اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان ایک ایٹمی صلاحیت رکھنے والی قوت ، دُنیا کی بہترین اور تجربہ کار فوج،باصلاحیت اور ذھین نوجوان طبقے کی حامل اور قدرتی ، معدنی اور زرعی وسائل سے مالا مال ریاست ہَونے کے باوجودمحض چند سالوں کے اندر مکمل تباہی و بربادی کی جانب جا رہی ہے ۔ بائیس کروڑ سے زیادہ مسافروں سے بھرا جہازاچانک معاشی ، معاشرتی ، اخلاقی، سیاسی اور بے یقینی کے بھنور میں پھنس گیا۔ پاکستان میں دانشوری کے زعممیں مبتلاصحافیوں اور خود ساختہ عقلمندوں کا ایک ٹولہ عمران خان کو اور دوسرا امریکہ کو اس تباہی کا ذمہ دارٹھہرا رہا ہے مگر اپنے گھٹیا اور گھناونے کردار اور ہوس و حرص کے لا علاج مرض پر توجہ نہیں دیتا ۔ چودہ جماعتیحکمران اتحاد کے سربراہان ایک سال پہلے عمران خان کو سلیکٹیڈ وزیراعظم کہتے نہیں تھکتے تھے اور اس کا ذمہ دارفوج کو ٹھہراتے تھے۔ کیا ذوالفقار علی بھٹو اور میاں نواز شریف فوج کی پیداوار نہیں؟ اور جناب مولانا فضل الرحمٰن کےوالد مفتی محمود (مرحوم) ایوب خان کے حامی اور مادرِ ملت کے مخالف نہ تھے۔ اُنہیں جنرل ضیا الحق اور جنرلمشرف کی مہربانیاں بھی بھول گئیں جس کے دور حکومت میں اُنہیں لیڈر آف اپوزیشن کے علاوہ صوبہ خیبرپختونخواہ کی حکومت اور افغانستان میں تجارت نما سمگلنگ کی کھلی چھٹی دی گئی۔
عمران خان کے آئے دن بدلتے بیانیے اور یو ٹرنز ایک طرف جبکہ دوسری طرف چودہ جماعتی اتحاد کی سیاست پر چودہکتابیں اور ہر کتاب کی چودہ جلدیں لکھی جائیں تب بھی کم ہیں ۔ اس اتحاد میں وہ سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں جو ۱۹۴۷سے پہلے موجود تھیں اور لفظ پاکستان کو گناہ تصور کرتی تھیں۔ اس ضمن میں جناب مفتی محمود(مرحوم) کا بیان تاریخ کا حصہ ہے۔ آجکل پاکستانی سیاسی اور صحافتی ادارے جنرل باجوہ کے بیانات پر چسکہ بازی میں مصروفہیں جبکہ جنرل باجوہ ایک طرف صحافیوں کو بلا کر ان سے گپ شہ لگاتے ہیں عمران خان کے الزامات کا جواب دیتےہیں اور ساتھ ہی ان انٹرویوز کی تردید بھی جاری کر دیتے ہیں ۔ اِن اِنٹرویوز کے تبصرہ نگار ایک دوسرے کی تعریفوںکے پُل نہیں بلکہ بند باندھ رہے ہیں کوئی شاہد میتلا کو اور کوئی طلعت حسین کو اور اس سے پہلے ایک طبقہ صحافیاںو دانشوراں جاوید چودھری عرف دور حاضر کے ابنِ بطوطہ کو صحافت کا روشن مینار قرار دیتا رہا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اگر جرنیل ہی سارے فساد کی جڑ ہیں تو آپ اُن کے دفتروں اور گھروں کے چکر کیوں لگاتے ہو؟ سیاسی گھرانوں اور ڈیلروں کے پیغامات لیکر کیوں جاتے ہواور پھر آپ کے سیاسی ڈیلر رات کے اندھیرے میں جرنیلوںسے ملنے اور اقتدار کا سرٹیفکیٹ اور سہولیات کی بھیک مانگنے کیوں جاتے ہیں؟کچھ زیادہ وقت نہیں گزرا جب محمد زبیر سابق گورنر سندھ ، جنرل باجوہ سے کچھ مانگنے گئے اور ناکام لوٹے۔ پھرتردید کی تو ڈی جی (آئی ایس پی آر) نے ملاقات کی تصدیق کر دی۔ اور ایسا ہی عمل جناب عمران خان بھی صدرعلوی کے زریعے کر چکے ہیں ۔
ہمارے صحافی اور خود ساختہ سیاسی ڈیلر ، خاندان اور اُن کے قصیدہ خواں آخر کیوں نہیں سمجھتے کہ اقتدار ِاعلٰیتقسیم کرنے اور بانٹ کر کھانے کی چیز نہیں ۔ اقتدار کا سرٹیفکیٹ عوام اور پھر کسی دوسری صورت میں مجلس شوریٰکا اختیار ہے نہ کہ فوج، امریکہ یا پھر کسی دوسرے ملک اور ایجنسی کا۔ جرنیلوں اور غیر ملکی طاقتوں سے مانگےہوئے اقتدار کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی اور ایسا مقتدر اعلیٰ ملک اور قوم کا ایسا ہی حشر کرتا ہے جو ایک پیج والی پیٹی آئی اور اس کے بعد چودہ جماعتی اتحاد نے پاکستان کا کر دیا۔ کل تک عمران خان اعلی شخصیات کی جاسوسی اور آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ کو درست ثابت کر رہے تھے اور آج وہی کامیہ ن لیگ کر رہی ہے ۔ صبح و شام عمران عمران کی گردان اور پھر آڈیو ویڈیوز کی دھمکیاں ، یاد رکھو آخر کار یہ تمامخود تمہارے گلے کا پھندہ بن جائینگی۔ ملک کے ہر ادارے میں تقسیم ہے ۔ عدلیہ اور فوج نے بھی اپنا مقام گنوا دیا ۔ مگرجب عدلیہ اور فوج کی بے توقیری حد سے بڑھ جائیگی تو پھر نہ فوج اور نہ عدلیہ کام آئی گی اور نہ ہی قصیدہخوانوں اور چرب زبان صحافیوں کی دانشوری پر کوئی کان دھرے گا سقراط نے حکمران کی خوبیوں اور اھلیت کےضمن میں لکھا کہ اسے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اعلیٰ عصبیت کا حامل ہونا چاہیے۔ دولت مند اور کسی بڑے قبیلے سے تعلقحکمران کو متعصب ، اقربأ پرور اور ہوسِ زر میں مبتلا کر دیتا ہے ۔ یہودیوں نے اُمراٗ اور سرداروں کی حکومت قائم کی تو جالوت کے ہاتھوں یکے بعد دیگر شکست خوردہ ہو کر بکھر گئے۔حزیمت اسقدر بڑھ گئی کہ تابوت سیکنہ سے بھی محروم ہو گئے۔ مایوس اور بے توقیر ہو کر حضرتِ اشموعیل ؑ کے پاس گئے تو آپ ؑ نے حضرتِ طالوت کو بادشاہ مقرر کر دیا ۔ اہلِ یہود نےسوال کیا کہ طالوت عام آدمی ہیں ۔ اَن کے پاس دولت نہیں اور نہ کسی قبیلے کے سردار ہیں۔ آپؑ نے فرمایا کہ حکمرانیکیلئے طاقت اور علم کی ضرورت ہے نہ کہ دولت اور سرداری کی۔ سردار عقلیت اور علمیت کی وجہ سے نہیں بلکہ جبر واستحصال کی بنیاد پر بنتے ہیں ۔ سرداروں کی عصبیت میں فضیلت، علمیت، عقیدت اور سیاست کا فقدان ہوتا ہے۔
سرداری نظام استحصال کی بنیادوں پر استوار ہوتا ہے۔ جس میں قوت شہوانیہ ، قوتِ شیطانیہ اور قوتِ غضبیہ یعنی بےحیائی اور برائی کا عنصر غالب ہوتا ہے۔ ایسے لوگ اگر نا جائز ذرائع استعمال کر کے حاکم ، عادل اور منتظمین بنجائیں تو وہ ظلم و تعدی پر کمر بستہ ہو کر درندوں کی طرح کھانے اور پھاڑنے کے ضابطے اور قوانین بنا کر انسانوںسے جینے کا حق چھین لیتے ہیں ۔ ایسے سرداروں ، حکمرانوں اور اِن کی بنائی ہوئی مجلس یا پارلیمینٹ ایسے ہی درندہصفت انسانوں پر مشتمل ہوتی ہے جو اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سر کشی کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ ایسےحکمران ، اُن کی مجلس اور ان کی حمائت یافتگان صریحاً اللہ کے حکم کے باغی اور شیطان کےپیروکار ہوتے ہیں۔قرآنِ کریم کی سورۃ النحل آیت 94/ 89میں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے انصاف کرنے کا، اِحسان یعنی بھلائی کرنے کا ،قرابت داروں کا خیال رکھنے کا ، فحاشی اور برائی سے منع کرنے کا ، نا معقولیت اور سرکشی سے بچنے اور عہد پوراکرنے کا۔ بعض علما کرام کے بیان کے مطابق حکمران کے نزدیک قرابت داری کا مطلب ملک میں بسنے والے سارےشہری ہیں جن کے ساتھ عدل، احسان اور ایثار کا معاملہ یکساں یعنی عدل کے ترازوں میں صحیح اور برابر ہوناچاہیے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ اِن آیات مبارکہ کی اسقدر وسعت ہے کہ ان کے فوائد، براکات و ثمرات لکھنا انسان کے بس کیبات نہیں ۔ حضرتِ عمر ؓ کا نظام ِ حکومت اِن ہی بنیادوں پر استوار تھا جن کے ثمرات سے اسلامی ممالک خاصکر اسلامکے نام پر دھوکہ دینے والے پاکستانی حکمران ، سیاستدان ، جج، جرنیل، صحافی، دانشور اور دین کے ٹھیکیدار خودساختہ علمأ و مشائخ محروم ہیں ۔ یہودیوں کی قائم کردہ سرداروں کی حکومت اور پاکستانی آئین میں موجودہ چودہ جماعتی اتحاد کے بانیوں کی بنائیاٹھارویں آئینی ترمیم میں بڑی حد تک مماثلت ہے۔ چودہ جماعتی اتحاد در حقیقت چودہ سرداروں کی ہی حکومت ہے جنکے اختیارات لا محدود اور آئین سے ماوراٗ ہیں ۔ بیان کردہ آیات کی تفسیر میں لکھا گیا ہے کہ جب قوتِ شہوانیہ، شیطانیہ اور غضبیہ کا غلبہ ہو جائے تو عقل سلیم کاخاتمہ ہو جاتا ہے۔ اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بھی معقول پر نا معقول کو ترجیح دیکر مادی مفادات کی جانب راغبہو جاتے ہیں ۔
پاکستان کے موجودہ حالات ایک طویل منصوبہ بندی کا حصہ ہیں جسے تہذیبوں کے تصادم، نیو ورلڈ آرڈر، اسلاموفوبیا اور عالمی دھشت گردی کے تناظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ بیان کردہ اصطلا حات کا مرکزی نقطہ پاکستان ہیتھا جس کے حل کی کئی تجاویز عالمی سطع پر زیرِ بحث ہیں ۔ عمران خان جو کل تک امریکہ کو اپنی حکومت کے جانےکا الزام دیتے تھے آج ان کی جماعت زلمے خلیل کے ٹویٹ کو ری ٹویٹ کر کے معلوم نہیں کس کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں ۔دوسری طرف بلاول بھٹو کا طویل دورہ امریکہ اور پھر حسین حقانی کی میزبانی میں کئی روز تک منظر سے غائب رہنےکے بعد پی ڈی ایم میں کلیدی کردار کے بعد اخراج، سندھ ہاوس اور میریٹ ہوٹل اسلام آباد میں قوتِ شہوانیہ اورشیطانیہ کے کھیل سے لیکر موجودہ معاشی، سیاسی، اخلاقی گراوٹ ایک ہی منزل کا تعین کر رہی ہیں جسکا انجامانتہائی بھیانک ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں کوئی عوامی اور حکومتی ادارہ ایسا نہیں جو تنزلی اورتقسیم کا شکار نہ ہو ۔ پاکستان ایک ایسا جہاز ہےجسکا کوئی کپتان نہیں ۔ عدلیہ سے اُسکی قوتِ فیصلہ چھینی جا رہی ہے اور انتظامیہ میکاولین اصولوں پر گامزن عوامکا شکار کر رہی ہے۔ بقول ارسطو ۔ ملک کی محافظ فوج کو رزق فراہم کرنے والی رعایا خود فاقہ کشی کا شکار غیرمعیاری آٹے کا تھیلہ حاصل کرنے کیلئے حکمرانوں کے بچھائے جال میں پھنس کر عزتِ نفس اور غیرت ایمانی کا سودا کرچکی ہے اور دانشور باجوہ ڈاکٹرین کی گھتیا سلجھانے اور ایک دوسرے کو داد دینے میں مصروف ہیں ۔ عوام کو عدل کامہربان سائیہ فراہم کرنے والی عدلیہ خود حکمرانوں کے بے عدل سائے کی چھتری میں چھپ رہی ہے۔ بائیس کروڑمسافروں سے بھرا جہاز کسی برمودا ٹرائی اینگل کی طرف تیزی سے رواں دواں ہے جس میں زندگی بچانے والی کشتیاںاتنی ہی ہیں جن میں حکمران خاندانوں کے افراد بیٹھ کر امن و خوشحالی کے جزیروں پر اتر جائینگے۔ ان حالات میں ایک آواز پاکستانی فضاوں میں گونج رہی ہے کہ ’’کوئی ہے جو ہمیں پچا لے‘‘ مگر ہر طرف سناٹا ،مایوسی اور خاموشی ہے۔ پچانے والے جب خود ڈبونے والوں کے ساتھ ہوں تو بچ جانا محض معجزہ ہی ہو سکتا ہے۔