یہ تو سب جانتے ہیں کہ ’’ یوم یکجہتی کشمیر‘‘ منانے کی تجویز جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد (مرحوم) نے ۱۹۹۰ میں دی اور پھر ملک بھر اور بیرون ملک اس کی تشہیر بھی کی ۔ مقبوضہ کشمیر کے علاوہ پاکستان بھر کے عوام کے علاوہ بیرون ملک پاکستانیوں نے بھی اس تجویز کو سراہا تو تب کے وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف نے بھی اس کی حمائت کی ۔ وزیر اعظم نواز شریف نے ہی نہیں بلکہ دیگر سیاسی جماعتوں اور ان کے لیڈروں نے ہمیشہ ہی کشمیر کے معاملے پردہ غلے پن کا مظاہرہ کیا تا کہ کشمیری خود فہمی میں مبتلا رہیں ۔ اور بھارت اور اس کے مغربی دوست و ہمنوا بھی ناراض نہ ہوں ۔ مفاد پرستانہ اور منافقانہ سیاست ہی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان پون صدی گزرنے کے بعد آج تک کوئی واضع اور قابل عمل کشمیر پالیسی مرتب نہیں کر سکا۔ اگر تقریروں ، تقریبوں ، ورکشاپوں ، غیر ملکی دوروں اور سیمیناروں سے کشمیر آزاد ہوتا تو (یو ۔ این ۔او) میں وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان کی اڑھائی گھنٹے کی طویل تقریر اور نوابزادہ نصراللہ خان کے دوروں سے کام چل سکتا تھا۔ شا ید یہی وجہ تھی کے مولانہ ٖفضل الرحمن نے بحثیت چیئرمین کشمیر کونسل کے خاموشی اختیار کی اور چئیرمینی کے مزے لوٹتے رہے ۔
جناب قاضی حسین احمد کی کوششوں نے مسئلہ کشمیر کو خاموشی کے اندھیروں سے نکالا اور ساری دنیا کے سامنے بھارتی مظالم کو تو بے نقاب کیا مگر حکمرانوں نے اس کوشش کو ایک تقریب اور چھٹی تک محدود کر دیا ۔ حکومت پاکستان اور پاکستانی سیاسی قائدین بشمول بیورو کریسی کے عالمی اداروں اور بھارتی ہمنواوں کے دباو میں آکر ’’یوم یک جہتی کشمیر‘‘ کی تقریب ۲۰۰۴ میں وزارت امور کشمیر کے حوالے کر دی تاکہ سرکاری سرپرستی میں اسے ایک حد سے آگے نہ جانے دیا جائے اور نہ ہی اس کے اغراض و مقاصد کی تشہیر ہو سکے ۔ ۲۰۰۱ میں جماعت الدعواۃ نے یوم یکجہتی کشمیر کا انعقاد کیا مگر جلد ہی اس جماعت کو دہشت گرد تنظیموں میں شمار کرنے کے بعد اس پر پابندی عائد کر دی گئی ۔ جاعت الدعواۃ کے انعقاد تقریب کو بھی زیادہ پزیرائی نہ مل سکی چونکہ ابتدا میں اس تنظیم کا یوم یکجہتی کشمیر سے کوئی تعلق نہ تھا ۔ اس بات کا خطرہ تھا کہ جماعت الدعواۃ کی وجہ سے کشمیر کاز کو فائدے کے بجائے نقصان ہو گا اور تحریک آزادئ کشمیر کا بچا ہو اور محدود سرمایہ بھی ڈوب جائے گا۔
۲۰۲۱ میں امیریکی پاکستانیوں اور کشمیریوں نے نیو یارک میں اس تقریب کا انعقاد کیا اور نیو یارک کے گورنر سمیت عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کے سامنے مئلہ کشمیر کو بھر پور انداز میں پیش کیا ۔ عالمی سطح پر اس سلسلے کی یہ سب سے بڑی تقریب تھی جسے بھارت ناکام نہ بنا سکا۔ یوم یک جہتی کشمیر کی اہمیت کم کرنے میں جہاں پاکستان اور لائین آف کنٹرول کے دونوں جانب کے عوام کو متنفر کرنے کا سلسلہ ابتداَ ہی سے شروع ہوا وہی عالمی سطح پر بھارت نے بھی اپنی کوششیں تیز کر دیں ۔ تحریک آزادئ کشمیر کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے علاوہ آزاد اور مقبوضہ کشمیر میں ایسے گروپ تشکیل دینے پر سرمایہ کاری شروع کی جو تحریک یکجہتی کشمیر کو عوام میں غیر مقبول بنانے کا باعث بن سکیں ۔ ۲۰۲۲ میں پاکستان اور آزاد کشمیر کے کئی شہروں اور قصبوں میں اسے ’’یوم فراڈ‘‘ قرار دیا گیا جسے بظاہر پاکستان میں موجود عالمی شہرت یافتہ کمپنیوں سے سپانسر کیا ۔ ان کمپنیوں میں ہنڈا ، ٹیوٹا موٹرز، سوزوکی موٹرز ، کے ایف سی اور پیزاہٹ زامل تھیں ۔ مسئلہ کشمیر پر اس اشتہاری مہم سے بیان کردہ کمپنیوں نے لا علمی کا اظہار کرتے ہوئے معذرت کی اور کہا کہ تقریبات منانے والوں نے یہ سب ان کی اجازت لیے بغیر کیا ہے ۔ یاد رہے کہ کوئی بھی انٹرنیشنل فرنچائیز دنیا میں کسی بھی متنازعہ خطہ میں نہ تو اپنی فرنچائز کھول سکتی ہے اور نہ ہی کسی اشتہاری مہم کا حصہ بن سکتی ہے ۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ بیان کردہ آٹو موبائیل کمپنیاں آزاد کشمیر میں بھی کاروبار کرتی ہیں اور اس سال کے آغاز پر ہی میر پور میں’’ کے ایف سی‘‘ بھی کھل چکا ہے ۔ عالمی اداروں کی پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف ایسی سازشیں کوئی نئی بات نہیں ۔ ۱۹۷۰ کے آغاز میں ہی غیر ملکی تجارتی کمپنیوں ، بینکوں نے ڈھاکہ ، چٹا گانگ ، سلہٹ کو میلہ اور دیگر شہروں میں پاکستان کے خلاف اشتہاری مہم شروع کر دی تھی ۔ بڑے بڑے بل بورڈوں پر آزادی کا سورج طلوع ہونے والا ہے اور جیئے بنگلہ کے نعروں سے ساتھ مجیب الرحمن کی تصویر واضع دکھائی دیتی تھی ۔ ’’یوم فراڈ‘‘ منانے والوں میں پاکستانی سیاسی نمائندوں کے ایجنٹ شامل تھے اور تقریروں کا موضوع مقبوضہ کشمیر میں مثالی امن و امان ، ترقی و خوشحالی کے علاوہ عمدہ انتظامی امور تھا ۔ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ اور جے کے پیپلز پارٹی کا الگ ایجنڈا ہے ۔ جسے خفیہ ہاتھوں کی حمایت حاصل ہے ۔ عام پاکستانیوں اور اہلیان آزاد کشمیر کو پتہ ہی نہیں کہ ۵ جنوری کے روز یوم یکجہتی کشمیر کیوں منایا جاتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ کام سیاسی جماعتوں ، حکمرانوں ، حکومتوں اور اہل علم کو کرنا تھا مگر ان کے نزدیک آزاد کشمیر پر حکمرانی کرنے کے سوا کسی دوسرے کام کی کوئی اہمیت نہیں ۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ۵ فروری ۱۹۳۲ کے دن اوڑی کی جامعہ مسجد میں جمعتہ الودعی ٰ کی نماز کے بعد مسلمانوں نے ڈوگرہ ظلم و ستم کے خلاف جلوس نکالا جس پرڈوگرہ فوج فائرنگ شروع کر دی ۔ فائرنگ کے نتیجے میں ۹ مسلمان شہید اور چالیس سے زیادہ زخمی ہوئے ۔ ۱۳ جولائی ۱۹۳۱ کو سری نگر جیل میں فائرنگ کا واقع ہوا جس میں ستر مسلمان شہید اور ڈیڑھ سو سے زیادہ زخمی ہوئے ۔ جامعہ مساجد کی بندش اور جموں میں تو توہین قرآن کے نتیجے میں جو واقعات نمو دار ہوئے اور جس تسلسل سے اہل کشمیر نے قربانیاں پیش کرنی شروع کر دیں ان کی وجہ سے مہاراجہ کی نیندیں اڑنا شروع ہو گئیں ۔
سری نگر جیل کے واقع کے بعد مسٹر ویکفیلڈ کی وزارت ختم کر دی گئ اور راجہ ہری کشن کول کو ریاست کا وزیر اعظم مقرر کیا گیا ۔ ہری کشن نے مہاراجہ کو یقین دلایا کہ وہ چار ماہ کے اندر مسلمانوں کی تحریک کو کچل دے گا۔ بیان کردہ واقعات کو کسی حد تک ٹھنڈا کرنے کے لیے ۳ نومبر ۱۹۳۱ کو حکومت نے گلانسی کمیشن قائم کیا تا کہ تحریک کو جھانسہ دیکر اس کا رخ تبدیل کیا جائے۔ اسی دوران وزیر اعظم کول کے ایجنٹ جیون لال منٹو نے میر پور اور راجوری میں عدم ادائیگی مالیہ کی تحریک چلوائی ۔ مسلمانوں کے تیور دیکھتے ہوئے مہاراجہ نے برٹش انڈین حکومت سے مدد مانگی تو پہلی بار دو آئیرش انفنٹری بٹالین اور ایک ہارس کیولری رجمنٹ نے میر پور اور راجوری کے کسانوں کے خلاف ایکشن کیا ۔ اس قتل عام میں ایک ہزار مسلمان میر پور میں اور چار سو راجوری میں شہید ہوئے ۔ زخمیوں کی تعداد بھی ہزاروں میں تھی جنہیں کسی گنتی میں نہ لایا گیا حیرت کی بات ہے کہ میر پور کے کسی شخص کو اس حادثے کا علم نہیں ورنہ یہ لوگ شہدائے میر پور کو یاد کرتے ۔ بے نظیر بھٹو میڈیکل کالج اور آصفہ بھٹو پارک بنانے والے سیاستدان قابل داد ہیں جنہیں اپنے شہیدوں کی قربانیاں پلاٹوں اور وزارتوں کے صلے اور بھٹو ازم کے نشے میں بھول گئیں ۔ میر پور والوں کو یہ بھی پتہ نہیں ہو گا کہ میر پور کی فریدہ بیدی کون تھی جو شیخ عبداللہ کی دست راست اور نیشنل کانفرنس کی اہم رکن تھیں ۔ میر پور کے سانحے کے فورا بعد شیخ عبداللہ نے بذریعہ ٹیلیگرام جو اس وقت سرینگر جیل میں تھے حکومت کو پیغام بھیجوایا کہ سرینگر میں امن ہے اور ہمارا میر پور اور راجوری کے واقعات سے کوئی تعلق نہیں ۔ شیخ عبداللہ کے اس بیان کے فورا َ بعد انہیں جیل سے رہا کر دیا گیا جبکہ میر پور ، جموں اور راجوری کے مسلمانوں کی مصیبتوں میں اضافہ ہو گیا۔ ۵ فروری سے پہلے اور بعد میں ہونے والے حادثات کی طویل اور درد ناک فہرست ہے جس میں سانحہ جموں اور ۲۰۱۹ کے بعد ہونے والے مظالم کو شامل کیا جائے تو تحریک آزادی کے تسلسل اور اس کی راہ میں حائل ہونے والی مشکلات میں غیر وں کی نہیں بلکہ اپنوں کی بے حسی اور غیرت ایمانی کا فقدان نمایاں ہے ۔ آ ج ٓزادی کا بیس کیمپ آزادی کا بزنس کیمپ بن چکا ہے اور وزارت کشمیر اور کشمیر کمیٹی کا کام اس کیمپ کے بیوپاریو ں کی سہولت کاری سےزیادہ کچھ بھی نہیں ۔ ۵ فروری ۲۰۲۳ کا دن بھی ایسے ہی منایا جائے گا ۔ پرانے پیغامات نئے بروکر پڑھ کر سنائیں گے اور پرانے کالم اور مضامین نئی تصویروں کے ساتھ شائع ہونگے ۔کشمیر پانچ صدیوں سے سلگ رہا ہے اور پتہ نہیں کب تک سلگتا رہے گا ۔
آزادی کے نام پر پلاٹوں ، وزارتوں اور نوکریوں اور برادریوں کی سیاست چلتی رہے گی اور بے حسی اور بے ضمیری کی تجارت پروان چڑھتی رہے گی ۔ جناب جی ۔ ایم ۔ سید مرحوم نے سچ کہا تھا کہ کیلنڈر کا ہر دن یوم شہدائے کشمیر ہے اور کشمیریوں پر جتنی مصیبتیں نازل ہوئیں اس کے ذمہ دار خود کشمیری ہیں ۔ کشمیری کب خود فریبی کے دلدل سے نکلتے ہیں فی الحال اس کے بھی کوئی آثار نہیں ۔ موجودہ نسل مریم نواز اور بلاول بھٹو کے سحر میں مبتلا ہے جو جلد ٹوٹنے والا نہیں ۔ برادری ازم کی زنجیریں توڑنا بھی آسان نہیں چونکہ آزاد کشمیر کا سیاسی نظام ان ہی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے ۔ یوم یک جہتی کشمیر کو محض ایک تقریب تک محدود رکھنا اسلیے بھی ضروری ہے کیونکہ اس کی روح بھٹو ازم اور شریف ازم کی نفی کرتی ہے ۔ ۵ فروری سے پہلے اور بعد کے واقعات ہی عوام الناس میں شعور اور بیداری کا موجب بن سکتے ہیں مگر بد قسمتی سے ہمارے اہل علم نے کبھی بھی ان واقعات کا ذکر نہیں کیا اور نہ ہی آئیندہ کرینگے ۔