گورنمنٹ مڈل سکول دیوتا گولہ کا سرکاری نام گورنمنٹ مڈل سکول ہری پور تھا۔ ہری پور گائوں کا نام ہزارہ کے ضلع ہری پور کی طرح ڈوگرہ حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کے نام پر رکھا گیا۔ اس سے پہلے اِس جگہ کا نام ”ڈل کھمباہ“ تھا۔ اب بھی لائن آف کنٹرول پر واقع قلعہ کھمباہ کے نیچے ڈل کھمباہ نامی بستی موجود ہے جہاں راجپوت برادری کے کچھ گھر ہیں۔یہ بستی پاکستان آرمی کی دفاعی لائن سے آگے اور بھارتی فوج کے چھوٹے ہتھیاروں کی زد میں ہونے کی وجہ سے مسلسل بھارتیوں کے رحم و کرم پر رہتی ہے۔ اب یہ بستی بڑی حد تک خالی ہو چکی ہے اور لوگ میر پور اور دیگر علاقوں کی طرف نقل مکانی کر چکے ہیں مگر مالکان اپنی زمینوں اور مکانوں کی حفاظت کرتے ہیں اور مرد حضرات گھروں کا چکر لگاتے رہتے ہیں۔ آبادی کم ہونے کی وجہ سے اب پاک آرمی بھی بھارتیوں پر سلسل دباوٗ رکھتی ہے اور اُن کی فائیرنگ کا بھرپور اور موثر جواب دیتی ہے۔یوں تو ہری پور بھی اپنی دفاعی لائن سے آگے ہے مگر بھارتی فوج کے فائیر کی زد میں نہیں آتا۔ ہری پور کی جغرافیائی اور دفاعی صورتحال کی وجہ سے وہاں کسی تعلیمی ادارے کا قیام ممکن نہ تھا۔ لوگ پسماندہ اور غریب تھے اور اپنی مدد آپ کے تحت کوئی کام کرنے سے قاصر تھے۔ ہری پور کی بڑی آبادی گجر قبیلے سے تعلق رکھتی ہے جن میں زیادہ تعداد 1947اور 1965کے مہاجرین کی ہے۔
دیوتا گولہ ہری پور، سبز کوٹ، پنجن اور سنیاہ کے درمیان جنگل اور پہاڑوں کے درمیان ایک محفوظ جگہ ہے جو 1947سے پہلے ایک ویرانہ تھا۔ دیوتا گولہ کے قریب ہی ایک مشہور غار اور قدیم دور میں تعمیر کی گئی ایک باولی اور پہاڑ کی چوٹی کے قریب مقامی گجروں کی بستی پکھلیاں کے نام سے مشہور ہے۔ مغلیہ دور میں یہ علاقہ جسے مشہور مورخ محمد دین فوق اور ایلن بیٹس نے پنجن پلاہل لکھا ہے ڈوگرہ منہاس راجپوتوں کی جاگیر تھی۔ نوشہرہ،امبارایاں اور راجوری کے جنوب مغربی علاقوں میں نارمہ راجپوت قدیم دور سے آباد تھے جن کا جدِ اعلیٰ راجہ رنادت 436ء تا 497ء کشمیر کا حکمران رہا۔ رنادت راجہ بجرادت کا بیٹا تھا۔ رناوت کے بعد اس خاندان کے دو حکمران راجہ دنیادت اور بالادت کشمیر کے حکمران رہے جن کے بعد خاندان کا رکوٹ ہنسی کی حکمرانی کا آغاز ہُوا۔ محمد دین فوق اور دیگر تاریخ دانوں کے مطابق رنادت کی ملکہ نارمہ رانی کی اولاد نارمہ کہلائی جس کے متعلق عظیم تاریخ دان پنڈت کلہن نے اپنی مشہور عالم تاریخ ”راج ترنگنی“ کی جلد اوّل کے دوسرے ترنگ (باب) میں لکھا ہے کہ وہ ایک پارسا اور نیک نیت عورت تھی۔ نارمہ رانی سے عقیدت اور ہندو عقیدے کے مطابق پنڈت کلہن کا خیال ہے کہ نارمہ رانی اور بادشاہ رنادت مرے نہیں بلکہ سفید جزیرے میں منتقل ہو گئے ہیں۔
کیپٹن سرندر سنگھ نارمہ کے مطابق نارمہ رانی کی اولاد (نارمہ قوم) کے کچھ افراد امباراں جو جموں اور نوشہرہ کے درمیان واقع ہے میں آباد ہُوئے اور بعد میں اِن ہی کی اولادوں میں اکثر نے راجپوتانہ کا رُخ کیا۔ ٹاڈا راجستان کے مطابق مغل بادشاہ اورنگزیب کے دور میں چار سگے بھائیوں راجہ جلال خان، راجہ لال خان، راجہ تندو خان اور راجہ کھمبو خان نے اسلام قبول کیا اور راجستان سے ہجرت کرتے ہوئے نارموں کی قدیم ترین بستی فتح پور پلان ضلع جہلم آئے۔ کچھ عرصہ عارضی قیام کے بعد اُنہوں نے بزورِ شمشیر علاقہ پنجن پلاہل پر قبضہ کیا۔ ڈوگرہ منہاس قبیلہ شکست خوردہ ہو کر دیگر علاقوں میں بِکھر گیا۔ اگرچہ راجہ جلال، لال، تندو اور کھمبو مسلمان ہو چکے تھے مگر تندو اور کھمبو کے ہندو نام ہی مشہور عام ہُوئے۔ تندو کی اولاد گاوٗں تندڑ ضلع بھمبھر اور کھمبو کی اولاد کھمباہ تحصیل نوشہرہ ضلع جموں میں آباد ہُوئی۔ کھمبا کا قدیم نام ”ڈل“ تھا جہاں مغل بادشاہ اکبر کے دور میں جب کشمیر فتح ہُوا تو یہاں ایک مضبوط قلعہ تعمیر کیا گیا۔ راجہ کھمبو کی آمد کے بعد ”ڈل“ کا نام ڈل کھمباہ اور قلعے کے گردو نواح کا نام بھی مشہور ہُوا۔ پنجن کے تین دیہاتوں ناڑا کوٹ، نرماہ اور دبلہاں راجگان میں پہلے سے ہی نارمہ قوم آباد تھی جن کی قدیم بستیوں کے آثار کھنڈرات کی شکل میں آج بھی موجود ہیں۔ تینوں گاوٗں کے قریب کھنڈرات پر مشتمل زمینیں اِن ہی لوگوں کی ملکیت ہیں جہاں قبرستانوں کے آثار نہیں ملتے۔ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ بوجہ اِن کے قصبے اُجڑتے رہے اور وہ قریبی علاقوں میں آباد ہُوتے رہے۔ شاید تب تک اِس علاقہ میں دین اسلام کی روشنی نہیں پھیلی تھی اور یہ لوگ اپنے قدیم عقائد اور ادیان پر قائم تھے۔ اِن تینوں گاوٗں کے قریب قدیم دور کی کچھ خانقائیں موجود ہیں جہاں چار دیواریوں کے اندر صرف ایک یا دو قبریں ہیں۔ یہ خانقائیں اور قبریں کس کی ہیں؟ اِن کی کوئی تاریخ نہیں۔
سرینگر کے محلہ ”خان یار“ میں واقع یوز آسف کی قبر کی طرح جس کی کوئی مستند تاریخ نہیں ایک عرصہ تک اہلِ اسلام کے درمیان کشمکش کا باعث رہی۔ قرآن پاک کی سورۃ المو مینون آیت 50کے الفاظ اور آیت مبارکہ کے ترجمے ”اور بنایا ہم نے مریم ؑکے بیٹے اور اُس کی ماں کو ایک نشانی اور اُن کو ٹھکانہ دیا ایک ٹیلے پر (رَبوۃ) پر جہاں ٹھہرنے کی جگہ اور صاف پانی تھا“۔ اِس آیتِ مبارکہ کو بُنیاد بنا کر غلام احمد قادیانی نے ”تاریخ اعظمی“ میں ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ربوہ یعنی بُلند مقام سے مراد کشمیر ہے اور نعوذ بااللہ، یوز آسف کی قبر حضرت عیسیٰ ؑ کی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ حضرتِ عیسیٰؑ تو زندہ ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اُنھیں آسمان پر اُٹھا لیا جو ایک مقرر وقت پر دوبارہ زمین پر اُترینگے۔ نہ صرف مسلمانوں بلکہ عیسائیوں کا بھی یہی عقیدہ ہے جس کی تشریح کی ضرورت نہیں۔ تاریخ اعظمی لکھنے کا مقصد حکومت برطانیہ کیلئے محض جواز مہیا کرنا تھا کہ ”ربوہ“ نہ صرف قادیانیوں بلکہ عیسائیوں کیلئے بھی مقدس مقام ہے ”ربوہ“ سے مراد دہی بلند مقام یعنی جنت ہے اور یہ ”ربوہ“ یا جنت ارضی کشمیر ہی ہے۔ کشمیر میں ایسے سینکڑوں مزار اور قبریں ہیں جن کی کوئی تاریخ نہیں مگر حالیہ سالوں میں ان قبروں اور مزاروں کے وارثین بھی پیدا ہو گئے ہیں اور اُنھیں کمائی کا وسیلہ بنا لیا ہے۔ عدالتوں، حکومتوں، نو دولتیے خود ساختہ سیاستدانوں، پولیس، پٹواریوں ڈاکٹروں اور مافیا کے ستائے ہُوئے عوام کا آخری سہارا یہی قبریں اور مزار ہیں جہاں اللہ کے نیک بندے صدیوں سے خاک نشین ہیں۔ میری تحقیق کے مطابق یہ قبریں اُن شہیدوں اور مبلغین کی ہیں جو ظہورِ اسلام کے بعد اِن علاقوں میں آئے اور اسی زمین کے ہو گئے۔ بدعات اور توہمات کے فتوے جاری کرنیوالوں کی ایک جماعت بھی سرگرم عمل ہے مگر ووٹ مانگتے ہُوئے یہ لوگ ذرہ بھر نہیں شرماتے اور ان ہی بدعتیوں اور توہم پرستوں کو دھوکہ دینے اُن کے گھروں پر چلے جاتے ہیں۔ جنازوں اور شادیوں میں بھی شرکت کرتے ہیں مگر اپنے کرتوتوں پر کبھی شرمندگی کا اظہار نہیں کرتے۔
کاروباری پیروں، خلیفوں، صاحبزادوں اور متولیوں کے آستانے اب یورپ اور امریکہ میں بھی آباد ہو گئے ہیں اور (فیتھ ہیلر) عقیدے کے معالج کے طور پر یہ لوگ وہاں رجسٹرڈ ہیں۔ دین اور روحانیت کے نام پر کمائی ہوئی دولت سے ٹرسٹ قائم ہیں جن کے بینکوں میں اربوں ڈالر جمع ہیں۔اچھی بات یہ ہے کہ صدیوں پُرانی قبروں اور مزاروں کے متولیوں کے درمیان کوئی عداوت نہیں۔ اُنھیں سیاسی جماعتوں اور حکمران طبقے کی بھی آشیرباد حاصل ہے جس کی وجہ بے بس اور مجبور زائرین اور مریدین کا بینک ووٹ اور پولیس والوں کیلے عیش و عشرت کے جملہ لوازمات ہیں۔یوز آسف کی طرح اِن گم نام قبروں اور مزاروں پر قبضے کی بھی کبھی کوئی جنگ نہیں ہُوئی اور نہ ہی فرقہ واریت کا کوئی حادثہ ہوا ہے۔دیوتہ گولہ کے قریب پنجن کے مقام پر ایک مزار ہے۔ اسی مزار سے منسلک ایک سّید زادے کا ذکر لیفٹینٹ راجہ ظفر خان شہید ستارہ جرأت (دوبار) نے اپنی ڈائیری میں کیا ہے۔ سولہ صفحات پر مشتمل یہ ڈائیری سٹیم پریس صدر راولپنڈی نے 1950ء میں شائع کی جو جنگ آزادی کشمیر کی سچی اور حقیقی داستان ِ الم ہے۔ لیفٹینٹ راجہ ظفر خان شہید لکھتے ہیں کہ سید صاحب نے جنگِ آزادی کشمیر میں بھرپور حصہ لیا۔ شہید کی ڈائیری میں یہ بھی لکھا ہے کہ مسئلہ کشمیر سیاسی یا عسکری نہیں بلکہ ایک روحانی مسئلہ ہے اور اس کا حل بھی روحانی ہی ہو گا۔ حضرت قبلہ نور الدین اویسی ؒ اور حضرت قبلہ مولوی برکت اللہ جھاگویؒ دواریاں شریف ضلع نیلم کے علاوہ دیگر فقراٗ اور اولیائے کاملین کی بھی یہی پشین گوئی ہے۔
دیوتہ گولہ کی عسکری اہمیت کے پیشِ نظر 1947ء میں لیفٹیننٹ ظفر خان شہید ستارہ جرأت (دوبار) نے یہاں ایک عارضی کیمپ قائم کیا جہاں محاذ جنگ پر زخمی ہونے والے غازیوں کو ابتدائی طبی امداد کے بعد میر پور یا پھر جہلم بھجوایا جاتا۔نئے آنیوالے مجاہدین کو بھی ابتدائی طور پر اسی کیمپ میں ٹھہرایا جاتا اور اُن کی چھان بین کی جاتی۔ قبائلی علاقوں اور افغانستان سے بہت سے جتھے مجاہدین کے روپ میں لوٹ مار یا پھر بھارتیوں کے سہولت کار بن کر بھی آئے اور اصل اور حقیقی مجاہدین کی کامیابیوں کو ناکامیوں میں بدل کر محاذِ جنگ سے فرار ہو گئے۔ لیفٹیننٹ مظفر خان شہید لکھتے ہیں کہ سوائے دیر سکاوٹ اور سوات سکاوٹ کے مختصر دستے کے کسی نے ہماری مدد نہ کی۔ دیر سکائوٹ کے شہیدوں کا وسیع قبرستان دیوتہ گولہ کے شمال میں دو کلو میٹر کے فاصلے پر سبز کوٹ کے مقام پر آج بھی موجود ہے۔ شہیدوں کا یہ قبرستان آزاد کشمیر کے نو دولتیے بلیک لیبل سیاستدانوں کو کبھی نظر نہیں آیا چونکہ اُن کی نظریں مظفر آباد اور اسلام آباد پر ہی مرکوز رہتی ہیں۔ آزادی کے نام پر مال بنانے والوں کی اصل حقیقت وہی ہے جو گم نام قبروں اور مزاروں کے جعلی متولیوں اور سجادہ نشینوں کی ہے۔ کچھ لوگ قبروں کی مٹی اور کچھ شہیدوں کے خون کی کمائی پر پل رہے ہیں اور دونوں کا مقصد لوٹ کھسوٹ، دھوکہ دہی اور فراڈ ہے۔
(جاری ہے)