اِس تحریر کی ابتداٗ میں ذکر کیا تھا کہ ٹاڈا راجستان جس کے حوالہ جات دیگر تاریخی کتب میں بھی نقل ہوئے ہیں کے مطابق میرے خاندان کے اولین چار بزرگ مغل بادشاہ اورنگزیب کے دور میں مسلمان ہوئے۔ قبول اسلام کے بعد چاروں بھائی جن کے نام راجہ جلال خان ، راجہ لال خان، راجہ کھمبو خان اور راجہ تندو خان تھے راجپوتانہ سے نقل مکانی کرتے ہوئے جہلم کے قدیم ترین گاوٗں فتح پور پلان آئے جو خالصتاً نارمہ راجپوتوں کا گاوٗں ہے۔ کچھ عرصہ فتح پور پلان میں قیام کرنے کے بعد راجہ جلال اپنے بھائیوں اور قبیلے کے دیگر افراد کے ہمراہ علاقہ پنجن پلاہل اور گرد و نواح میں آباد ہُوا۔ کشمیر کے صوبہ جموں کی تحصیل نوشہرہ کے مختلف دیہاتوں میں ہندو نارمہ قبیلہ راجہ رنادت اور منگلادت کے ادوار سے ہی آباد تھا۔ راجہ جلال خان پنجن میں آباد ہُوا جبکہ لال خان پلاہل ، کھمبو ڈل میں جو اب ڈل کھمبا کہلاتا ہے اور تندو نے تندڑ گاوٗں آباد کیا ۔
مغل بادشاہ اکبر نے کشمیر فتح کیا تو موسمیاتی اور جغرافیائی حالات کے مدِ نظر کشمیر میں داخلے کیلئے چار مغل شاہراہیں قائم کیں ۔ پہلی مغل شاہراہ جموں سے براستہ بانہال جس کی معاون شاہراہ سیالکوٹ سے پونچھ اور براستہ اوڑی سرینگر میں داخل ہوتی تھی ۔ مغلوں نے براستہ بانہال کشمیر پر پانچ حملے کیئے مگر ناکام رہے ۔ چھٹا حملہ جسے کشمیریوں کی بھی حمایت شامل تھی براستہ پونچھ کیا جسے کامیابی حاصل ہوئی۔ کشمیر کی پانچ ہزار سالہ منقول تاریخ میں پہلی بار کشمیری فرقہ واریت ، اقرباٗ پروری، برادری ازم اور ریاستی جبر سے تنگ آکر چک خاندان کے ظلم و جبر کے خلاف بیرونی حملہ آوروں کی مدد اور رہنمائی پر مجبور ہوئے ۔ سکندر اعظم جیسا فاتح عالم، محمود غزنوی جیسا بہادر اور امیر تیمور جیسا خونخوار حملہ آور بھی تسخیر کشمیر کی آرزو پوری نہ کر سکا ۔ منگولوں کے دو جرنیلوں ذوالچو خان اور اچل منگل نے کشمیر پر حملے کیئے مگر ناکام و نا مراد لوٹے۔
ذوالچو خان کشمیر میں قتلِ عام کے بعد واپس جاتے ہوئے نیلم میں برف کے طوفان میں پھنس کر لشکر سمیت ہلاک ہوا اور اچل منگل کشمیر کے پہلے مسلمان بادشاہ صدر الدین بُلبل شاہ ( رنچن شاہ) کی بیوہ کوٹارانی (کوترن) کے ہاتھوں شکست کھا کر گلگت و بلتستان کی ویران وادیوں میں آباد ہوا ۔ اچل منگل کے بچے کھچے لشکر نے اسلام قبول کیا اور کشمیری اور چینی حکمرانوں سے اچھے تعلقات قائم کیے۔ اِن کے حکمرانوں نے پٹولہ شاہی حکومت کی بنیاد رکھی۔ بعد میں گلگت بلتستان دو الگ ریاستیں بن گئیں جن کے نام بلورستان اور دردستان تھے۔ دوسری مغل شاہراہ گجرات سے بھمبھر ، باغسر ، کھمبا ، پیر پنجال ، براستہ نوری چھمب سرینگر میں داخل ہوتی تھی۔ تیسری مغل شاہراہ جہلم سے میر پور (منگلا) بڑجن، پلاہل راجگان، کوٹلی ، نکیال سے براستہ مینڈھر وادی کشمیر میں جا ملتی تھی۔
چوتھی اہم شاہراہ حسن ابدال سے مانسہرہ، مظفر آباد سے گزرتی براستہ اوڑی وادی کشمیر میں داخل ہوتی۔ ان چار شاہراہوں کے علاوہ درجنوں معاون اور ملاپی شاہراہیں اور راستے تھے جن کا ذکر کرنل ایلن بیٹس نے ‘‘دی کشمیر گزیٹیئر ’’ اور وکٹر جیکو ماونٹ نے ‘‘لیٹرز فرام انڈیا’’ میں کیا ہے۔ وکٹر نے میر پوریوں کی نفسیات دلچسپ پیرائے میں بیان کی او ر کسی کسی مقام پر دل کا بوجھ بھی ہلکا کیا۔ وہ لکھتا ہے کہ کشمیر پر حکومت تو سکھوں کی تھی مگر میر پور کے نمبر دار اور تھانیدار رنجیت سنگھ کے احکامات کو بھی خاطر میں نہ لاتے تھے ۔ وکٹر لاہور دربار سے سیاحت کشمیر کا پروانہ لیکرچلا تو اُسکا دوست گلاب سنگھ ڈوگر ا جو تب رنجیت سنگھ کا درباری اور جرنیل تھا وکٹر کے ساتھ جہلم تک آیا۔ وکٹر لکھتا ہے کہ میں رنجیت سنگھ اور گلاب سنگھ کی دوستی کا گھمنڈ لے کر گوبند پور سے کشمیر کی حدود میں داخل ہوا تو کشتیوں سے اُترتے ہی پولیس والے مجھے اور میرے سامان سمیت قلیوں اور مزدوروں کو تھانیدار کے پاس لے گئے۔ میں نے حاکم پنجاب و کشمیر کا حکمنامہ اور جنرل گلاب سنگھ کا پروانہ دکھایا تو تھانیدار جو خود ایک ڈوگرا راجپوت تھا رنجیتے اور گلابے کو گالیاں دیتے ہوا بولا کہ یہاں کا مہاراجہ میں ہوں مجھ سے بات کرو۔ یاد رہے کہ وکٹر اس سے پہلے تبت تک سیاحت کر چُکا تھا اور وی ۔آئی۔پی اسٹیٹس انجوائے کرتا رہا تھا۔ یہ ہماری غلامانہ ذہنیت کی داستان ہے جس کا اثر آج بھی قائم ہے ۔ کہنے کو تو ہم ایک آزاد اور خود مختار ملک میں رہتے ہیں مگر کسی انگریز یا امریکن کلرک کے سامنے ہمارے سفارتکاروں، وزیروں، اعلیٰ عہدیداروں اور حکمرانوں کی بھی کوئی حیثیت نہیں ۔ ہم اپنے کرتوتوں کی وجہ سے سفل کے انتہائی نچلے درجے پر پہنچ چکے ہیں کہ کوئی ملک یا ادارہ ہمیں بھیک دینے کو بھی تیار نہیں۔
اسکا عملی مظاہرہ ہم گزرے چند ماہ میں دیکھ چکے ہیں جب اسحاق ڈار اور ہماری اعلیٰ بیورو کریسی آئی ایم ایف کے کلرکوں کے سامنے کا سہ گدائی لیکر ڈالروں کی بھیک مانگ رہی تھی ۔ غیرت کا تقاضا تو یہ تھا کہ اسحاق ڈار ، نواز شریف ، زرداری اور فضل الرحمٰن اپنی دولت کا نصف سے بھی کم سرکاری خزانے میں واپس کر دیتے تو آئی ایم ایف یا کسی عالمی ادارے کے سامنے قومی غیرت اور ملکی سلامتی کو داوٗ پر لگانے کی ضرورت نہ پڑتی۔ ڈوگروں نے انگریزوں کے ساتھ کشمیر کا سودا کیا تو ایمن آباد (گوجرانوالہ) کے شیخوں نے پچھتر لاکھ نانک شاہی گلاب سنگھ کو ادھار دیے۔ شریفوں، زرداریوں اور مولویوں کو یہ بھی توفیق نہ ہوئی کہ وہ اِس قوم کو سود پر اُدھار ہی دے دیتے نہ کہ چودہ جماعتی اتحاد کے وزیر خزانہ اور وزیر اعظم کو اُدھار نما بھیک مانگنے کا مشورہ دیتے۔ ہماری دینی سیاسی جماعتیں اسلامی نظام کے نفاذ کی باتیں تو کرتی ہیں مگر خود کو اسلام سے مبرا سمجھتی ہیں ۔ اسی طرح عوام کی غمخوار اور جمہوریت کی علمبردار سیاسی جماعتیں عوام کو پچھتر سالوں سے خوشحالی کی داستان تو سنا رہی ہیں مگر قومی خزانہ لوٹنے اور قرض لیکر ہڑپ کرنے کو بھی قومی فریضہ ہی تصور کرتی ہیں ۔ ہمارا نظام ِ عدل اسقدر گنجلک اور پیچیدہ ہے جو گھوم پھر کر ظالم ، غاصب اور خائن کو مومن اور مظلوم اور محکوم کو مجرم ثابت کر دیتا ہے۔
1962 ء کی جنگ کے بعد بھارتی خزانہ تقریباً خالی ہو چُکا تھا۔ نہرو کی اپیل پر بھارتی عوام نے دل کھول کر چندہ دیا مگر معاشی بحران پھر بھی حل نہ ہوا۔ نہرو اپنے وزیروں کے ہمراہ نواب آف حیدر آباد کی خدمت میں حاضر ہُوا اور مدد کی درخواست کی ۔ مسلمان نواب نے جنگ پر اٹھنے والے سارے اخراجات کے علاوہ فوج کی تنخواہ میں اضافے اور فلاح و بہبود کیلئے خطیر رقم دی۔ 1947میں بھارت سے آنیوالے مہاجرین کی آباد کاری سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ سندھ کے جاگیر داروں اور وڈیروں نے ہندوٗوں کی چھوڑی ہوئی جائیدادوں اور زمینوں قبضہ کرلیا۔ حکومتِ سندھ نے مہاجرین کی آباد کاری سے انکار کیا تو صوبوں کے درمیان چپقلش پیدا ہوگئی۔ آئین ٹالبوٹ لکھتا ہے کہ سوائے امیر عبداللہ خان روکڑی کے کسی جاگیردار، وڈیرے اور نواب نے فراخدلی کا مظاہرہ نہ کیا۔ امیر عبداللہ خان روکڑی نے مہاجرین کیلئے اپنا گھر بھی خالی کر دیا اور خود اپنے خاندان سمیت گاوٗں کے کسی کچے گھر میں منتقل ہو گئے۔
اگر ہم ملک کی موجودہ اشرافیہ اور ملک کی ترقی و خوشحالی کیلئے ناگزیر گردانی سیاسی ہستیوں کا خاندانی پسِ منظر دیکھیں تو اِن میں سے کسی ایک کے بھی باپ یا داداکا تحریکِ آزادی پاکستان میں کوئی کردار نہ تھا۔ زیادہ تر تو مملکت کے قیام کے ہی مخالف تھے اور باقی انگریزوں کے مراعات یافتہ ایجنٹ اور گاندھی اور نہرو کے چیلے چانٹے تھے۔ نودولتیے سیاسی خاندانوں کی تو کوئی عصبیت ، فضیلت، سیاست اور عقیدت ہی نہیں ۔ مفاداتی سیاستدانوں کی مقلد قوم جانتی ہی نہیں کہ یہ لوگ بیرونی دشمنوں اور اعلانیہ حملہ آوروں سے بھی بد تر اور خطرناک ہیں۔ اغیار کے سامنے اِن کی حیثیت گو بند پور کے ڈوگرے تھانیدار اور ناڑ ضلع کوٹلی کے نمبردار سے بھی کم تر اور غلامانہ ہے۔ میں انگریز سیاح وکٹر کی بات کرتے ہوئے سیاسی لٹیروں کے سیاپے میں اُلجھ گیا وکٹر لکھتا ہے کہ تھانیدار نے ساری کاروائی مکمل کی اور حکم دیا کہ ہندوستان سے لائے چند قلیوں کے علاوہ باقی لوگ واپس چلے جائیں ۔ اِس سے آگے وادی کشمیر تک تم علاقائی قلی اور مزدور مقامی نمبر داروں کی مدد سے حاصل کر سکتے ہو۔
وکٹر لکھتا ہے کہ تحصیل میرپور کی حدود سے نکلتے ہی پتہ چلا کہ اِن علاقوں کے نمبردار بھی ہندو اور مسلمان راجپوت ہیں۔ ناڑ، جراہی اور درلیا جٹاں سے کھوئیرٹہ کے علاقوں کے مسلمان راجپوت نمبردارو ں کا رویہ بھی اچھا نہ تھا۔ اِن علاقوں کے نمبر داروں سے ملنا اتنا ہی مشکل تھا جتنا کسی ریاست کے بادشاہ سے ہو۔ پتہ کرو توکبھی نمبردار دورے پر ہے تو کبھی تھانیدار کچہری گیا ہوا ہے ۔ میرپور سے آگے کسی علاقے کا نمبر دار گکھڑ تھا جس نے تین دِن کے انتظار اور طویل مذاکرات کے بعد مزدور مہیا کیئے۔ وکٹر کی سیاحت کا زمانہ 1820ء سے 1832ء کا ہے ۔ میرے خاندانی کاغذات ، نمبرداری اور ذیلداری کی اسناد کے مطابق اُس دور میں ناڑ، درلیا جٹاں ، راجدھانی اور پلاہل خورد وکلاں کے ذیلدار راجہ غیدی خان، راجہ معظم خان اور راجہ تانوں خان تھے جو میرے آباو اجداد کی ترتیب وار لڑی ہے۔ تانوں خان کے بعد اِس علاقہ کی ذیلداری مہتہ حکم چند کے پاس چلی گئی جسے بد عنوانی کی بنا پر ہٹا کر میرے نانا سفید پوش ذیلدار راجہ ولائت خان علاقہ ذیلدار اور سفید پوش منتخب ہُوئے۔
راجہ غیدی خان، معظم خان اور تانوں خان کے دور میں ذیلدار کو علاقہ دار کہتے تھے جو علاقہ نمبر داروں کا سربراہ اور پنچائیت کا سر پنچ کہلاتا تھا۔ وکٹر جن علاقوں سے سختیاں برداشت کرتا گزرا اُس میں بیشتر علاقہ اسی ذیل یا پنچایت کا تھا۔ ‘‘لیٹرز فرام انڈیا’’ وکٹر کے اپنے باپ کے نام خطوط ہیں جن میں وہ اپنے باپ مقیم برطانیہ کو اپنے سفر کا حال لکھتا تھا۔ وکٹر برٹش آرمی میں کیپٹن کے عہدے پر فائز تھا اور یقیناً برٹش خفیہ ایجنسی کیلئے کام پر معمور ہو گا۔
وکٹر تو کیا، اگر وکٹر کا اردلی اِس دور میں آزاد کشمیر میں داخل ہو تو آزاد کشمیر کا صدر ، وزیر اعظم اپنی کابینہ اور سرکاری افسران سمیت باب سلطان پر اُس کے استقبال کیلئے کھڑا ہو گا ۔ 1947تک ان علاقوں کے نمبراداروں میں عصبیت اور غیرت کا عنصر تھاجو اپنی مدد آپ کے تحت نو دولتیے بلیک لیبل سیاسی ڈیلروں کی عیاشی کیلئے ڈھائی اضلاع آزاد کروا گئے ورنہ آج کشمیر کی سرحد دریائے جہلم کے جنوبی کناروں پر ہوتی۔ گوبند پور کا موجودہ نام تحریک آزادی کشمیر کے ہیرو میجر راجہ افضل خان کے نام پر ‘‘افضل پور’’ رکھا گیا ہے مگر یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ باب کشمیر کو باب سلطان رکھنے کی کیا وجہ ہے؟ بیرسٹر سلطان محمود چودھری کے خاندان کا تحریک آزادی کشمیر سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا اور نہ ہی وہ 1947میں کوئی نامور لوگ تھے۔ باب سلطان کی طرح بینظیر بھٹو میڈیکل کالج ، آصفہ بھٹو پارک اور نواز شریف ہسپتال بھی غلامانہ ذھنیت کی نشانیاں ہیں۔ بھٹو صاحب تو 1965 میں ہی آزاد کشمیر سے جان چھڑانا چاہتے تھے۔ آزاد کشمیر خاص کر میرپور سے تعلق رکھنے والے اہلِ علم و قلم سے گزارش ہے کہ وہ درگا داس کی تحریر ‘‘ فرام کرزن ٹو نہرو اینڈ آفٹر 65 وار ’’ اور ایس کے دِلت کی تحریر کا مطالعہ کریں کہ تاشقند کے حقیقی راز کیا تھے۔ اگر تاشقند میں ایوب خان پر بھٹو کا منصوبہ عیاں نہ ہوتا آج باب سلطان کی جگہ کسی اور کا نام ہوتا۔ نہ برادری ہوتی اور نہ برادری ازم کی لعنت مسلسل غلامی کی وجہ بنتی۔ درگا داس کے علاوہ مرحوم چودھری غلام عباس کی سوانح حیات ‘‘کشمکش’’ اور راجہ خضر اقبال کی تصنیف ‘‘علاقہ کھڑی ۔ تہذیب و ثقافت کے تناظر میں’’ کے علاوہ مرحوم جسٹس مجید ملک کی لائیبریری میں موجود اکیلی اور نایاب تحریر ‘‘میرپور کے سدا برقی جاٹوں اور راجہ اکبر خان کی عوامی جدوجہد’’ ضرور پڑھیں ۔ اس میں شک نہیں کہ میر پور کے جاٹوں ، گجروں اور راجپوتوں کے درمیان اختلافات رہے ہیں اور آئیندہ بھی کم کرنے کا کوئی دانشمندانہ منصوبہ زیر غور نہیں۔ چونکہ اگر لوگوں کو عقل آ جا ئے اور وہ جان لیں کہ میر پور میں سدا برقی جاٹ قبیلے کے علاوہ کوئی جاٹ قبیلہ یا برادری نہیں تھی تو مفاداتی سیاست کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ ہو جائے گا۔ برادری ازم کے ناسور نے آزاد کشمیر کا سیاسی، روحانی، ثقافتی ، انتظامی اور اخلاقی ڈھانچہ تباہ کر دیا ہے جبکہ نو دولتیے شرابی جمہوری کلچر نے تحریکِ آزادی کو بھی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دفن کر دیا ہے۔ آزاد کشمیر کے پہلے اور بانی صدر سردار ابراہیم کے مطابق 1947 میں اکہتر ہزار ریٹائرڈ فوجی پونچھ اور اکسٹھ ہزار میر پور میں موجود تھے۔ ابتداٗ میں مہاراجہ کے پاس نو انفنٹری اور ایک ہارس کیولری رجمنٹ تھی مگر لڑائی کیلئے پٹھان جتھے بلائے گئے جنھوں نے لڑائی کم اور لوٹ مار زیادہ کی ۔
کیا یہ شرم کی بات نہیں؟
ناموں کے بدلنے سے حقیقت نہیں بدلتی ۔ آزاد کشمیر میں سکولوں اور کالجوں کے نام ایسے لوگوں سے منسوب ہیں جنکا علم، اخلاقیات اور معاشرتی آداب سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ کرن سنگھ کالج کا نام غازی الہی بخش کالج رکھا گیا ہے۔ کرن سنگھ کے باپ نے تو ایک علمی درسگاہ کی بنیاد رکھی جہاں گلگت اور بلتستان سے طلباٗ علم حاصل کرنے آتے۔ کرن سنگھ کالج ہندوستان بھر میں اعلیٰ علمی درسگاہ تھی ۔ مگر اب اس ادارے کا حال ایسا ہی ہے جیسا آزاد کشمیر کا ہے۔ غازی صاحب کا تحریکِ آزادی کشمیر میں کیا کردار تھا؟ شاید مرحوم جسٹس مجید ملک کے علاوہ کم لوگ جانتے ہوں ۔ اگر مجاہدِ ملت ، غازی ملت اور مجاہدِ اول کی گنجائش موجود ہے تو دوچار غازی اور سلطان بنانے میں کیا حرج ہے۔ کھوئیرٹہ میں بھی ایک کامریڈ غازی عبدالرحمٰن ہُوا کرتے تھے جن کی دعوت پر شیخ عبداللہ نے اس علاقہ کا دورہ کیا تھا۔ فرق تھوڑا ہی ہے۔ غازی عبدالرحمٰن نے شیخ عبداللہ کو کھوئیرٹہ آنے کی دعوت دی اور ہمارے سلطان محمود چودھری شیخ عبداللہ کے پوتے عمر عبداللہ کی دعوت پر سرینگر تشریف لے گئے ۔ عرض کر رہا تھا کہ مغل شاہراہ پر واقع کھمبا بستی کی وجہ سے اکبر اعظم کے تعمیر کردہ قلعے کا نام بھی قلعہ کھمبا پڑ گیا حالانکہ قلعہ ڈل کی پہاڑی پر پہلے تعمیر ہُوا اور راجہ کھمبو نے کھمبا کی بستی اکبر بادشاہ کے پڑپوتے اورنگزیب کے زمانہ میں قائم کی۔ ہری سنگھ کے دور میں اِس علاقے کا نام ہری پور رکھا گیا۔ میرے گاوٗں کا نام نرماہ ہے جس کی ایک چھوٹی سی بستی کا نام کالا ڈب ہے۔ اب نرماہ کا نام ہی غائب ہو گیا ہے اور کالا ڈب مشہور عام ہے۔
سابق صدر آزاد کشمیر راجہ ذولقرنین خان کے دادا جنرل راجہ فرمانعلی خان اور والد سابق گورنر جموں راجہ افضل خان جاگیر دار بھمبھر ہمارے استاد محترم مولوی عبدالرحمٰن کے والد حضرت مولوی عبداللہ صاحب ؒ کے معتقد تھے۔راجہ ذولقرنین خان جن دنوں آزاد کشمیر کابینہ میں وزیر برقیات تھے نے آزاد کشمیر اسمبلی میں قرار داد پیش کی کہ ہری پور کا نام مشہور علمی، ادبی اور روحانی شخصیت حضرت مولوی عبداللہ صاحبؒ کے نام سے منسوب کیا جائے۔ راجہ صاحب کی پیش کردہ قرار داد اسمبلی میں منظور ہو گئی اور حکومت نے نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا مگر حیران کن بات یہ ہوئی کہ گجر قبیلے سے تعلق رکھنے والے پینسٹھ سے زائد افراد جن میں اُن کے قریبی رشتہ دار بھی شامل تھے آزاد کشمیر ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی کہ ہری پور کا نام تبدیل نہ کیا جائے چونکہ علاقہ کی اکثریت کو ہری سنگھ کے نام پر کوئی شکایت نہیں ۔ ہمیں اس نام سے جذباتی لگاوٗ ہے اوریہی ہماریٗ پہچان ہے ۔
(جاری ہے)