چیمپئنز ٹرافی کرکٹ کے میدان میں ایک اہم بین الاقوامی ٹورنامنٹ ہے، اور 2025 میں یہ ٹورنامنٹ پاکستان میں منعقد ہونے جارہا ہے۔ لیکن حالیہ دنوں میں، بھارت نے اس ایونٹ میں شرکت سے انکار کردیا ہے اور انکار کا جواز سیکیورٹی اور سیاسی خدشات کو بنایا ہے۔ مزید برآں، بھارت نے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) پر دباؤ ڈال کر پاکستان کو ٹرافی مظفرآباد، ہنزہ، اور دیگر شمالی علاقہ جات لے جانے سے روک دیا ہے۔ ان فیصلوں کے اثرات نہ صرف کرکٹ بلکہ سیاسی میدان میں بھی گہرے ہیں۔بھارت کی جانب سے چیمپئنز ٹرافی 2025 میں شرکت سے انکار محض کھیل کے میدان تک محدود نہیں، اس فیصلے کی وجوہات میں سیاسی حالات اور خطے میں کشیدگی شامل ہیں۔ بھارت کا مؤقف ہے کہ پاکستان میں ان کے کھلاڑیوں کی حفاظت کو یقینی بنانا ممکن نہیں، اور اس کی وجہ ملک میں ہونے والے ماضی کے دہشت گردی کے واقعات کو بتایا گیا ہے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ حالیہ برسوں میں پاکستان نے کرکٹ کی میزبانی کے حوالے سے نمایاں بہتری دکھائی ہے۔ کئی بین الاقوامی ٹیموں نے پاکستان کا دورہ کیا ہے، جن میں آسٹریلیا، انگلینڈ، نیوزی لینڈ، اور سری لنکا شامل ہیں۔ ان ٹیموں نے پاکستان میں سیکیورٹی کے انتظامات کی تعریف کی، اور یہ واضح کیا کہ پاکستان میں کرکٹ کا ماحول دوبارہ بحال ہوچکا ہے۔بھارت کا انکار صرف سیکیورٹی خدشات تک محدود نہیں، بلکہ اس کے پیچھے سیاسی محرکات بھی موجود ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ تنازعات، خاص طور پر کشمیر کے مسئلے پر، اس فیصلے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بھارت کا مؤقف یہ بھی رہا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ کسی بھی ایسی سرگرمی میں شریک نہیں ہوسکتا جو سیاسی یا علاقائی تنازعات کو ہوا دے۔
چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی کرنے والے ممالک کےلیے یہ روایت رہی ہے کہ ٹرافی کو ملک کے مختلف شہروں میں لے جایا جاتا ہے تاکہ عوام کو اس ایونٹ کا حصہ بنایا جاسکے۔ پاکستان نے بھی فیصلہ کیا کہ ٹرافی کو مظفرآباد، ہنزہ، اور دیگر شمالی علاقوں میں لے جایا جائے، جو پاکستان کے سیاحتی مقامات کے طور پر مشہور ہیں۔لیکن بھارت نے اس پر سخت اعتراض کیا اور آئی سی سی پر دباؤ ڈال کر پاکستان کو ان علاقوں میں ٹرافی لے جانے سے روک دیا۔ بھارت کا دعویٰ ہے کہ مظفرآباد اور شمالی علاقہ جات متنازعہ علاقے ہیں، اور وہاں ٹرافی لے جانے سے یہ تاثر جائے گا کہ یہ علاقے پاکستان کا حصہ ہیں۔آئی سی سی کا یہ فیصلہ کرکٹ کے شائقین اور مبصرین کےلیے حیرت کا باعث ہے۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ کسی کرکٹنگ تنظیم نے کسی ملک کے سیاسی دباؤ میں آکر ایسا فیصلہ کیا ہو، لیکن یہ معاملہ خاص طور پر حساس ہے کیونکہ اس سے نہ صرف کھیل بلکہ خطے کی سیاست پر بھی اثرات مرتب ہوں گے۔بھارت کے ان اعتراضات کے کئی پہلو ہیں جنہیں سمجھنا ضروری ہے۔بھارت نے کھیل کے میدان میں بھی سیاست کا رنگ شامل کردیا ہے۔ یہ رویہ صرف چیمپئنز ٹرافی تک محدود نہیں؛ بھارت نے ماضی میں بھی پاکستان کے ساتھ کھیلنے سے گریز کیا ہے، چاہے وہ دو طرفہ سیریز ہوں یا آئی سی سی ایونٹس۔بھارت کے اعتراضات کا مرکزی نکتہ مظفرآباد اور کشمیر ہے۔ بھارت ان علاقوں کو اپنے ملک کا حصہ سمجھتا ہے، جبکہ پاکستان کا موقف مختلف ہے۔ اس تنازعے کو کرکٹ کے میدان میں لے جانا خطے میں کشیدگی کو مزید بڑھا سکتا ہے۔
بھارت نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر تنہا کیا جائے۔ چاہے وہ سفارتی میدان ہو یا کھیل، بھارت کی پالیسی یہی رہی ہے کہ پاکستان کو مشکل میں ڈالا جائے۔پاکستان کےلیے چیمپئنز ٹرافی 2025 ایک اہم موقع ہے۔ یہ نہ صرف کرکٹ کی بحالی کا مظہر ہوگا بلکہ دنیا کے سامنے پاکستان کا مثبت تاثر پیش کرے گا۔ پاکستان نے اس معاملے پر واضح موقف اپنایا ہے کہ مظفرآباد اور شمالی علاقہ جات اس کے حصے ہیں، اور ٹرافی کو ان علاقوں میں لے جانا ایک بالکل معمول کی بات ہے۔پاکستانی کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے بھارت کے اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایونٹ کھیل کے میدان کا ہے، اور اسے سیاست سے دور رکھنا چاہیے۔ پی سی بی نے آئی سی سی پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے فیصلوں میں غیرجانبداری کا مظاہرہ کرے اور کسی ملک کے سیاسی دباؤ میں نہ آئے۔انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کو کرکٹ کے بہترین مفاد میں فیصلے کرنا چاہیے، لیکن بھارت جیسے طاقتور کرکٹنگ ملک کے اثر و رسوخ کی وجہ سے اکثر ایسے فیصلے دیکھنے کو ملتے ہیں جو دیگر ممالک کےلیے نقصان دہ ہوتے ہیں۔آئی سی سی کا یہ فیصلہ کہ پاکستان کو ٹرافی ان علاقوں میں لے جانے سے منع کیا جائے، کھیل کی روح کے منافی ہے۔ یہ فیصلہ اس تاثر کو تقویت دیتا ہے کہ آئی سی سی بھارت کے دباؤ میں آکر غیرجانبداری سے ہٹ رہی ہے۔
پاکستان میں کرکٹ ایک جذبہ ہے، اور چیمپئنز ٹرافی جیسے ایونٹ کا انعقاد عوام کے لیے ایک خوش آئند موقع ہے۔ لیکن بھارت کے اس رویے اور آئی سی سی کے فیصلے نے شائقین میں مایوسی پیدا کی ہے۔پاکستانی عوام کا کہنا ہے کہ کرکٹ کو سیاست سے دور رکھنا چاہیے اور کھیل کے ذریعے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ لیکن بھارت کا رویہ اس کے برعکس ہے۔بھارت کے انکار اور آئی سی سی کے فیصلے کے بعد کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ بھارت کا انکار اور آئی سی سی کے فیصلے نے یہ خدشہ پیدا کردیا ہے کہ کہیں اس ایونٹ کی میزبانی پاکستان سے نہ چھین لی جائے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ تعلقات پہلے ہی سرد ہیں، اور یہ معاملہ ان تعلقات کو مزید خراب کرسکتا ہے۔اگر آئی سی سی اس طرح کے فیصلے کرتی رہی تو اس کی غیرجانبداری پر سوالات اٹھتے رہیں گے، اور اس سے چھوٹے کرکٹنگ ممالک کا اعتماد کم ہوگا۔بھارت کا چیمپئنز ٹرافی میں شرکت سے انکار اور آئی سی سی کا پاکستان کو ٹرافی مظفرآباد اور شمالی علاقہ جات لے جانے سے روکنا کرکٹ اور سیاست کے باہمی تعلق کا ایک اور مظاہرہ ہے۔ یہ معاملہ نہ صرف کھیل بلکہ خطے کے سیاسی اور سفارتی تعلقات پر بھی گہرے اثرات ڈالے گا۔پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس موقع پر تحمل سے کام لے اور آئی سی سی کو باور کرائے کہ کھیل کو سیاست سے الگ رکھنا وقت کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف، بھارت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ کرکٹ تعلقات بہتر بنانے کا ایک اہم ذریعہ ہے، اور اس طرح کے اقدامات سے صرف کشیدگی میں اضافہ ہوگا۔چیمپئنز ٹرافی 2025 کا کامیاب انعقاد پاکستان کی کرکٹ بحالی کےلیے ایک اہم سنگ میل ثابت ہوسکتا ہے، بشرطیکہ تمام فریقین کھیل کی روح کے مطابق عمل کریں۔