مودی سرکار کی ہندوتوا پالیسی؛ بھارت میں مسلمان طلبہ بھی غیر محفوظ

مودی سرکار کی ہندوتوا پالیسی کے نتیجے میں بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ ساتھ مسلمان طلبہ بھی غیر محفوظ ہیں۔بی جے پی کی کٹھ پتلی حکومت کی انتہا پسند پالیسیوں نے مسلمان طلبہ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ تعلیم جیسے حساس شعبے میں جہاں طلبہ کی حفاظت یقینی سمجھی جاتی ہے، مودی سرکار کے زیر سایہ طلبہ کے ساتھ امتیازی سلوک کا سلسلہ جاری ہے۔بھارت میں آئی آئی ٹی کھڑگپور جیسے نامور ادارے بھی مسلمان مخالف سرگرمیوں میں ملوث پائے جا رہے ہیں ۔ مکینیکل انجینئرنگ کے تیسرے سال کا طالب علم فیضان 14 اکتوبر 2022 کو لالہ لاجپت رائے ہاسٹل کے ایک کمرے میں مردہ پایا گیا۔ آئی آئی ٹی کھڑگپور نے فیضان احمد کے قتل کو خودکشی کا رنگ دے کر کے دبانا چاہا اور انصاف کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی ۔فیضان احمد کی والدہ 2 سال سے جوان بیٹے کے قتل کیس میں انصاف کے حصول کے لیے جدو جہد کر رہی ہیں۔ فیضان احمد کی والدہ کے اصرار پر کلکتہ ہائی کورٹ نے مئی 2023 میں دوبارہ پوسٹ مارٹم کرنے کا حکم جاری کیا ۔ دوسری پوسٹ مارٹم رپورٹس سے ثابت ہوا کہ فیضان کی والدہ کا دعویٰ درست تھا اور فیضان کی موت ایک منصوبہ بندی کے تحت قتل تھا ۔ریگنگ کے نام پر قتل ہونے والے مسلمان طالب علم کے مبینہ قاتلوں جن میں 5 طلبہ اور پروفیسرز شامل ہیں، کو ریگنگ کے الزامات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے مگر اس کے باوجود وہ ضمانت پر ہیں۔ 2 سال بعد دوسرے پوسٹ مارٹم میں خوفناک انکشاف ہوا کہ فیضان احمد کے جسم پر گولی لگنے کے زخم، متعدد چاقو کے وار اور سینے پر بھی بھاری ہتھیار سے مارا گیا۔
فیضان احمد کی والدہ کا کہنا تھا کہ آئی آئی ٹی کھڑگپور کی انتظامیہ اس قتل کو خودکشی ظاہر کر کے اصل حقائق کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔ آئی آئی ٹی کھڑگپور کی انتظامیہ کی غلط بیانیوں کی وجہ سے انصاف کے حصول کے لیے ہمیں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔واقعے سے متعلق حقائق کو چھپانے کے لیے 3 اکتوبر کو ہائی کورٹ میں مقررہ سماعت کو ملتوی کر کے ججز کی تبدیلیاں بھی کی گئیں اور سماعت ملتوی کر کے 7 اکتوبر کو مقرر کر دی گئی۔مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد ہی سے بھارت میں مذہب کی بنیاد پر تشدد کا رجحان بڑھتا چلا آیا ہے۔ فیضان احمد جیسے نوجوان طالب علم کا بے رحمی کے ساتھ قتل انتہا پسندی کا ایک اور ایسا واقع ہے جس نے مودی کی انتشار پرست پالیسیوں کو دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے