دو قومی نظریہ كیا ہےاور اس كی بنیاد كب ركھی گئی اس كا ذكر قرآن كریم میں موجود ہے مگر آج كا مسلمان قرآن اور قرآنی تعلیمات سے كٹ كر طاغوتی طاقتوں كے شكنجے میں ایسا جھگڑا ہوا ہے كہ وہ ایک طرف مادی خداؤں اور ان كے پیروكار معاون خداؤں كے سامنے بے بس و مجبور ہے تو دوسری جانب اللہ كے قہروعذاب میں بھی مبتلا ہے۔ امت مسلمہ كا تصور محض تقریروں، تحریروں، جلسے جلوسوں اور سیمیناروں تك محدود ہے جبكہ عملاً اُمت درجنوں مسلكوں، عقیدوں، طبقوں، قوموں، قبیلوں، فرقوں، جماعتوں اور نظریوں میں تقسیم اسلام دشمن قوتوں كی غلامی پر مجبور ہے۔
مسلكی بنیادوں پر اُمت كا اتحاد ختم ہوا تو پھر آہستہ آہستہ اسلامی ریاست كا تصور بھی منہدم ہوتا چلا گیا۔ بادشاہوں اور آمروں نے ہی نہیں بلکہ جمہوریت کے علمبرداروں اور مزہب کے ٹھیکیداروں نے بھی مغربی استعماركے سامنے ہتھیار ڈال كر لینن، سٹالن، ماركس ، میكاولی اور كوتیلیہ كے نظریات و افكار اپنانے میں ہی آفیت جانی۔ مسلمان مفكرین عہد خلافت كے بعد عہد ملوكیت میں الجھے رہے اور ملوكیتی جبرو استحصال كی وجہ سے مسلمانوں كے لیے كسی واضع حكومتی نظام كی بنیاد نہ ركھ سكے۔
اولیائے كاملین، علمائے حق اور صالحین كے مطابق اگر ایسا كوئى نظام حكمرانی ہوتا تو اللہ خالق كل و كن خود اس كا ذكر قرآن كریم میں كرتے۔ اگر اللہ كی طرف سے كوئى نظام حكومت نازل ہوتا تو بھی منكرین،مشركین، منافقین اور كفار الٰہی حكم ماننے سے انكار كر دیتے چونكہ اللہ نے روز اول سے ہی انہیں ایسا كرنے كی ڈھیل دے ركھی ہے۔ دنیا میں جب سے ریاست اور حكومت كا وجود سامنے آیا اُس كی بنیاد كسی نہ كسی نظریے، عقیدے اور سوچ پر ركھی گئی تاكہ ریاست میں بسنے والے لوگ نظریے اور عقیدے پر مبنی سوچ و فكر كو اپناتے ہوۓ ریاست كی مضبوطی، خوشحالی، امن و حفاظت اور ترقی كے لیے مل كر كام كریں۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ نظریے اور عقیدے کے بغیر کوئی سوچ و فکر پروان نہیں چڑھ سکتی اور نہ ہی بنیادی فکر کے بغیر کوئی سوچ ، فکرو فلسفہ وجود پذیر ہوسکتا ہے۔ فرسودہ نظریہ، جاہلانہ عقیدہ اور منفی سوچ و فکر کے نتیجہ میں پروان چڑھنے والا فلسفہ کبھی فکری نہیں ہوسکتا اور نہ ہی اس فکر و فلسفے کی بنیادیں مضبوط اور مستقل ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دین اسلام ایک مستقل نظریہ حیات ہے جس کی بنیاد مثبت سوچ و فکر اور اٹل عقیدے پر استوار ہے۔ فرمان ربیّ ہے کہ ’’میرا دستور بدلتا نہیں اور میرا حکم ٹلتا نہیں‘‘ اللہ نے تخلیق کائنات کی ترکیب بیان کی اور پھر اپنی حاکمیت کا اعلان کیا تاکہ مخلوق اللہ کی حاکمیت میں امن و سلامی کی زندگی جی سکے۔
دیکھا جائے تو دوقومی نظریے کی بنیاد اسی وقت رکھ دی گئی تھی جب شیطان نے اللہ کی حکم عدولی کرتے ہوئے آدمؑ کو سجدہ کرنے سے انکار کیا۔ شیطان نے اللہ سے قیام قیامت تک مہلت مانگی کہ میں تیرے بندوں کو بہکاؤں گا اور انہیں گمراہی کے راستے پر ڈال دونگا۔ اللہ نے شیطان کو قیامت تک مہلت دیتے ہوئے فرمایا کہ جاؤ جو میرے بندے ہونگے وہ کبھی تمہارے بہکاوے میں نہیں آئیں گے۔ یہی لوگ دنیا کی عارضی زندگی میں توشہ آخرت جمع کریں گے اور جنت کے حقدار ہونگے۔
شیطان نے پہلا وار حضرت آدم ؑ اور حضرت حواؓ پر کیا سورہ البقراہ آیت 38,37,36 میں فرمایا "پھر ہلا دیا شیطان نے اس جگہ یعنی جنت کے اس گوشے سے جہاں اللہ نے آدمؑ اور حواؑ کو ٹھکانہ دیا تھا۔ نکالا انہیں عزت و راحت کے مقام سے جس میں وہ تھے۔ پھر ہم نے کہا اترو اس مقام سے، تم دشمن ہوگے ایک دوسے کے اور تمہارے لیے اب زمین ٹھکانہ ہے جہاں تم ایک مقرر وقت تک نفع حاصل کر سکو گے۔ پھر سیکھ لیں آدمؑ نے اپنے ربّ سے چند باتیں اور پھر اللہ متوجہ ہوا اس پر۔ بیشک اللہ ہی ہے توبہ قبول کرنے والا مہربان”۔ آخری آیت میں فرمایا! "ہم نے حکم دیا کہ نیچے جاؤ یہاں سے تم سب اور پھر تم کو پہنچے جب میری ہدایت اور جو چلا میری ہدایت پر اسے کوئی خوف نہیں ہوگا اور نہ ہی غم ہوگا”۔
غور کیا جائے تو اللہ کے اس فرمان میں لاکھوں اسباق اور ہدایات پہناں ہیں اور دو قومی نظریے کی بھی یہی بنیاد ہے۔ ایک طرف اللہ کی جانب سے نازل کی جانے والی ہدایات یعنی اسلامی، الٰہی نظریہ حیات پر عمل کرنے والی جماعت جن سے اللہ نے وعدہ کیا کہ تمہارے لیے دنیا و آخرت میں کوئی غم و خوف نہیں ہوگا اور دوسری طرف وہ جماعت جو شیاطین کے بہکاوے میں آکر اللہ کا راستہ چھوڑ کر شیطانی عمل پر گامزن ہوگی۔ اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ منکرین کے لیے دنیا کا مال و دولت اور خوشحالی تو ہے مگر آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں۔ بیان کردہ سورہ مبارکہ میں ہی فرمان ہے کہ کفار کے لئے آخرت میں جہنم ہے اور وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔
دو قومی نظریےکی اصل بنیاد عقیدے کی بنا پر ہے نہ کہ کسی باطل مادی نظریے پر۔ اس کی ابتدأ تخلیق آدمؑ سے ہوئی اور اس کا ارتقائی عمل قیامت تک جاری رہے گا۔ سورہ البقرہ میں ہی ذکر ہوا کہ جب شیطان نے اپنی تخلیقی برتری کا ذکر کیا تو پھر اللہ سے درخواست کی کے اے میرے ربّ مجھے قیامت تک مہلت دےمیں تیرے بندوں کو طرح طرح کا لالچ دونگا اور انہیں تیرے راستے سے ہٹاؤنگا۔ قرآن میں کئی اور مقامات کے علاوہ سورہ کہف میں فرمان الٰہی ہے کہ” اے میرے بندو جب شیطان میرے حکم سے باہر ہوگیا تو تم اس کی اور اس کی اولاد کی پیروی پر کیوں چل رہے ہو”۔ مفسرین کے مطابق رحمان اور شیطان کے دو الگ راستے، دو الگ نظریہ اور عقائد ہیں مگر بدقسمتی سے کچھ عالم، مفکر اور دانشور کہلوانے والے ان نظریات و افکار کی تعریف و تشریح اپنی علمیت کی برتری، مادی لالچ اور شہرت کے حصول کے لیے کرتے ہیں اور بیچ کا راستہ نکال کر امت میں تفریق کا باعث بنتے ہیں۔ آج ہم ایسے ہی علمائے سیاست اور معیشت کی دوغلی پالیسیوں کے نتیجے میں بیچ کے راستے پر چلتے ہوئے مسلسل تباہی کی طرف جا رہے ہیں۔ ہم نام تو رحمان کا لیتے ہیں مگر عمل شیطان کےنظریات کو اپناتے ہوئے کرتے ہیں۔ ہمارے دانشوروں اور فلاسفروں کا خیال ہے کہ اہل مغرب نے چرچ کی اجارہ داری ختم کی تو ان پر ترقی کی رائیں کھل گئیں۔
ان کے ادارے مضبوط ہوئے اور جدید علوم اور ٹیکنالوجی کی وجہ سے وہ فاتح عالم بن گئے۔ ان کی کرنسیاں مضبوط اور پاسپورٹ باعزت ٹھہرے۔ یہ وجہ ہے کہ آج تیسری دنیا کے ہر شہری کی خواہش ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح یورپ، امریکہ، کینڈا، آسٹریلیا یا نیوزی لینڈ چلا جائے اور خوشحال زندگی گزار سکے۔ ہمارے دانشوروں اور فلاسفہ کا نظریہ سیکولزم ، دین بیزاری اور فرسودہ خیالات کی ترجمانی کرتا ہے۔ دیکھا جائےتو یہ لوگ نہ تو دانشور اور فلاسفر ہیں اور نہ ہی مصلح اور ماہرین علوم ہیں۔ یہ لوگ بیچ کے راستے پر کھڑے ایسے بھکاری ہیں جن کے دونوں ہاتھوں میں کشکول ہے۔ ان ہی دانشور اور فلاسفر نما بھکاریوں کے مقلد ہمارے سیاستدان، حکمران اور اعلیٰ اشرافیہ ہے جنہیں سوائے عوام کی بیخ کنی، فرسودہ خیالی، بدعملی، ملکی خزانہ لوٹنے اور قومی عزت و اوقات نیلام کرکے بھیک مانگنے کے علاوہ کوئی ہنر نہیں آتا۔
انہیں پتہ ہی نہیں کہ چرچ کی اجارہ داری اور اسلامی تعلیمات میں کیا فرق ہے۔ دین اسلام میں اجارہ داری کا کوئی تصور نہیں بلکہ یہ راہ ہدایت ہے۔ فرمایا” اے داؤدؑ ہم نے تمہیں دنیا میں حکمرانی عطا کی تاکہ تم لوگوں کے ساتھ عدل سے پیش آو”۔ فرمایا” میں نے قلم کے ذریعے انسان کو علم دیا جو وہ جانتا نہ تھا۔ پھر فرمایا عدل کے معاملے میں تفریق مت کرو۔ دنیا کا کونسا معاملہ ہے اور کونسا علم ہے جس کا ذکرقرآن میں نہیں۔ اللہ کی کونسی نعمت ہے جس کا بیان نہیں۔ قرآن کا ہر لفظ ہر آیت علم و حکمت کا خزانہ ہے مگر اس میں بیچ کا کوئی راستہ نہیں”۔
یہی وجہ ہے کہ مسلمان مفکرین، اولیائے کاملین اور علمائے حق نے قرآن کی روشنی میں اللہ کی حاکمیت اس کے کمال علم و کمال حکمت کی تشیرح کی کہ جو شخص اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت میں سب سے بہتر ہو وہ ہی مسلمانوں کا امیر ہونے کا حقدار ہے۔ چاہے وہ خلیفہ ہو، بادشاہ ہو، صدر ہو یا وزیراعظم۔ وہ عدل کرنے والا ہو، عوام الناس کا ہمدرد ہو اور بیت المال یعنی قومی خزانے کا محافظ اور ملکی امور چلانے کی مہارت رکھتا ہو۔
ابن خلدون نے مسلمان امیر کی پچاس خوبیاں لکھی ہیں اور ہر خوبی کا تعلق قرآنی آیات اور احکامات الٰہی سے ہے۔ لکھتے ہیں کہ امیر کا درجہ عام انسان سے بلند ہوجائے تو وہ امارت کے درجے پر فائز نہیں رہ سکتا۔ اسے چاہیے کہ وہ خود اس عہدے سے الگ ہوجائے یا پھر وقت کا قاضی اسے معزول کردے۔ قانون کی حکمرانی سے ہی ریاست میں سیاسی، معاشی، صنعتی، تجارتی، داخلی اور خارجی استحکام پیدا ہوتا ہے۔ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے اور عوام خوشحال اور آسودہ حال ہوجاتے ہیں۔ اہل اور قابل لوگ ملکی اداروں کا نظام چلاتے ہیں اور حکمران طبقہ عوام کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے۔
خطبہ حج الوداع سیاسی نقطہ نظر سے اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ ایک اسلامی حکومت کن بنیادی اصولوں پر تشکیل پاتی ہے اور کس نظریے اور عقیدے کی بنا پر اپنا وجود قائم رکھ سکتی ہے۔ آپؐ کا آخری خطاب صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ ساری انسانیت کے لیے ایک عالمی منشور کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ خطبہ ایک ایسے نظام کی طرف توجہ مبذول کرواتا ہے جس میں نوع انسانی کے لیے امن، خوشحالی، ترقی، اخوت و محبت اور برکت و فضیلت ہے۔ ڈاکٹر حمید اللہ لکھتے ہیں کہ آپؐ کا آخری خطبہ انسانیت کا ’’منشور اعظم ہے‘‘۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے سوا دنیا کی دیگر اقوام نے اس منشور کو اپنایا اور خوشحالی کی منازل طے کرتے ہوئے اقوام عالم میں بلند مقام پر فائز ہوگئیں۔ سقوط بغداد کے بعد یورپ میں علم کی شمعیں روشن ہوئیں اور وہ علوم جن کی بنیاد مسلم اور عرب معلمین نے رکھی تھیں۔ انکا اجرأ یورپ میں ہوا۔ دوقومی نظریے کے براکات سے مسلمان تو کوئی فائدہ نہ اٹھا سکے مگر اس نظریے کے منکرین نے مسلمانوں کے علمی و تحقیقی ورثے کو اپنا کر مسلم دنیا کے عقیدے کو مسلکیت کی بھینٹ چڑھا دیا۔
تاریخی واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ ہند میں دو قومی نظریے کی سوچ سب سے پہلے سلطان شہاب الدین غوری کے ذہن میں آئی۔ ۱۱۹۱ء میں تسخیر ہند کے بعد پرتھوی راج چوہان ایک بھاری لشکر لے کر سلطان کے جرنیلوں کی سرکوبی کے لیے نکلا تو سلطان غزنی کے سفر پر راستے میں ہی تھا۔ سلطان نے پرتھوی راج چوہان کے نام خط لکھا اور امن کی دعوت دیتے ہوئے موجودہ پاکستان اور بھارتی پنجاب کے کچھ علاقوں کو چھوڑ کر باقی ہندوستان پر پرتھوی راج کی حکومت تسلیم کرنے کا وعدہ کیا۔ لکھا کہ یہ علاقے مسلمانوں کے زیر تسلط ہیں لہٰذا انہیں سلطنت غزنی کا حصہ رہنے دو اور باقی ہندوستان پر حکومت کرتے رہو۔ پرتھوی راج چوہان نے اسے بزدلی کا طعنہ دیا تو سلطان نے واپسی کی راہ لی۔ دونوں فوجوں کا ترائن کے مقام پر مقابلہ ہوا جو بے نتیجہ رہا۔
اگلے برس یعنی 1192ء میں سلطان نے برصغیر پر پھر حملہ گیا اور پرتھوی راج چوہان اور کھانڈے راؤ سمیت پچاس کے قریب ہندو جرنیلوں اور ریاستوں کے بادشاہوں کو کچل کر رکھ دیا۔ اس سے پہلے البیرونی اور بعد میں حضرت مجدد الف ثانی، سیداحمد شہید،حضرت شاہ ولی اللہ، بنگال میں فرائضی تحریک کے بانی حاجی امداد اللہ، محمد محسن دودو میاں اور تیتومیر نے دو قومی نظریے کی بنیاد پر نہ صرف انگریزوں اور ہندوؤں کے خلاف اعلان جہاد کیا بلکہ اسلامی ریاست کے قیام کا بھی اعلان کر دیا۔
حاجی امداد اللہ نے بنگال کو’’دارالسلام‘‘قرار دیا تو مسلمانوں نے انگریزوں اور ہندو ساہو کاروں کو ٹیکس دینا چھوڑ دیا۔ فرائضی تحریک اور انگریزوں میں شدید جھڑپیں ہوئیں تو ہندوؤں نے انگریز کا کھل کر ساتھ دیا جیسے پشاور کے درانی سرداروں، ہوتی کے یوسفزیوں اور افغان حکومت نے سید احمد شہید کے خلاف سکھوں کا ساتھ دیا تھا۔ فرائضی تحریک کے سارے بانی یکے بعد دیگرے شہید ہوئے مگر تحریک کسی نہ کسی صورت میں زندہ رہی۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں بہار، بنگال اور اڑیسہ کے مجاہدین نے بھرپور حصہ لیا مگر مرکزی قیادت کی نااہلیوں کی وجہ سے مسلمان یہ جنگ ہار گئے۔ مغلیہ سلطنت کا خاتمہ ہوا اور انگریزی تسلط قائم ہوگیا۔اسی تحریک کے اثرات نے مسلمانوں میں آزادی اور نظریاتی تحفظ کی بیداری کو ایک بار پھر زندہ کیا تو 1906ء میں نواب سلیم اللہ خان آف ڈھاکہ کے گھر پر مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی جو آگے چل کر آل انڈیا مسلم لیگ کے نام سے مشہور ہوئی۔ 1857ءکی جنگ آزادی کے بعد انگریزوں نے ہندوؤں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے استحصال کا سلسلہ شروع کیا تو سر سید احمد خان نے اس غیر انسانی رویے پر احتجاج کرتے ہوئے قومیت کے بجائے دو قومی نظریے کی ضرورت پر زور دیا۔ فرمایا کہ اگرچہ ہندوستان ایک جغرافیائی حقیقت ہے مگر یہاں ایک نہیں بلکہ دو قومیں آباد ہیں۔ ان کی تاریخ و ثقافت، طریق عبادات،رھن سھن اور معاشرتی آداب و اخلاقیات میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ مسلمانوں پر جبروظلم اس لیے کیا جا رہا ہے کہ وہ ایک الگ دین کے ماننے والے ہیں اور ہندوستان کے حکمران تھے۔ ایسی صورت میں مسلمان کبھی بھی ہندوؤں کی اجارہ داری اور حکومت کا جبر برداشت نہیں کریں گے۔
سر سید احمد خان نے اپنی تحریروں میں دو قومی نظریے کا بھر پور دفاع کیا اور محسوس کیا کہ مسلمان جب تک نئے تعلیمی نظام کا حصہ نہیں بنتے وہ ہندوؤں اور انگریزوں کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔ اسی نظریے کو تقویت دیتے ہوئے آپ نے علی گڑھ مسلم کالج کی بنیاد رکھی جو جلد ہی یونیورسٹی میں تبدیل ہو کر برصغیر پاک و ہند میں جدید علوم کی مشعل بردار بن گئی۔
آل انڈیا مسلم لیگ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے مسلمانوں کی سیاسی اور علمی تربیت کا بیڑا اٹھایا تو روشن خیال مسلمانوں کی جماعت ان کی مددگار اور معاون بن گئی۔ نواب محسن الملک اور نواب وقار الملک سمیت بہت سے نام سامنے آئے اور مسلم قومیت کا نظریہ تقویت پکڑنے لگا۔ سر سید نے اپنی علمی تحریک کاآغاز 1859ء میں مراد آباد سے کیا جہاں آپ نے ایک مدرسہ قائم کیا۔ بعد میں سائیٹیفک سوسائٹی کی بنیاد رکھی۔ غازی پور میں ایک سکول قائم کیا جس کا سنگ بنیاد راجہ دیونارائن سنگھ اور مولانا محمد فصح نے رکھا۔ وہ چاہتے تھے کہ ہندو بھی ان کی علمی تحریک کا حصہ بنیں تاکہ ہندو مسلم یکجہتی برقرار رہے۔
1864 میں آپ نے علی گڑھ میں سائنٹیفک سوسائٹی کا کام خود سنبھال لیا۔ 1866 ء میں علی گڑھ انسیٹیوٹ گزٹ کا اجرأ کیا۔ ابتدأ میں یہ ہفتہ وار اخبار تھا پھر سہ روزہ ہوگیا۔
بعد میں تہذیب و اخلاق کے نام سے رسالہ جاری کیا اور ایک کمیٹی بنائی جس کا مقصد مسلمانوں کے لیے حکومتی سطح پر نوکریوں کی تلاش تھی۔ آپ نے اس بات ہر زور دیا کہ حکومت کا کاروبار وسیع ہوتا ہے۔ اس کے پاس خواندہ اور ناخواندہ افراد کے لیے بیشمار نوکریاں ہوتی ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ آبادی کے تناسب سے مسلمانوں کے حصے کی ملازمتیں دیکر ان کا معیار زندگی بہتر کرے۔
1886ء میں آپ نے محمڈن ایجوکیشنل کانفرس قائم کی جو آگے چل کر علی گڑھ مسلم کالج اور بعد میں یونیورسٹی کی بنیاد بنی۔ برصغیر میں دو قومی نظریے کا ارتقائی عمل صدیوں پر محیط ہے۔ ڈاکٹر سید عبداللہ لکھتے ہیں کہ پاکستان اس ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے جو صدیوں سے مسلمانوں کی فکری سوچ کا محور رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قائداعظمؒ نے ایک خطاب کے دوران فرمایا کہ پاکستان کا وجود اسی دن قائم ہوگیا تھا جب پہلے ہندوستانی نے اسلام قبول کیا تھا۔ ولی کاشمیری لکھتے ہیں کہ وہ پہلا شخص کیرالہ کا بادشاہ راجہ چکر اورتی فرماس تھا جس نے شق القمر کا معجزہ اپنی آنکھوں سے دیکھا تو ایک وفد کے ہمراہ مکہ شریف پہنچ کر دین اسلام قبول کر لیا۔فرماس کا اسلامی نام حضرت تاج الدین ؓ ہے جس کی تصدیق انڈین آفس لائبریری لندن میں محفوظ متعدد مخطوطوں کے علاوہ ابن مستدرک میں حاکم نے ابو سعید خزریؓ کے حوالے سے کیا ہے۔ مشہور سیاح اور تاریخ دان چارلز ہیوگل نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ کشمیر اور ہند سے معجزہ شق القمر کے بعد کثیر تعداد میں لوگ مکہ پہنچے اور اصحاب رسولؐ کی صف میں شامل ہوگئے۔ یقیناً قائداعظم کا اشارہ بھی اسی طرف ہے جو اسلام اور قرآنی تاریخ سے بخوبی واقف تھے۔ اسلام کی نشاۃ ثانیہ، دو قومی نظریے اور تحریک آزادی کے حوالے سے تاریخ میں جتنے بھی نام ہیں علامہ اقبالؒ کی شخصیت اس فہرست میں سب سے معتبر ہے۔ اقبالؒ ایک شاعر، قانون دان، فلسفی، ادیب اور سیاستدان ہی نہ تھے بلکہ ایک انقلابی تحریک کے داعی اور اتحاد بین المسلمین کے سب سے بڑے اور متحرک مبلغ تھے۔ آپ کے اشعار دلوں کو گرمانے اور خوابیدہ روحوں کو بیدار کرنے کا موجب بنے تو سارے عالم اسلام میں اس کی گونج سنائی دی۔ لینن کے نام لکھی گئی آپ کی تحریر نے ایران کے اسلامی انقلاب کی بنیاد رکھی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ حضرت امام خمینیؒ نے وہی خط سویت یونین کے صدر گورباچوف کو بجھوایا۔ اگر گورباچوف امام خمینیؒ کے اس خط پر عمل کرتا تو شاید سویت یونین کے عوام خوشحال اور ملک کا ڈھانچہ مزید مضبوط اور طاقتور ہوتا۔ اقبالؒ کا پیغام آفاقی ہے مگر پاکستان میں اس کی پذیرائی کم ہوتے ہوتے تقریباً ختم ہوچکی ہے۔
اقبالؒ اولین مفکر تھے جنہوں نے برصغیر میں ایک آزاد مسلم ریاست کا تصور مثبت نظریاتی اور آفاقی بنیادوں پر پیش کرتے ہوئے اسے دیگر دنیا کے لیے ایک مثالی ریاست قرار دیا۔
آپ نے فرمایا کہ قومیت کا تصور دین کی بنیاد پر ہے نہ کے رنگ و نسل، حسب و نسب، لسانیت اور علاقائیت کی بنیادوں پر ہے۔ اُمت مسلمہ ایک واحدت ہے جس کا آئین قرآن اور زندگی کے ہر شعبے میں رہنما اصول سیرت رسولؐ میں درج ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ بنگالی، بلوچی، پختون اور دیگر علاقوں کے عوام نے دل و جان سے اس پیغام پر عمل کیا۔ وہ نہ تو انگریزوں اور کانگرسیوں کے لالچ اور مراعات سے مرغوب ہوئے اور نہ ہی اسلام کے لبادے میں کانگرس کے حامی مقامی اور فرقہ وارانہ ذہبیت رکھنے والے علمأ کے جال میں پھنسے۔ اقبالؒ کا خطبہ الہ آباد اس سلسلے کی آخری اور اٹل کوشش ثابت ہوئی تو اقبالؒ کا تصور ایک واضع صورت میں سامنے آگیا۔ دسمبر 1930ء میں مسلم لیگ کے اجلاس الہ آباد کے خطبہ صدارت سے پہلے 1919ء میں علامہ اقبالؒ نے پروفیسر نکلسن کے نام ایک خط میں لکھا کہ رنگ و نسل، علاقائیت، لسانیت اور فرقہ پرستی باطل عقائد کا ثمر اور انسانی نصب العین کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اسلام ان باطل عقائد اور انسانیت کی تقسیم اور توہین کرنے والے نظام کا سب سے بڑاحریف رہا ہے۔ آپ کے اس خط میں خطبہ حج الودعیٰ کی واضع جھلک نظر آتی ہے جسے ڈاکٹر حمید اللہ نے انسانیت کا منشور اعظم قرار دیا۔
آپ لکھتے ہیں کہ بے دین دانشوروں کا یہ تصور غلط ہے کہ اسلام سائنس کا دشمن ہے۔ کیا سائنس کائنات سے الگ کوئی چیز ہے۔ سائنس کائناتی علوم کا ہی ایک حصہ ہے جس کا موجد خالق کائنات اللہ ہے۔ انسابیت کا سب سے بڑا دشمن رنگ و نسل ہے نہ کہ اسلام۔ جو لوگ انسانیت سے محبت رکھتے ہیں ان پر فرض ہے کہ وہ ابلیس کی اس اختراع کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے جہاد کا علم بلند کریں۔
اقبالؒ کا یہ پیغام صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ ان ساری اقوام کے لیے تھا جو مغربی استعماری قوتوں کے شکنجے میں تھیں۔ جن کےوسائل پر نسلی تعصب پر فخر کرنے والی قوتیں مختلف شیطانی چالوں اور حربوں کی مدرسے قابض تھیں۔
اقبالؒ کو کامل یقین تھا کہ قائداعظمؒ کی بے لوث اور جرأت مند قیادت پر مسلمانان ہند بھروسہ کرتے ہوئے صرف نظریہ اسلام کی بنیاد پر الگ وطن حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبالؒ نے علامہ محمد اسد کو دلی میں پیغام پہنچایا کہ جرمن اخبار کی نوکری چھوڑ کر دلی میں مسلم لیگ کا دفتر سنبھال لو۔ علامہ محمد اسد ’’روڈ ٹو مکہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ یہ وہ وقت تھا جب دلی میں مسلم لیگ نوابوں اور جاگیرداروں کی جماعت مشہور تھی۔ ولی اللہ کاشمیری لکھتے ہیں کہ لفظ پاکستان کا ہندو مذاق اڑاتے تھے کہ جو لوگ رولز رائیس کاروں اور بگھیوں سے نہیں اترتے اور عالیشان محلوں میں رہتے ہیں کیا وہ پاکستان بنائیں گے؟ علامہ محمد اسد لکھتے ہیں کہ اقبالؒ نے فرمایا کہ اجلاس باطنی میں فیصلہ ہوگیا ہے اب پاکستان بن کر رہے گا۔ یہی پیغام مولانا حسرت موہانی نے قائداعظمؒ کو دیا کہ مجھے حضورؐ نے بشارت دی ہے کہ پاکستان بن جانے کا فیصلہ ہوگیا ہے۔
ایک موقع پر اقبالؒ نے فرمایا کہ جذبہ قوت ایمانی اور عشق رسولؐ کی حرارت کے بغیر مسلمان کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتا۔ انسانی زندگی میں جذبہ ایمانی کی حرارت اسے جذبہ عمل کی راہ دکھلاتی ہے۔ معاشی خوشحالی کے بغیر انفرادی اور اجتماعی ترقی ممکن نہیں۔ جسم و روح کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے اقتصادی ترقی کا ہونا بے حد ضروری ہے جس کے بغیر خودی کا تصور محال ہے۔ آسودگی کی بنیاد پر ہی آسودہ معاشرے اور ریاست کی عمارت کھڑی ہوسکتی ہے۔ آسودہ زندگی کا راستہ ہر انسان کی جبلت میں شامل ہے۔
اقبالؒ کے نزدیک دنیا کا کوئی معاشرہ اقتصادی ترقی کے بغیر فلاح و بہبود کی منازل طے نہیں کرسکتا۔ اقبالؒ نے فکر و عمل محنت، مزدوری، جانبازی، سر فروشی اور جہد مسلسل کو اپنے نظریے میں شامل رکھا اور اسے خودی کی بنیاد قرار دیا۔
اقبالؒ یولیٹیکل اکانومی کے استاد بھی رہے ۔ آپ نے فاؤس اور واکر کی پولیٹیکل اکانومی کا اردو ترجمہ کیا۔ آپ کی دلچسپی دیکھ کر آرٹلد نے ’’علم آلاقتصاد‘‘ لکھنے کی ترغیب دی جو 1904ء میں منظر عام پر آئی۔ اقبالؒ کی یہ تحریر قرآنی معاشی، معاشرتی اور اقتصادی نظریات کی روشنی میں لکھی گئی مگر بدقسمتی سے مسلمانوں خاص کر پاکستانی دانشوروں، معاشی ماہرین اور سیاستدانوں نے ملکی معیشت تباہ کرنے اور عوام کو غربت اور جاہلیت کے اندھیروں میں دھکیلنے کے شیطانی اصولوں کو اپنایا تاکہ عوام کے منہ سے لقمہ اور جیبوں سے پیسہ نکال کر اپنے خاندانوں اور بہی خواہوں کے اندورن ملک اور بیرون ملک بینک بھرنے کا بندوبست ہوسکے۔
یہ وہی پاکستان ہے جو اپنے ابتدائی دور میں جرمنی، کوریا اور جاپان جیسے ملکوں کو امداد دیتا تھا۔ اب جدید جمہوری نظام کی شاطرانہ چالوں کا نتیجہ ہے کہ ایٹمی صلاحیتوں سے لیس ملک پائی پائی کا محتاج اور عوام مفلسی کے انتہائی نچلے درجے پر فاقہ کشی کی زندگی گزاررہے ہیں۔ اعلیٰ اشرفیہ اور حکمران طبقہ بیرون ملک کھربوں ڈالر کے اثاثوں کا مالک ہے۔ عوام بے شعور اور حکمران ظالم اور عیاش ہیں۔ موریلی نے سچ کہا تھا کہ جس ملک کے عوام ظلم سہنے کے عادی ہوجائیں ان کی تقدیر بدلنا پتھر کی دیوار سے سر ٹکرانے کے مترادف ہے۔
ملکی وسائل غیر ملکی اداروں کے ہاتھوں نیلام کئے جا رہے ہیں۔ اور آئی ایم ایف ملک کا بجٹ بنا کر پاکستانی عوام کا خون چوسنے کی آخری حد تک پہنچ چکا ہے۔ حکمران خاندان جو پچھلے چالیس سالوں سے ملک پر قابض اور ملکی وسائل لوٹ رہے ہیں اب بھی عوام کو بہتر مستقبل کی نوید سنا کر اقتدار پر قابض ہیں۔