عبداللہ فرشی لکھتے ہیں کہ خوشحالی کی بنیادیں علم و ہنر ، سوچ وفکر اور معاشرتی امن پر استوار ہوتی ہیں ۔ تیمور نے بغداد پر حملہ کیا تو ہزاروں علما، صوفیا ، ہنر مند اور کاریگر ہجرت پر مجبور ہوئے۔ ترکی اور یورپ کے علاوہ بہت سے لوگوں نے کشمیر کا رخ کیا اور مختلف پیشوں اور صنعتوں کو اوج کمال تک پہنچا دیا ۔ کشمیری حکمرانوں نے اُنھیں قدر کی نگاہ سے دیکھا اور اُنھیں وسائل فراہم کئے۔ دینی ، علمی اور صنعتی علوم پر تحقیق اور تجربات کیلئے درسگاہیں اور تربیتی مراکز قائم کئے۔ تجارت کیلئے تاجروں کو مراعات دیں مگر صنعتی مزدوروں اور ہنر مندوں کی خوشحالی کیلئے سخت قوانین مرتب کئے تا کہ اُنہیں بر وقت اور کام کے مطابق اُجرت دِی جائے۔ کشمیر میں اسلامی دور کی سب سے اہم بات امداد باہمی کے بینک کا قیام تھا جسے حضورﷺ کے دور کی ریاست مدینہ کے اصلاحی اور فلاحی پہلوئوں کو مدِ نظر رکھ کر قائم کیا گیا ۔ دوسری اہم بات مردم شماری تھی جو حضورﷺ نے مدینہ میں آتے ہی کروائی ۔ کشمیر میں لوگ امداد باہمی کے بینک سے بِلا سود قرض لے کر کاروبار کرتے اور پھر منافع کی صورت میں قرض واپس کردیتے ۔ مردم شماری سے حکومت عوام کی مالی اور معاشرتی زندگی سے آگاہ رہتی اور اُن کی بہتری کیلئے بیت المال سے مدد فراہم کرنے کے علاوہ اُنھیں روزگار کے مواقع فراہم کرتی۔ شیخ شرف الدین اپنی مشہور تصنیف‘‘ظفر نامہThe Book of Battles and Warsمیں لکھتے ہیں کہ اچھے حکمرانوں کی فوج تین حصوں پر مشتمل ہوتی ہے۔
پہلا حصہ ملک و ملت کی حفاظت کیلئے بہترین جنگی اسلوب اسلحے اور ہتھیاروں سے لیس ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ دوسرا حصہ فوج اور عوام کی کفالت کرتا ہے۔ اُنھیں رزق اور وسائل مہیا کرتا ہے جبکہ تیسرا حصہ فوج اور عوام کی اصلاح کرتا ہے ۔ اُسکا کام سوچ و فکر اور علم و آگاہی سے کام لیکر خوشحالی اور خود حفاظتی کی راہیں تلاش کرنا اور حکومت کو راہ راست پر رکھنا ہے۔ کنفیوشس سے اُسکے شاگرد بادشاہ نے پوچھا کہ مجھے ملک کی خوشحالی ، امن اور سلامتی و حفاظت کیلئے پہلا کام کیا کرنا چاہیے ؟ کنفیوشس نے جواب دیا کہ سب سے پہلے علم و آگاہی کے ادارے قائم کرو ۔ اِس کے بعد کنفیوشس نے اُسے ایک سو سرکاری اداروں کے قیام کا مشورہ دیا ۔ بادشاہ نے پوچھا کہ باامر مجبوری مجھے یہ سب ادارے بند کرنے ہوں تو کس ادارے کو باقی رہنے دوں ؟ کنفیوشس نے کہا علم وآگاہی کے ادارے بند نہ کرنا۔ اِن اداروں کی موجودگی سے زوال پذیر ادارے پھر بحال ہو جائیں گے ۔ اگر سوچ و فکر اور علم و آگاہی کے ادارے بند ہو گئے تو تمہارا ملک بکھر جائیگا۔ عوام مایوس اور پڑوسی ملک کے غلام بن جائیں گے۔
سکندرِ اعظم کی موت کے بعد مقدونیہ اور یونان کا دانشکدہ بھی زوال سے نہ بچ سکا ۔ اُس کے چار جرنیلوں نے ملک تقسیم کرلیا۔ سلیوکس کے حصے میں ہند اور ایران آیا۔ پٹنہ و بہار کے شہزادہ چندر گپت نے سلیوکس کو شکست دی تو ایران میں دارا کی سلطنت بحال ہوئی اور آتشکدہ ایران دانشکدہ ایران بن گیا۔ راج ترنگنی کے مصنف پنڈت کلہن لکھتے ہیں کہ مورخ وہ شریف النفس قابلِ تعریف و توصیف انسان ہے جو ماضی کے حقائق کو قلمبند کرتے وقت وہ مصنف نہیں بلکہ منصف کی طرح محبت یا نفرت سے مبرا رہتا ہے ۔ جون راج لکھتا ہے کہ سرکاری خرچ پر پلنے اور بادشاہوں سے مراعات لینے والے دانشور اور مورخ کبھی سچ نہیں لکھتے۔ بد قسمتی سے ہمارے ملک میں ایسے لوگوں کی کثرت ہے۔ قصیدہ نویسوں کا یہ طبقہ جو چرب زبانی اور قلم فروشی کے پیشے سے منسلک ہونے کے باوجود ادب،و علم اور صحافت کی دُنیا میں بھی مقبول اور معروف ہے۔ ان کا شمار تھنک ٹینک میں ہوتا ہے اور اِن کی رائے عالمی سطح پر قبول کی جاتی ہے۔ اِن کے ذاتی فورموں کے علاوہ ہر بڑا فورم ان کی شرکت کا محتاج ہے۔ اِن کے یو ٹیوب چینلز ۔ ٹویٹ اور پیغامات لاکھوں کی تعداد میں لوگ دیکھتے اور ڈالروں سے مالامال کرتے ہیں۔
علامہ جلاالدین سیوتی لکھتے ہیں کہ مسلمان معلمین اور محققین نے قرآن کریم سے ڈھائی لاکھ علوم اخذ کیے ۔ جرمن محققین نے اِن کی تعداد ڈیڑھ سو لکھی ہے ۔ اگر جرمنوں کی بات ہی مان لی جائے تو ابھی تک دنیا میں ڈیڑھ سو علمی سلسلے پوری طرح متحرک نہیں ہوئے ۔ جو کچھ دنیا کی ترقی و کامرانی میں رائج ہے اُس کی بنیاد فزکس، کیمسٹری ، بیالوجی ، فلسفے اور اِن سے منسلک متفرق علوم پر رکھی گئی ہے۔ اگر پاکستانی علماو معلمین کی بات کریں تو مولانا غامدی اور انجینئر محمد علی مرزا جہلمی کے متعلقین کی تعداد کروڑوں میں بتائی جاتی ہے جنکا کام صرف تنقید اور دیگر مسالک کی تذلیل و تحقیر ہے۔ قرآن تو آج بھی موجود ہے اور تا قیام قیامت موجود رہے گا مگر کیا وجہ ہے کہ دور حاضر کے علماٗ قرآن کریم سے اخذ کردہ علوم کا اجراٗ کرنے کی صلاحیتوں سے عاری ہیں۔ یہ لوگ محض شہرت، دولت اور حکمران طبقے کی قربت حاصل کرنے کی جستجو میں اُمت کو تقسیم کرنے اور معاشرے میں نفرت ، بغض اور فتنہ پھیلانے کا ہی باعث ہیں ۔ جس ملک میں ایسے علما کی بہتات ہو وہاں نہ تو علم کے سوتے پھوٹتے ہیں ، نہ عقل سلیم کی قوت کارگر ثابت ہوتی ہے اور نہ ہی معاشرتی، سیاسی اور معاشی استحکام پیدا ہو سکتا ہے ۔ منتشر الخیال معاشروں میں ریاست ہمیشہ کمزور اور ریاستی ادارے عدم استحکام کا شکار رہتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ سوچ و فکر کے موجو د ہ مراکز سے کوئی ابن الھیشم ، البیرونی ، فارابی ، ابن اسحاق اور الکندی پیدا نہیں ہو سکتا اور نہ ہی مجلس دراسات یا کوئی مثبت سوچ فکر کا اجراکرنیوالا تھنک ٹینک وجود میں آ سکتا ہے ۔ فورم یا تھنک ٹینک انسانی معاشرے کا لازمی جز ہے ۔
انسانی اجتماع چھوٹا ہو یا بڑا ۔ شعوری یا لا شعوری طور پر اُسے کوئی نہ کوئی ایسا مسئلہ درپیش آجاتا ہے جسکا حل باہمی صلاح و مشورے اور اشتراک سے ہی ممکن ہوتا ہے ۔ اسی طرح معاشرے اور ریاست کے بے شمار اندرونی اور بیرونی مسائل اور خطرات سے نبرد آزما ہونے کیلئے ماہرین کی ایک جماعت از خود یا پھر حکومتی ایما پر اِن مسائل کے حل کیلئے ایک لائحہ عمل تیار کرتی ہے اور پھر اِن ہی ماہرین یا پھر متعلقہ علوم کے اساتذہ و علماٗ پر مشتمل ایک ٹیم تھنک ٹینک کی صورت میں اِن تجویزات کے قابل عمل ہونے یا نہ ہونے پر اپنی رائے دیتی ہے ۔ حکومتی یا عالمی سطح پر اِن تجاویزات کا تجزیہ و تجربہ کیا جاتا ہے اور پھر ایک ٹھوس لائحہ عمل ترتیب دیکر اسے قانون کی شکل میں لاگو کیا جاتا ہے۔ اگر ہم غذائی اجناس کا ہی جائزہ لیں تو اِس صنعت سے ہزاروں صنعتیں حتیٰ کہ سیاسی صنعت بھی منسلک ہے۔ قرآن کریم میں حضرت یوسف ؑ کا واقع اور مولانا سید سلیمان ندوی کی ارض القرآن اور علامہ اقبال ؒ کی علم الاقتصادیات اِس صنعت کی ضرورت اور اہمیت کو اُجاگر کرتی ہیں۔ تاجرانہ سیاست ، صحافت اور اجتماعی ذھانت کی الگ ضرورتیں ہیں جن کی قوت اور حکومت کسی مثبت سوچ کو پنپنے ہی نہیں دیتی۔ دانشور اور اہل الرائے تاریخ مسخ کرنے اور بے اہمیت لوگوں کی اہمیت بڑھانے کے کاروبار سے نہ صرف دولت کماتے ہیں بلکہ معاشرتی اور ریاستی سطح پر عام لوگوں کی نفسیات پر بھی منفی اثر ڈالتے ہیں ۔ جھوٹی تاریخ بیان کرنے ، لکھنے اور اُس کی تشہیر کرنیوالوں کے متعلق ابن خلدون اور دیگر محققین کی رائے سخت اور مذمت سے بھر پور ہے ۔
مولانا عبدالمالک رئیس کھوڑی ضلع گجرات سابق مشیر مال ریاست بہاولپور نے حدیث رسولؐ کی روشنی میں ایسے تاریخ دانوں کو گوبرکے کیڑوں سے تشبیح دی ہے۔ نا جائز دولت کمانے والے نو دولتیے خاندانوں کی تعریف میں ہمارے کچھ ادیبوں نے بھی بہت کچھ لکھا مگر ایسے قلم فروشوں کا ادب کی حقیقی روح سے کبھی کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اُن کی سوچ و فکر کا مرکز اور مجلس دراسات حکمران طبقے کی تشہیر تک ہی محدود رہتی ہے ۔ حاجرہ مستور اور خدیجہ مستور کے علاوہ مستنصر حسین تارڑ اور قراۃ العین حیدر نے ایسے دانشوروں اور نو دولتیے خاندانوں کی حقیقت پر بہترین کتابیں لکھی ہیں۔ جبکہ اسد اللہ غالب ، سلیم صافی ، سہیل وڑائچ نے متبادل بیانیہ پیش کیا ہے۔ ذولفقار علی بھٹو( مرحوم ) پر بھی درجنوں کتابیں لکھی گئیں مگر سوائے سیدہ عابدہ حسین ، جنرل مجید ملک ، درگا داس ، منیر احمد، آئین ٹالبوٹ ، رفیق ڈوگر اور منیر حسین کے کسی نے جناب بھٹو کی اصل شخصیت پر لکھنے کی کوشش نہیں کی ۔ جناب بھٹو نے اپنی زندگی میں جنرل اسکندر مرزا کو قائد اعظم سے بڑا لیڈر اور جنرل ایوب خان کو ایشیاٗ کا ڈیگال قرار دیا تھا ۔
حیرت کی بات ہے کہ 14اپریل 2014کے اسپیشل سپلیمنٹ میں روزنامہ نوائے وقت نے ذولفقار علی بھٹو کا ایک خط بنام قائد اعظم ؒ اور پھر جناب قائداعظم ؒ کے جواب سے اقتباس ‘‘قائد عوام کا قائد اعظمؒ کے نام خط ’’کے عنوان سے شائع کیا۔ جناب بھٹو کے بچپن کے دوست پیلو مودی کے مطابق قائد اعظم ؒ کی وفات پر بھٹو کو اتنا ہی دُکھ ہوا جتنا مجھے گاندھی جی کے مرنے کا ہوا۔ پیلو مودی لکھتا ہے کہ 1950تک بھٹو اور میں مکمل امریکن تھے مگر میں گاندھی کا پیروکار تھا جبکہ بھٹو پنڈت نہرو کے خیالات کو بے حد پسند کرتے تھے۔ وہ پروفیسر ہیرالڈ لاسکی کی تقریریں سنتے تھے۔ بھٹو طالب علمی کے زمانہ سے ہی سوشلزم کے حامی تھے ۔ 1948ء میں یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا میں تقریر کرتے ہوئے بھٹو نے بتایا کہ مسلم ممالک میں سماج واد ( سوشلزم) کی ضرورت ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جس شخص کا آئیڈیل نہرو ہو۔ سوچ و فکر میکاولین ہو۔ سیاسی عقیدہ اور نظریہ مارکسزم کی بنیاد پر ہو اسے قائد اعظم ؒ کے خیالات و افکار سے کیا غرض ہو سکتی ہے ۔
حامد میر نے اپنے متعدد پروگراموں میں ارد شیر کاوٗس جی اور ڈاکٹر پرویز ھودبائی کی مدد سے نظریہ پاکستان اور قائد اعظم ؒ کی شخصیت پر حملے کیے مگر جو شخص قرآن کو آئین تسلیم کرتا ہو اور اقبال ؒ کے نظریہ خودی کا مقلد ہو اُسے حامد میر جیسے لوگوں کے خیالات سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ تاریخ مسخ کرنے اور کچرے میں ہیرے تلاشنے کا سلسلہ نیا نہیں پرانا ہے۔ اسی طرح منفی اور مثبت سوچ کے دھارے ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور انسانی سوچ و فکر کو متاثر کرتے ہیں ۔ وہ ملک اور اقوام جہاں توہم پرستی، جاہلیت اور غربت عام ہو اور عدل و انصاف مفقود ہو وہاں منفی سوچ اور مسخ شدہ حقائق اجتماعی شعور پر جلد اثر انداز ہو جاتے ہیں ۔ وہ لوگ جو نا جائیز دولت اور جبر کی قوت سے اقتدار پر قابض ہو جاتے ہیں اُنھیں منفی اور مصنوعی سوچ و فکر کے حامل افراد اور اداروں کی ہمیشہ ہی ضرورت رہتی ہے ۔ ہمارے ہاں کتنے ہی اعلیٰ عہدیدار ، سیاسی اور اعلیٰ شخصیات ہیں جنہیں عام لوگ نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں مگر ریاستی جبر اور حکومتی خوف کی وجہ سے اظہار نہیں کرسکتے۔
مولانا عبداللہ فرشی نے کشمیر میں افغان دور کے حوالے سے لکھا کہ دس فیصد کشمیری افغانوں کی درندگی کے خلاف صف آراٗ ہوئے تو اُن کے خاندانوں کو سر عام تہہ تیغ کر دیا گیا مگر جدوجہد آزادی پر کوئی فرق نہ پڑا۔ نوے فیصد نے حالات سے سمجھو تہ کر لیا اور ظلم و جبر کی چکی میں پستے رہے۔ افغان دور میں کشمیریوں نے بڑے پیمانے پر ہجرت کی اور دور دراز علاقوں جن میں پٹنہ، بہار، بنگال ، اُڑیسہ، میسور اور سندھ کے کچھ علاقوں میں جا آباد ہوئے۔ جبر کے اس دور میں بھی مسلمانوں کا ایک طبقہ نہ صرف افغانوں کا حامی تھا بلکہ انھیں نجات دہندہ قرار دیکر کشمیریوں کو ذلت کے اس دور میں مسلم بھائی چارے کا درس دیتا تھا۔ افغانوں نے علماٗ کو کشمیریوں کے لوٹے ہوئے مال سے کچھ حصہ دیکر ساتھ ملا لیا۔ شیعہ سنی تفریق جس کے نتیجے میں چک خاندان کی حکمرانی کا خاتمہ ہوا اُسے ایک بار پھر ہُوا دینے کی کوشش ہونے لگی تا کہ لوگوں کی افغانوں کی درندگی سے توجہ ہٹ سکے ۔ افغان فوج کی مدد کرنیوالوں میں ملتان کے علماٗ اور درانی قبیلے کے سردار بھی شامل تھے جنہوں نے پنجاب کے سکھوں کی سانسی جاٹ مثل کو بھی کشمیر میں پنجہ ظلم آزمانے اور لوٹ مار میں شامل ہونے کی دعوت دی ۔
(جاری ہے)