوں کی اجازت تھی مگر آٹھویں کا امتحان کسی قریبی سکول کے ہیڈ ماسٹر کی نگرانی میں ہوتا تھا اور وہ ہی اسکا نتیجہ ترتیب دیتے تھے۔ ہم نے ماسٹر شبیر صاحب کی نگرانی میں گورنمنٹ مڈل سکول چڑہوئی جا کر امتحان دیا۔
ہم لوگ بارہ دِن تک چڑہوئی سکول کے ایک کمرے میں رہے اور کھانا چڑہوئی کے بس اڈہ پر جا کر صوفی صاحب کے چھپر ہوٹل پر کھاتے تھے ۔ آج کل چڑہوئی تحصیل ہیڈ کوارٹر اور ایک بڑا ٹاوٗن ہے۔ اُن دِنوں یہی جگہ ایک وسیع دلدلی میدان تھا جہاں صرف صوفی صاحب کا چھپر ہوٹل تھا جہاں میر پور سے آنے والی بس رُکتی تھی ۔
سکول کے قریب ہی ہمارے ساتھ امتحان دینے والے طالب علم شاہپال کا گھر تھا۔ کچھ چارپائیاں شاہپال نے اپنے گھر سے اور باقی چڑہوئی کے راجہ فتح خان (مرحوم) اور چودھری فرید (مرحوم) نے مہیا کیں ۔ چڑہوئی میں باہر سے آنیوالے طلباٗکا یہ پہلا امتحان تھا اسلیے مقامی لوگ ہمیں ملنے آئے اور حوصلہ افزائی کی۔ صوفی عنائت اللہ (مرحوم) نے مختصر تقریر کی اور علم کے فوائد پر روشنی ڈالی ۔ چودھری فرید (مرحوم) نے اپنے گھر رہنے اور کھانے کی دعوت دی مگر اُن کا گھر سکول سے بہت دور تھا ۔ چودھری ولی محمد (مجاہدِ آزادی) اور راجہ پہلوان خان (مرحوم) بھی طلباٗ سے ملنے آئے اور حوصلہ افزائی کی ۔ چودھری ولی محمد نے جنگ آزادی کشمیر میں بھر پور حصہ لیا تھا ۔ چودھری صاحب اور راجہ پہلوان خان سابق فوجی تھے اور ان دنوں اپنی ذاتی بسوں کے ڈرائیور بھی تھے ۔ دونوں سفید لباس ، اچکن اور جناح کیپ پہنتے تھے جو شاید ہی دُنیا کا کوئی بس ڈرائیور پہنتا ہو۔ دونوں اچھے مقرر ، مہمان نواز اور غریب پرور مشہور تھے۔
ہماری کلاس کی تعداد دس طلباٗ پر مشتمل تھی ۔ چودھری گلزار ایک پرچہ دینے کے بعد بیمار ہو کر واپس چلے گئے جبکہ تین طالب علم فیل ہوگئے۔ دو طالب علموں کے تین تین نمبر کم تھے اسلیے ہیڈ ماسٹر صاحب نے اُنہیں رعایتی نمبر دیکر پاس کر دیا۔ آٹھ کی کلاس میں میں نے سب سے زیادہ نمبر لیے مگر اس بار کوئی انعام نہ ملا۔ پانچویں کے امتحان میں سکول میں پہلی پوزیشن لی تو چودھری قربان (مرحوم) نے آٹھ آنے انعام اور گاوں پلاہل کلاں والوں نے شاباشیں دے دیکر مجھے رُلا دیا تھا۔ چودھری نور محمد اور دیگر نے گھر آکر میری والدہ کو مبارکباد دی جبکہ آٹھویں میں حوصلہ افزائی نہ ہونے یا کسی اور نفسیاتی وجہ سے میں نے آئیندہ کوئی امتحان اچھی پوزیشن میں پاس نہ کیا مگر فیل بھی نہیں ہوا۔ ہمیشہ رعائیتی نمبر لیکر پاس ہوتا رہا اور کام بھی چلتا رہا۔
(جاری ہے)