اعلانِ جنگ کے بعد؟

دور حاضر کے سقراط ، بقراط اور ہمنوا شاید کوئی نئی اصطلاح گڑھنے کی کوشش کریں جیسے ہمارے عظیم سیاستدان فرما رہے ہیں کہ میاں نواز شریف نے حالیہ دِنوں میں کچھ فوجی جرنیلوں اور ججوں کیخلاف احتسابی حملے کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ میں اِس جنگ میں شامل نہیں ہونگا بلکہ معاملہ اللہ کے سپرد کیا ہے۔ اللہ ، ججوں اور جرنیلوں کی تشریح میاں خاندان کے نو رتن اور عہد حاضر کے ٹو ڈرمل اسحاق ڈار نے کی جبکہ میاں جاوید لطیف ، مریم نواز، مریم اورنگزیب ، خواجہ آصف اور دیگر نے خاقان اعظم میاں نواز شریف کے اعلان جنگ کی دو تین بار تائید اور پھر اتنی ہی بار تشریح اور تفصیل بیان کی۔ میاں خاندان کے تاریخ نویسوں نے ابھی تک کیا لکھا ہے وہ نہیں پڑھا مگر تاریخ نویسوں کے سربراہ عرفان صدیقی نے ٹیلی وژن شو میں نہ صرف اعلان جنگ کی تصدیق بلکہ تعریف بھی فرمائی۔ سہیل وڑائچ ، افغان نژاد پاکستانی سلیم صافی اور پاکستان کو میاں نواز شریف کی ملکیت اور مستقبل قرار دینے والے احسان غنی نے جنگ نامہ کے موضوع پر طویل مضمون لکھا ہے جس کی جھلک ایک ٹیلی وژن پروگرام میں دکھائی گئی ہے ۔ سلیم صافی کو پڑھنے اور سننے والوں کو یاد ہو گا کہ سابق افغان صدر پروفیسر برہان الدین ربانی کے جنازے میں سلیم صافی بھی شریک تھا۔ جنازے کا احوال بیان کرتے ہوئے اُس نے افغانوں کی پاکستان سے شدید نفرت اور نعرے بازی کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں افغان نژاد پاکستانی ہوں ۔ بھارتی اداکارہ پروین بابی نے تو کبھی نہیں کہا تھا کہ وہ افغان نژاد بھارتی ہے ۔ تاریخ پر نظر رکھنے والے جاوید چودھری اور نصرت جاوید تو جانتے ہی ہونگے کہ بابی اور صافی ایک ہی قبیلے کی دو شاخیں ہیں ۔
بابیوں کی ہندوستان میں حکمران حیثیت رہی ہے۔ پروین بابی سلیم صافی کی نسبت اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اپنے دور کی مشہور فنکارہ تھی۔ فنکار تو سلیم صافی بھی ہے مگر پروین کے مقابلے کا نہیں ۔ سلیم صافی اور دیگر کمپیوٹری دانشوروں کو جو کچھ کمپیوٹر سے نہیں ملتا اُس کی تشریح ایسے ہی کرتے ہیں جیسے ہماری سیاسی جماعتوں کے ترجمان اور لنگر خوان اپنے لیڈروں کی بتوریوں اور بڑھکوں کی کرتے ہیں ۔ سنا ہے کہ حالیہ دِنوں میں سلیم صافی نے فقیر آف ایپی کو قومی ہیروقرار دیا ہے چونکہ ہماری حکومتوں میں بیٹھے اعلیٰ دماغوں نے پہلے ہی اسلام آباد میں ایک سڑک فقیر آف ایپی کے نام کر رکھی ہے ۔ ایسا ہی ایک عظیم صحافی عرصہ تک بھگت سنگھ کو تحریک آزادی پاکستان سے جوڑنے کی کوشش میں رہا جبکہ پنجاب کے دانشوروں نے رنجیت سنگھ کو بھی ہیرو بنانے کی مہم چلا رکھی ہے۔ مشہور کشمیری محقق اور دانشور جناب جی ایم میر (مرحوم) اکثر فرماتے تھے پاکستانی اور کشمیری پانچ سو سال سے غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ اگر انہیں آزادی کی صبح نصیب ہو جائے تو بھی اِن کی پانچ نسلیں غلامانہ سوچ کی حامل رہینگے۔غلامانہ ذھنیت کی اقوام غلامی اور تذلیل میں تسکین محسوس کرتی ہیں ۔ تشدد اور جبر میں آسودگی اور جی حضوری کو عقیدت و احترام سمجھ کر مادی خداوٗں کے سامنے سجدہ ریز ہونے پر فخر محسوس کرتی ہیں ۔ قانون شکنوں کو قانون دان اور قاتلوں کو مسیحا کہنے والی قوموں کی عالم انسانیت میں کوئی قدر و قیمت نہیں ہوتی۔ بھکاریوں کے پاس دولت کے انبار بھی ہوں تو اُنھیں کوئی اپنے گھر کی دھلیز پر برداشت نہیں کرتا۔
شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں کہ ‘‘اگر دُنیا سے ہما کی نسل ختم بھی ہو جائے تو کوئی شخص اُلو کے سائے میں آنا پسند نہیں کریگا’’
یہ قول اہلِ عقل و خرد کیلے ہے بے شعور اور بے وقعت ہجوم کیلئے نہیں ۔ بقول جنرل گل حسن (مرحوم) کے ہم قائد اعظم ؒ کے فرمان کے مطابق ابھی تک ہجوم ہیں ایک قوم نہیں بن سکے ۔ قائد اعظم ؒ نے جس قوم کی بنیاد رکھی تھی اُسے خود مسلم لیگ میں گھسنے والے جاگیر داروں اور نودولتیے سیاسی خاندانوں نے نوکر شاہی کی مدد سے اُکھاڑ پھینکا۔ مفاد پرست مافیائی سیاسی خاندانوں کی تشہیر کیلئے صحافیوں اور خود ساختہ دانشوروں کی ایک جماعت بھی بن گئی جو بیورو کریسی اور سیاسی مافیا کے درمیان رابطے کا کام کرنے لگی ۔ اِسی طرح ہر جماعت نے ایک تھنک ٹینک تشکیل دیا اور وظیفہ خوار قصیدہ نویسوں کو منفی، مُضر اور قومی و ملکی مفادکے خلاف کام کرنے اور بیانیے ایجاد کرنے کے کام پر لگا دیا۔ ابتداٗ میں سوچ و فکر کے ان اداروں کی سربراہی مشاہد حسین سیدّ اورحسین حقانی کے سپرد ہوئی مگر مشاہد حسین سّید نے لٹو تے پھٹو کے بیان کے بعد امریکہ میں سفیر بننے کی خواہش کا اظہار کر دیا۔ مشاہد حسین سّید کی اِس خواہش کے علاوہ چند چھوٹی موٹی تعمیراتی اور مثبت خواہشات نے مافیائی سیاسی گھرانے کی مفاد پرستانہ اور میکاولین جاریحانہ سوچ پر چوٹ دے ماری۔ حسین حقانی اور زرداری خاندان کے درمیان اصفہانی خاندان کی وجہ سے رشتہ داری نے حسین حقانی کو نہ صرف امریکہ میں سفارت کاری بلکہ زرداری خاندانی کی مستقل رہنمائی کی ذمہ داری بھی تفویض کر دی۔
امریکہ میں ہمارا ایک سفیر بھی ہوتا ہے مگر پاکستان کا تاحیات سفیر حسین حقانی ہی ہے جس کی موجودگی میں امریکہ اور زرداری خاندان کے درمیان ایک مستقل رابطہ اور رہنمائی کا سلسلہ بحال ہے۔میاں خاندان کے رابطہ کار اور تھنک ٹینک میں شامل افراد پر میاں خاندان بھروسہ نہیں کرتا بلکہ یوں کہہ سکتے ہیں کہ میاں خاندان کے افراد تھنک ٹینک تو کجا ایک دوسرے پر بھی بھروسہ نہیں کرتے۔ میاں خاندان کی خود غرضی اور مجرمانہ نفسیات جسکا ایک ذرہ ہر شخص میں موجود ہوتا ہے کا بہترین تجزیہ محترمہ عابدہ حسین نے اپنی خود نوشت ‘‘پاور فیلیر’’ میں کیا ہے۔ اسی طرح مرحوم ضیا ء شاہد نے اپنی تحریر ــ‘‘میرا دوست میاں نواز شریف’’ میں میاں خاندان کی صنعتی اور سیاسی نفسیات پر کئی ابواب تحریر کیئے ہیں ۔میاں خاندان کے تھنک ٹینک کا کوئی سربراہ بھی نہیں ۔ طارق فاطمی ، عطاالحق قاسمی، پرویز رشید اور عرفان صدیقی کی وہ حیثیت نہیں جو حسین حقانی اور مرحوم واجد شمس الحسن کی تھی ۔ زرداری کو پتہ ہے کہ ہاتھی کے پاوٗں میں ہی سب کا پاوٗں ہوتا ہے ۔ یورپ ، مشرق وسطحٰی اور مشرق بعید بشمول آسٹریلیا ، نیوزی لینڈ ، جاپان اور جنوبی کوریا تک امریکی پاوٗں اور پالیسیاں کارگر ہیں ۔پاکستانی عوام اور ملک کی نظریاتی ، نفسیاتی اور جغرافیائی سرحدوں کے محافظ کیا سوچتے ہیں اسپر رائے نہیں دی جا سکتی مگر میاں خاندان نفسیاتی لحاظ سے ناقابلِ بھروسہ ہے جس کی وجہ سے دُنیا کا کوئی بھی ملک اور ادارہ اِن پر بھروسہ نہیں کرتا ۔ دُنیا جانتی ہے کہ میاں خاندان کو شاہی خانوادے میں بدلنے کا سہرا جنرل ضیاء الحق ، جنرل جیلانی اور مرحوم جنرل حمید گل کے سر سجتا ہے مگر باوجود اِس کے میاں خاندان کو جب بھی موقع ملا اُس نے فوج کی تذلیل کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ میاں خاندان کی صنعتی نفسیات کا تقاضہ یہ ہے کہ فوج کو اپنی مرضی سے چلایا جائے اور بھارت کو اسقدر مراعات دی جائیں کہ مودی ناشتہ امرتسر میں ، دوپہر کا کھانا لاہور میں اور شام کا کھانا کابل کے صدارتی محل میں کھائے۔ مودی اس خواہش کا نہ صرف اظہار کر چُکا ہے بلکہ کابل سے دِلی جاتے ہوئے اچانک لاہور اُتر کر جاتی عمراٗ میں میاں خاندان کے ہائی ٹی فنگشن کو بھی عزت بخش چُکا ہے ۔ مودی کا جاتی عمرا آنا اور مِتل کا اسلام آباد اُترنا اور پھر میاں خاندان کے ساتھ مری میں ملاقات کرنا بھی ایک آزاد اور آزاد خود مختار ریاست کی آزادی اور خود مختاری پر بڑا سوالیہ نشان ہے۔ نیپال، بھوٹان اور مالدیپ جیسی چھوٹی ریاستیں بھی اپنے بادشاہوں اور حکمرانوں کو ایسا اختیار نہیں دے سکتیں ۔ اکھنڈ بھارت مودی سرکار کا ہی نہیں بلکہ ہر بھارتی کا خواب ہے جس کی ابتدا ہو چکی ہے ۔ اکھنڈ بھارت کا پہلا ہدف پاکستان، ایران ، افغانستان اور بنگلہ دیش ہیں۔ پاکستان ایک ایٹمی اور با عزم عسکری قوت توہے مگر ایک منصوبہ بندی کے تحت اسے سیاسی اور معاشی لحاظ سے کمزور کیا جا رہا ہے۔ کرپشن ، اقرباء پروری ، دہشت گردی ، مافیائی سیاست ایک مضبوط ، قدرتی وسائل سے مالا مال ، نوجوان تعلیم یافتہ اور ہنر مند افرادی قوت کی حامل اور جغرافیائی لحا ظ سے دُنیا کی اہم ترین ریاست کی بنیادیں کھوکھلی کر رہی ہیں ۔شریف خاندان کی سولہ ماہی حکومت بچہ سقہ حکمرانی کی یاد تازہ کرتی ہے۔ بلاول صاحب کچھ روز تک اپنی خارجہ پالیسیوں کی کامرانیوں پر بغلیں بجاتے رہے اور اب خاموش ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن غیر قانونی افغان مہاجرین کے حوالے سے پریشان اور دیگر مفاداتی اتحادی سکتے میں ہیں۔آرمی چیف نے غیر قانونی افغان مہاجرین ، سمگلنگ، ذخیرہ اندوزی ، کارٹلائیزیشن اور کرپشن کیخلاف جس جدوجہد کا آغازکیا ہے بلا شبہ یہ ایک احسن قدم اور وسیع تر قومی مفاد میں ہے۔
جو کام عوام کے منتخب ہونے کی دعویدار حکومتوں کے تھے بلا آخر وہ فوج کو ہی کرنے پڑے۔ آرمی چیف کے اس فیصلے سے مافیائی سیاسی اور جعلی جمہور ی نظام پر بھی کاری ضرب پڑی ہے۔ اب خطرہ یہ ہے کہ میاں یا زرداری خاندان کی حکمرانی یا پھر عدلیہ کی طرف سے کسی فیصلے کی صورت میں آرمی چیف کا ملک بچاوٗ منصوبہ کھٹائی میں نہ پڑ جائے۔ اِس سے پہلے جنرل ایوب خان اورجنرل ضیاء الحق کے کالا باغ ڈیم منصوبے پر سیاستدانوں نے شب خون مارااور پھر جنرل پرویز مشرف کے آبی منصوبوں جنھیں 2018میں مکمل ہونا تھا کو کرپشن اور منفی مفاداتی سیاست کی نظر کر دیا۔
شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں
‘‘گل مزن کا گل مزن دیوار بے بنیاد را’’
‘‘خدمت یک سگ نہ از آدم کمزاد را’’
‘‘آدم کمزاد اگر عاقل شو د ’’
‘‘گردن زند استاد را’’
بد قسمتی سے ہماری ساری سیاسی مشینری ملٹری ورکشاپ کی ایجاد ہے اور ہمیشہ فوج پر ہی حملہ آور ہوتی ہے ۔ اسکندر مرزا اور غلام محمد نے ایوب خان کو استعمال کرنے کی سازش کی اور رسوا ہوئے۔ بھٹو نے ایوب خان ، یحییٰ خان اور جنرل گل حسن کو دھوکہ دیا اور پھر ضیاء الحق کو دھوکہ دیتے ہوئے خود دھوکے میں آگئے ۔ الطاف حسین اور میاں نواز شریف کس کی گود میں کھیلے اور پروان چڑھے ہر کسی پتہ ہے مگر‘‘ گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے’’ والی بات ہے۔ یہ ایک نازک موڑ ہے اور مالی کے سر پر بھاری اور تکلیف دہ ذمہ داری ہے۔ اس بار اگربد مست بھینسا باغ میں گھس گیا تو بچے کھچے پچھتر سالہ شجر بے ثمر اور ویران ہو جائینگے ۔ کک بیک، کرپشن اور کمیشن مافیا کے سیلاب کی آمد آمد ہے جسے روکنا بے حد ضروری ہے۔میاں نواز شریف کا خوشحالی منصوبہ کیا ہے؟ کسی کو پتہ نہیں ۔
یوکرین کی جنگ، بدلتے عالمی حالات، نئے سیاسی، معاشی اور جغرافیائی اتحاد اسرائیل فلسطین جنگ اور طالبان حکومت کا رویہ سب ایسے مسائل ہیں جو ایک تاجرانہ ذھنیت کے حامل شخص کی سمجھ میں نہیں آسکتے۔کیا میاں صاحب آتے ہی آبی ذخائیر تعمیر کرنے کا اعلان کرینگے، آئی پی پیز کو لگام ڈالینگے ، کارٹل اور دیگر مافیائی اداروں اور شخصیات کے خلاف اسی طرح جدوجہد کریں گے جیسے آرمی چیف نے کر رکھی ہے۔ کرپشن، رشوت، کک بیک اور کمیشن سے پاک ترقیاتی کاموں کا آغاز کرینگے؟ہرگز نہیں ۔ یہ سب میاں خاندان کی سرشت میں ہی نہیں ۔ ایسا کرنے سے خود اُن کی اور اُن کے اتحادیوں کی مفاداتی سیاست نہ صرف متاثر بلکہ ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائے گی۔ دُنیا میں ہر جنگ کے چار پہلو ہوتے ہیں ۔ عسکری پہلو ملکی مفاد میں ہوتا ہے، نفسیاتی اور تعمیراتی پہلو دُشمن کے حوصلے پست کرنے اور ملکی باشندوں کے حوصلے بڑھانے اور اُنہیں پر عزم رہنے کے کام آتے ہیں ۔ نفسیاتی پہلو کا روشن پہلو فوج اور عوام کے درمیان ہم آہنگی اور محبت اجاگر کرتا ہے چونکہ فوج اور عوام کا جسم اور روح کا رشتہ ہونا لازمی ہے ۔ جب فوج اور عوام کا روحانی، نفسیاتی اور جذباتی رشتہ مضبوط ہو تو دُشمن چاہے اندرونی ہو یا بیرونی اُسکا منفی پراپیگنڈہ یا کوئی نفسیاتی حربہ کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔
جنگ کا چوتھا پہلو مفاداتی اور منافقانہ ہے جس کے معلم چانکیہ اور میکاولی ہیں۔ بد قسمتی سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سبھی سیاستدان چانکیائی اور میکاولین سوچ کے حامل منفی، مفاداتی اور بد عہدی کے اصولوں پر کار بند ہیں ۔ میکاولی کا مشہور قول ہے کہ‘‘ امیر (حکمران) کو بد عہد، چاپلوس اور دھوکہ دہی کا ماہر ہونا چاہیے ۔ اسے لومڑی کی طرح مکار اور شیر کی طرح خونخوار ہونا چاہیے ۔ بد عہدی اور خونخواری میں وہ سکندر طاوٗس کی مثال دیتا اور اُس کی تقلید پر زور دیتا ہے ۔ ’’وہ حکمران کو مشورہ دیتا ہے کہ اُسے قانون کی آڑ لیکر عوام کا شکار کرنا چاہیے چونکہ عوام غرض مند اور بے شعور ہُوتے ہیں ۔ کیا ہمارے سیاستدان میکاولی اور سکندر طاوٗس کے مثالی مقلد نہیں ؟؟
بد قسمتی سے ہمارے ہاں سوچ و فکر کا کوئی ادارہ ہی نہیں جو قانون اور آئین کی آڑ میں بد قسمت عوام کا استحصال کرنیوالوں کے بد نما چہروں سے نقاب اُٹھائے اور غرضمند عوام کو لومڑیوں کی مکاریوں اور شیروں اور بھیڑ کی کھال میں چھپے بھیڑیوں کا تر لقمہ بننے سے بچا سکے ۔ جو عرفان صدیقی، طارق فاطمی، پرویز رشید اور احسان غنی کو باور کروائے کہ پاکستان شریف اور زرداری خاندان کی جاگیر نہیں بلکہ پچیس کروڑ مسلمانوں کا ملک ہے ۔ پیپلز پارٹی 1970سے اور نواز لیگ 1986سے اقتدار پر قابض ہے اور خوشحالی کا چکمہ دیکر ملک کو کنگال اور قوم کو بد حال کر چُکی ہے ۔ اب کون سی کسر باقی ہے جسے وقت کا نپولین اور شہنشاہ ہمایوں معزولی کے بعد واپس آکر نکالنے والے ہیں ۔ کیا وہ سعودی عرب اور کویت سے سستی گیس اور سستے پیٹرول کا معاہدہ کرکے آئینگے اور چین سے کوئی ایٹمی بجلی گھر لا کر آئی پی پی سے قوم کو نجات دلائینگے۔؟یاد رہے کہ مقتدر قوتیں اگر میاں نواز شریف کو بھاری میڈیٹ دلوا بھی دیں تو میاں صاحب اپنی پرانی روش پر قائم پہلا حملہ اپنے محسنوں ہی پر کرینگے۔ بی این پی، اے این پی، پختون خواہ ملی عوامی پارٹی، ایم کیو ایم اور شیر پاوٗ کے بغیر حکومتی مشینری پھر بھی نہیں چلے گی۔ ایم کیو ایم کے بغیر سندھ، باپ کے بغیر بلوچستان اور دیگر کے بغیر خیبر پی کے ہاتھ سے نکل جائینگے۔ اگر بیان کردہ گروپ اور جماعتیں حکومت کا حصہ بنیں تو افغان مہاجر واپس آئینگے ، دہشت گردی پہلے سے زیادہ اور زور دار ہو گی ، بھارت کو افغانستان میں کھلی چُھٹی مل جائے گی اور سیاسی عدم استحکام بڑھ جائیگا۔ملکی سلامتی کے ادارے بخوبی واقف ہیں کہ افغانستان کا مومند قبیلہ جو ڈیورنڈ لائین کے دونوں طرف آباد ہے اے این پی اور جے یو آئی کا ووٹر اور سپوٹر بھی ہے۔ اسی طرح شنواری، دستو خیل اور ہزار بز قبائل شیر پاوٗ، اے این پی اور جے یو آئی کے ووٹر بھی ہیں اور مالی معاون بھی ہیں ۔ دستو خیل اور ہزار بز قبائل کا کاروبار ساری دُنیا میں پھیلا ہوا ہے جبکہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں تینوں قبائل کے ہزاروں خاندانوں کو پچاس لاکھ فی خاندان کے حساب سے وزیر داخلہ نے پاکستانی شہریت، پاسپورٹ اور نادرہ کے کارڈ دلوائے تھے۔ شاید اُس دور کے کسی صحافی کو یاد ہو گا کہ تب یہ ریٹ زبان زد عام تھا جبکہ دستو خیل اور ہزار بز قبائل کیلئے اتنی رقم بے معنی تھی۔اے این پی ، شیر پاوٗ، جے یو آئی ، نیب ، بی این پی اور پی ٹی ایم کسی بھی صورت میں اپنے ووٹروں اور سپوٹروں کو ناراض نہیں کرینگی۔
یاد کرنے کی بات ہے کہ ماضی قریب میں خیبر پی کے میں اے این پی اور ایم ایم اے کی حکومتیں قائم ہوتے ہی افغانستان سے معاشی مہاجروں کی بڑی تعداد پاکستان آئی اور پھر تب کے بائیس کروڑ کے ہجوم میں شامل ہو کر گم ہو گئی تھی۔ اے این پی کی حکومت کے قیام کے دوسرے ہی روز پشاور حیات آباد کی کمرشل مارکیٹ میں واقع مسجد میں افغانوں کا جرگہ منعقد ہوا تھا۔ فیصلہ ہوا تھا کہ اب اِس صوبے میں ہماری حکومت ہے اور اِس کے بعد کوئی افغان یہاں سے واپس نہیں جائیگا۔ افغانی پاکستان کو پنجاب کہتے ہیں جو دریائے سندھ کے مشرق میں واقع ہے۔ہمارے قومی سلامتی کے ادارے اور مثبت سوچ کے حامل اہلِ علم اور محبِ وطن جانتے ہیں کہ جو شخص اعلان جنگ کرتا ہے وہی جنگ کے خاتمے کا بھی اعلان کرتا ہے ۔ میاں نواز شریف نے احتساب کی آڑ لیکر انتقام کی جنگ کا اعلان کیا تو نو رتنوں نے پہلے اس کی تصدیق و تعریف کی اور پھر خود ہی تردید کر دی جس کی کوئی اہمیت نہیں ۔میاں صاحب نے اعلانِ جنگ کے بعد کوئی تردید نہیں کی جسکا واضع مطلب جنگ کی تیاری اور ‘‘ڈی ڈے’’ کا انتظار ہے ۔ ‘‘ڈی ڈے’’ ہمیشہ خفیہ رکھا جاتا ہے اور اُس کے لیے خاص کوڈ ورڈ استعمال ہوتا ہے۔ یہ کوڈ ورڈ بھاری مینڈیٹ کے بعد وزیر اعظم کا قوم سے پہلا خطاب یا کابینہ کا پہلا اجلاس بھی ہو سکتا ہے۔
‘‘ہم نے تو ماجرائے شب برسرِ عام کہہ دیا
اب یہ نصیب شہر ہے جاگ اُٹھا ہو یا نہ ہو’’

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے