پاکستان 75سال بعد

(گزشتہ سے پیوستہ)
فرمایا ایک سیکیورٹی سٹیٹ بالآخر ایک ایلیٹسٹ سٹیٹ ہی بنے گی۔ جیسا کہ پچھلے مضمون میں عرض کیا ہے کہ دُنیا کی ہر سٹیٹ سیکیورٹی سٹیٹ ہی ہوتی ہے جس کے جملہ امور چلانے والے افراد علمی، عقلی، شعوری اور جسمانی لحاظ سے مضبوط، منفرد، بردبار، تحمل مزاج، صاف گو، نیک نیت، عادل اور اعلیٰ اخلاقی اقدار اور روایات کے حامل ہوتے ہیں۔ سورۃ البقرہ میں حضرت طالوت ؑ کی بادشاہی کا ذکر ہے۔ حضرت موسیؑ کے بعد بنی اسرائیل میں پھوٹ پڑ گئی اور ہر قبیلے نے اپنی الگ ریاست قائم کر لی۔ خوشحالی کے باوجود یہ ریاستیں دفاعی لحاظ سے کمزور تھیں جس کی وجہ سے جالوت کی افواج اُن پر حملہ آور ہُوئیں۔ بیت المقدس سمیت بہت سی ریاستیں مغلوب ہو گئیں تو جالوت قبلہ اوّل سے تابوت سکینہ بھی اُٹھا کر لے گیا۔ یہودی سرداروں نے وقت کے پیغمبر حضرت اشموعیل ؑ سے مشورہ کیا تو حضرت اشموعیل ؑ نے حضرت طالوت ؑ جو ایک عام آدمی تھے کو یہودیوں کا بادشاہ مقرر کر دیا۔ یہودی سرداروں نے اعتراض کیا کہ حضرت طالوت ؑ عام آدمی ہیں۔ یہ کسی قبیلے کے سردار نہیں نہ ہی مال و دولت رکھتے ہیں۔ طالوت ؑ کا کوئی معاشرتی مقام نہیں اور نہ ہی کوئی مشہور شخصیت ہیں۔
حضرتِ اشموعیل ؑ نے فرمایا۔ طالوت ؑ قوت اور علم کے لحاظ سے تم سب سے بہتر اور برتر ہیں۔ کسی حکمران کیلئے اِن ہی دو قوتوں کا ہونا لازم ہے۔ سلمان اکرم راجہ اگر علم اور جسمانی قوت پر تحقیق کریں تو جسمانی قوت میں روحانی، بدنی، علمی، عقلی، نفسیاتی، تجزیاتی، اخلاقی، شعوری، جنسیاتی اور فکری قوتوں سمیت کائیناتی قوتیں شامل ہیں چونکہ انسانی وجود اِن ہی قوتوں کا جوہر ہے۔علمی قوت کا احاطہ ایک مشکل امر ہے۔ دُنیا میں علوم کی لاکھوں جہتیں ہیں جن کی بُنیادیں علم منقول اور علم معقول پر استوار ہیں۔ جوں جوں زمانہ آگے چل رہا ہے توں توں علم کی نئی جہتیں کھل رہی ہیں۔ آج کمپیوٹر، سٹیلائٹ اور اِس فیلڈ سے منسلک ہزاروں علوم سامنے آچکے ہیں اور مسلسل سامنے آ رہے ہیں مگر اِس کی بُنیاد ابن الھیثم کے نظریے پر ہی استوار ہے۔ دُنیا میں کوئی ایسا علم نہیں جسکی بُنیاد مسلمان مفکرین اور سائنسدانوں نے نہ رکھی ہو۔ یونانی فلاسفہ و حکماٗ نے جو کچھ لکھا اُس کے معلمین ابتدائی دور کے انبیاٗ، علمائے حق اور اولیائے کاملین تھے۔ اگرچہ اِن علوم کے بُنیادی عناصر اور ابتدائی معلمین اور محققین کا مذاق اُڑانے والے دانشوروں کی ایک بڑی جماعت اِس ملک میں بھی موجود ہے جن کے متعلقین کروڑوں میں ہیں مگر اہلِ یورپ اور دوسرے مذاھب سے تعلق رکھنے والے سائنسدان، علمائے سیاسیات و عمرانیات کے علاوہ محققین اور معلمین اِس بات پر متفق ہیں کہ کائناتی علوم کا منبع خود خالق کائنات ہے اور کائنات میں مروجہ و مخفی علوم اُسی سے منقول ہیں۔ محققین اور معلمین نے اِن ہی علوم کو مختلف زاویوں، فارمولوں، تجزیوں اور تجربوں کی بُنیاد پر پرکھا اورایک معقول انداز میں اسپر کتابیں اور تحقیقی مقالے لکھ کر عام لوگوں کی سہولت کیلئے مشتہر کر دیے۔
ہر قوت کی معراج استقلال اور قوتِ ارادی ہے۔ جراٗت و استقلال کا سر چشمہ عصبیت سے منسلک ہے۔ ایلیٹ یا اشراف اگر بیان کردہ خصوصیات سے مبرا ہو تو اُسے ایلیٹ یا اشراف کہنا از خود اشراف کی توھین ہے۔ ایسی اشرافیہ معاشرے، ریاست اور ملت کے زوال کا باعث بنتی ہے جسکے واضع منفی اثرات مملکت خداداد پاکستان اور اہلِ پاکستان پر نظر آرہے ہیں۔اشراف کی خصوصیات کے ضمن میں ابنِ خلدون لکھتے ہیں کہ اِس کی مثال ایک ایسے شخص کی ہے جو عاقل، عادل، منصف، سلیم الفطرت، معزز، بردبار، تحمل مزاج، مہمان نواز، غریب پرور اور علم دوست ہو۔ افغان شاعرہ، عالمہ، معلمہ، جنگجو، اور پہلے افغان بادشاہ میر واحظ ہوتک کی ماں نازوتوخی نے اپنے کلام میں مثل سعدیؒ لکھا ہے کہ جس گھرانے کی بُنیاد جاھلیت، تکبر و رعونت، ہوس زر اور حرص اقتدار پر رکھی جائے وہ کبھی معزز اور معتبر نہیں ہو سکتا۔ ابنِ خلدون لکھتے ہیں کہ برامکہ فارس میں معتبر اور معزز تھے۔ اسلام قبول کیا تو عباسی خلفاٗ نے اُنھیں عصبیت، علمیت اور خاندانی اوصاف کی بُنیاد پر اہم عہدوں پر فائیز کیا۔ سلمان اکرم راجہ صاحب غور کریں تو ہماری قومی اشرافیہ یا ایلیٹ چاہے کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتی ہو وہ عصبیت، علمیت اور دیگر بیان کردہ اوصاف سے خالی نازو توخی کے بیان کے عین مطابق اشراف کا لبادہ اُوڑھے ملکی نظام مسلسل تباہی کی طرف لے جا رہا ہے۔
دُنیا میں کسی بھی جگہ فوجی قیادت موروثی نہیں ہوتی اور نہ ہی جاگیر داروں، سرمائیہ داروں، کارخانہ داروں اور سیاسی گھرانوں کے چشم و چراغ فوج میں بھرتی ہُوتے ہیں۔ اگر کسی بڑے افسر کا بیٹا فوج میں آ جائے تو اُس کیلئے کوئی خصوصیات، مراعات یا سہولیات کا بندوبست نہیں کیا جاتا جسطرح پاکستانی سیاست میں نودولتیے سیاستدانوں کے بچوں کی باقاعدہ لانچنگ ہوتی ہے۔ ایسا ہی بندوبست عوام کی خادم نوکر شاہی کی اولادوں کے لیے ہوتا ہے اور اُن کے والدین لوٹ مار اور عوام کی بیخ کنی کے سارے گُراُنہیں گھر سے ہی سکھلا کر بیورو کریسی کا حصہ بناتے ہیں۔ سلمان اکرم راجہ اور”پروگرام پچھتر سال بعد“ کے شرکاٗ معلوم کر سکتے ہیں کہ کیا کبھی کسی فوجی جرنیل یا افسر کا بیٹا وار ژون (War Zone) میں جانے سے بچ کر پیچھے رہا ہے۔ پاکستان فوج میں ایک ایسی بھی یونٹ ہے جس کے سولہ افسر ایک ہی معرکے میں شہید ہُوئے جن میں بارہ کے والد اسی یونٹ کے کمانڈنگ افیسر رہ چکے تھے۔ ابنِ خلدون لکھتے ہیں کہ حقیقت کے اعتبار سے اصل شرافت عصبیت والوں کیلئے ہی ہے۔
فوج چاہے کسی بھی ملک کی ہو اُسکا معیار شرافت اور عصبیت کے ترازوں میں ہی تولا جاتا ہے۔ ابنِ خلدون نے لکھا کہ فوج میں دیہاتیوں اور مشکل ودشوار گزار علاقوں کے جوانوں کو اسلیے رکھا جاتا ہے چونکہ وہ خاندانی قبیلائی اور روائیتی شرافت اور عصبیت کے حامل ہُوتے ہیں۔ شہریوں، تاجروں اور کاروباری خاندانوں اور لوگوں میں عصبیت نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ شرافت میں صاف ستھرے اور نمایاں ہُوتے ہیں۔ ساری دُنیا کے مفکر اور منصف اِس بات پر متفق ہیں کہ تاجروں اور کاروباری لوگوں کو سیاست اور حکومت سے دور رکھا جائے۔ کوتیلیہ چانکیہ نے تو یہاں تک کہا کہ پیشہ بدل کر دوسرے پیشوں اور صنعتوں میں شامل ہُونے والا قومی مجرم اور سزا کا حقدار ہے۔تشریح کرنیوالے لکھتے ہیں کہ لوہار کا بیٹا لوہے کا کارخانہ تو لگا سکتا ہے مگر اگر وہ کسی عہدے پر فائز ہو جائے تو وہ لوہے کی صنعت سے وابستہ دیگر صنعت کاروں کا کاروبار تباہ کر دیتا ہے۔
ٓآج پاکستان جس حالت میں ہے اس کی وجہ اصلی نہیں بلکہ خود ساختہ کرپٹ ایلیٹ ہے۔ راجہ صاحب اور اُن کے ہم خیال ایلیٹ کی اصل اور حقیقی تشریح نہیں کرسکے۔ ہمارے ملک کی خود ساختہ ایلیٹ اشراف ہی نہیں اور نہ ہی ان کی کوئی عصبیت اور شرافت ہے۔ عصبیت کے بُنیادی اجزاٗ فضلیت، علمیت، شرافت، سیاست، عقائد، روایت، جراٗت و استقلال، حق گوئی و بیباکی اور سچائی ہیں۔شاید نجم سیٹھی کو ایسا کوئی شخص میسر ہو جائے مگر راجہ صاحب خوردبین سے بھی دیکھنے کی کوشش کریں تو ایسا صاحب کردار مروجہ سیاسی نظام اور اس سے منسلک اداروں میں نہیں ملے گا۔ ملکی نظام چلانے والے ادارے ایک دوسرے سے مربوط و منسلک ہوتے ہیں اور اُن اداروں کو چلانے والے افراد کے درمیان ذھنی ہم آہنگی کا ہونا ضروری امر ہے جو ایک امیر کی قیادت میں ہی اپنا کام سر انجام دیتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت اشموعیل ؑ کے واقع میں بیان ہُوا ہے کہ امیر کیلئے علم اور طاقت ہی بُنیادی اصول ہیں۔ عصبیت کے بغیر علم ادھورا اور طاقت کا استعمال استحصال میں بدل جاتا ہے۔
ایس۔ ایم۔ظفر اپنی تصنیف ”پاکستان بنام کرپشن۔ عوام کی عدالت میں“ سوال کرتے ہیں کہ:
بتائیے اِس ملک میں کون کرپٹ نہیں؟ پٹواری اپنے محکمے کا مختارِ کل ہے، پولیس ٹرانسپورٹ کے نظام میں حصہ دار ہے اور ڈاکے اُن سے پوچھ کر ڈالے جاتے ہیں۔ عدالتوں میں تاخیر تو پہلے بھی تھی مگر اب انصاف بکنے لگا ہے اور انصاف کے سوداگران دن دیہاڑے اپنا مذموم کاروبار بے خوف و خطر کرتے ہیں۔ صحافیوں نے اپنے قلم ارزاں اور بار بار بیچا ہے۔ وزیروں کی تو بات ہی انوکھی۔ جن رقوم کی اُنہیں گنتی نہیں آتی تھی وہ رقوم اُنہوں نے کمیشن میں کمائیں۔ قائدین (ایلیٹ) کا سرمائیہ بطور اندوختہ بیرونِ ملک رکھا ہے اور ابھی اور لے جا رہے ہیں۔ مرکزی اور صوبائی حکومتیں ایک دوسرے پر چھان اور چھلنی والا الزام لگاتی رہی ہیں مگر اندر سے ایک ہی ہیں۔ پولیس کو پولیس ایکٹ کے تحت خصوصی اختیارات دیے جاتے ہیں تاکہ وہ عوام کی حفاظت کر سکے مگر معاملہ اس کے بالکل بر عکس ہے۔ جمہوری ممالک میں مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ مملکت کے ستون سمجھے جاتے ہیں مگر ہمارے ہاں پولیس بھی ایک ستون ہے۔ کرپشن کی کمائی نے ایک ایسا نودولتیہ اور قانون شکن طبقہ پیدا کردیا ہے جو کسی کی بھی عزت، جان و مال پر محض تفریح طبع کیلئے حملہ آور ہو سکتا ہے۔ یہ لوگ قانون سے مبرا عوام کا مرغابیوں کی طرح شکار کرتے ہیں جسپر کوئی حکومتی عہدیدار یا وزیر بیان دیتا ہے کہ آئیندہ کوئی سماج دشمن قانون کے شکنجے سے بچ نہ پائیگا۔لکھتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں جس طرح کی گفتگو ہوتی ہے ایسی بکرا منڈی میں بھی نہیں ہوتی۔ پارلیمنٹ کے ماحول سے لگتا ہے کہ جلد ہی پارلیمنٹ صرف عمارت کا نام رہ جائے گا۔ اندر پارلیمنٹ کی جگہ کوئی اور ادارہ کام کرنے لگے گا۔آخری پیرا بڑا اہم ہے۔ لکھتے ہیں ترکیہ کی کہاوت ہے کہ جسطرح مچھلی اپنے سر سے گندہ ہونا شروع ہوتی ہے ایسے ہی معاشرہ اوپر سے کرپٹ ہوتا ہے۔ برف سب سے زیادہ پہاڑ کی چوٹی پر گرتی ہے اور جو زہر دودھ میں ہوتا ہے وہ بلا شبہ بالائی میں سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ تو کیا ہمارے ملک میں چوٹی کے عہدیداران یعنی وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ ان اصولوں کو مسترد کر سکتے ہیں۔ کیا مچھلی سر سے گندہ ہونا شروع نہیں ہوتی؟
کیا برف پہاڑ کی چوٹی پر زیادہ نہیں گرتی؟
کیا وزیرِاعظم اور وزرائے اعلیٰ ”کریم آف دی سوسائیٹی نہیں“؟
(روزنامہ جنگ لاہور 21 مئی 1989)
(جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے