فصیل دفاع کا تقدس

گریٹر برطانیہ کے بطن سے جنم لیتے ہی وطن عزیز نے بہت نشیب و فراز کا سامنا کرتے ہوئے کئی بحرانوں کا مقابلہ کیا۔اس کی کو کھ سے ریاست کے بنیادی ڈھانچے کا تعین کرنے والے آئین کی پیدائش اور پھر اداروں کا پروان چڑھنا لا زوال جدوجہد سے معمور درخشاں تاریخ کا حصہ ہے۔جس پر یہ قوم بجا طور پر فخر کر سکتی ہے۔کسی بھی مہذب معاشرے کی طرح ارض پاکستان میں آئین کو وہی بنیادی حیثیت حاصل ہے جو ایک شجر سایہ دار کی جڑوں کو ہوتی ہے جس سے چھتکار آسودگی اور عوام کے لیے عزت و وقار اور جان و مال کا تحفظ فراہم ہوتا ہے۔اور یہ سارا عمل ایک مضبوط اور مستحکم دفاعی حصار کے بغیر نا ممکن ہے۔جس کے لیے افواج پاکستان کی اپنی پیشہ وارانہ مہارت کے ساتھ ساتھ وطن عزیز کو درپیش داخلی تخریب کاروں اور شرپسندوں کی سرکوبی کے لیے سول انتظامیہ کی معاونت ضروری ہے۔یہ آئین ہی ہے جو حدود و قیود کو متعین کرنے کے ساتھ ساتھ اداروں کو اختیارات کا پیرہن پہناتا ہے۔پاکستان میں قائم اداروں کا اگرغیر جانبداری سے تجزیہ کیا جائے تو افواج پاکستان وہ واحد ادارہ ہے جو میرٹ، انصاف اور ڈسپلن کے زریں اصولوں سے مزین ہے۔اور جو اپنے جوانوں کو پاکستان ملٹری اکیڈمی جیسی معتبر تربیت گاہ میں سخت ترین،پرمشقت پیشہ وارانہ تربیت سے گزارنے کے ساتھ ساتھ رواداری، تحمل و برداشت ، اُجلی روایات اور تہذیبی اقدار سے آراستہ و پیراستہ کر کے جب میدان میں اتارتی ہیں اور پی ایم اے میں جانے والا ایک عام جوان جب پیشہ وارانہ تربیت مکمل کر کے وطن کی مٹی پر قربان ہو جانے کا جذبہ لے کرکندن بن کر باہر آتا ہے تو اُس کی شخصیت کا نکھار پوری قوم کے لیے قابل رشک اور باعث فخر ہوتا ہے اسی لیے بجا طور پر کہا گیا ’’اے پتر ہٹاں تے نہیں وکدے‘‘ خاکی وردی میں ملبوس وطن کے یہ بیٹے وطن عزیز اور اپنی قوم پر کوئی آنچ نہ آنے دینے کے جذبے سے سرشار ہو کر خون کا آخری قطرہ بہا دینے کے لیے ہمہ وقت چوکس رہتے ہیں۔یہ سرحدوں پر پہرا دیتے ہیں تو ان کی قوم سکون کی نیند سوتی ہے خاکی وردی اور وطن کی خاک سے محبت لازم و ملزوم ہیں مادر وطن کی حفاظت کا حلف لے کر سرحدوں پر دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بننے والے، دشمن کی گولی کو وطن کی خاک میں پیوست ہونے کے بجائے اپنے سینے پر اُتارکر فخر سے جام شہادت نوش کرنے والے وطن کے بیٹے ہمارا مان ہیں ہماری پہچان ہیں جن کی بہادری اور جرات بین الاقوامی طور پر مسلمہ ہے۔مگر مسلح افواج جنگوں میں دشمن کو خاک چٹانے، دشمن کے حملے کے نتیجہ میں اپنا سینہ پیش کرد ینے، جرات بہادری اور استقلال کی عظیم داستانیں رقم کرنے کا حوصلہ اور جذبہ اپنی قوم سے کشید کرتی ہیں۔پاکستانی قوم اپنی مصلح افواج کی پیشہ وارانہ مہارتوں کی ہمیشہ معترف رہی اور ان پر فخر کرتی رہی مگر تاریخ کے مقدر میں 09مئی 2023ء جیسا سیاہ ترین دن بھی کندہ ہونا تھا جب ریاست کے انتظامی اداروں کی مجرمانہ غفلت سے شرپسند عناصر کے شہداء کی یادگاروں کی بے حرمتی تاریخی عمارتوں کو نذر آتش کرنے اور فوجی تنصیبات کی توڑ پھوڑ جیسے ہولناک اور کرب ناک مناظر چشم فلک کو دیکھنا پڑے۔جن کی صرف مزاحمت کافی نہیں بلکہ اس مربوط منصوبے کو منطقی انجام تک پہنچا کر ملزمان کو نشان عبرت بنایا جانا انتہائی ضروری ہے۔یہی وجہ ہے کہ جنرل ہیڈ کوارٹرز میں خصوصی کور کمانڈر کانفرنس کا انعقاد کر کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف نافذ العمل ریاستی قوانین بشمول پاکستان آرمی ایکٹ 1952ء کی سیکشن 2-Dاور آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923ء کے تحت ٹرائل کے ذریعے ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لائے جانے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے۔
پاکستان آرمی ایکٹ 1952ء کا چیپٹرV جرائم سے متعلق ہے جس کی سیکشن Civil Offences59سے متعلق ہے جبکہ چیپٹرViiسزائوں سے متعلق اور چیپٹرXسزائوں کی کنفرمیشن اور Revisionجبکہ چیپٹرXiسزائوں کے عملدرآمد سے متعلق ہے موجودہ صورتحال کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت واقعات کی مزمت کرنے اور اپنے کارکنوں کی بے راہ روی والے شرمناک رویوں کی غلطی کو تسلیم کرنے اور ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے عملی اقدامات اُٹھانے کے بجائے غیظ و غضب ، اشتعال اور نفرت کے بارود کو اور ہوا دے رہی ہے۔جو مزید تصادم کا باعث بنے گا۔جس کا نقصان بحرحال اس ملک اور قوم کو بھگتنا پڑے گا۔ہمارے ہاں یہ المیہ بھی کسی سانحہ سے کم نہیں کہ ریاست میں انتظامیہ، معاشرتی اداروں اور دیگر سیاسی سماجی اداروں کے مابین فرق ملحوظ خاطر رکھے بغیر سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکے جانے کی روش پروان پا چکی ہے۔جس کے نتیجہ میں اقتدار سیاست کے کھلاڑی اُس حوصلے ، تحمل اور بردباری کی روش سے عاری ہو چکے ہیں جس سے پارلیمانی جمہوریت کا حسن قائم رہتا ہے۔اور یہ نظام عوام کی امنگوں کا ترجمان بن جاتا ہے۔حالیہ واقعات سے وطن عزیز کے اس حصار میں اور دفاع کی فصیل شگاف ڈالنے کی کوشش کی گئی جو حاسدین اور دشمنوں کی نگاہ میں کھٹکتے ہیں ایسے میں غرناطہ کے مسلمانوں پہ بیتنے والی قیامت تاریخ کے اوراق پر ہمارے لیے سبق کے طور پر موجود ہے۔آخر میں ببانگ دہل اس امر کا اظہار اپنی ذات اور ہر با ضمیر پاکستانی پر فرض سمجھتی ہیں کہ وہ قولاً اور فعلاً مخالفین پر یہ عیاں کر دے کہ ہم اپنی فصیل دفاع اور اس کے محافظوں کے شانہ بشانہ ہیں۔اور اس کے تقدس کو پامال نہیں ہونے دیں گے۔
(جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے