بریکنگ نیوز

عطا تارڑ، مریم اورنگزیب دائیں اور بائیں جانب قمر زمان کائرہ، خواجہ آصف، بشیر چیمہ، مولانا فضل الرحمٰن، بلاول بھٹو، اور شازیہ مری تشریف فرما تھیں۔ درمیان میں دونوں جانب ایک ایک کرسی خالی تھی جس پر میاں محمد نواز شریف اور آصف علی زرداری کی تصویریں رکھیں تھیں اور عین درمیان میں مریم نواز شریف ایک قدرے بلند کرسی پر برا جمان تھیں۔
پشت پر کیپٹن صفدر کے دائیں اور بائیں چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان کے علاوہ آزاد کشمیر کی سیاسی قیادت با ادب کھڑی تھی۔ یہ ایک بڑی اور انتہائی اہم پریس کانفرنس ہونے جا رہی تھی۔ شرکاٗ کافی دیر سے بیٹھے تھے اور ٹیلیویژن سکرین پر نیچے ایک پٹی چل رہی تھی جسپر لکھا تھا ’’عمران خان تمہارا وقت ختم ہو چکاہے اب نیا پاکستان ہم بنائینگے‘‘۔
پتہ چلا کہ قریبی پارک میں سی۔ ڈی۔اے نے ایک بڑی سکرین نصب کر دی ہے اور تقریباً بیس ہزار لوگوں کے بیٹھنے کا بھی انتظام ہے۔ شرکاٗ کے لیے چائے، پانی، کافی اور دیگر لوازمات کا انتظام بھی کر دیا گیا ہے اور ہزاروں لوگ واک تھرو گیٹوں پر قطار اندر قطار کھڑے ہیں۔ دوسری جانب مشہور تجزیہ نگار اور دانشور صحافی حامد میر، سلیم صافی، سلیم بخاری، مجیب الرحمٰن شامی، جاوید چودھری اور اسی قد و کاٹھ کے عالم و حکیم جنکا تعلق چودہ جماعتی اتحادی حکمران طبقے سے ہے اپنی دانشورانہ رائے کا اظہار کر رہے تھے۔
پریس کانفرنسیوں کے چہرے زیادہ شاداب نہ تھے جبکہ اظہار رائے کرنے والے مسکرا رہے تھے۔ ان کی مسکراہٹ معنی خیز تھی جیسے ہر کوئی اندر کی بات جانتا ہو۔ پھر خبر چلی کہ پاکستان کے سب بڑے شہروں اور قصبوں میں ایسی ہی سکرینیں نصب کردی گئی ہیں اور گورنر صاحبان نے عمدہ انتظامات کی بھی ہدایات جاری کی ہیں۔ ہم نے ارد گرد بیٹھے لوگوں سے پوچھا کہ دو صوبوں میں حکومتیں قائم ہیں اور دو میں الیکشن کمیشن کے مقرر کردہ وزیر اعلٰی بھی ہیں تو گورنر صاحبان کیوں متحرک ہیں؟ کھچڑی بالوں والی خاتون نے جواب دیا کے تم نے کبھی سنا نہیں ’’ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور‘‘ دوسری جانب بیٹھی خاتون نے ہنس کر کہا ’’ہاتھی کے پاوٗں میں سب کا پاوٗں‘‘ ایک صاحب جو پریس کانفرنس دیکھنا چاہتے تھے کہنے لگے کہ لگتا ہے اب ہاتھی آنے والا ہے ۔ میں نے پوچھا وہ کیسے؟ کہنے لگے جب انسانی معاشرہ جنگل بن جائے اور لیڈر لوٹ مار کرنے والے اور عوام کو دھوکا دینے والے ہوں تو ریاست میں جنگل کا قانون از خود نافذ ہو جاتا ہے ۔ کھچڑی بالوں والی بولی کیا مارشل لا لگ رہا ہے؟ صاحب بولے میں نے تو ایسا کچھ نہیں کہا ۔
دراصل یہ ایک شادی کی تقریب تھی اور سو کے قریب مہمان شادی ہال میں موجود تھے ۔ تین سو لوگوں کی آمد متوقع تھی مگر شام سے پہلے ہی اسلام آباد کا ماحول سوگوار ہو چکا تھا ۔ آج ورکنگ ڈے تھا مگر پیٹرول کی قیمت بھی تین سو دس روپے سے اوپر جا چکی تھی ۔ سٹریٹ کرائم اور مہنگائی میں مسلسل اضافہ سوہان روح بنا ہوا تھا ۔ لگتا تھا جیسے انتظامیہ نام کی کوئی چیز ہی نہیں اور نہ ہی پولیس والے کوئی پھرتی دکھا رہے ہیں ۔ لوگ سر شام گھروں میں بند ہو جاتے ہیں ۔ سب سے زیادہ خطر ناک بحریہ ٹاوٗن ہو چکا ہے ۔ بحریہ ٹاوٗن انتظامیہ نے سیکیورٹی ہٹا کر کسی پرائیویٹ کمپنی کو ٹھیکہ دیا ہے جو صرف دفتروں اور بڑی سڑکوں پر نظر آتی ہے۔ عوام مہنگائی اور سیکیورٹی کی صورتحال پر احتجاج تو نہیں کر رہے مگر بد دلی اور مایوسی کا شکار ہیں ۔ خود کشیاں ، گھریلو جھگڑے، عدم برداشت اور غیر یقینی صورتحال کی وجہ عمران خان بیان کیے جا رہے ہیں ۔
صاحب بولے اللہ خیر کرے جب سے آئی ایم ایف کا وفد واپس گیا ہے سارے ملک میں سناٹا سا چھا گیا ہے ۔ روس اور یوکرین جنگ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی اور امارت اسلامی افغانستان کا پاکستان مخالف رویہ اور بھارت کی طرف سے مسلسل دھمکیاں مزید خوف اور خطرے کا باعث بن رہی ہیں ۔ کھچڑی بالوں والی کے ساتھ بیٹھی جینز جیکٹ والی کہنے لگی کہ چین نے تائیوان کی ناکہ بندی کر دی ہے اور امریکہ نے اپنے دو بحری بیڑے چین کی جانب روانہ کر دیے ہیں ۔ اسکے ساتھ بیٹھا آدمی مسکرایا اور کہنے لگا آج رات تائیوان کا فیصلہ ہو جائے گا ۔ وہ کیسے دو تین لوگوں نے یک زبان ہو کر پوچھا؟ ۔ تائیوان میں چین کے حق میں مظاہرے ہو رہے ہیں ۔ آج رات پارلیمینٹ کوئی اہم فیصلہ کرے گی کہ انہیں چین کے ساتھ مل کر رہنا ہے یا امریکہ کے ساتھ ملکر جنگ کرنی ہے ۔ ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کے بریکنگ نیوز چل پڑی ۔ لکھا تھا کہ تائیوان نے چین میں شمولیت کا فیصلہ کر لیا ہے۔ چلو جی اچھاہی ہوا۔ کسی نے دور کے ٹیبل سے بلند آواز میں کہا تائیوان والے کونسے امریکی ہیں ۔ چین ہی کے باشندے ہیں ۔ چین دنیا کا امیر ترین ملک ہے ۔ تائیوان کے مل جانے سے ترقی کی نئی راہیں کھل جائیں گی ۔ پھر لکھا ہوا آیا کہ مغربی ممالک ، امریکہ اور بھارت نے اسے دنیا کے لیے نیا خطرہ قرار دیا ہے ۔
صاحب بولے بھارت کا واویلا درست ہے ۔ دو دن پہلے چین نے بھارت کے تین سو کلو میٹر مزید رقبے پر قبضہ کر لیا ہے اور اکسائی چن سیکٹر میں بہت نیچے آ گیا ہے ۔ ہمارا کیا بنے گا ؟ کھچڑی بالوں والی نے سوال کیا ۔ مسلسل پستی اور پسپائی ہی ہمارا مقدر ہے اور ہم اس کے حقدار ہیں ۔ شریفوں اور زرداریوں کی غلامی کا طوق ہم نے خود گلے میں ڈال رکھا ہے ۔ کیاحکمرانوں کے ٹو ہر دیکھے ہیں؟ ۔ ان کے ڈیزاینر سوٹ ، قیمتی سرکاری گاڑیاں ، اندرون ملک اور بیرونِ ملک دورے ، شاہانہ لائف سٹائل اور پھر اپنی مرضی کی آئینی ترامیم کے بعد اربوں کھربوں کی کرپشن جائز قرار دے کر قومی خزانہ ہی ہڑپ کر گئے ۔ عمران خان کی حکومت گئی تو خزانے میں نو ارب ڈالر تھے اب دو ارب بھی نہیں ۔ آٹھ ماہ میں سب کچھ کھا گئے ۔
یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ شادی ہال انتظامیہ نے اعلان کیا کہ آپ لوگ جلدی کھانا کھا کر چلے جائیں باقی مہمان نہیں آ رہے ۔ باہر حالات اچھے نہیں ۔ میزبان بھی چلے گئے ہیں چونکہ انہیں دوسرے شہر جانا تھا ۔ اس اعلان کے ساتھ ہی ٹیلی وژن پر بریکنگ نیوز چل پڑی ۔ نیوز کاسٹر خوفزدہ دکھلائی دے رہی تھی ۔ مگر بول رہی تھی ورلڈ نیوز ایجنسی کے حوالے سے اطلاع ہے کہ دنیا بھر میں پاکستانی سیاسی گھرانوں ، سرکاری افسروں اور دیگر کے اثاثے ضبط کر لیے گئے ہیں جن کی مالیت دو سو کھرب ڈالر ہے ۔ آئی۔ایم۔ایف ، ورلڈ بینک اور دیگر ممالک اور ادارے پاکستان کو دی گئی قرض کی رقم اور سود منہا کرنے کے بعد باقی رقم سے پاکستان کے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کریں گے۔ یہ خبر بھی آ رہی ہے کہ کل صبح کچھ وطن پرست وکلا سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کر رہے ہیں کہ ہر وہ شخص جس پر کرپشن ، بد دیانتی ، سرکاری عہدے اور رتبے کا غلط استعمال ، رشوت خوری ، جعل سازی اور عوامی مفاد کو نقصان پہنچانے کا الزام ہے اسے فوری طور پر عہدے سے الگ کیا جائے ۔ سیاسی ورکر ، لیڈر اور ممبران صوبائی و قومی اسمبلی ، سینٹ تب تک الیکشن لڑنے کے قابل نہیں ہونگے جب تک وہ عدالتوں سے بری نہیں ہوتے ۔ توقع کی جا رہی ہے کہ اعلٰی عدلیہ اس خاص پٹیشن پر عوامی مفاد اور ملکی سلامتی کے حق میں فیصلہ دیکر سر خرو ہو گی ۔
آخر میں بتایا کہ عالمی سطع پر اس فیصلے کے بعد برطانوی پارلیمینٹ سے توقع کی جا رہی ہے کہ انسانی حقوق کے تحفظ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ان سب پاکستانیوں کو ملک بدر کرنے کا قانون پاس کر دے گی جو پاکستان میں جرائم میں ملوث رہے ہیں اور کرپشن کی دولت سے وہاں کاروبار شروع کر رکھے ہیں ۔ شادی ہال انتظامیہ کے اعلان اور بریکنگ نیوز کےفوراً بعد کسی نے کہا کہ ہاتھی بردار دستوں نے ملک کے سارے شہروں کا محاصرہ کر لیا ہے تا کہ کوئی عوامی مجرم اور کرپٹ ملک سے بھاگ نہ سکے ۔
کھانے کی کسی کو ہوش نہ رہی ۔ کھچڑی بالوں والی سمیت بہت سے لوگ سورۃ الفیل کا ذکر کرنے لگے ۔ سراسیمگی کی اس حالت میں قریبی مسجد سے اللہ اکبر کی صدا بلند ہوئی ۔ آنکھ کھلی تو جسم پسینے سے شرابور تھا ۔ ا’ٹھ کر ٹیلی وژن آن کیا تو نجم سیٹھی کو دیکھتے ہی بند کر دیا ۔
آجکل بہت سے لوگوں کو ایسے خواب آ رہے ہیں ۔ اللہ جانے کیا ہونے والا ہے مگر سیاستدانوں اور نوکر شاہی کو اس کی فکر نہیں ۔ اللہ تعالٰی خیر کرے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے