عاصمہ جہانگیر صاحبہ نے اپنے ٹیلیویژن شو میں فرمایا تھا کہ مرد بھیڑیا ہوتا ہے ۔ چونکہ وہ نان پریکٹسنگ مسلم تھیں اِس لیئے اللہ کا فرمان بھول گئیں کہ اللہ نے ساری نسل انسانی کو ایک مرد اور عورت سے پیدا کیاہے۔ پھر اِسی نسل انسانی سے انبیاٗ ، اُولیاٗ ، صالحین ، صادقین ، عاریفینِ شہدا اور فقراٗ پیدا کیے جن کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے۔ عاصمہ جہانگیر کا یہ بیانیہ بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مقبول ہے اور وقعتاً فوقعتاً سرکاری اور غیر سرکاری تنظمیں ، فورم اور تھنک ٹینک اسے اجاگر کرتے رہتے ہیں۔ عورت کی مکمل آزادی سے لیکر میرا جسم میری مرضی جیسی تقریبات کا انعقاد وہ ہی لوگ ، ادارے اور فورم کرتے ہیں جو نان پریکٹسنگ مسلم ہونے کے دعویدار ہیں ۔ معاشرتی ، اسلامی اور اخلاقی اقدار و روایات پر ہمارا میڈیا پوری قوت سے حملہ آورہے جسے ملکی اور عالمی سطح پر مکمل تحفظ اور پذیرائی حاصل ہے ۔ فیشن شوز، ڈرامے اور ٹاک شوز کی مدد سے دینی ، اخلاقی اور ثقافتی اقدار پر تنقید اور تمسخر ُاڑانا اب عام ہے اور ایسے ادارے اور اشخاص میڈیا انڈسٹری کا حصہ ہیں جنھیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حکومت اور حکمران طبقہ مالی، اخلاقی اور قانونی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ انگریزی دور حکومت کی ایک نشانی برطانوی ہند میں سول سوسائیٹی کا قیام تھا۔ سول سوسائیٹی کے ممبران میں انگریزوں کی غلامی کرنیوالے خاندانوں کو شمار کیا گیا اور ملک بھر میں خان بہادروں ، تمن داروں اور 1857 کی جنگِ آزادی میں انگریزں کا ساتھ دینے والے نوابوں ، سرداروں ، پیروں اور گدی نشینوں کو مہذب اور اعلیٰ انسانوں میں شمار کیا گیا۔
اسکندر مرزا لکھتا ہے کہ ہندوستان میں سول سوسائیٹی نیم مہذب شمار ہوتی تھی چونکہ اُسکا عزت و وقار تہذیب یافتہ انگریزوں کے مقابلے میں کم تھا۔ چھاوٗنیوں میں قائم ہوئے کلبوں میں اُنھیں اعزازی ممبر شپ دی جاتی تھی جہاں بڑے بڑے نواب ، جاگیر دار ، تمن دار، خان بہادر اپنی بیگمات کے ساتھ تشریف لاتے مگر عام انگریزوں کے ساتھ بیٹھنے کے مجاز نہ تھے ۔ اُن کا ڈریس کوڈ شلوار قمیض کے ساتھ ٹائی ، کوٹ، سر پر کُلہ اور تسموں والے کالے بوٹ تھا۔ لارڈ ڈلہوزی نے اِن کے بچوں کیلئے چیف کالج قائم کیا تو اِن میں سے بیشتر نے انگلش سوٹ اور سر پر ہیٹ یا شملہ دار کُلہ رکھنا شروع کر دیا۔ برٹش انڈین آرمی قائم ہوئی تو اِن کے بچوں کو فوج میں VCOیعنی وائسرائے کمیشن افسر بنانے کی تجویز پیش کی گئی۔ بڑے بڑے جاگیر داروں، نوابوں ، خان بہادروں کے شہزادے انگریزی فوج میں جمعدار (نائب صوبیدار) بنے تو اُنھیں پتہ چلا کہ وہ نہ تو افیسر میس میں داخل ہو سکتے ہیں، نہ کسی آفیسر سے بات کرنے کے مجاز ہیں اور نہ ہی افسرانہ عزت و وقار کے مستحق ہیں ۔وہ فوج میں اُن جمعداروں اور صوبیداروں کے ماتحت تھے جو سپاہی سے ترقی کرتے ہوئے اُن سے سینئر جمعدا ر (نائب صوبیدار) صوبیدار اور صوبیدار میجر کے عہدوں پر فائیز تھے ۔ فوج میں اُن کے یہ بالا کمانڈر اُن کی جاگیروں کے کمی کمین ، مزارعوں ، خدمتگاروں اور نوکروں کی اولادیں تھیں۔ خان بہادروں کی اولادیں جب اپنی ہی رعایا کے ساتھ بارکوں میں رہنے لگی تو اُنھیں اپنی اوقات یاد آگئی۔
کچھ ہی عرصہ بعد انگریزوں کو خیال آیا کہ اپنے وفا داروں کے بچوں کا معیار کسی حد تک بلند کیا جائے۔ اِسی سلسلے کی ایک کڑی چیف کالج،کیڈٹ کالجز اور انڈین ملٹری اکیڈیمی کا قیام تھا۔ اب VCO’s کی جگہ ICO’s اور KICO’s یعنی انڈین کمیشنڈ افیسر اور کنگ کمیشنڈ افسر بھرتی ہونے لگے۔ کنگ کمیشنڈ افسروں کو برطانیہ کی مشہور ملٹری اکیڈمی سینڈ ھرسٹ بھجوایا جاتا جہاں گورے سارجنٹ اُن کی جی بھر کر تذلیل کرتے ۔ ہندوستانی کیڈٹوں کیلئے یہ غیر اخلاقی سلوک انتہائی حیران کن تھا چونکہ اکیڈمی میں زیر تربیت دیگر کیڈٹوں کو جنٹلمین کیڈٹ تصور کرتے ہوئے اُنھیں انتہائی عزت و وقار کا مستحق سمجھا جاتا تھا۔
برصغیر کے فوجی افسروں اور بیورو کریسی کی ایک اپنی تاریخ ہے جسکا تعلق ہماری قومی نفسیات اور سوچ و فکر سے ہے۔ یہی وہ خاندان اور ادارے ہیں جو انگریز کی غلامی میں مہذب اور تہذیب یافتہ کہلائے۔ تقسیم ہند کے بعد انگریزوں نے ہمیں نیم آزاد ی د ی اور اپنے تربیت یافتہ گھرانوں کی غلامی میں دے کر ہماری سوچ و فکر کے دھارے ہی بدل دیے۔
(جاری ہے)