متنازع موضوعات؛ صرف تنقید ہی حل نہیں

’’توبہ، اللہ معاف کرے، یہ ڈرامہ کے نام پر کیا گندگی پھیلائی جارہی ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں، قیامت کی نشانیاں ہی یہ، عجیب ڈھٹائی سے گناہوں کی ترغیب دی جارہی ہے۔‘‘ ایسے بہت سے جملے ابھی باقی ہیں جو سوشل میڈیا پر دکھائی دیے۔گزشتہ دنوں سامنے آنے والی ایک ویب سیریز ’’برزخ‘‘ کو دیکھنے والوں نے شروع میں تو پسند کیا مگر جیسے جیسے یہ ڈرامہ آگے بڑھتا گیا اسی رفتار سے یہ تنازعات کا شکار ہوتا گیا۔ یہ ڈرامہ پاکستانی ہدایت کار عاصم عباسی نے لکھا ہے اور بھارتی اسٹریمنگ ویب سائٹ زی فائیو پر اسے نشر کیا گیا۔پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کا موقف بھی سامنے آیا کہ جس آن لائن پلیٹ فارم پر یہ نشر کیا جارہا ہے وہ پیمرا کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا اور یہ ڈرامہ پیمرا کے کسی بھی لائسنس یافتہ پلیٹ فارم/ سیٹلائٹ چینل سے نشر نہیں کیا جارہا اور اس پر کسی بھی قسم کا ایکشن نہیں لے سکتے۔
یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی بھی ملک یا بیرون ملک بیٹھا شخص خطیر سرمایے سے تفریح کے نام پر اردو زبان میں ایک ایسا ڈرامہ پیش کرتا ہے جس سے عوام بھڑک اٹھیں یا ایسی روایات کی حوصلہ افزائی ہو جو اس معاشرے میں جرم کے زمرے میں آتی ہیں تو انہیں روکنا اس ملک کے کسی ادارے کے بس میں نہیں ہوگا، کیونکہ اس پر سرے سے قانون سازی ہی موجود نہیں۔ ایک ایسا آن لائن پلیٹ فارم جس کی پاکستان میں کوئی قانونی حیثیت ہی نہیں پھر وہ کس طرح اپنی نشریات پھیلا رہا ہے اور ایک ایسے ٹرینڈ کو ہوا دے رہا ہے جس سے لوگوں میں بے چینی اور ہیجان بڑھ رہا ہے۔ کیا یہ سب ڈیجیٹل دہشت گردی میں شمار نہیں ہوگا اور اگر یہ سلسلہ چل پڑتا ہے اور کوئی بھی ملک یا شخص ڈرامہ، تخلیقی کاوش یا فن کا لبادہ اوڑھ کر اپنے پروپیگنڈہ کو دوسرے ملک میں دکھانا شروع کردے تو اس کے اثرات کیا ہوں گے؟ہر دور میں ڈرامہ لکھنے والے، بنانے والے اور اس میں اداکاری کرنے والوں کے ذہن میں یہ بات موجود ہوتی ہے کہ اس نے جو بھی بنا کر پیش کرنا ہے اس میں تفریح بھی ہو اور معاشرے کی عکاسی بھی اور ملکی ثقافتی ورثہ کے ساتھ ساتھ اچھائی اور برائی کا توازن بھی اس طرح برقرار رہے کہ اسے جب آن ایئر کیا جائے تو لوگوں کو تفریح بھی ملے اورمعلومات بھی، نہ کہ ان میں اشتعال انگیزی اور بدی کی طرف کشش محسوس ہو۔ کیونکہ ڈرامہ انڈسٹری کو اپنی حدود و قیود کے ساتھ ساتھ دیکھنے والوں کی پسند اور ناپسند کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے اور دوسرا اہم پہلو اس میں جنہوں نے سرمایہ کاری کی ہوتی ہے ان کا تحفظ بھی ہوتا ہے۔ اس سارے سلسلے کو کامیاب اور منافع بخش رکھنے کےلیے کچھ لوازمات بھی شامل کرنے پڑتے ہیں جبکہ شہرت یافتہ اداکاروں کے بھاری بھرکم معاوضے الگ۔جیسے جیسے وقت گزرتا ہے اسی رفتار سے تبدیلیاں اور جدت معاشروں میں آتی ہیں۔ جس طرح سائنسی مضامین میں نئی نئی تحقیقات آتی جاتی ہیں یا ٹیکنالوجی جدید سے جدید تر ہوتی چلی جاتی ہے، بالکل ویسے ہی آرٹ بھی جمود یا ٹھہراؤ کا شکار نہیں رہتا اور یہ معاشرے کی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ چلتا رہتا ہے اور معاشرے کی ناہمواریاں، جرائم، نفسیات، ضروریات، خاندانی نظام ہی اس کے موضوعات کی اساس رہی ہے اور رہے گی۔ ایسے میں برزخ یا اس جیسے بہت سے ڈرامے یا فلمیں معاشرے کے رنگوں کو دکھاتی رہیں گی۔
ہم تسلیم کریں یا نہ کریں مگر آج بھی آپ کسی پولیس اسٹیشن میں چلیں جائیں وہاں آپ کو اسی معاشرے کے خوش نما چہرے جنسی جرائم اور غلاظت کے ساتھ حوالات اور جیلوں میں دکھائی دیں گے۔ جرائم یا گناہ آج بھی وہی ہیں جو ہزاروں لاکھوں سال پہلے تھے اور یہ اس دنیا کے خاتمے تک جاری و ساری رہیں گے۔ آپ معاشرے کی رحم دلی اور نیکی دیکھنا چاہتے ہیں تو رات کو کسی ٹریفک سگنل پر کسی بھکارن کو جس نے بازاری مردوں کی گندی نظروں سے بچنے کےلیے خود کو سیاہ چادر میں لپیٹا ہو اور نقاب بھی سخت ہو اس سے پوچھ لیں کہ بھیک دینے والا، نظروں سے ان کے باپردہ جسم کا ایکسرے کرکے، گاڑی روک کر، شیشہ نیچے کرکے پہلا سوال کیا کرتا ہے؟کسی بھی خواجہ سرا کے شب و روز ہم سب جانتے ہیں بلکہ ایک دن میں کتنے لوگ ان سے تفریح اور اپنی جنسی بھوک مٹاتے ہیں، اس کی گنتی تو انہیں خود بھی ٹھیک سے یاد نہیں ہوتی۔ اس طرح نوعمر لڑکوں کا استحصال ہمارے معاشرے میں ہوتا ہے اور یہ بھی کوئی نئی بات نہیں۔ بات کوئی بھی نئی نہیں ہے۔ یہ وہ بد رنگ ہیں جنہیں ہم دیکھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں اور انہیں زیر بحث نہ لاکر انہیں زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ جب تک ہم انہیں تسلیم نہیں کریں گے، انہیں جرم کا درجہ نہیں دیں گے اس وقت تک کیسے اس غلاظت کو معاشرے سے نکال سکیں گے۔ یہ جرم ہے مگر جب اس پر کوئی قلم چلائے یا اس کی منظرکشی دکھائے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ برائی پھیلا رہا ہے۔
ہر معاشرے میں بہت سے رنگ یا سچائیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جو بد رنگ ہونے کے باوجود ایک وجود رکھتی ہیں، ان کا ایک پس منظر اور مقصد ہوتا ہے، چاہے ہم انہیں تسلیم کریں یا نہ کریں۔ سعادت حسن منٹو نے اسے یوں بیان کیا کہ ’’اگر ہم یہ کہانیاں برداشت نہیں کرسکتے تو اس کا مطلب ہے کہ معاشرہ ناقابل برداشت ہے، میں کون ہوں اس معاشرے کے کپڑے اتارنے والا جو خود ہی ننگا ہے، میں اسے ڈھانپنے کی کوشش بھی نہیں کرتا، کیونکہ یہ میرا کام نہیں، یہ تو لباس بنانے والوں کا کام ہے۔‘‘اس جیسے جتنے بھی ڈراموں پر جتنی تنقید ہوگی اگر ان پر مثبت انداز سے سوچیں تو یہ نتیجہ نکلے گا کہ منفی عمل کو منفی انداز سے دکھانے کا مقصد برائی کو پھیلانا نہیں بلکہ اس پر قابو پانا ہے، اسے روکنے کےلیے قدم بڑھانا ہے۔ ایسے ڈرامے ہمارے معاشرے میں مثبت تبدیلیاں لانے کا بھی سبب بنتے ہیں کیونکہ اگر سیاست سے تنقید کا پہلو نکال دیا جائے تو پھر وہ آمریت بن کر نظام کو کھا جاتی ہے۔ جنسی تشدد کا شکار صرف نوعمر لڑکیاں نہیں بلکہ نوعمر لڑکے بھی بنتے ہیں۔ یہ سنگین جرائم کے زمرے میں آتا ہے لیکن ہوتا کیا ہے کہ سب سے پہلے ماں باپ یا معاشرہ متاثرہ شخص کو ہی ذمے دار ٹھہراتا ہے اور اسے چپ رہنے کا کہا جاتا ہے کہ بات باہر نہ نکلے، کیونکہ اس سے بدنامی ہوگی اور یوں اس پر پردہ ڈال کر اس جرم کو جڑیں فراہم کی جاتی ہیں۔ایسے ڈرامے بدی کی تشہیر نہیں کرتے بلکہ نشاندہی کرتے ہیں کہ اس پر آواز اٹھاؤ، قوانین سخت کرو، پکڑ دھکڑ کرو، یہاں یہ ہورہا ہے اور جب ایسا ہو رہا ہو تو خود کو بچاؤ۔ حکومتی سطح پر جنسی استحصال کے تدارک کےلیے پولیس اسٹیشن میں ایک شکایات سیل ہونا چاہیے، ایک آن لائن ایپلی کیشن عوام کےلیے بنائی جائے تاکہ جہاں کوئی بھی شہری جب کسی مقام پر یہ جرم ہوتا دیکھے تو وہ توبہ استغفار پڑھتے ہوئے آگے بڑھنے کے بجائے آن ریکارڈ اسے سامنے لائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے