اشراف کی پہچان

علمائے حق کا بیان ہے کہ سورۃ عصر قرآنِ کریم کا خلاصہ ہے جو کارخانہ قدرت چلانے والی قوت کے احاطہ قدرت کی تشریح سے مزین ہے۔ عصر یعنی زمانہ جس کی ابتداٗ و انتہا کا تصور مخلوق کے ذہنی ، فکری اور علمی دسترس سے باہر ہے کی خود خالق کائینات نے قسم کھائی اور فرمایا کہ زمانے کی قسم یقینا انسان خسارے میں ہے ۔ تخلیق کائینات کے ابتدائی دور سے لیکر تخلیقِ آدم تک کتنا وقت گزرا اور تکمیل کائینات میں کون کون سے مراحل آئے اور ان مراحل کی درستگی اور حتمی شکل دینے میں کیا تبدیلیاں آئیں ، کوئی انسان یا اُس کی ایجادات اِس کا تصور ہی نہیں کرسکتی۔ فزکس یا طبیعات کے معلم اور ماہر اِس بات کو تسلیم کرتے ہیں کی طبیعات کا علم ایک حد تک کائینات کے رازوں کی پہچان کر سکتا ہے اور اِس علم کی روشنی میں انسان ایجادات کے ذریعے فوائد بھی حاصل کر سکتا ہے مگر اِس سے آگے اُسے دیکھنے یا تخلیق کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ چاند، مریخ اور دوسرے سیاروں کے متعلق معلومات بھی حتمی نہیں کہ وہ سیارے جن کی تسخیر کا دعویٰ کیا جا رہا ہے کیا وہ واقعی حقیقت پر مبنی ہے یا پھر کسی اور سیارے جو بیان کردہ سیاروں سے مشابہہ ہو کو چاند ، مریخ یا کسی اور سیارے کے متعلق محض مفروضات کی بنیاد پر سائنسدان خود فریبی کا شکار ہوں ۔ فرض کریں اگر تسخیر کا یہ عمل درست بھی ہو تو اس سے بنی نوع انسان کو کیا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔ جو لوگ چاند پر چہل قدمی کے دعویدار ہیں وہ اِس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ وہاں زندگی قائم رکھنے کیلئے آکسیجن ہی نہیں اور نہ ہی کشش ِ ثقل ہے۔ اللہ نے اپنی کتاب ھدایت میں انسان کو تسخیر کائینات کی دعوت دی ہے جسکا مقصد الہی حکم اور حکمت کو سمجھ کر ایک پاکیزہ ، حکمبردار ، پر امن اور با اخلاق زندگی کا حصول ہے۔ مگر انسان نے سائنسی علوم سے جو ایجادات کیں اُس میں نہ پاکیزگی ہے، نہ امن ،اخوت و محبت اور ہمدردی ہے اور نہ ہی اخلاق، اخلاص اور احسان ہے۔ کوئی بھی انسان چاہے وہ عالم ، محقق اور حکیم ہو یا پھر جاھل ، آجڑ اور گنوار ہو انسانیت کے معیار سے گِر کر حیوانوں سے بھی بد تر مخلوق کے زمرے میں آتا ہے ۔ حضرت عائشہؓ سے مروی حدیث پاک ہے کہ اگر قرآن کریم انسانی شکل میں نازل ہوتا تو وہ سرور کائینات کی صورت میں ہوتا۔ فرمایا ـــآپ معلم اخلاق ہیں جو رحمت العالمٰین کی خصوصی صفت ہے۔
دورِ جدید کا کوئی بھی علم ہو اُس میں اخلاق ، اخلاص اور احسان کی کوئی جُز شامل نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جدید سائنسی اور عمرانی علوم انسانوں کے درمیان نفرت ، حقارت ، عدم تعاون اور عدم ِ استحکام کا باعث ہیں ۔ سائنسی علوم کے ماہرین تسخیری کامیابیوں کو سائنسی اجارہ داری ، نسل انسانی کی تذلیل اور غلامی کی جدید زنجیر کے طور پر استعمال کر رہے ہیں اور عمرانی علوم کے ماہرین ایک طرف سائنسی ، استدراجی ، سفلی اور ناسوتی علوم کے پرچارک اور دوسری جانب من گھڑت تشریحات ، تاویلات اور اخلاق و اخلاص اور احسان سے مبرا سیاسی فکر و فلسفے کے پھیلاوٗ پر کام کر رہے ہیں ۔روز مرہ زندگی کی عام ضرورتوں سے لیکر مصنوعی ذھانت تک کوئی شعبہ زندگی ایسا نہیں جو الہی احکامات اور خالق کے تعین کردہ اصولوں سے بغاوت کے زمرے میں نہ آتا ہو۔ دُنیا کی ایک بڑی آبادی جو جدید سائنسی ، عمرانی ، استدراجی اور سفلی علوم پر دسترس نہیں رکھتی اور اللہ کے عطا کردہ علوم کو فلاح انسانیت کے استعمال سے بہرہ ور نہیں ہو سکی اسے تقدیر سے منسوب کرتی ہے کہ اللہ نے اُن کے مقدر میں غلامی ، غربت ، تنگ دستی، جہالت ، پستی اور رسوائی لکھ دی ہے۔ حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ۔ تسخیر کائینات کی دعوت کسی خاص ملک ، قوم ، قبیلے ، گروہ یا خطے میں بسنے والے لوگوں کیلئے نہیں بلکہ یہ ہر فرد کیلئے ہے جسکا تعلق نسل انسانی سے ہے ۔فرمایا کائینات میں کوئی ایسی چیز چھوٹی یا بڑی ایسی نہیں جو لوح محفوظ پر لکھی نہ ہو۔ لوح محفوظ کیا ہے اس کا بیان کتاب حکمت ، قرآن کریم میں واضع دلیلوں کے ساتھ وضع کیا گیا مگر انسانو ں کی کثیر جماعت اِن دلیلوں کو سمجھنے سے قاصر ہے۔
جدید علوم کے ماہرین نے اختراعی تہذیبی ادوار سے وقت اور زمانے کا تعین کیا جو کائیناتی الہی پیمانوں سے مطابقت نہیں رکھتا اور نہ ہی مبنی بر حقیقت ہے۔ ثمری، حجری، شجری ، اموی اور پدری ادوار کی اصطلاحات کی تُک بازی کے بعد ایک بار پھر پتھر، دہات اور لوہے کے زمانے پر تحقیقی کام ہوا مگر کسی بھی دور کی کڑیاں آپس میں نہ ملیں تو قرآن کریم سے اخذ کردہ علوم پر خاموشی سے تحقیقی عمل تو شروع ہوا مگر پھر بھی اللہ کی حاکمیت اور کارخانہ قدرت کو تسلیم نہ کیا گیا۔ایک طرف مسلمان علماٗ و حکماٗ نے قرآن کریم سے اخذ کردہ سائینسی اور عمرانی علوم کا خزانہ بِلا تفریق مذھب و ملت ساری مخلوق انسانی کیلئے وقف کر دیا تو دوسری جانب مغربی اقوام نے اِن علوم کی برکات و فیوض سے نہ صرف دیگر دُنیا کو محروم کیا بلکہ اُنھیں جدید سیاسی، سماجی ، علمی اور سائینسی حربوں اور چالوں کے شکنجوں میں جھکڑ کر غلامی ، تنگدستی ، مفلسی اور جہالت کے اندھیروں میں دھکیل دیا ۔بظاہر جو اقوام دورِ جدید کی تہذیب یافتہ اور علم کے اعلٰی مدارج پر فائیز ہونے کی دعویدار ہیں حقیقت میں اُن میں تہذیب ، انسانیت اور علم کی حقیقی روشنی کا کوئی عنصر نہیں۔ یہ کہنا کسی طور غلط نہ ہوگا کہ جدید تہذیب درندگی اور تعلیم استحصالی بنیادوں پر استوار ہے جس کی مثالیں خود خالق کائینات نے کتاب حکمت قرآن کریم میں پیش کی ہیں۔ قرآن کریم میں قوم عاد ، ثمود ، تبہ ، ایکہ اور دیگر کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ اقوام تم سے زیادہ قوی ، عقلمند اور علم رکھنے والی تو تھیں مگر ظالم اور منکر تھیں ۔دورِ جدید کی تہذیب یافتہ اور جدید سائینسی علوم سے آراستہ استحصالی اقوام کی طرح اُن میں بھی غرور و تکبر ، رعونت اور انسان دشمنی کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ اُس دور کی کمزور اور غلام اقوام اُن کا مقابلہ کرنے کی سکت نہ رکھتیں تھیں مگر خالق کو مخلوق پر مخلوق کا جبر ایک حد سے آگے کبھی قابل قبول نہیں رہا ۔ کائیناتی تاریخ کے اوراق پر لکھا ہے کہ کس طرح خالق نے مظلوم اور محکوم اقوام سے ہی کسی میں ہمت و جراٗت پیدا کر دی یا پھر خُدائی لشکروں نے اِن منکر اور ظالم اقوام کو چند لمحوں میں قصہ ماضی بنا دیا ۔
عصر یعنی زمانے کا تعین تخلیق آدم یا مختلف تہذیبی ادوار کے تخیلاتی پیمانوں سے نہیں ہو سکتا۔ فرمان ربی ّ ہے کہ تمہارے ربّ نے چھ دن میں زمین اور آسمان بنائے اور ساتویں دن وہ عرش پر قائم ہوا۔ پھر فرمایا کہ اِس سے پہلے تمہارے ربّ کا تخت پانی پر تھا۔ پانی کب تخلیق ہوا یقیناً اسکا زمانہ لوح محفوظ پر تو لکھا ہے مگر انسان فزکس ، کیمسٹری یا فلسفے کی بنیاد پر نہ تو اسکا تعین کر سکتا ہے اور نہ ہی مادی ظاہری علوم میں اسے کھوجنے کی قدرت ہے۔ فرمایا اے نبیؐ یہ لوگ آپ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں ۔ اِنھیں کہہ دو کہ روح اَمر ربی ّ ہے اور تمہارا علم قلیل یعنی انتہائی کم اور محدود ہے ۔ لہذا اِس بحث میں نہ الجھو جو تمہاری عقلی اور علمی قوت سے باہر ہے۔اللہ نے پانی کو اپنی عظیم نعمتوں میں شمار کرتے ہوئے اسے پیدائش کا ذریعہ بھی بنایا۔ زمینی پیدائیش و پیداوار میں جن عناصر کا ذکر ہے اُس کی بنیاد پانی ہے۔ پانی کی پیدائش سے پہلے بھی عصر یعنی زمانہ قبل از تخلیق ہے جسکا اظہار ‘‘یا حیی یاقیوم ’’ کے سوا ہو ہی نہیں سکتا۔فرمایا تین دن میں زمین بچھائی ، چوتھے دِن اِس میں نعمتیں رکھیں ۔ دو دِن میں آسمان بنائے جن کی تعداد اوپر نیچے سات بیان ہوئی اور اُن میں برکتیں رکھیں ۔ قرآن کریم کی سورۃ الحجر میں فرمایا کہ اور زمین کو ہم نے پھیلایا اور رکھ دیے اُسپر بوجھ اور اُگائی اُس میں ہر چیز اندازے سے اور بنا دیے اُس میں تمہارے لیے معیشت کے اسباب اور وہ چیزیں جن کو تم روزی نہیں دیتے۔ وہ چیزیں جنھیں انسان روزی نہیں دیتے مگر وہ سب انسانوں کیلئے کارآمد اور انسانی رزق کا وسیلہ ہیں ۔ علماٗ و مفسرین نے اپنی علمی استطاعت کے مطابق اِن چیزوں میں جو چرند، پرند، آبی اور زمینی پیدائش و پیداوار کا ذکر کیا ہے جو انسان اپنے علم سے نہیں بلکہ خود خالق کے حکم سے پیدا ہوتی ہیں ۔ زمین پر بہت سی جڑی بوٹیاں ، سبزیاں جیسے مشروم اور دیگر نعمتیں خود ہی پیدا ہوتی ہیں جن کے بیج خالق خود ہی بوتا ہے اور وہ مخصوص مٹی اور زمین میں بارشوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں ۔ ان نعمتوں میں انسانوں کیلئے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں فائدے ہیں ۔ سمندری اور دریائی مخلوق میں مچھلیاں اور دیگر آبی پیدائش ہے جنھیں انسان روزی نہیں دیتا اور نہ ہی دے سکتا ہے۔ اگر زمین پر پیدا ہونے والا سارا غلہ پھل اور گوشت مچھلیوں اور پرندوں کو ڈال دیا جائے یا کیڑے مکوڑوں کیلئے وقف کر دیا جائے تب بھی انسان اُن کو خوراک مہیا کرنے سے قاصر رہے گا۔
دورِ حاضر کے جدید اور ترقی یافتہ انسان کے نا شکرے پن کی یہ حالت ہے کہ وہ غلہ جلا دیتا ہے ، کم پیدا کرتا ہے یا پھر سمندر میں پھینک دیتا ہے مگر زمین پر بسنے والے دیگر انسانوں میں تقسیم نہیں کرتا ۔اللہ انسان کو پیدا کرتا ہے اور اُس کی پرورش کرتا ہے اور انسان شیطان کے بہکاوے میں آکر جدید اور مہلک ہتھیاروں سے مذھب و ملت ، علاقائیت اور رنگ و نسل کی بنیادوں پر اُن کا قتلِ عام کرتا ہے۔سورۃ الحجر کے بعد سورۃ النحل میں ربّ تعالیٰ نے معیشت کے سارے اسباب بیان کیے مگر بد قسمتی سے پاکستان جیسا ملک معیشت کے سارے اسباب سے مالا مال ہونے کے بوجود ایسی نہج پر پہنچ چکا ہے جہاں اسکا وجود ہی خطرے میں ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ عصر یعنی زمانے کی رفتار اور معیشت کے الہی اصولوں سے انحراف ہے۔ زمانے میں دُنیا کے ایک حصے پر مقیم افراد ایک قوم ، ملت یا اُمت کے زمرے میں آتے ہیں اور زمین کے اس ٹکڑے کو ریاست کہا جاتا ہے ۔ ریاست کا نظام حکومت چلاتی ہے اور ریاست کے نظام کو چلانے والی مشینری مختلف حصوں یعنی اداروں پر مشتمل ہوتی ہے ۔ ابنِ خلدون نے انسانی جسم کی مثال دیتے ہوئے لکھا کہ جیسے انسان کے سر میں دماغ حاکم ہے مگر دِل ، جگر ، گردوں اور دیگر جسمانی عضاء و قواء کے بغیر جسمانی مشینری متحرک ، فعال اور صحت مند نہیں ہو سکتی ۔ مفسرین کے مطابق دُنیا کا ہر نظام جو الہی کائیناتی نظام سے مشابہت نہ رکھتا ہو تو وہ ادھورہ اور فرسودہ ہو کر فناہ ہو جاتا ہے ۔ جسطرح جسم کو متحرک رکھنے والی قوت روح ہے اسی طرح ریاستی مشینری کی قوت سیاست ہے ۔ اگر سیاست عقلیت، علمیت، فضیلت اور عصبیت سے خالی ہو تو گوبر کی تجارت بن جاتی ہے۔امام غزالیؒ لکھتے ہیں کہ دُنیا میں انسان کو دو چیزوں کی حاجت ہوتی ہے ۔ روح کی پاکیزگی اور دِل کی شفاٗ یابی کیلئے عبادت یعنی اللہ اور اُس کے رسول ؐ کی پورے خلوص کے ساتھ پیروی ۔ سورۃ عصر میں اللہ نے زمانے کی قسم کھانے کے بعد فرمایا کہ یقیناً انسان خسارے میں ہے ۔ زمانہ قبل از تخلیقِ کائینات اور زمانہ بعد از تخلیقِ آدم اور پھر زمانہ قیامت جسکا ایک دن پچاس ہزار سالوں پر محیط ہو گا اور پھر زمانہ بعد از قیامت جو ہمیشہ رہیگا دراصل انسان کے علم و عمل سے مربوط ہے۔
پہلی حاجت روح کی پاکیزگی اور دِل کی صحت و شفا یابی ہے ورنہ انسان اطاعت اللہ و اطاعت رسولؐ سے منکر ہوکر ھلاکیت کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ اُسکا ظاہری علم و عمل ، تدبر و سیاست شیطانی حکم کے تابع خالق کی نافرمانی اور مخلوق کی غلامی اور ابتری کا باعث بن جاتا ہے۔
انسان کی دوسری حاجت جسم کی حفاظت ، قوت اور صحت سے مربوط ہے جو تین چیزوں سے عبارت ہے ۔ زمین انسان کا مسکن ہے اور اللہ نے ابتدائے پیدائش میں تین دن میں زمین بچھانے ، اسپر بوجھ رکھنے اور پھر چوتھے دِن اُس میں نعمتیں پوشیدہ یا محفوظ رکھنے کا ذکر کیا ہے۔ یہ نعمتیں نباتات ، معدنیات اور حیوانات ہیں جنکا ذکر قرآن میں کبھی مختصر اور کبھی مفصل بیان ہُوا ہے۔ دُنیا میں جتنے بھی ظاہری علوم ہیں اُن کا تعلق اِن تین چیزوں کی نشوء ارتقاٗ کے لیے مادے کی تین ہیتوں یعنی قوت و گرمی، روشنی اور گونج کی ضرورت ہے جسے طبعیات یا فزکس کا نام دیا گیا ہے۔
ظاہری سائینسی اور دیگر ناسوتی علوم کی ایک حد ہے مگر باطنی علوم اور امور کی کوئی حد نہیں چونکہ اِن کا تعلق عصر یعنی زمانے سے ہے ۔ امام غزالیؒ لکھتے ہیں کہ جب انسان اللہ کی نعمتوں یعنی زمینی پیداوار اور پیدائش کو اپنی ضرورت سے زیادہ جمع کر لیتا ہے تو فالتو اشیاء دوسرے لوگوں ، ملکوں اور قوموں تک پہنچانے اور اُس سے فوائد حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ وہ اپنی محنت کے صلے میں خوشحال، امن اور عدل کے سائے میں زندگی بسر کرسکے۔ خوشحالی ، امن اور عدل کے حصول کیلئے اسے چار صنعتوں کی ضرورت پیش آتی ہے جس میں اوّل سیاست ، دوئم سلطنت یا ریاست سوئم قضا اور حکومت جبکہ چہارم فقہ اور مقتدر اعلیٰ ہے۔ ابنِ خلدون نے بھی امارت، زراعت ، صنعت و حرفت اور تجارت کو ہی ملکی ، قومی اور انفرادی خوشحالی کا باعث بیان کیا ہے ۔ لکھتے ہیں کہ ملکی نظام اور اُس کے اداروں کو چلانے والے افراد سرکاری ملازمین کہلواتے ہیں جن کی اھلیت ، قابلیت ، خود اعتمادی اور ایمانداری جانچ کر اُنھیں مختلف عہدوں اور رتبوں پر فائیز کیا جاتا ہے۔ ضروری ہے کہ مقتدر اعلیٰ کا ذاتی کردار اور افعال اللہ اور اُس کے رسولؐ کے احکامات کے تابع ہوں اور وہ قوانین پر سختی سے عمل کرنیوالا ہو۔
وہ عصر یعنی زمانے میں خسارے سے بچنے کیلئے چار اصولوں پر کاربند ہو۔ اوّل اللہ اور اُس کے رسولؐ کی اطاعت۔ وہ ھدایت اور وعدوں پر عمل کرے چاہے وہ دُنیا کے متعلق ہوں یا آخرت کے زمرے میں آتے ہوں ۔ وہ دھوکہ دہی، بے اصولی اور وعدہ خلافی کا ہرگز مرتکب نہ ہو ۔ اسلامی ریاست میں خلفائے راشدین کے بعد اِس کی بہترین مثال حضرت عمر بن عبدالعزیز کے مختصر دورِ حکومت کی ہے ۔ دوئم اُسکا ظاہری اور باطنی یقین پختہ ہو ۔ سوئم وہ ذاتی اصلاح کے ساتھ انفرادی، ملی اور قومی اصلاح و فلاح کا راستہ اختیار کرنیوالا ہو۔ چہارم وہ نصیحت اور وصیت کا سلسلہ مسلسل جاری رکھے تا کہ معاشرے اور ریاست میں بد عنوانی ، کرپشن ، قانون سے انحراف اور عدل و انصاف میں کوئی رخنہ پیش نہ آئے۔ ابنِ خلدون ، امام غزالی اور دیگر مسلمان حکماٗ و فلاسفہ کی عمرانی تعلیمات کی بنیاد سورۃ عصر اور اس سے متعلقہ قرآن پاک میں بیان کردہ ھدایات اور اصولوں پر مبنی ہے ۔
ریاست اور اُس کی مشینری یعنی ادارے چلانے والی اشرافیہ اگر سورۃ عصر میں خسارے کے بچنے والے چار اصولوں پر گامزن نہ ہوگی تو ریاست کا نظام اور وجود دونوں خطرے میں پڑ سکتے ہیں ۔
بد قسمتی سے ملک پاکستان ایک ایسی ریاست میں بدل چکا ہے جہاں ہر طرف خسارے کی گھنٹیاں بج رہی ہیں ۔ نہ کوئی وقت کی قدرو قیمت سمجھنے والا ہے اور نہ اشراف وحکمران اللہ اور اُس کے رسولؐ کی پیروی کرنیوالے ہیں ۔ ھدایات اور وعدوں کو مفادات کے تابع کر دیا گیا ہے۔ عوام الناس غیر محفوظ اور بے یقینی کی کیفیت میں جی رہے ہیں ۔ اصلاح و فلاح اشتہاروں اور ٹیلویژن پر دینی پروگراموں تک محدود ہے جبکہ نصیحت اور وصیت کرپٹ حکمرانوں اور اشراف کی غلامی قبول کرنے یا پھر خاموشی سے ظلم و جبر پر صبر کرنے تک محدود ہے ۔ کسی بھی ملک اور معاشرے میں اشراف کی تعداد عوام کے مقابلے میں انتہائی قلیل ہوتی ہے ۔ اشراف کا تعین عوام کرتے ہیں مگر، اگر عوام سورۃ عصر میں خسارے سے بچنے والے چار اصولوں پر کاربند نہ ہوں تو وہ اشراف کی پہچان سے محروم اور مغلوب زندگی گزارنے کے عادی ہو کر ہمیشہ غلام ، جاھل اور تنگدست رہتے ہیں ۔ ابنِ خلدون نے زمان و مکان کا تصور سورۃ عصر اور قوموں کے زوال کا سبب سورۃ الرعد کے مطالعے سے اخذ کیا۔ لکھتے ہیں کہ جس قوم کو اپنی حالت بدلنے کا احساس نہ ہو وہ چند لوگوں کی اطاعت پر مجبور ہو کر آخر کار فناہ ہو جاتی ہے۔
ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی آمد اور برطانوی نو آبادیاتی نظام کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔ 1757ء کی جنگ پلاسی سے لیکر 1947ء تک انگریزوں نے مختلف طریقوں سے ہندوستان پر حکمرانی کی مگر 36کروڑ کے اس ملک پر حکمرانی کرنے والے انگریزوں کی تعداد ایک لاکھ سے کبھی زیادہ نہ ہوئی۔ بابر بادشاہ نے بارہ ہزار مغلیہ فوج کیساتھ ہندوستان پر فتح کا جھنڈا لہرایا اور تین سو سال تک اُسکا خاندان 36کروڑ کے اس ملک پر حکمران رہا۔
خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو خیال جس کو آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
( اقبالؒ)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے