برصغیر کا عظیم وزیر خزانہ راجہ ٹوڈرمل

کرہ ارض پر جب سے ریاستی نظام قائم ہوا ہے اِسے چلانے کے عمل میں معیشت کا بنیادی کردار رہا ہے ۔ قرآنی بیان کے مطابق اللہ نے اتنی ہی زمین بنائی جتنی مخلوق کی ضرورت تھی ۔ سورۃ سجدہ میں فرمایا ’’میں نے چھ دن میں زمین اور آسمان بنائے۔ آسمانوں میں برکتیں رکھیں اور زمین کی تہہ میں مخلوق کیلئے خوراکیں اور خزانے محفوظ کر دیے‘‘۔
قرانی بیان پر غور کریں تو مخلوق ارضی پر لازم ہے کہ وہ اپنی خوشحالی کیلئے ان خزانوں کو تلاش کرے اور پھر حکومت کا فرض ہے کہ وہ ان خوراکوں اور خزانوں کی نہ صرف حفاظت کرے بلکہ اسے مخلوق کے درمیان عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے تقسیم کر دے ۔
قرآنی تاریخ کے مطابق ابتدائی ریاستی نظام پیغمبرانہ تھا جس میں عدل و انصاف اور خوشحالی تھی ۔ دولت کی تقسیم منصفانہ تھی اور عوام و خواص میں کوئی عداوت نہ تھی ۔ ان ادوار کے درمیان طویل مدت تک بادشاہی دور بھی آتے رہے جن میں غربت و افلاس ، بھوک ، بیماری اور غلامی کی بنیادی وجہ معیشت کی غیر منصفانہ تقسیم اور اشرافیہ کی بد عنوانیاں شامل تھیں ۔ بادشاہ و اُمراّ اپنے خزانے بھرتے رہے اور عام لوگ جبر کی چکی میں پستے رہے۔ عشر، خیرات ، صدقات ، زکوٰۃ ، جزیہ اور مال غنیمت کا حکم ابتدائی اسلامی پیغمبری دور سے ہی نافذ العمل رہا۔ قرآن کریم کی سورۃ انفال اسی حکم کی تشریح کرتی ہے ۔ سورۃ یوسف میں حاکم مصر کے خواب کا ذکر ہے جسکی تعبیر حضرت یوسف ؑ نے کی۔ آپؑ نے فرمایا کہ عرب و افریقہ اور بعض مفسرین کے مطابق ایشیا کے دیگر ممالک میں قحط آنے والا ہے ۔ مصر ایک زرعی ملک ہے اور دیگر ملکوں کو بھی غلہ فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ آپؑ نے غلہ اور دیگر غذائی اجناس ذخیرہ کرنے کی ترکیب بھی بتلائی اور فرمایا کہ تم مجھے وزیر خزانہ مقرر کر دو تو اللہ کے حکم اور مدد سے میں یہ کام آسانی سے کر سکتا ہوں ۔ سید سلیمان ندوی ارض القرآن میں یمن کی ملکہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ہزاروں سال بعد اسکا جسمانی ڈھانچہ ایک مسمار شدہ محل کے تہہ خانے سے برآمد ہوا ۔ وہ سونے چاندی کے سکوں اور ہیرے جوہرات کے ڈھیروں کے درمیان پڑی تھی ۔ اس کے قریب پتھر پر لکھی ایک تحریر تھی جو شاید اس نے خود کسی تیز دھار آلے سے کندہ کی تھی ۔ لکھا تھا کہ ’’بھوک و افلاس کی وجہ سے لوگ بھاگ گئے ہیں یا پھر مر گئے ہیں ۔ میں نے خادمہ سے کہا کہ کیا ان خزانوں سے روٹی پک سکتی ہے مگر جواب نہ ملا ۔ میرے قافلے مصر گئے ہوئے ہیں مگر پتہ نہیں غلہ لیکر کب واپس لوٹتے ہیں ۔ مولانا لکھتے ہیں کہ شاید یہ وہی دور تھا جب دنیا قحط کے عذاب میں پھنس چکی تھی ۔ قحط تو مصر میں بھی پڑا تھا مگر اہل مصر کی خوشحالی پر کوئی اثر نہ ہوا اور مصر نے ساری دنیا کو غلہ فراہم کیا۔طلوع اسلام سے پہلے مکہ ایک خوشحال ریاست اور دنیا کا عظیم کاروباری مرکز تھا۔ دارالندواۃ (پارلیمنٹ ) کے سربراہ حضرت عبدالمطلب تھے ۔ اس پارلیمنٹ میں رئیس مکہ ہی وزیر خزانہ ہوتے تھے ۔ ریاست مدینہ وجود میں آئی تو آپﷺ نے حضرت بلالؓ کو وزیر خزانہ مقرر کیا ۔ اصحاب رسول نے مشورہ دیا کہ حضرت بلال نا خواندہ اور سادہ طبیعت کے حامل ہیں ۔ شاید وہ یہ کام آسانی سے نہ کر سکیں ۔ آپ نے تجویز نہ مانی اور فرمایا بلالؓ امانتدار ، صاف گو اور عاشق رسولﷺ ہیں۔ ان سے بہتر کوئی شخص خزانے کی حفاظت نہیں کر سکتا ۔
ہندوستان میں عہد سلاطین کے دوران تقریبا ًسارے برصغیر میں حکومت نے مدرسے اور دیگر علمی درسگائیں تعمیر کیں ۔ بادشاہوں نے عالموں اور ماہرین علوم کیلیے وظائف مقرر کیے اور وسیع جاگیریں عطا کیں ۔ عہد سلاطین میں ثمر قند ، بخارا، بغداد ، دمشق اور دیگر اعلی ٰ علمی و تحقیقی اداروں کی طرز پر ملتان ، دلی، بہار اور دیگر علاقوں میں علمی اداروں کا اجراٗ ہوا جہاں قرآن و حدیث ، تصوف ، حکمت ، فقہ، فلسفہ، ہیت ، الہیاٰت ، فلکیات اور دیگر علوم کی تعلیم دی جاتی تھی۔ ان اداروں میں کسی مذہب و مسلک کی قید نہ تھی ۔عہد سلاطین میں سارے ملک کا نظام چلانے کیلئے صرف چار وزارتیں تھیں جن میں سب سے بڑی وزارت مالیہ و مال تھی ۔ اسکا کام ٹیکس جمع کرنا ، اسکا حساب رکھنا اور پھر ان لوگوں کی کفالت کرنا تھا جو نادار طبقے سے تعلق رکھتے تھے ۔ٹیکس نا دھندگان کے علاوہ اْن افسروں کے لیے بھی سخت سزائیں مقررتھیں جو قومی خزانے کو نقصان پہنچاتے تھے ۔ہندوستان کا عظیم وزیر خزانہ جس کے ماتحت آٹھ دیگر وزارتیں تھیں سن ۱۵۰۰ میں اُتر پردیش میں پیدا ہوا۔ بچپن میں والد کا سایہ سر سے اْٹھ گیا تو کچھ عرصہ تک چچا کی کفالت میں رہا۔ تھوڑا بڑا ہوا تو کسی مدرسے سے منسلک ہوا جسکا ذکر تاریخ میں نہیں ۔ وہ فلسفے ، حساب ، جیومیٹری اور الجبرے کے علاوہ فلکیات ، موسمیات ، زراعت اور نفسیات کا بھی ماہر تھا۔ بابر کے عہد میں فوج کے محکمہ خوراک و ترسیل میں بھرتی ہوا اور اپنی قابلیت کی بنا پر منصب دار کے عہدے پر فائز ہوا۔ ہمایوں کے دور میں اسے بادشاہ کا مشیر مال و زراعت مقرر کیا گیا مگر۱۵۳۹ میں چونسہ کی لڑائی میں ہمایوں شکست کھا کر ایران چلا گیا ۔ اْس کےدیگر مشیر وں کی طرح راجہ ٹوڈرمل دلی میں ہی رہا ۔
شیر شاہ کو ٹوڈرمل کی قابلیت کا پتہ چلا تو اسے ترقی دے کر اپنا مشیر مقرر کر لیا ۔ ٹوڈرمل نے شیر شاہ کے پانچ سالہ دور میں انتظامی اور مالی لحاظ سے ایسے کارنامے سر انجام دیے جس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی ۔ٹوڈرمل نے شیر شاہ کو ایک طویل اور مرکزی شاہراہ تعمیر کرنے کے علاوہ ملاپی سڑکیں بنانے کی تجویز دی تا کہ ہندوستان بھر کی پٹھان آبادیوں کو بڑی سڑک سے ملا کر فوج کی آمد و رفت کے علاوہ کسانوں اور تاجروں کیلئے آسانیاں پیدا کی جائیں ۔ بلبن اور خلجی کی زرعی اصلاحات میں چند ترامیم کے بعد انہیں لاگو کیا اور تجارت و لین دین میں مڈل مین اور ٹھیکیدار کا رول ختم کر دیا ۔ ٹو ڈرمل نے ہر بڑے اور چھوٹے شہر میں غلہ منڈیاں ، مویشی منڈیاں اور سبزی منڈیاں بنوائیں اور انہیں ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا۔ٹوڈرمل کے دور میں ہی پٹوار کا نظام قائم ہوا اور سارے ہندوستان کی زمین کی پیمائش کا حکم جاری ہوا جو شیر شاہ کے بعد اکبر کے عہد میں مکمل ہوا۔ ٹوڈرمل کے مشورے سے بنگال کے ساحلی علاقے کی حفاظت کیلیے بحری بیڑا تیار ہوا اور جرنیلی سڑک کی تعمیر کے علاوہ شورش زدہ علاقوں میں مضبوط فوجی قلعے تعمیر ہوئے۔ ٹوڈرمل نے مشہور اور تاریخی قلعہ روہتاس (جہلم) اپنی نگرانی میں تعمیر کروایا جس میں تین ہزار فوجیوں کی رہائش اور خوراک ذخیرہ کرنے کے علاوہ میٹھے پانی کی باولیاں تعمیر کروائیں ۔ٹوڈرمل نے زمین کے بندوبست ، مثل حقیت ، جمع بندی اور گرداوری کے اصول مرتب کیے جو آج بھی رائج ہیں ۔ ٹوڈرمل نے ایک تحریر میں شیر شاہ کو مشورہ دیتے ہوئے لکھا کہ عوامی خوشحالی کے بغیر ریاست کی خوشحالی کا تصور ہی غلط ہے ۔ عوام کی خوشحالی کسان کی خوشحالی سے منسلک ہے اور دولت خزانے کے بجائے سپاہی کی جیب میں ہو تو دشمن پر خوف طاری رہتا ہے ۔ ٹوڈرمل فارسی کا عالم اور محقق تھا۔ شاید اس کے ذہن میں شیخ سعدیؒ کا یہ بیان ہو کہ سپاہی کو پیسہ دے تا کہ وہ سر قربان کر دے ۔ اگر پیسہ نہیں دیگا تو وہ بھاگ جائیگا۔ جب بہادر کا پیٹ بھرا ہو گا تو تیزی سے حملہ کریگا اور خالی پیٹ بھاگنے میں تیزی دکھلائے گا ۔ٹو ڈرمل نے ترکی اور یونانی حروف کی جگہ فارسی رسم الخط اور سرکاری زبان رائج کی تو ہندوٗں نے بہت کم وقت میں فارسی زبان پر عبور حاصل کر لیا ۔ شیر شاہ کے بعد مغلیہ دور میں ہندو فارسی کی بدولت سارے سرکاری عہدوں پر چھائے رہے ۔ شیر شاہ کے بعد وہ ہمایوں اور بعد میں جلاالدین اکبر کا وزیر خزانہ ، دیوان ، نورتن اور پندرہ کی کابینہ میں شامل ہوا مگر اکبر کا نام نہاد دین ِ الہی قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔ شیر شاہ کے دور میں زمینوں کا بندوبست شروع ہوا مگر اس پر کام رک گیا ۔
۱۵۶۰میں ٹوڈرمل نے ناپ تول کے پیمانے سرکاری سطح پر متعارف کروائے اور یہ قانون بھی متعارف کروایا کہ ناپ تول میں کمی کرنیوالوں کو سخت سزائیں دی جائیں ۔ ۱۵۷۰سے ۱۵۸۰ تک اکبر اعظم کی ساری سلطنت جو آموں دریا سے ڈھاکہ تک اور تبت سے میسور تک پھیلی ہوئی تھی کا بندوبست مکمل کروایا ۔ مالیے اور ٹیکس کی حد مقرر کی اور فوجی اصلاحات متعارف کروائیں ۔انتظامی لحاظ سے مغلیہ سلطنت پندرہ صوبوں ، ۱۸۷ سرکاروں ، ۳۳۶۷محلوں، اور پر گنوں میں تقسیم کی ۔ پٹواری ، چوکیدار، نمبردار ، ذیلدار، چودھری اور کوتوال مقرر کیے اور ان کے اختیارات اور مراحات کا قانون متعارف کروایا ۔ انتظامی ، زرعی ، قانونی ، عسکری اور عدالتی اصلاحات کی بدولت ہندوستان دنیا کی خوشحال ترین ریاست بن گئی جسے انگریزوں نے سونے کی چڑیا کا خطاب دیا۔’’ آسودگانِ ڈھاکہ‘‘ کے مصنف شفا الملک حبیب خان اور ’’ بہارستان غیبی‘‘ کے مصنف علا الدین اصفہانی (مرزا نتھن ) نے بہار ، بنگال ، اڑیسہ اور آسام کی تاریخ میں ان علاقوں کے عوام کی خوشحالی ، صنعت و حرفت میں بے مثال ترقی اور دیگر امور کا ذکر کیا ہے ۔ جہازسازی ، پارچہ بافی، نیل ، چمڑے اور دیگر صنعتوں میں شاید چین ہی مغلوں کا مدِ مقابل تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ انگریزوں اور دیگر مغربی اقوام نے ان ہی علاقوں پر توجہ مرکوز کی اور پھر مغلیہ سلطنت کے زوال کے باعث وہ سب کچھ لوٹ کر لے گئے۔
ہماری بد قسمتی کہ تقسیم ہند کے بعد ہمیں کرپٹ سیاسی نظام سے پالا پڑا جس کی وجہ سے آج ہم ایک بد حال قوم اور کنگال معیشت کی وجہ سے دنیا کے سب سے بڑے بھکاری بن گئے ہیں ۔ ہمارے وزیر خزانہ کرپشن کے ماہر اور عوام کا خون چوسنے والے جانور ثابت ہوئے جنھیں حکمران خاندانوں کے خزانے بھرنے اور قرض کی رقم ہڑپ کرنے کے علاوہ کوئی ہنر نہیں آتا۔ یہ لوگ ورلڈ بینک ، آئی۔ایم ۔ ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے ایجنٹ بن کر آتے ہیں اور ملکی خزانہ لوٹ کر بیرونِ ملک منتقل کردیتے ہیں ۔یہاں بھارت کی مثال دینے کی ضرورت نہیں ۔ اگرچہ وہاں بھی کرپشن اور بد دیانتی ہے مگر حکمران خاندانوں کی سر عام اور قانون کی آڑ میں لوٹ مار نہیں ۔ وہاں بھی کوئی ٹوڈرمل تو نہیں مگر اسکا وضع کردہ نظام بڑی حد تک فعال ہے ۔ ہمارے ہاں احسن اقبال جیسے منصوبہ ساز اور اسحاق ڈار جیسے وزیر خزانہ تو ہیں مگر ششی تھرورر جیسا زیرک نہیں اور نہ ہی ہمارے حکمران خاندانوں اور نوکر شاہی کو اس کی ضرورت ہے ۔ ہمیں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو آئین اور قانون کی آڑ میں کرپشن اور منی لانڈرنگ جیسے ہنر کے ماہر ہوں ، چرب زبانی ، غیر شائستہ اور ذو معنی گفتگو میں ثانی نہ رکھتے ہوں ۔ جھوٹ اور فریب کے استاد اور جعل سازی کے علاوہ پراپیگنڈہ کرنے کا فن بھی جانتے ہوں ۔ ایسے ہی ماہرین نے چند ماہ کے اندر ایسا انتظام کیا ہے کہ آج ملک بے یقینی اور عدم تحفظ کا شکار ہے ۔حکومت خود کہہ رہی ہے کہ ہر روز لاکھوں ڈالر پاکستان سے افغانستان منتقل ہو رہے ہیں اور دہشت گرد افغانستان سے پاکستان آ رہے ہیں مگر یہ بتانے سے قاصر ہے کہ یہ سب کون کر رہا ہے؟۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے