یہ اُن دِنوں کی بات ہے

باب سلطان، باب مجاہدِ اوّل، بینظیر بھٹو میڈیکل کالج، آصفہ بھٹو پارک، نواز شریف ہسپتال، مجاہدِ اوّل ، غازی ملت ، مجاہدِ ملت ، غازی الہی بخش کالج اور اسلام گڑھ کے نام تو ہم نے سُن رکھے ہیں مگر ہو سکتا ہے کہ دیگر اضلاع میں بھی کچھ اسلامی ناموں کے علاوہ دوستوں یاروں اور خود ساختہ ہیروز کے ناموں سے سرکاری خرچ پر نام رکھ دیے گئے ہوں ۔ ہماری ادنیٰ کوششوں سے جنرل پرویز مشرف نے نائیک سیف علی جنجوعہ شہید (ھلال کشمیر) کو نشانِ حیدر سے نوازا اور تحریکِ جہاد کشمیر کے اس عظیم ہیرو کی قربانی کو بہترین خراجِ عقیدت پیش کیا۔ اس کاوش کا کریڈٹ مصنف (ھلالِ کشمیر) انوار ایوب راجہ سے بڑھ کر آئی ۔ ایس۔پی۔آر کے کرنل منصور رشید اور جنرل راشد قریشی کو جاتا ہے جنہوں نے ھلالِ کشمیر کو پاک فوج کے ترجمان رسالے ھلال میں شائع کیا ۔ اس سے پہلے آزاد کشمیر اسمبلی میں پیش کردہ قرار داد یہ کہہ کر مسترد کر دی گئی تھی کہ نائیک سیف علی کی بیوہ کووہ پینشن مل رہی ہے جو ایک شہید نائیک کی بیوہ کا حق ہے ۔ نائیک سیف علی شہید کا سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ وہ کسی سلطان معظم ، غازی ملت، مجاہدِ اوّل ، مجاہدِ ملت یا کسی ٹن بلیک لیبل نو دولتیے کرپٹ سیاستدان یا وزیر مشیر کی برادری سے نہ تھا۔
آزاد حکومت میں بیٹھے غلاموں نے تو کوئی کوشش نہ کی اور نہ ہی پیپلز پارٹی اور مسلم کانفرنس کے ٹکڑوں پر پلنے والے اور کرپٹ سیاستدان کے جو ٹھے برتن چاٹنے والے کسی صحافی کو توفیق ہوئی کہ وہ نائیک سیف علی جنجوعہ شہید اور دیگر شہدائے کشمیر کی شان میں دو حرف لکھنے کی جراٗت کرتا۔ برادری ازم کا تعصب صرف سیاستدانوں میں ہی نہیں بلکہ اھلِ علم و قلم کے دِلوں اور دماغوں میں بھی یہ زہر رَچ بس گیا ہے۔ گورنمنٹ ڈگری کالج چڑہوئی آزاد کشمیر کے سابق پرنسپل پروفیسر راجہ فضل الرحمٰن نے ضلع باغ آزاد کشمیر کے ایک پروفیسر صاحب جو روزمامہ نوائے وقت کے مستقل کالم نگار ہیں سے گزارش کی کہ آ پ ضلع پونچھ کے مجاہدوں کے کارناموں پر لکھتے ہیں ۔ اگر توفیق ہو تو 1947کی مجاہدہ حسین بی بی شہید ‘‘ستارہِ جراٗت’’ پر بھی لکھ دیں۔ حسین بی بی دُنیا کی اُن چند جنگجو خواتین میں شامل ہے جو مردوں کے شانہ بشانہ لڑتی ہوئی شہادت کے عظیم مرتبے پر پہنچی ۔ پروفیسر صاحب نے فرمایا کہ حسین بی بی شہید کا تعلق چھوٹی برادری سے ہے اس لیے اس پر نہیں لکھا جا سکتا۔
کالم نگار ، محقق ، ماہرِ تعلیم پروفیسر صاحب شاید نہیں جانتے تھے نائیک سیف علی جنجوعہ شہید (نشانِ حیدر) اور محترمہ حسین بی بی شہید (ستارہٗ جراٗت ) کا تعلق ایک ہی برادری سے ہے۔ جس ملک اور قوم کے خود ساختہ کرپٹ لیڈروں اور اھل علم و قلم کی سوچ منفی اور سطحی ہو انہیں آزادی تو کیا غلامی کی بھی نچلی سطح نصیب نہیں ہوتی۔ ‘‘اسلام آباد ، جاتی عمرا اور بلاول ہاوٗس میں اِن کی عزت وہاں کے ملازموں جیسی بھی نہیں ۔ ہمارے ایک سابق وزیر اعظم صاحب اکثر شکوہ کرتے تھے کے اسلام آباد میں ان کی پارٹی کے پردھان اور ملک کے حکمران کا نوکر میرا نام لیکر پکارتا ہے ۔ میں شاہی مہمانوں کے کمرے میں بیٹھا ہوتا ہوں تو وہ آواز لگاتا ہے کہ تم میں فلاں شخص ہے اُس کو بولو کہ اندر آ جائے۔
بھارتی خفیہ ایجنسی کا سابق چیف ‘‘ایس کے دلت ’’ لکھتا ہے کہ میں نے جناب گیلانی ، میر واعظ عمر فاروق اور یٰسین ملک سے الگ الگ ملاقاتیں کیں اور اُنھیں بھارتی آئین کی حدود میں رہتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل کی دعوت دی ۔ مجھے یہ مشن وزیر اعظم واجپائی نے دیا تھا مگر کامیابی نہ ہوئی ۔جناب علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق سے اچھے ماحول میں ملاقات ہوئی مگر یٰسین ملک نے پہلے مجھے انتظار کروایا اور پھر کسی ہیلو ہائے کے بغیر سرخ ٹی شرٹ اور پاجامے میں ملبوس گرد آلود سلیپر پہنے میرے سامنے بیٹھ گیا۔ یٰسین ملک نے سلیپروں سمیت دونوں پاوٗں سامنے والی ٹیبل پر رکھے ، سگریٹ سلگایا اور ہوا میں وغولہ چھوڑتے ہوئے بولا کیا کہنا چاہتے ہو ؟ میں نے کہا تم کیا چاہتے ہو۔ یٰسین نے کہا آزادی ۔ میں نے کہا آزادی تو میرا بیٹا بھی چاہتا ہے ۔ وہ بولا بیٹا تم سے آزادی چاہتا ہے میں بھارت سے کشمیر اور کشمیریوں کی آزادی چاہتا ہوں ۔ دلت لکھتا ہے کہ میرے لئے یہ ایک حیران کن ، دلچسپ اور سبق آموز ملاقات تھی۔ یٰسین ملک قیدی تھا مگر اسے کوئی خوف نہ تھا۔ جناب گیلانی اور میر واعظ کو تا حیات کشمیر کی حکمرانی پیش کی گئی مگر دونوں نے ٹھکرا دی۔ ذولفقار علی بھٹو نے بھی ٹانڈا ڈیم ریسٹ ہاوٗس کوہاٹ میں شہید کشمیر مقبول بٹ سے مذاکرات کرنے والی حکومتی ٹیم کے ذریعے پیغام بھجوایا تھا کہ تحریک آزادی سے دستبر دار ہو جاوٗ اور تاحیات آزاد کشمیر کی صدارت قبول کر لو مگر مقبول بٹ نے شہادت کا راستہ چُنا اور آزاد کشمیر کی صدارت اور وزارتِ عظمیٰ کا طوق گلے میں ڈالنے کے بجائے پھانسی کا پھندا قبول کر لیا۔ غلامی اور بے توقیری کا یہ طوق اب اتنا قیمتی ہے کہ پاکستان کا توشہ خانہ بھی اس کا مقابلہ نہیں کرتا۔ غلامی اور بے توقیری کا طوق امرتسر معائدے جیسی اہمیت کا حامل ہے مگر اب اسے پہننے والے ندامت نہیں بلکہ فخر محسوس کرتے ہیں ۔ حضرت قائد اعظم پر سارے حربے آزمانے کے بعد برٹش انڈین گورنمنٹ اور کانگریسی رہنماوٗں نے آپ کو تاحیات متحدہ ہندوستان کی وزارتِ عظمیٰ کی پیش کش کی تاکہ آپ پاکستان کا مطالبہ چھوڑ دیں ۔ آپ نے فرمایا مجھے پاکستان کے سوا کچھ نہیں چاہیے اور نہ میں کسی ایسے فضول موضوع پر بات کرونگا۔ خود ساختہ پاکستانی قائدین لندن اور واشنگٹن سے حکمرانی کا پروانہ لیکر آتے ہیں اور اُن کے ماتحت ملازم آزاد کشمیر کے برادری جمہوری ڈیلر اور نو دولتیے اسلام آباد ، جاتی عمرا اور زرداری ہاوٗس سے زیادہ سے زیادہ بولی دیکر کرپشن ، لوٹ مار اور عیش و عشرت کا سرٹیفکیٹ برادری جمہوریت اور آزادی بزنس کے نام پر وصولتے ہیں ۔ ہمارے ملک میں شہیدوں کی بھی درجہ بندیاں ہیں ۔
چھوٹی برادری کا شہید بڑی برادری کے غازی اور سیاستدان کی نسبت کم درجے کا حامل ہے۔ جیسا کہ پہلے لکھا ہے کہ میرے گاوٗں کا نام نرماہ ہے۔ یہ ایک تاریخی اہمیت کا حامل قدیم ترین گاوٗں ہے جس کے کھنڈرات سے اس کی تاریخ معلوم کی جاسکتی ہے ۔ محمد دین فوق کی تاریخ کشمیر اور تاریخ اقوام پونچھ کے مطابق نرماہ میں راجہ نار سنگھ کی اولاد قدیم دور سے آباد ہے ۔ ہندو عقیدے کے مطابق نار سنگھ چندر بنسی راجپوت تھا ۔ تاریخ شاہان گجر کے مصنف مولانا عبدالمالک سابق مشیر مال ریاست بہاولپور نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے ۔ ذات برادریوں اور گوتوں کی تاریخ محض پہچان کیلئے ہے ۔ کائینات کی سچی اور حقیقی تاریخ قرآن کریم میں بھی یہی بیان ہے۔ عصبیت، عقیدت ، سیاست اور فضیلت سے مبّرا ذاتوں اور قبیلوں کی تاریخ در حقیقت انسانی تاریخ کے زُمرے میں ہی نہیں آتی۔
آزادی کا بیس کیمپ کہلواتی ریاست آزاد کشمیر کے خود ساختہ بلیک لیبل سیاسی ڈیلروں کی ذہنی کیفیت اور بغض سے بھرے دلوں اور دماغوں کی کیفیت بد ترین حکمران خاندانوں کی درندگی سے بھی بد تر ہے۔ جیسا کہ عرض کیا ہے کہ نرماہ کے تاریخی گاوٗں کی ایک چھوٹی سی ڈھوک کالا ڈب پٹوار کے لحاظ سے تین حصوں میں تقسیم ہے۔ گلی کے ایک طرف کے چند گھر پٹوار سرکل پلاہل کلاں میں ، دوسرا آدھا نرماہ اور کچھ حصہ ضلع میرپور میں شامل ہے۔ کالا ڈب کی اِس بستی میں سوائے چند گھروں کے جہاں مشہور عالم دین ، فارسی اور عربی کے استاد اور مصنف میاں جیون کا خاندان ا ٓباد ہے کے علاوہ ساری آبادی 1947کے مہاجرین کی ہے۔
1947سے پہلے یہاں ہندو ساہوکار مہتہ خاندان آباد تھا۔ بخشی عشر اور بخشی لعل کا خاندان 1947کے فسادات سے پہلے ہی بمبئی اور دلی منتقل ہو گیا تھا اور اپنی جائیدادیں امانتاً اپنے ملازم چودھری شاہ محمد جن کا گھر سہار ضلع میرپورمیں ہے کے حوالے کر گئے ۔ہندوٗوں کے اس خاندان کا مفصل ذکر پچھلی اقساط میں گزر چکا ہے۔ 1947کے بعد میرے نانا سفید پوش ذیلدار راجہ ولائت خان نے ہندوٗوں کی چھوڑی ہوئی جائیدادوں پر مہاجرین کو آباد کیا اور زمینوں کا بڑا حصہ اور ونڈ داری چودھری شاہ محمد کے پاس ہی رہی ۔ بعد میں چودھری صاحب کے خاندان نے پٹواریوں کی مدد سے کچھ کاغذات میں رد و بدل کیا اور عدالتوں میں ثابت کر دیا کہ ہندو اُنھیں اپنی جائیدادیں بیچ کر گئے تھے ۔ آزاد کشمیر سپریم کورٹ نے بھی مہاجرین کے حق میں فیصلے دیے مگر پٹواریوں اور تھانیداروں نے کیپٹن وکٹر جیکو ماونٹ کے بیان کردہ گو بند پور (افضل پور) کے ڈوگرے تھانیدار کی روایت قائم رکھتے ہُوئے ریاست کی سب سے بڑی عدالت کے فیصلے کو فضول تصور کرتے ہوئے واقع ھٰذا کو داخل دفتر کر دیا۔
1971کی پاک بھارت جنگ کے دوران کالا ڈب کے نرماہ والے حصے میں مقیم مہاجرین میں سے ایک سپوت نائب صوبیدار راجہ بہادر خان نکیال سیکٹر میں بہادری سے لڑتا ہوا شہید ہُوا۔ نائب صوبیدار بہادر خان شہید کو بعد از شہادت تمغہ جراٗت کے اعزاز سے نوازا گیا۔ اسی طرح نرماہ کی ایک بستی دبلیاہ راجگان کے کیپٹن راجہ جاوید اقبال شہید نے 1999میں کارگل کے محاذ پر جان کی قربانی پیش کی اور اُنہیں ستارہ بسالت عطا کیا گیا۔ کالا ڈب اور نرماہ سے تعلق رکھنے والے محبان وطن نے آزاد کشمیر حکومت سے متعدد بار درخواست کی کہ کالا ڈب کا نام نائب صوبیدار راجہ بہادر خان شہید کے نام پر اور دبلیاہ راجگان کے گورنمنٹ پرائمری سکول کا نام کیپٹن راجہ جاوید اقبال شہید کے نام سے منسوب کیا جائے ۔ چونکہ دونوں اعزاز یافتہ شہید علاقہ کے ممبر آزاد کشمیر اسمبلی اور پیپلز پارٹی کے وزیر کی برادری سے تعلق نہیں رکھتے اس لئے وہ دُشمن برادری کے زمرے میں آتے ہیں ۔ ایم ایل اے اور وزیر کی تو مجبوری ہے کہ وہ برادری ازم کے نعرے پر الیکشن میں کامیاب ہوتا ہے مگر حیران کن بات یہ ہے کہ آزاد کشمیر کے جنگجو اور کشمیر فتح کرنے کے دعویدار سدھن قبیلے سے تعلق رکھنے والے آزاد کشمیر کے گزرے صدر میجر جنرل (ر) انور خان کی راجپوتوں سے کیا دشمنی تھی ۔ بیان کردہ دونوں شہیدوں کی درخواستیں دیکھ کر جنرل انور آگ بھگولہ ہو گیا اور درخواستیں مسترد کردیں ۔ جنرل انور کو جب پتہ چلا کہ کشمیر کونسل کے ممبر( مرحوم) مطلوب انقلابی کی وساطت سے کشمیر کونسل نے کیپٹن راجہ جاوید اقبال شہید تمغہ بسالت کے گھر تک ایک کلو میٹر سڑک تعمیر کی ہے تو جنگجو اور خود ساختہ فاتح کشمیر قبیلے کے اس جرنیل نے ایک انکوائیری کمیشن بٹھا دیاتا کہ پتہ لگایا جاسکے کہ اس سڑک کی تعمیر میں کوئی کرپشن تو نہیں ہوئی ؟ حیرت کی بات ہے کہ جس ریاست کا سارا نظام کرپشن ، کمیشن اور رشوت کی بنیادوں پر قائم ہے اسے ایک کلو میٹر سڑک میں کرپشن کا شک کیسے ہُوا۔ انکوائری کا حکم دینے کے بعد اُن کے مشیر نے اُنھیں سمجھایا کہ سڑک کیلئے فنڈز ممبر کشمیر کونسل کے نام سے جاری ہوئے ہیں اور آزاد کشمیر حکومت نے سڑک تعمیر کی ہے۔ اِس سڑک کی تعمیر سے شہید کے لواحقین کا کوئی تعلق نہیں ۔ جنرل انور کا فوج میں بڑا نام تھا ۔ وہ سٹاف کالج اور نیشنل ڈیفنس کالج میں استاد رہے تھے مگر سیاسی اخلاقیات کا امتحان تھرڈ ڈویژن مین بھی پاس نہ کر سکے ۔ جنرل انور کو جنرل پرویز مشرف نے فوج سے ریٹائرکروایا اور پھر سروس رولز میں صرف ایک شخص کے لیے تبدیلی کروا کر آزاد کشمیر کی صدارت پر مسلط کر دیا۔ جنرل پرویز مشرف اُنھیں جس خاص کام کیلئے لائے تھے وہ بھی نہ ہُوا۔
نہ سردار سکندر حیات نے جنرل انور کے سامنے ہتھیار ڈالے ، نہ اختیارات میں اضافہ کیا، نہ جنرل انور اور سردار عتیق کا ہم خیال گروپ سکندر حیات کو اقتدار سے ہٹا سکا، نہ مرحوم جسٹس یونس سرکھوی نے جنرل انور کے دباوٗ میں آکر چناب فارمولے کے بیان پر سکندر حیات کو نا اہل کیا، نہ جنرل مشرف کا کشمیر فارمولا کامیاب ہُوا اور نہ ہی جنرل انور سدھن برادری کو متحرک کرنے اور نئی سیاسی جماعت بنانے میں کامیاب ہُوا۔ پہلے بھی عرض کیا ہے کہ ہمارے علاقہ میں تعلیم ، صحت اور سفری سہولیات کیلئے میرے نانا سفید پوش ذیلدار راجہ ولائت خان نے بہت کام کیا۔ سفید پوش کی حیثیت سے آپ کو صوبائی گورنر تک رسائی حاصل تھی جس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے آپ نے ڈوگرہ دور حکومت میں لڑکیوں اور لڑکوں کا سکول اور یونانی ڈسپنسری منظور کروائی۔ بابو غلام قادر مرحوم گورنر سیکریٹریٹ جموں میں کلرک تھے۔ ذیلدار صاحب بابو غلام قادر کی وساطت سے ہی سرکاری اداروں سے خط و کتابت کرتے تھے جسکا ذکر بابو غلام قادر نے اپنے خطوط بنام ذیلدار صاحب میں کیا ہے۔
بابو صاحب لکھتے ہیں کہ آپ جس لگن و محنت سے بچوں اور بچیوں کی تعلیم ، صحت عامہ اور مفاد عامہ کیلئے کام کرتے ہیں میرے لیے باعث فخر ہے ۔ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ آپ جب بھی مفاد عامہ کے کسی کام کیلئے حکومت کو درخواست دیں اُسپر میرا نام بھی لکھ دیا کریں ۔ ذیلدار صاحب کے فلاحی کاموں میں بابو غلام قادر کے علاوہ چودھری نور محمد بھی معاونت کرتے تھے ۔ لڑکیوں کے سکول کیلئے اپنی مدد آپ کے تحت ذیلدار صاحب نے چودھری نور محمد کی وساطت سے کمرہ تیار کروایا جبکہ لڑکوں کے سکول اور ڈسپنسری کیلئے چودھری صاحب نے اپنا مکان خالی کر دیا ۔ سیاسی اخلاقیات اور انسانی اقدار و روایات کا تقاضہ تو یہ تھا کہ پلاہل کلاں گرلز سکول جو اب گرلز کالج ہے کا نام ڈوگرہ دور میں قائم ہوئے سکول کی پہلی معلمہ پکھراج بیگم جو جموں و سانبھہ سے والنٹیر ہو کر یہاں بچیوں کو پڑھانے آئیں یا پھر سفید پوش ذیلدار راجہ ولائت جن کی کوششوں یہ ادارے قائم ہوئے سے منسوب کیا جاتا۔ اِسی طرح ذیلدار صاحب کی معاونت کرنیوالے بابو غلام قادر اور چودھری نور محمد مرحوم کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا بہترین طریقہ بھی یہی تھا کہ ان تین اداروں کے نام ان تین شخصیات کے نام سے منسوب ہوتے تاکہ نئی نسل کو ان محسنوں کے کارناموں سے روشناس کروایا جاتا جنھہوں نے دور غلامی میں انسانی خدمت کیلئے انتھک محنت اور جراٗت سے کام لیا۔ ذیلدار صاحب مردم شناس تھے ۔ آپ نے ہر آدمی کو اُس کی قابلیت کے مطابق کام پر لگایا اور اُن کی صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھایا۔
1947سے پہلے اپنے علاقہ میں مسلم کانفرنس کی ممبر شپ کیلئے لوگوں میں سیاسی شعور بیدار کیا اور نیشنل کانفرنس کے پاوٗں نہ جمنے دیے۔ آپ کے چھوٹے بھائی فاریسٹ آفیسر مولوی اشرف صاحب اپنے دور کے بہترین مقرر، عالم دین اور سیاسی ورکر تھے۔ آپ کی کوششوں کی وجہ سے شیخ عبداللہ کا دورہ ناکام ہُوا اور وہ نارمہ بیلٹ میں داخل نہ ہو سکا۔ بل جاگیر اور کھوئیرٹہ کے علاقوں میں ہندوٗوں اور مسلمانوں نے نیشنل کانفرنس میں بھرپور شرکت کی ۔ شیخ عبداللہ نے کامریڈ غازی عبدالرحمٰن اور کوٹلی سوھلاں کے رئیس کامریڈ تر لوک چند کی دعوت پر کھوئیرٹہ کا ناکام دورہ کیا اور وہاں ہی سے واپس جموں چلا گیا۔ لیفٹیننٹ راجہ مظفر خان شہید ستارہ ٗ جراٗت (دو بار) لکھتے ہیں کہ
1932 کے شورش کے دوران شیخ عبداللہ بہت مشہور ہوا۔ کشمیریوں کے ایک بد بخت ٹولے نے اسے امام المسلمین اور پھر امام مہدی کا خطاب دیا جو بلا شبہ قادیانیوں کی سازش تھی ۔ غدار شیخ جو رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کا مقلد تھا لوگوں کی بیعت بھی لینے لگا۔ سادہ لوح اور دین کی سمجھ نہ رکھنے والے مسلمان اُس کا ہاتھ چومتے اور اُسے فرشتہ سیرت تصور کرتے۔ راجہ مظفر خان شہید نے اپنی ڈائری کے صفحہ 14تحریر سال 1947 میں شیخ عبداللہ کے کردار و شخصیت کو حضرت مولانا رومؒ کے اس شعر میں سمو دیا۔
اے بسا ابلیس شکل آدم است
پس بہر دست نیا ید داد دست
موجودہ سیاسی ڈیلروں اور ملت فروشوں کا کردار بھی ایسا ہی ہے ۔ جنت کے سرٹیفیکیٹ جو پندرویں اور سولہویں صدی میں پاپائے روم کے کارندے تقسیم کرتے تھے آجکل مملکت خداداد میں بھی تقسیم ہو رہے ہیں۔ 1932 سے 1950 تک ذیلدار صاحب نے شیخ عبداللہ کا راستہ علمائے دین کی وساطت سے روکا اور پھر پونچھ سے ہجرت کرکے کالا ڈب آباد ہُونے والے تحریکِ آزادی کے پُر جوش کارکن، مقرر اور شاعرماسٹر نذر محمد آزادی کو مسلم کانفرنس کی تنظیم نو کا کام سونپا
(جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے