یہ اُن دِنوں کی بات ہے

آٹھویں کے امتحان کے بعد اگلا مرحلہ کسی ہائی سکول کی تلاش تھا جو گھر کے قریب ہو۔ قریب ترین ہائی سکول اکالگڑھ میں تھا جسکا اب اسلامی نام اسلام گڑھ رکھ دیا گیا ہے۔ اکالگڑھ کے نام سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں کبھی سکھ آباد تھے مگر اب وہاں سکھوں کے کوئی آثار نہیں ۔ اکالگڑھ کا مشہور محلہ کمہاروں کا تھا جواب بھی ہے۔ کمہاروں کا پیشہ انسانی تاریخ کا اہم جُز ہے۔ قدیم ترین تہذیبی دور کی سب سے مستند پہچان برتنوں کے ٹکڑے جو پھیکریاں یا ٹھیکریاں کہلاتی ہیں عالمی تہذیبی کھوج کا ذریعہ ہیں ۔ ارضیات کے ماہرین یا محققین ہوں یا پھر انسانی ضروریات ، نفسیات اور دیگر سائنسی ، معاشرتی یا عمرانی علوم پر تحقیق کرنے والے سائنسدان و حکماٗ۔ سب کے علم کی ابتداٗ و انتہا مٹی تک ہی محدود ہے۔ اللہ نے انسان کو مٹی سے بنایا ، مٹی (زمین) کو ہی اسکا مسکن و مدفن بنایا اور قیام قیامت پر اُسے مٹی سے ہی اُٹھائیگا ۔اسلامی تاریخ سے ثابت ہے کہ حضرت ادریؑس نے اللہ کے حکم سے انسانوں کو مختلف پیشے سکھلائے جو ارتقائی عمل سے گزرتے سائنسی علوم کی بُنیاد بنے۔ جوں جوں انسانی معاشرہ وسعت پذیر ہوتا رہا اُس کی ضروریات میں بھی بتدریج اضافہ ہوا۔
ابتداٗ میں اللہ کے حکم سے فرشتوں نے ، پھر انبیاٗ نے اور آخر میں علمائے حق اولیائے کاملین نے معلمین ، محققین اور مفسرین کی ایک ایسی جماعت تیار کی جنہوں نے بِلا تفریق مذھب و ملت ساری دُنیا کے انسانوں کو بُنیادی سائنسی ، معاشرتی ، عمرانی، معاشی، ارضی و سماوی علوم مقدس صحائف اور کتب اور آخر میں قرآن کریم سے اخذ کردہ علوم کی روشنی میں فراہم کیے جس کی روشنی مشرق و مغرب تک پھیل گئی۔ دیکھا جائے تو کمہاروں کی اہمیت اب پہلے سے بڑھ کر ہے۔ سائنسی ترقی میں سائنسدانوں اور کمہاروں کی یکساں اہمیت ہے۔ مشین چھوٹی ہو یا بڑی ہر پُرزہ مٹی کے سانچے میں ہی ڈھالا جاتا ہے ۔ دُنیا میں جہاں بھی مینو فیکچرنگ فیکٹریاں اور کارخانے ہیں وہاں سرامک فیکٹریاں بھی موجود ہیں ۔اکالگڑھ میں اب ظروف سازی کا کام نہیں ہوتا۔ اکالگڑھ اور ضلع میرپور کے دیگر علاقوں کے ظروف ساز اپنا آبائی پیشہ لیکر انگلینڈ کے شہروں سٹوک آن ٹرنٹ ، شیفیلڈ، برمنگھم ، گلاسگو، اور بریڈ فورڈ چلے گئے اور وہاں سرامک و ظروف ساز کمپنیوں میں کام کرنے لگے۔ ہمارے علاقہ کے جفت ساز اور پارچہ باف بھی یورپ اور امریکہ چلے گئے مگر اپنے ہنر سے وابستہ نہ رہے۔کھوئیرٹہ اور براٹلہ دور تھے اور چڑہوئی میں ابھی تک مڈل سکول ہی تھا۔ سکول کی تلاش میں بہت سا وقت گزر گیا۔ اُن دِنوں میرے ماموں انگلینڈ سے آئے ہُوئے تھے ، ماموں نے والدہ صاحبہ کو مشورہ دیا کہ اگر آپ راضی ہوں تو میں کسی ایجنٹ سے بات کر کے اسے بھی انگلینڈ لے جا سکتا ہُوں ۔ والدہ نے مجھے میر پور جا کر بارہ عدد پاسپورٹ سائز تصویریں بنوانے بھجوا دیا۔ سات روز بعد بلیک اینڈ وائٹ تصویریں آ ئیں تو میری والدہ ایک بار پھر سوچ میں پڑ گئیں ۔ دو سال بعد مستری حنیف (مرحوم) انگلینڈ سے واپس لوٹا تو مجھے ملنے ہمارے گھر بھی آیا ۔ حنیف نے میری والدہ کو بتایا کہ وہاں زندگی کتنی مشکل ہے۔ وہ واکس ہال موٹر فیکٹری میں کاروں کی ونڈ سکرینوں کے گرد ربڑ فِٹ کرتا تھا۔ حنیف نے بتایا کہ وہ آٹھ گھنٹے کھڑا رہتا ہے اور تھک جاتا ہے ۔ وہاں فیکٹریوں اور ملوں میں سیٹھوں کے عالیشان دفتر نہیں ہوتے اور نہ ہی انجئنیر اور فورمین صرف حکم چلاتے ہیں ۔ ہر شخص کھڑا رہتا ہے اور کام کرتا ہے۔
ہفتہ اتوار چھٹی ہوتی ہے اور ہم جی بھر کر سوتے ہیں اور ایک دوسرے کو ملنے بھی جاتے ہیں ۔ اگلے ہفتے کیلئے سالن بھی تیار کرتے ہیں اور پھر ہفتہ بھر یہی سالن کھاتے ہیں ۔ حنیف نے بتایا کہ جمعہ کا دِن خوشی کا دِن ہوتا ہے ہفتے کی صبح دروازہ کھولو تو ہماری تنخواہ کا لفافہ گھر کے اندر پڑا ہوتا ہے۔ اُن دِنوں وہاں بھی بڑی بڑی تنخواہیں تو نہ تھیں مگر کھانے پینے کی چیزیں سستی، معیاری اور صاف ستھری تھیں ۔انگلینڈ سے آنے والے اپنے عزیزوں یا دوستوں کیلے کوئی تحفہ لاتے تو وہ بھی معیاری اور میڈ اِن انگلینڈ ہوتا۔ اُس دور میں برطانوی پاونڈ پہلے پاکستانی پندرہ روپے اور بعد میں عرصہ تک بیس اور پچیس روپے کے برابر رہا جو ایک بڑی رقم تھی۔حنیف مرحوم کی کہانی سُن کر میری والدہ بہت پریشان ہوئیں ۔ میرا چھوٹا بھائی محمد یوسف ماموں اور اُن کے خاندان کے ہمراہ انگلینڈ میں تھا مگر تب وہ سکول میں پڑھتا تھا۔ یوسف سب سے چھوٹا تھا اور سادہ طبعیت کا حامل خاموش رہنے والا بچہ تھا۔ والد صاحب کی اچانک حادثاتی وفات کے بعد والدہ اُسے ہمیشہ ساتھ رکھتیں۔حنیف نے بتایا کہ اُس کی برادری کے لوگ مستری کا کام کرتے ہیں ۔ اگرچہ یہ کام بھی سخت ہے مگر آبائی پیشہ ہونے کی وجہ سے قدرے آسان لگتا ہے۔ مستری حنیف کے والد مستری رقیب صاحب کا لوہار خانہ تھا وہ اینٹ گارے یا پتھر کا کام نہیں کرتے تھے ۔ مستری رقیب صاحب ہمارے علاقے کی معزز شخصیت تھے۔ اپنے کام میں ماہر، اچھے شکاری، خوش اخلاق اور صوم و صلواۃ کے پابند تھے۔ ہمارے ہاں مستریوں کی تین اقسام تھیں اور تینوں الگ الگ خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے ۔ مستری رقیب صاحب کا خاندان ۱۹۴۷ میں مکڑی ، بوہانی تحصیل نوشہرہ ضلع جموں مقبوضہ کشمیر سے ہجرت کے بعد سبز کوٹ اور کالا ڈب آکر آباد ہوا۔
یہ لوگ آہن گر تھے۔ ان کی موجودہ نسل مغل کہلواتی ہے مگر میری تحقیق کے مطابق یہ لوگ نارمہ یا پھر لوہارو خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ۔ یہ خاندان جس علاقہ سے ہجرت کر کے آیا ہے وہاں آج بھی ہندو نارمہ خاندان اکثریت میں ہے۔ اِس خاندان کے کچھ لوگ مستری نارمہ بھی کہلواتے ہیں چونکہ اُن کے آباو اجداد آہن گری کے پیشے سے وابستہ تھے ۔ ریاست پونچھ کا مشہور لوہار و خاندان پہلے پونچھ کا حکمران رہا اور پھر اسی خاندان کی انتہائی خوبصورت اور ذھین عورت دیدہ رانی کی شادی کشمیر کے حکمران کھیمہ گپت سے ہوئی۔ جگ موہن اور محمد دین فوق کی تواریخ ’’مائی فروزن ٹربولنس اِن کشمیر‘‘ اور ’’مکمل تاریخ کشمیر‘‘ کے مطابق پونچھ کا پُرانا نام لوہارا تھا۔ شادی کے بعد کھیمہ گپت جو گپت خاندان کا دوسرا بادشاہ تھا برائے نام حکمران بن گیا۔ اصل طاقت دیدہ رانی اور اُس کے منظورِ نظر سپہ سالار ’’ تنگا‘‘ کے ہاتھ تھی۔ خاوند کی وفات کے بعد وہ اپنے نابالغ بیٹے ’’ ابی مایوں ‘‘ کی سر پرست بن کر ریاست کے امور چلاتی رہی اور مرنے سے پہلے لوہار خاندان کے ایک فرد سنگرام کو تخت کشمیر پر بٹھا گئی جو ۱۰۰۳ عیسوی سے ۱۰۲۸ عیسوی تک کشمیر کا حکمران رہا۔ سنگرام کے دور حکومت میں محمود غزنوی نے کشمیر پر پہلا حملہ کیا مگر ناکام رہا۔
دیدہ رانی کے حُسن پر کئی راجے اور اعلٰی خاندانوں کے نوجوان امیر زادے فاریفتہ تھے۔ وہ جتنی حسین تھی اُس سے بڑھ کر سفاک اور بے رحم تھی۔ جو کوئی اسکے اقتدار کی راہ میں آیا اپنی جان سے گیا۔ حتٰی کہ اُس کے پوتے بھی دادی کے عتاب کا نشانہ بنے اور قتل کر دیے گئے۔ اُسکا تیسرا روپ پیشوائی اور خدمتِ خلق تھا۔ ہر علاقے میں غُربٗا کے لیے لنگر خانے تعمیر کروائے جہاں مفت کھانوں کا بندوبست تھا۔ ستر سے زیادہ مندر تعمیر کروائے اور عام لوگوں کو صحت ، تعلیم اور سفری سہولیات فراہم کیں۔دیدہ رانی کا انتقال ۱۰۰۳ عیسوی میں ہوا۔ مرنے سے پہلے اُس نے اپنے نام کی مناسبت سے دیدہ مر کا قصبہ تعمیر کروایا اور اپنے خاوند کے نام پر کنگن پور اور بیٹے کے نام پر مینو پور آباد کیے۔ پریم ناتھ بزار نے ’’تاریخ تحریک آزادی کشمیر‘‘ میں ایک اور ظالم بادشاہ کا ذکر کیا ہے جسکا نام مہر گل ہن تھا ۔ پنڈت کلہن نے اُسے تری کوٹہ یعنی تین کروڑ کا قاتل لکھا ہے۔ اسرار احمد راجہ نے اپنی تصنیف’’ کشمیر کا المیہ‘‘ میں لکھا ہے کہ پاکستان کے حکمران شریف خاندان کی طرح مہر گل ہن کا پیشہ بھی آہن گری تھا اور دونوں حکمران خاندانوں میں کئی قدریں مشترک ہیں۔ لکھتے ہیں کہ جسطرح ماڈل ٹاوٗن کے قتلِ عام کا منظر شریف خاندان ٹیلیویژن پر دیکھ کر محظوظ ہو رہا تھا ویسے ہی کشمیر کا آہن گر بادشاہ مہر گل ہن ہستی ونج کے مقام سے سو ہاتھیوں کو یکے بعد دیگرے پہاڑ سے گرا کر اُن کی چنگاڑ اور موت سے نہ صرف محظوظ ہو رہا تھا بلکہ شراب کے نشے میں جھوم بھی رہا تھا۔
پلاہل کلاں اور راجگان کا مستری خاندان راجہ لعل خان نارمہ کی اولاد سے ہیں مگر بوجہ مغل کہلواتے ہیں ۔ سابق چیف جسٹس آزاد کشمیر جسٹس یونس سرکھوی (مرحوم) کے آباو اجداد کا تعلق بھی اسی خاندان سے تھا۔اِسی خاندان سے تعلق رکھنے والے راجہ شہزادہ خان اور اُن کے بھائیوں نے کھمباہ کے ہندو نارموں کی لڑکیوں سے شادیاں کیں اور ہندو مذھب قبول کر لیا۔ خاندانی تاریخ کا عصبیت پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ انسان کتنا ہی بڑا عالم ، فاضل ، محقق اور معلم کیوں نہ ہو جائے اور جتنا بڑا عہدہ اور منصب کیوں نہ حاصل کر لے، عصبیت کے لحاظ سے کمزور شخص ہمیشہ کم ظرفی کی طرف مائل رہتا ہے۔ ہمارے ہاں مستری محض لقب ہے قبیلہ یا خاندان نہیں ۔ یہی لوگ راج اور ترکھان بھی ہیں جن میں جاٹ ، راجپوت اور دیگر برادریوں کے لوگ شامل ہیں ۔ مستری حنیف نے چھٹی جماعت میں سکول تو چھوڑ دیا تھا مگر کتب بینی کا شوق نہ چھوڑا ۔ میری والدہ مرحومہ نے میرے انگلینڈ جانے کا بتایا تو حنیف نے مشورہ دیا کہ آپ کا بیٹا انگلینڈ جا کر مزدوری کرنے والا نہیں ۔ وہ چلا بھی گیا تو کسی سے لڑ جھگڑ کر واپس آجائیگا۔اُس نے بتایا کہ اُس کے دو تایا زاد بھائی گورنمنٹ مڈل سکول دیوتا گولہ (ہری پور) میں پڑھتے ہیں ۔ وہاں کے لوگوں نے سکول میں دو کمروں کا اضافہ کیا ہے اور دو پرائیویٹ سکول ٹیچر بھی بھرتی کیے ہیں۔ نئے سکول میں نویں اور دسویں کلاس کا اجراٗ ہو چکا ہے اور لڑکے داخلہ لے رہے ہیں ۔ارد گرد کے دیہاتوں سے پتہ کیا تو نرماہ سے ماسٹر عظیم صاحب اور حمید اللہ، ٹھیرہ سے مدثر اور جہانگیر اور کنیڈ سے اب تحصیلدار ریٹائرڈ راجہ مقصود داخل ہو چکے تھے ۔ پلاہل کلاں سے چوھدری عبدالمجید سالک اور بڑجن سے بھی دو لڑکے دسویں میں داخل تھے۔ اکالگڑھ بڑجن اور پلاہل کے قریب تھا مگر ہری پور میں ان کے قریبی رشتہ دار رہتے تھے جس کی وجہ سے یہ لوگ و ہی قیام کرتے تھے۔
میں نے اور میرے محلے دار راجہ یونس نے بھی اِسی سکول میں داخلہ لیا۔ سکول کی تلاش میں ہم چار ماہ بعد سکول پہنچے مگر ہیڈ ماسٹر چوھدری عبدالعزیز اور فارسی ، عربی، اردو اور تاریخ کے استاد مولوی عبدالرحمٰن صاحب نے طالب علموں کی کمی کی وجہ سے ہمیں داخل کر لیا۔ دیوتا گولہ کا فائدہ یہ تھا کہ وہاں تک کچی سڑک جاتی تھی مگر سوائے اِکا دُکا اور وہ بھی کبھی کبھار فوجی گاڑیوں کے پبلک ٹرانسپورٹ نہ چلتی تھی ۔ دیوتا گولہ ہمارے گھروں سے پانچ چھ کلو میٹر دور تھا مگر کچھ لڑکے اس سے بھی دور اور دشوار علاقوں سے آتے تھے ۔
(جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے