احساس ہوتا بھی ہے کہ نہیں ۔۔۔

میں نے زندگی میں ایسی بہت سے وقعات پڑھے اورسنے ہیں جن کی جانب معاشرے کی توجہ مبذول کرانا بے حد ضروری ہے۔شعبہ صحافت و نشرو اشاعت سے کئی برس تک وابستگی کے بعد میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ انسان اپنی دنیاوی زندگی میں بے وقعت ہوتا ہے لیکن جب اسکی روح قفس عنصری سے پرواز کرکے زمان ومکان کی حدود سے آزاد ہوتی ہے تو لوگ اسکی وقعت پہنچاننے لگتے ہیں۔ اسکی تعریفیں زبان زد عام ہوتی ہیں۔ یہ امر کسی المیے سے کم نہیں۔
یہ کہنا مشکل ہے کہ کسی شخص کی موت کے بعد ہونے والی اسکی تعریفوں میں خلوص کتنا ہوتا ہےاور ریا کتنی۔ پردے رکھنے والے رب نے یہ بات ہم سے پوشیدہ ہی رکھی ہے، بے شک اسکی حکمتیں ہم نہیں جانتے۔ وہ رب روز آخرت کا بھی مالک ہے جب محشر بپا ہوگا اور انسان کے اعمال اپنی نیتوں سمیت میزان میں تولے جائیں گے۔ حالیہ رمضان میں بھی ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا جس نے مجھے یہ سب سوچنے پر مجبور کیا۔ دبئی جیسے دیار غیر میں وطن کے حالات سے آشنائی کیلئے بار بار پاکستانی نیوز چینل دیکھنے کو جی چاہتا ہے۔ ایک روز نصف شب کے بعد ٹی وی چلا کر سحری کی منتظر سکرین پر نگاہیں جمائے بیٹھی تھی کہ پاکستان سے بھائی کا فون آیا، خیریت دریافت کرنے کے بعد انہوں نے بتایا کہ گاؤں میں ہمارے ایک جاننے والے کا بیٹا جسکا نام اسد تھا، وہ حادثے کا شکار ہوکر چل بسا ہے۔ یہ سنتے ہی جیسے دل ڈوب سا گیا، میرا وجود ایک عجیب سے کیفیت میں مبتلا ہوگیا، زبان لامحدود خامشی جبکہ دماغ سوالات کے لامتناعی سلسلے میں ڈوب گیا۔
کسی بھی انسان کی موت، جسے آپ جانتے ہوں، آپ پر شدید افسردگی طاری کردیتی ہے۔ انسان کو زندگی کی بے ثباتی کا احساس شدت سے ستانے لگتا ہے۔ خاموش لیکن تاریک رات میں وقت گھڑی گھڑی کرکے یوں گزر رہاتھا جیسے حیات سسک سسک کر دم توڑ رہی ہو لیکن دماغ خیالات کے ہجوم میں یہ سوال کررہا تھا کہ مرحوم کے اس دار فانی سے کوچ کرنے کے بعد اب اسکی تعریفیں ہوں گی۔ شاید ان تعریفی جملوں میں سے چند ایک اسکی زندگی میں ہی کہہ دیے جاتے تواسکی زندگی مختلف ہوتی۔ جب وہ زندہ ہوتا ہے تب کیوں ہمیں کچھ محسوس نہیں ہوتا کہ سامنے والے کو ہماری محبت بھری نظروں کی۔۔۔ اچھے الفاظ کی۔۔ رحم کی۔۔اچھے تعلقات ۔۔۔ خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔۔۔ تاکہ جب کسی کی آنکھیں ہمیشہ کیلئے بند ہوں اور وہ اس دنیا سے جائے تو اسکی روح کو اس قدر طمانیت ضرور حاصل ہو کہ دنیا میں وہ مکمل طور پر بے وقعت نہیں رہا۔۔۔۔ اور یہی توزندگی کا نام ہے جو ہماری۔۔۔ ہم سب کی حیات میں خوشیوں کا۔۔۔سکون کا سبب ہے ۔۔۔ کیوں آخر کیوں۔۔۔؟ہمیں انسان کو کھونے کے بعد ان سب کا احساس ہوتا ہے۔۔۔ احساس ہوتا بھی ہے کہ نہیں ۔۔۔؟
تب اسد میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔۔۔ اور نہ ہی کبھی زندگی میں۔۔۔ لیکن آج میں بہت افسردہ تھی۔۔۔ کہ ہمیں ہمیشہ یہ احساس اس وقت ہوتاہے کہ جب کوئی اس دار فانی سے کوچ کرجاتاہے۔۔۔ ہمیں یہ احساس کسی کے مرنے کے بعد ہی کیوں ہوتاہے کہ فلاں بہت اچھا تھا۔۔۔ یا اچھی تھی۔۔۔ زیست کے ہوتے ہوئے اگر یہی خیالات جھنجھوڑ لیں تو۔۔۔یہ الفاظ سننے کیلئے ہمیشہ آنکھیں بند ہونے کا انتظار کیوں کرنا پڑتا ہے۔۔۔؟اس جیسے بہت سے سوالات آنکھوں کے سامنے گھومتے گئے لیکن جواب تھا کہ کہیں دور دور تک نظر نہیں آرہا تھا۔۔۔ اسد نے دنیا کی رنگینیاں دیکھی ہی نہیں تھیں کیونکہ اس کی پیدائش سے چند ماہ پہلے ہی اسکے والد دشمنی کے بھینٹ چڑھ گئے اوراپنے پیچھے ایک بیوہ اور چار بچوں جن میں دو بیٹیاں اور دو بیٹوں کو بے حس دنیا کے رحم و کرم پر چھوڑ گئے۔۔۔ والد کے وفات کے چند ماہ بعد ہی اسد نے آنکھ توکھولی لیکن خود کو باپ کے سائے سے محروم پایا۔۔۔ اپنے پیاروں کے ہونے یا نہ ہونے سے زندگی رکتی نہیں بلکہ اسی دوڑ سے دوڑتی ہے۔۔۔ ہاں یہ ہے کہ والد کے سائے سے محروم بچوں کو زندگی کی مار بڑی سخت پڑتی ہے ۔۔۔ اسد کو پیدائش سے لیکر وفات تک سگوں نے سکھ کا سانس لینے نہیں دیا۔۔۔کبھی اپنوں کی طرف سے تو کبھی پرائیوں کی بے رخی اور ظلم و ستم کا نشانہ بنا رہا۔۔۔ سکول ،کالج یا پھر یونیورسٹی میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کا خیال تو دور کی بات، اس گھرانے کو دو وقت کی عزت کی روٹی بھی میسر نہیں تھی۔۔۔ اپنوں کی زیادتی اور معاشرے کے ٹھکرانے کے بعد اسد کوجہاں چھوٹی موٹی چوریاں ۔۔۔ پیسے مانگنا پڑے۔۔۔ تو وہیں اسے نشے کی لت بھی لگ گئی۔۔۔والدہ اور بڑے بھائی نے اسد کو راہ راست پر لانے کیلئے اسکی شادی کروادی لیکن حاصل کچھ نہیں۔۔۔مختصر یہی کہونگی کہ اسد کی وفات سے چند ماہ پہلے ،ڈرگ ٹریٹمنٹ اینڈ ریہبلیٹیشن سنٹر،میں داخل کیا جہاں سے صحتیابی کے بعد گھر واپس آیا۔۔۔۔معاشرے ،اپنے خونی رشتوں کے ہاتھوں دھتکارے جانے والے اسد کی موت 28 سال کی عمر میں روڈ حادثے میں ہوئی اور منوں مٹی تلے ہمیشہ کیلئے سو گیا۔۔۔ ہمارے معاشرے میں اسد جیسی اور بھی بہت سی سچی کہانیوں سے روز ہمارا واسطہ پڑتا ہے لیکن کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔۔۔باپ کے سائے سے محروم بچوں کو آئے روز زندگی کی تپتی دھوپ بے رحمی سے تھپڑ مارتی تو ہے لیکن کبھی ایسا کوئی سامنے نہیں آیا کہ ان بے سہاروں کا ہاتھ پکڑ کر انہیں محرومیوں کی اونچائی سے خوشیوں کے تالاب میں اتار دے۔۔۔ انہی ظلم و ستم اور محرومیوں کی بدولت اچھے بھلے بچے اپنی راہ سے بھٹکنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔۔۔ جنہیں سکھ کا سانس لینا تو درکنار ایسے ایسے القابات سے نوازا جاتا ہے کہ انسان بے بسی کا ماتم ہی کر سکتا ہے۔۔۔ اسدجیسے اور بھی بہت سارے یتیم بچوں اور بزرگوں کیساتھ انکے اپنے خونی رشتے ایسا سلوک کرتے ہیں کہ ان پر اپنی ہی زندگی تنگ کر دیتے ہیں اور جب ان کی سانس ان کے جسم سے رخصت ہو جاتی ہے تومیت کے ارد گرد انہی رشتے داروں کا تانتا بندھ جاتا ہے جو انکی شکل تک دیکھنا گوارا نہیں کرتے تھے بلکہ انہیں تکلیف میں دیکھ کر سکھ کی ٹھنڈی سانسیں بھرتے تھے۔۔۔
یہاں میں خود سے۔۔۔ آپ سے۔۔۔ سب سے یہ سوال کرنا چاہتی ہوں کہ کیایہ ہماری ذمہ داری نہیں کہ والدین کے سائے سے محروم بچوں کو ان کی پہچان کرا سکیں۔۔۔؟؟؟ ان کے سر پر شفقت ،محبت کا ہاتھ رکھ کرانہیں اچھی زندگی کی طرف لا سکیں؟؟؟یہ کہانی صرف اسدکی نہیں ۔ بلکہ ہمارے معاشرے میں ایسے کئی اسد موجود ہیں جنہیں ہماری محبت بھری نگاہ کی اشدضرورت ہے۔۔۔ جنہیں انتظارہے میرے۔۔۔ آپ کے۔۔۔۔ہم سب کے سہارے کا تاکہ وہ بھی مہذب شہری بن سکیں۔واضح رہے کہ یہ کہانی حقائق پر مبنی ہے لیکن اس کے کردار فرضی ہیں۔
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے