دنیا بھر میں بسنے والے اربوں انسانوں کی پہچان اور قدر و منزلت کا اصل پیمانہ ان کی اخلاقی قدریں اور عادات و اطوار ہوتے ہیں۔ کسی مجلس میں ایک اجنبی شخص آکر بیٹھ جائے تو اس کی شناخت کا تجسس ایک فطری عمل ہے۔ اس کی گفتگو اور لب ولہجہ سے ہی اس کی شخصیت کے پہلو اجاگر ہوتے ہیں اور ہمارے ذہن کی پلیٹ پر اس کی شخصیت کا ایک نقش مثبت ہو جاتا ہے۔ جب کبھی وہ ہمارے سامنے آتا ہے تو وہی نقش دوبارہ عود کر آتا ۔ ا ہے۔ مذہب ہو کہ سیاست، معاشرت ہو کہ ثقافت اخلاقی قدریں ہر جگہ اپنا ایک خاص اثر و رسوخ اور اہمیت رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں اخلاقی اقدار کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ ایمانیات، عبادات اور معاملات کے ساتھ ساتھ اخلاقیات بھی ہمارے دین کا اہم اور بنیادی حصہ ہیں۔ نبی کریم صلی السلام نے ارشاد فرمایا کہ مجھے تو بھیجا ہی اس لیے گیا ہے کہ اچھے اخلاق کی تکمیل کر سکوں۔ وطن عزیز پاکستان کی تخلیق ہی اسلام سے منسوب ہے۔ ہمیں اپنے سیاسی کلچر میں سلامی اخلاقیات کو فروغ دینا چاہئے تھا۔ ایک دوسرے کی عزت و آبرو کی حفاظت ہمارا قومی شعار ہونا چاہیے تھا۔ انفرادی طور پر بہت سے پارسا لوگ اور شریف النفس گھرانے موجود ہیں۔ لیکن اس کڑوے سچ کو ہمیں ماننا چاہیے کہ بد قسمتی سے بحیثیت مجموعی ایسا معاشرہ تشکیل پاسکا اور نہ ہی ایسا ماحول بن سکا جہاں ان قدروں کی پاسداری کا اہم فریضہ بجالا یا جاتا۔
ایوب خان کے دور میں سیاسی اختلافات کی وجہ سے محترمہ فاطمہ جناح کی جس طرح کردار کشی کی مہم چلائی گئی یہ اس بے ہودہ کلچر کا آغاز تھا۔ مختلف ادوار میں اس میں اتار چڑھاؤ آتا رہا۔ آج کل پرنٹ ، الیکٹرانک اور خصوصا سوشل میڈیا ان ناشائستہ حرکات و سکنات سے بھرا پڑا ہے۔ سادات سے لیکر ماں بہن کی عزت کا کوئی پاس نہیں۔ سیاسی رہنماؤں کی اخلاق سے گری ہوئی باتیں اور بے ہودہ ڈائیلاگ سن کر بہت افسوس ہوتا ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ اپنی آنے والی نسل کو ہم کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔ میڈیا کی آنکھوں کا تارہ بھی وہی سیاستدان ہے جو چرب زبانی کے ذریعے دوسروں کی پگڑیاں اچھالنے اور چادر و چاردیواری کی عصمتوں کو تار تار کرنے میں مہارت تامہ رکھتا ہو۔ سیاسی ورکروں کی نئی پروان چڑھنے والی نسل کو کسی کی چادر کی پروا اور نہ ہی کسی کے سفید بالوں کا دیا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ ان کے نزدیک جنگ کے میدان اور نفرت کے طوفان میں سبھی کچھ جائز ہے۔ حلال کی پرواہ ہے اور نہ حرام کی فکر ۔ جھوٹ ، تہمت، گالی گلوچ اور تہنہ زنی ایسے بے دھڑک انداز میں ہو رہے ہیں جیسے کہ مرنے کی فکر ہی نہیں۔ نظریاتی اور فکری سیاست کی بجائے ہم لوگ شخصیت پرستی کے سحر میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ ذہن میں ایک ہی بات سمائی ہوئی ہے کہ جس کو میں لیڈر مانتا ہوں یا جس پارٹی سے میرے مفادات وابستہ ہیں اس کی پتنگ اونچی ہونی چاہئے ۔ اس بات کی ذرا بھر پرواہ نہیں کہ وہ لیڈر چور ہو، ڈاکو ہو، بدکردار ہو یا منافق ہو۔ ”را“ کا ایجنٹ ہو یا موساد کا وظیفہ خور ۔ ہر ایک گالی گلوچ کو تکیہ کلام بنا نا کر دوسروں کی عزت کو تار تار کرنا ہی اپنی کامیابی سمجھے جا رہا ہے اور اسی میں دلی سکون کی تلاش جاری ہے۔ کئی لوگوں کو سالوں بعد کچھ سنی سنائی باتیں یاد آگئیں۔
بسا اوقات چادر اور چار دیواری کی پرواہ کیے بغیر انہیں کو بنیاد بنا کر دوسروں پر طعنہ زنی شروع کر دی گئی حالانکہ جو الزامات لگائے جاتے ہیں وہ بھی تفتیش طلب ہیں۔ اس طرح کی الزام تراشی کی لہر میں کوئی بھی محفوظ نظر نہیں آتا کیونکہ یہ انسانوں کا معاشرہ ہے نہ کہ فرشتوں کا۔ چھوٹی موٹی کوتا ہیاں زندگی کے کسی حصے میں انسان سے کبھی کبھار سر زد ہو ہی جاتی ہیں۔ کوئی تو بہ کر کے آئندہ کیلئے راہ راست پر آجائے تو رب کریم بھی معاف کر دیتا ہے۔ ہمیں بھی اس طرح کی باتیں نظر انداز کر کے بڑے مقاصد کی طرف متوجہ ہونا چاہیے لیکن اس کے برعکس سوشل میڈیا پر ایسا طوفان بد تمیزی برپا ہے کہ فی الوقت تو اس کی دھند میں مقصد تخلیق پاکستان نظروں سے اوجھل نظر آتا ہے اور اسی کی گرد میں استحکام پاکستان کی راہیں بھی گم ہیں۔ بھونڈے اور لایعنی الزامات کی تو کوئی وقعت نہیں ہوتی البتہ جہاں تک سنجیدہ اور معقول الزامات کا تعلق ہے، گالی گلوچ اور ایک دوسرے کی کردارکشی کی بجائے ان کو عدالت میں لے کے جاؤ۔ ان تمام الزامات کی تحقیق ہو اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے ۔ آپ سیاستدان لوگ بڑے لوگ ہو اور ہماری عدالتیں تو ہیں ہی بڑے لوگوں کیلئے جن کے بڑے بڑے کیسز کے فیصلوں کیلئے بھی دن مقرر کیے جاتے ہیں ۔ جبکہ عام آدمی اور غریب شہری چھوٹے چھوٹے مقدموں میں سالہا سال تک اور نسل در نسل عدالتوں کے چکر کاٹتا رہتا ہے لیکن کوئی نتیجہ خیز شنوائی نہیں ہوتی۔ لھذا زبان اور قلم گندا کرنے کی بجائے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاؤ۔ ہم مانتے ہیں کہ سیاسی ورکر کے طور پر تنقید کرنا آپ کا حق ہے۔ ہماری گزارش فقط یہ ہے کہ تمیز کے دائرے میں رہ کر شائستگی کے ساتھ اختلاف یا تنقید کریں۔ مانا کہ آپ کسی سیاسی پارٹی کے جیالے، متوالے یا ٹائیگر ہو۔ ہم نے یہ بھی مانا کہ آپ تبدیلی ، ترقی یا نئے پاکستان کے علمبردار ہو۔ ہمیں آپ کی حب الوطنی پر ذرا بھر بھی شک نہیں ۔
ہمیں صرف اور صرف آپ کو یہ یاد دلانا ہے کہ اس سب کچھ کے ساتھ ساتھ تم مسلمان بھی ہو۔ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ وہ وقت انتہائی قریب ہے جب ہمیں اپنے ایک ایک قول اور فعل پر احکم الحاکمین کی بارگاہ میں جواب دہ ہونا پڑے گا۔ وہاں کسی پارٹی کا کوئی لیڈر ہمیں بچانے کی ہمت نہیں رکھتا۔ یادر ہے کہ اسلام میں گالی گلوچ کو فسق سے تعبیر کیا گیا ہے جو کہ بڑے بڑے گناہوں کی فہرست میں شامل ہے اور اسی طرح کسی پر تہمت لگانا بھی سخت ترین گناہ ہے۔ یہ تعلیمات کسی کی ذہنی اختراع یا خود ساختہ فلسفہ اخلاقیات نہیں بلکہ اللہ کی آخری کتاب قرآن پاک میں واشگاف الفاظ میں ہمیں ان گناہوں سے اجتناب کا حکم دیا گیا ہے جنہیں کہ ہم نے صبح و شام اپنا وطیرہ بنایا ہوا ہے۔ قرآن پاک کے چھبیسویں پارے کی سورہ الحجرات میں اخوت کی تعلیم کے ساتھ ساتھ غیبت، طعن و تشنیع ، برے القاب سے کسی کو یاد کرنے سے سختی سے منع کیا گیا اور یہ تلقین بھی کی گئی کہ مسلمان ہو کر اس طرح کی بیہودگی میں مبتلا ہونا تمہیں قطعا زیب نہیں دیتا۔
بشکریہ : اوصاف اخبار