قانون کی آڑ میں شکار نہ کریں

جسطرح قانون اخلاقیات کی پرواہ نہیں کرتا ویسے ہی روایات قانون کے احترام سے مبرا ہوتی ہیں ۔ غیرت کے نام پر قتل ، بچپن اور وٹے سٹے کی شادیاں اور دیگر درجنوں ایسی رسومات اور روایات ہمارے معاشرے میں موجود ہیں جن کی روک تھام کیلئے قوانین تو موجود ہیں مگر لوگ اس کی پرواہ نہیں کرتے چاہے اُنہیں جیل ہی کیوں نہ جانا پڑے۔
سیاسی انتقام ، ریاستی جبر، انسانی حقوق کی پامالی اور عزتِ نفس کا کھلواڑ ہمیشہ آئین اور قانون کی آڑ میں ہی ہوتا ہے۔
کہتے ہیں کہ ہر چیز کی ایک حد اور انتہا ہو تی ہے ، ایسے قوانین اور ایسا آئین جس کی کوئی حدو د وقیود نہ ہوں اور جو ظلم وجبرکا ہتھیار ہو آخر کار مسترد اور بے کار ہو جاتا ہے ۔
پٹوار خانے اور تھانے ہی نہیں بلکہ ادارے بھی اب ایسی روایات قائم کر رہے ہیں جو مستقبل میں آئینی ریاست کی مکمل تباہی اور آپسی یا شخصی راج کی راہ ہموار کر رہے ہیں ۔ پولیس کے سپاہی سے لے کر ادارے کے سربراہ اور سڑک چھاپ موالی ، گلی کے غنڈے ، جیب کترے اور مسجد کے جوتی چور سے لیکر وزیروں اور مشیروں تک کی اگر ایک ہی سوچ ہو تو معاشرہ اور ریاست کبھی یکجاہ نہیں رہ سکتا۔ وہ لوگ جو خود کو قانون سے مبرا سمجھتے ہیں اور جبر و ظلم کرتے ہیں اُن کا خاتمہ ایسے ہی لوگوں کے ہاتھوں ہوتا ہے جو قانون کی پرواہ نہیں کرتے۔
کہتے ہیں کہ کسی ملک کی روایت تھی کہ بوڑھے اور بیمار ماں باپ کو ایک بڑی چٹان سے گرا کر گہری کھائی میں پھینک دیا جاتا ۔ ایک دن ایک شخص اپنے بوڑھے بیمار باپ کو اُٹھا کر کوہ مرگ پر لے گیا۔ زمین پر رکھا تو بوڑھا زار و قطار رویا اور پھر قہقہ لگا کر ہنسا۔ بیٹے نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا بیٹا میں اس غیر انسانی روایت پر رویا ہوں ۔ ہماری ریاست نے بھی کوئی قانون نہیں بنایا جو اس بُری روایت کا خاتمہ کرسکے ۔ ہنسا اس لیے ہوں کہ میرے ساتھ جو ہونے والا ہے وہ میرے اعمال کا ہی نتیجہ ہے۔ ایک دِن میں نے بھی اپنے باپ کو اِسی پہاڑ سے گرا کر مار دیا تھا۔ آج میری باری ہےتو کل تیرا بیٹا تجھے اسی جگہ لا کر پھینک دے گا۔ بیٹے نے باپ کی بات سنکر فیصلہ کیا کہ وہ اس بری روایت کا خاتمہ کریگا۔ اُس نے باپ کو اُٹھایا اور واپس گھر لے گیا۔ اور واپسی پر اعلان کیا کہ میں اس فرسودہ روایت پر عمل نہیں کرتااور ظلم کے اس قانون کے خلاف بغاوت کرتا ہوں ۔ معاشرہ اور ریاست اگر مجھے قبول نہیں کرتے تو میں کسی دوسرے ملک ہجرت کرتا ہوں ۔ اس اعلان کے ساتھ ہی بہت سے لوگوں نے اس کی حمائت کی اور آخر کار اِس رسم و روایت جسے قانونی تحفظ حاصل تھا کا خاتمہ ہو گیا۔
تاریخ میں درج ہے کہ مصر میں انسانی جان کی قربانی دی جاتی تھی۔ قانون تھا کہ سب سے نیک اور پارسا شخص کی قربانی دی جائے تو دیوتا ریاست کی حفاظت کرتے ہیں۔ بادشاہ اور ولی عہد ریاست میں سب سے زیادہ پارسا اور نیک تصور ہوتے تھے۔ اسلیے بادشاہ کی موت یا کسی بڑی وبا سے بچنے کے لیے اکثر بادشاہ یا پھر ولی عہد کو معبد میں لٹا کر گلے پر چھری پھیر دی جاتی تھی ۔ بادشاہ کی بیماری یا موت کی صورت میں شہزادے چھپنے لگے اور وباؤں کی صورت میں بادشاہ بھی موت کے خوف کی وجہ سے غائب ہونے لگے تو فیصلہ ہُوا کہ بادشاہوں اور شہزادوں کی جگہ عام لوگوں کی قربانی کی جائے۔ پارلیمینٹ نے فیصلہ کیا کہ خوبصورت اور صحت مند مردوں کا انتخاب کیا جائے اور قربانی والے مرد کو چھ ماہ کیلئے اعزازی بادشاہ بنایا جائے۔ قربانی والا مرد چھ ماہ تک بادشاہ کی خواب گاہ میں ہی قیام کرے اور ملکہ کی رفاقت بھی میسر رہے۔ اس نئی روایت نے شاہی خاندان کے خون میں ملاوٹ پیدا کی تو کئی ولی عہد ان قربانی کے بادشاہوں کی اولاد ٹھہرے۔ آخر کار پارلیمینٹ نے فیصلہ کیا کہ سیلاب کی صورت میں ایک خوبصورت کنواری کنیز دریائے نیل کی نذر کی جائے اور بادشاہوں کی جگہ جانوروں کی قربانی کی جائے۔ اسلامی دور تک یہ رسم قائم رہی جسے حضرتِ عمر ؓنے ختم کر دیا۔
ہندوستان میں ’’ستی‘‘ کی رسم صدیوں سے جاری تھی جسے اسلامی دور میں ختم تو نہ کیا گیا مگر بادشاہ کی منظوری کے بغیر ستی کی رسم پر پابندی عائد کر دی گئی۔ ستی کی خواہشمند عورتوں کی درخواست بادشاہ کو بھجوائی جاتی تھی اور بادشاہ سالوں بعد ہی اُن پر نظر ڈالتے تھے ۔ تب تک عورتیں ستی کی عمر سے گزر جاتیں یا پھر چھپ چھپا کر شادی کر لیتیں ۔ بادشاہی دور میں ستی کی رسم جبری نہیں بلکہ اختیاری تھی جسے انگریزی دور میں ختم کر دیا گیا ۔ستی کی آخری بڑی رسم رنجیت سنگھ والئی پنجاب کی موت پر ادا کی گئی۔ خالصہ فوج نے رنجیت سنگھ کی داشتاوں کو جبری ستی پر مجبور کیا ۔ جو ہتھے چڑھ گئی اُسے رنجیت سنگھ کی چتا پر ڈالکر جلا دیا گیا۔ بہت سی داشتاوں جن میں جندا رانی بھی شامل تھی چھپ کر جان بچائی۔ رنجیت سنگھ کی موت کے بعد تخت لاہور کا عملاً خاتمہ ہو گیا۔ لگاتار بغاوتوں اور محلاتی سازشوں سے فائدہ اُٹھا کر انگریزوں نے پنجاب پر قبضہ کر لیا۔بعض رسمیں اور روایات قانون کا حصہ بن جاتی ہیں مگر اخلاقیات کو کبھی آئین و قانون کا حصہ نہیں بنایا جاتا۔ پاکستان کا آئین اسلامی قرار دیا گیا مگر عملاً سب کچھ اسلام سے متصادم اور اخلاقیات سے مبرا ہے ۔ دینی اور مذھبی جماعتیں ہر حکومت کا حصہ ہوتی ہیں اور حکومتی جبر، کرپشن، بد اخلاقی اور دیگر جرائم میں بھی حصہ داری کا معاوضہ وصول کرتی ہیں ۔
پچھلے چار سال سے جو ہائبرڈ نظام کایا گیا اور پھر اس کے بعد جو دس ماہ سے پاکستان میں چودہ جماعتی اتحاد حکمرانی کر رہا ہے اور قانون کی آڑ میں نہ صرف ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے بلکہ سیاسی اخلاقیات اور انسانی حقوق کا بھی جنازہ نکل چکا ہے ۔ پاکستان میں حکومت چاہیے کسی کی بھی مگر صحافیوں اور انسانی حقوق کی بات کرنے والوں پر ہمیشہ ظلم و جبر ہی ہوتا رہا ہے، سلیم شہزاد کا قتل ہو یا موجودہ حکومت کے دور میں معروف صحافی ارشد شریف کا قتل ہوا مگر ایف۔آئی۔آر لواحقین کے بجائے حکومتی مدعیت میں درج ہوئی۔ پہلی بار ایک غریب ، پسماندہ اور عالمی سطح پر مقروض ملک کی کابینہ اسی سے زیادہ وزیروں اور مشیروں پر مشتمل ہے۔ برہنہ، نیم برہنہ اور اخلاق سے گری گفتگو کی ویڈیوز اور آڈیوز ہماری سیاست کا حصہ بن چکی ہے۔ آج عمران خان اور ان کی جماعت اس آڈیو ویڈیو لیکس کا شکار ہیں تو کل تک مریم نواز جیل میں ویڈیو بنائیے جانے کی شکائت کرتی نظر آئی ۔ عمران خان کل تک جب وزارت اعظمی کی کرسی پر براجمان تھے اور ایک پیج کا ورد جاری تھا تو ان آڈیو ویڈیوز کو جائز قرار دے رہے تھے ،مگر آج اس کے سخت مخالف ہیں ۔ محترمہ مریم نواز شریف اعلانیہ کہہ چکی ہیں کہ اُن کے پاس بہت سی اہم شخصیات کی ویڈیوز موجود ہیں ۔ باخبر صحافیوں کے مطابق سابق آرمی چیف نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی ویڈیو ریکارڈ کرائی جبکہ عمران خان کا کہنا کہ ان کے پاس بھی جنرل صاحب کی ویڈیوز موجود ہیں ۔ جرم اسلام آباد میں ہوتا ہے تو ایف۔ آئی۔ آر یں چمن سے پشاور اور کراچی سے بلتستان تک درج ہو جاتی ہیں ۔ یہ سب اسلیے ہے چونکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین اس کی اجازت دیتا ہے یا پھر خاموش ہے۔ عدلیہ کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی چونکہ آئین سے بالا تر ادارے اسے پسند نہیں کرتے۔
سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس پنہور کی عدالت میں انکشاف ہُوا کہ اغوا کاری ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے جسے حکومتی وزرا کی آشیر باد حاصل ہے۔ مغویوں سے نہ صرف تاوان وصول کیا جاتا ہے بلکہ اُن کی عورتوں اور بچوں کی برہنہ تصویریں اور بد عملی کی ویڈیوز بنا کر ڈارک ویب پر ڈالروں میں فروخت کی جاتی ہیں ۔ انسانی تاریخ میں ایسے افعال کی کم ہی مثالیں ملتی ہیں ۔
سکھ، افغان اور ڈوگرہ دور ،اس کے علاوہ حالیہ مودی دور میں کشمیریوں کے ساتھ ایسا برتاو ہو رہا ہے مگر اُس کی نوعیت الگ ہے۔ سکھ، افغان ، ڈوگرے اور اب بھارتی افواج غیر ملکی نا جائز قابضین ہیں جو کسی آئین، قانون اور اخلاق کے پاسدار نہیں ۔ طالبان پر جو بھی الزامات ہیں اُن کا تعلق اُن کے اپنے ہی ملک سے ہے۔افغانوں کے پاکستان اور دیگر دنیا سے تعلقات کی بھی صدیوں پرانی تاریخ ہے جسے بدلا نہیں جا سکتا۔ امریکی صحافی ’’ سٹیو کُول ‘‘ نے اپنی تحریر ’’ ڈائیریکٹوریٹ ایس‘‘ میں کھل کر لکھا ہے کہ امریکیوں اور دیگر اتحادیوں خاصکر کینیڈین نے جب جی چاہا افغانوں کو بغیر کسی وجہ کے قتل کیا۔
بچوں، بوڑھوں ، اور عورتوں پر بھی بم برسائے جسے وہ شک کی بنیاد پر درست اور جائز قرار دیتا ہے۔ سٹیو کول لکھتا ہے کہ حامد کرزئی اس قتل و غارت گری کے سخت خلاف تھا مگر امریکہ کے پاس بھی اس دلدل سے نکلنے کا کوئی حل نہ تھا جبکہ طالبان کی مزاحمت اُن کا بنیادی حق تھا۔ مصنف نے اگرچہ اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے عراق اور افغانستان پر قبضے کی مذمت تو نہ کی مگراتحادیوں کے کردار کی تعریف بھی نہ کی۔
موجودہ تاریخ میں سب سے گھناوناں کردار مکتی باہنی اور اُن کی حمائت میں نہتے اور پر امن پاکستانیوں کے خلاف لڑنے والے بھارتیوں کا ہے۔ بنگلہ دیشی حکومت نے جو الزامات پاکستان آرمی پر لگائے اُسکا پول خود مودی نے کھول دیا اور ڈھاکہ جا کر حسینہ واجد کے سامنے اقرار کیا کہ ہم نے عوامی لیگ کیساتھ ملکر پاکستان دولخت کیا اور جو کچھ پاکستانیوں کے ساتھ ہُوا اُس میں بھارت پوری طرح ملوث تھا۔ اِسی طرح عوامی لیگ کے پراپیگنڈہ کی شرمیلا بوس نے دھجیاں بکھیرتے ہُوئے مکتی باہنی اور عوامی لیگی ورکروں کی درندگی دُنیا کے سامنے رکھ دی ۔ اگر عالمی ضمیر نام کی کوئی چیز ہوتی تو بنگلہ دیش اور بھارت اقوامِ عالم کی منظوری سے سفاک اور انسانیت کے قاتل ملک قرار پاتے۔
جناب مسعود مفتی صاحب ۱۹۷۱ میں سابق مشرقی پاکستان میں سیکرٹری تعلیم تھے ۔ آپ نے اپنی تصنیف ’’ریزے‘‘ اور دیگر کتب میں جو لکھا وہ اُن کا ذاتی تجربہ تھا۔ مکتی باہنی ، بھارتی ایجنٹوں اور عوامی لیگی سیاسی ورکروں نے جس درندگی کی انتہا کی وہ ناقابلِ بیان ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ سب اب حکومتِ پاکستان محض سیاسی مخالفت اور پسند و نا پسند کی بنیاد پر اپنے ہی لوگوں کیساتھ کیوں کر رہی ہے۔ لوگوں کی برہنہ ویڈیوز بنانا دُنیا کے کسی بھی سیاسی اور سماجی کلچر کا حصہ نہیں اور نہ ہی ایسے لوگ سیاستدان کہلوانے کے حق دار ہیں ۔ ستم تو یہ ہے کہ یہی لوگ ملک کے حکمران اور طاقتور شخصیات ہیں جو کاروبار ریاست بھی چلا رہے ہیں۔سوال یہ بھی ہے کہ آخر کار حکومت اور حکومتی شخصیات قانون اور آئین کی آڑ میں ایسی روایات کیوں ڈال رہی ہیں جو آنے والے وقت میں خود ان کے لیے مصیبت کا باعث بن سکتی ہیں ۔ عمران خان ہوں یا محترمہ مریم نواز تھوڑا وقت نکال کر خواجہ حسن نظامی کی تحریر ’’بیگمات کے آنسوں‘‘ اور مولانا فضل الرحمٰن جماعتِ اسلامی بنگلہ دیش کا حسینہ واجد کے ہاتھوں ہونے والا حشر بھی دیکھ لیں۔اعلیٰ عدلیہ میں تقسیم بھی پاکستان کی سلامتی و یکجہتی کیلئے کوئی اچھا شگون نہیں اور نہ ہی دیگر اداروں کا رویہ ملکی سلامتی کے حق میں ہے۔ اداروں کے اندر ٹوٹ پھوٹ اور خاموشی کسی بڑے سانحہ کا باعث بن سکتی ہے۔ آج شہباز گِل کو برہنہ کیا گیا تو کل اور بہت سارے شہباز ننگے ہو سکتے ہیں ۔ کل عمران خان نے آج کے حکمرانوں کو جیلوں میں رکھا تو آج عمران خان پر جگہ جگہ پرچے کٹ رہے ہیں تو آنے والے کل میں کوئی دوسرا بلکہ ہر وزیر اعظم مصر کے بادشاہوں کی طرح جان بچاتا پھرے گا یا پھر روایات اور قوانین کی بھینٹ چڑھا دیا جائے گا۔
جناب زرداری اور بلاول زرداری ’’چچ نامہ‘‘ پڑھ لیں اور تاریخ کے آئینے میں دیکھیں کہ وہ کون بے نام تھے جو مکلی کے شاہی قبرستان میں عالیشان مقبروں اور قبروں کا شہر بساے ہوئے ہیں۔
شیخ سعدی فرماتے ہیں :
قارون ہلاک شُد ، کہ چہل خانہ گنج داشت نوشین رواں نہ مرد کہ نام نِکو گزاشت قارون کے پاس چالیس خزانے تھے مگر وہ مر گیا۔ نو شیر وان عادل نہیں مرا کیونکہ وہ نیک نام چھوڑ گیا۔ اب اداروں، عہدیداروں ، سیاستدانوں اور عادلوں کی مرضی ہے کہ وہ مردہ زندگی جینا چاہتے ہیں یا مر کر زندہ رہنا چاہتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے