’’بیٹھک ‘‘میں خالد محمود جونوی کی چاچا چوہدری سے خصوصی گفتگو

بچپن میں اسم گرامی پرویز تھا ،پیار سے ’’پیجی ‘‘کہتے تھے ،ایک بزرگ نے خالد محمود نام رکھا
کوٹلی آزاد کشمیر سے 19 برس کی عمر میں انگلستان آئے،بی اے کی تعلیم کے دوران برطانیہ کا ٹکٹ کٹایا
لوٹن ( رپورٹ/ڈی نیوز 24ٹی وی ) چاچا چوہدری جو کہ اب کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں ، یوٹیوب چینل دیس پردیس (DP) سے جڑنے کے بعد ان کی شہرت میں بڑی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے ، ان کا ہنس مکھ چہرا ، روتوں کو ہنسانے اور کم گو لوگوں کو باتیں کرنے پر مجبور کرنے کا ہنر رکھتا ہے جو شاید لوٹن میں کسی بھی فرد کے پاس نہیں ۔ چاچا چوہدری کی وجہ شہرت یہ بھی ہے کہ وہ کسی بھی پہر اپنی لاٹھی اٹھائے لوٹن کی گلیوں اور سڑکوں پر سیر سپاٹے کو نکل جاتے ہیں خصوصاً اتوار کے روز وہ کسی بھی غیر معمولی شخصیت کے گھر مہمان بن کر چلے جاتے ہیں ،یوٹیوب چینل ’’ڈی نیوز 24ٹی وی ‘‘ اور ’’دیس پردیس ‘‘ کے ارکان بھی ان کے ہمراہ ہوتے ہیں ۔ اس بار چاچا چوہدری اقدس مغل کے گھر پہنچے جہاں اتفاقاًخالد محمود جونوی نے انٹری ماری ، بس پھر کیا تھا۔۔۔چاچا چوہدری نے ان کا ایکس رے کرنے کی ٹھان لی اور گویا مکمل انٹر ویو ہی کرڈالا۔چند سوالات کئے جہاں سے باقاعدہ انٹرویو کا سلسلہ شروع ہوا۔
خالد محمود جونوی نے کہا کہ بچپن میں ان کا اسم گرامی پرویز تھا اور پیار سے انہیں ’’پیجی ‘‘کہتے تھے ،پھر ایک بزرگ نے ان کا نام خالد محمود رکھا ۔جب برطانیہ آیا تو لکھاری تھا اور کسی نے کہا بھی تھا کہ لکھنے والے کے تین نام ہوتے ہیں ،گویا میں جون میں پیدا ہوا اس لئےتخلص ’’جونوی ‘‘رکھا۔ان کا تعلق کوٹلی آزاد کشمیر سے ہے ،وہ 19 برس کی عمر میں انگلستان آئے،جبکہ ابھی ان کی عمر 50 برس ہے۔آئی کام کوٹلی میں مقامی کالج سے کیا ، جب بی اے کی تعلیم حاصل کررہے تھے تو برطانیہ کا ٹکٹ کٹ چکا تھا،انہوں نے ماموں کی صاحبزادی سے 1990 میں شادی کی ۔
انہوں نے کہا کہ میرے والد فوج میں تھے اوربہت ویل ڈسپلین شخصیت کے مالک تھے۔میرا چھوٹا بھائی یہاں ہے ،والدہ پاکستان میں ہی مقیم ہیں جبکہ والد جہان فانی سے کوچ کرچکے۔دیواروں پر لکھنا خطاطی کرنا میرا شوق تھا ،شوق کبھی بھی تکمیل کو نہیں پہنچتا اسی لئے لکھنا کبھی نہیں چھوڑا۔
کوٹلی کی تاریخ پر 2004 میں کتاب لکھی جس میں اپنے گائوں کا تذکرہ کیا ،اس پہلی کتاب کا نام ’’مدینۃ المساجد ‘‘تھا جو کوٹلی کی قدیم و جدید تاریخ کے آئینے میں لوگوں کی کہانیاںاور مشکلیں جو انہوں نے دیکھی تھیں اس کی عکاسی کرتی ہے ۔یہاں لوگوں نے جو محنت کی وہاں کے لوگوں کو بھی خوشحال کیا خود بھی ہوئے اس کتاب کا نام ’’ دیار یار سے دیار غیر تک‘‘ہے۔میں نے کئی کاروبار کئے مگر سب کے سب نقصان کی نظر ہوگئے،اب اچھے دن کے انتظار کر رہے ہیں۔ 5 سات سال پہلے دل کا درد ہوا تھا ابھی بھی ہوتا ہے۔آخر میں انہوں نے ناظرین کومتوجہ کرتے ہوئے پیغام دیا کہ والدین کو چاہئے کہ وہ بچوں کو ان کے فیصلے کرنے دیں ساتھ ہی ان کی رہنمائی فرمائیں ۔بچوں پر اچھا اور مضبوط اعتماد کریں وہ یقیناً آپ کو سرخرو کریں گے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے