اشراف کا ضعف

اشراف سے مراد شریف النفس لوگوں کا مجموعہ، خاندان یا قبیلہ تصور کیا جاتا ہے۔ ایسے لوگ جو صاحب علم ہوں ، تدبر و بصیرت سے کام لیتے ہوں ، لین دین میں صاف ستھرے ہوں ، سچ بولنے اور سچ کا پرچار کرنے والے ہوں ، اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا احساس کرنے والے اور مخلوق خُدا سے محبت کرنیوالے ہوں ۔ جناب ولی کاشمیری لکھتے ہیں کہ اگر اشراف کی عادات ، خصلیات ، طور و اطوار ، عمل و کردار کا تجزیہ کیا جائے تو اُسکا جوہر بندہ مومن کی صورت میں نظر آتا ہے۔
سورۃ العصرۃ میں رَب تعالیٰ نے زمانے کی قسم کھائی ہے۔ علمائے حق و اولیائے کاملین نے اپنے ظاہری علم و باطنی مشاہدات کی روشنی میں العصرۃ یعنی زمانے کی تشریح کی ہے۔ عصر سے مراد زمانہ قبل از تخلیق جس کی وسعت کا کوئی پیمانہ مقرر نہیں کیا جا سکتا سے زمانہ تخلیق ملائیکہ یعنی نوری مخلوق اور ازاں بعد زمانہ تخلیق کائینات تا زمانہ فناہ مخلوق تصور کیا جا سکتا ہے۔ سورۃ الدھر کی ابتدائی آیت مبارکہ میں فرمایا کہ زمانے میں ایک ایسا وقت بھی گزرا ہے جب انسان نام کی کوئی چیز کائینات میں موجود نہ تھی ۔ یعنی اُس زمانے میں جو مخلوق نوری یا ناری وجود پذیر ہو چکی تھی اور حمد باری تعالیٰ میں مصروف و مشغول رہتی تھی اُس کی زبان پر انسان نامی کسی چیز کا ذکر نہ تھا۔ فقراٗ کے مطابق یہاں اللہ کے احسان کا اظہار ہوتا ہے جس نے اپنے فضل و کرم سے وجودی لحاظ سے ایک کمتر مخلوق پہلے مٹی سے اور پھر نطفے سے پیدا کی جسکا ذکر سورۃ الدھر کی اگلی آیات میں کیا گیا۔
فرمایا ‘‘ہم نے انسان کو ایک راہ یعنی صراط مستقیم کا راستہ بتلایا تا کہ آزمائش کی جا ئے کہ وہ حق مانتا ہے یا نا شکری کرتا اور راہ حق سے ہٹ کر دُنیا کی لذات میں مشغول ہو کر آخرت کی نعمتوں سے محروم ہو جاتا ہے۔
علمائے حق کے مطابق انسان کا سفر آخرت اُس کی پیدائش کے لمحے سے ہی شروع ہو جاتا ہے اور موت کی صورت میں فناہ کی کیفیت میں چلا جاتا ہے ۔ اس کے بعد وہ اپنے اعمال کے صلے میں واپس اپنے خالق کے سامنے پیش ہو کر جنت یا پھر دوزخ کی صورت میں ایک نئی اور ہمیشہ رہنے والی زندگی میں داخل ہو جاتا ہے ۔ زمانے کا تعین انسانی ذھن یا اُس کی ایجادات سے ممکن نہیں۔
دورِ حاضر میں مصنوعی ذہانت کا چرچا ہے اور انسان عقیدے کی حد تک اِن سائینسی ایجادات کو تسلیم کرنے پر مجبورہے ۔ اگر کوئی شخص سائینسی ایجادات کی اِن کرشمہ سازیوں کو سائینسی شعبدہ بازی سے تشبہیہ دے تو یقیناً مادی علوم کے ماہرین اور سائینسدان ہی نہیں بلکہ معمولی سائینسی علوم کے طالب علم بھی ایسے شخص کا تمسخر اُڑائینگے چونکہ ٹویٹر، فیس بُک اور گوگل جیسی ایجادات سے لاکھوں لوگوں کا رزق منسلک ہے۔ دُنیا کا سارا نظام کمپیوٹر کی دسترس میں چلا گیا ہے۔ دُنیا میں بسنے والا ہر شخص کسی نہ کسی صورت میں کمپیوٹر سے مستفیض ہو رہا ہے حتٰی کے دینی معاملات کو بھی کمپیوٹر سے منسلک کر دیا گیا ہے۔ ڈیجیٹل قرآن ، ڈیجیٹل تشریحات اور ڈیجیٹل دینی مسائل اور مباحث ۔ دُنیا بھر کے مذہبی علماٗ حتٰی کہ آستانوں پر بیٹھے گدی نشین اور خود ساختہ فقراٗ سوشل میڈیا کے ذریعے دن رات اپنے مسالک کی تبلیغ و تشریحات میں مصروف عمل ہیں اور کروڑوں ڈالر کما رہے ہیں ۔ پیروں، فقیروں اور مولیوں سے لیکر صحافیوں اور عام لوگوں نے بھی یو ٹیوب چینل کھول رکھے ہیں اور اپنی اپنی ذھانت کا مظاہرہ کرنے میں مصروف ہیں۔ بلاگرز کی اپنی دُنیا ہے اور لاکھوں لوگ اُن کے منفی پراپیگنڈے، علمی کھوج اور خود ساختہ تشریحات کے قائل ہیں ۔ جتنے لوگ اُن کو دیکھتے ، سنتے اور اُن کے جال میں پھنستے ہیں اسی قدر اِن بلاگرز کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے۔ ٹک ٹاکرز کی الگ دُھوم ہے ۔
میرا جسم میری مرضی سے لیکر میری زبان میرا کلام اور میرا تن میرا من ، ہر چیز کی آزادی ہے ۔ جوں جوں کمپیوٹر کا دائرہ وسیع ہورہا ہے اخلاقیات کا خاتمہ اور اقدار کی نفی ہو رہی ہے ۔ انسانی سوچ و فکر تغیر کا شکار ہے اور ہر شخص کسی نہ کسی مرض میں مبتلا ہے ۔ ٹینشن (ذہنی اور جسمانی تناوٗ) ، ڈیپریشن (نا اُمیدی) حسرت و یاس، انزائیٹی ، انجانہ خوف ، خواہشات کے حصول میں ناکامی، رشک و حسد ، نفسیاتی و جنسیاتی مسائل، ماضی کی مسلسل ناکامیاں ، ادھورا پن، مستقبل کے انجام کا خوف ، معاشرے میں کمتر مقام ، دوستوں اور رشتہ داروں کے معیارِ زندگی سے تقابل، خود اعتمادی کا فقدان ، ناقابلِ بھروسہ دوست، رشتہ دار، بیوی، خادند ، بچے ، حلقہ احباب ، معاشی مسائل سے لیکر ان گنت ذہنی مسائل نے انسان کو گرفت میں لے رکھا ہے۔ ٹینشن ، ڈیپریشن اور انزائیٹی اگرچہ الگ الگ نام ہیں مگر اثرات ایک جیسے ہیں ۔ ماہرین نفسیات و ادویات کے پاس اس بیماری کا کوئی علاج نہیں چونکہ بیماری کی کئی وجوہات مریض معالج کے سامنے بیان ہی نہیں کر سکتا ۔ اگر کر بھی دے تو معالج کے پاس کوئی ایسا نسخہ ہی نہیں جو اِس بیماری کا تدارک کر سکے۔ معالج صرف خواب آور ادویات کیساتھ آرام اور خوش رہنے کی تلقین ہی کر سکتا ہے یا پھر اِس بیماری کے اثرات سے لاحق جسمانی بیماریوں کا علاج کرتا ہے مگر اصل بیماری اپنی جگہ قائم رہتی ہے۔
بعض لوگ ایسی بیماریوں سے راہ فرار اختیار کرتے ہیں مگر ناکامی و نا مرادی کے سوا اُنھیں کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ نشہ آور اشیاٗ کا استعمال، جنسی بے راہ روی اور غیر اخلاقی افعال میں ملوث افراد عالمی معاشرتی ماحول پر اثر انداز ہو رہے ہیں جسکا تدارک فی الحال ممکن نہیں ۔ مغربی مفکرین خود اِن قبیح افعال کے معلم ہیں جبکہ مثبت سوچ و فکر انتہائی محدود ہے۔ ہم جنس پرستی اور دیگر اخلاقی برائیوں کو مغرب اور امریکہ میں قانونی تحفظ حاصل ہے۔ مسلم کہلوانے والے ممالک میں فی الحال ایسا کوئی قانون تو وضع نہیں ہُوا مگر عملاً ہر قباحت کو اپنانا مراعات یافتہ طبقے کے جدید معیارِ زندگی میں شامل ہے۔ پاکستان میں پرائیویٹ ٹیلیوژن چینلوں پر ایسے ڈرامے ایک خاص مقصد تے تحت دکھلائے جارہے ہیں جنکا ھدف عام لوگ ہیں ۔
ان ڈراموں میں جنسی بے راہ روی ، دولت ، شہرت ، شہوت اور سیاسی قوت کا پرچار، قانون کی بے حسی اور عدل و انصاف کے فقدان کا اظہار کیا جاتا ہے۔
سورۃ الاعراف آیت 25میں فرمایا ‘‘ اے اولاد آدم ہم نے اتاری تم پر بوشاک جو ڈھانکے تمہاری شرمگاہیں اور اُتارے آرائش کے کپڑے اور لباس پرہیز گاری کا جو سب سے بہتر ہے۔ یہ نشانیاں ہیں اللہ کی قدرت کی تاکہ لوگ غور کریں ۔ اے اولادِ آدم نہ بہکائے تمہیں شیطان جیسا کہ اُس نے نکالا تمہاری ماں اور باپ کو۔ اتروائے اُن کے کپڑے تاکہ دکھلائیں اُن کو اُن کی شرمگاہیں ۔
قرآنِ پاک کے اِس بیان کی مخاطب ساری نسل انسانی ہے جو موجودہ دور میں جدید ٹیکنالوجی کے اثرات سے اخلاقی، جسمانی ، روحانی اور معاشرتی لحاظ سے برہنہ ہو چُکی ہے۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے کہ کائینات کا اصل موجد اللہ خالق و مالک ہے جبکہ اللہ انسان کو ایک وقت تک ڈھیل دے رکھی ہے کہ وہ اپنے علم و عقل سے کس راہ کا تعین کرتا ہے۔ راہ راست سے بھٹکے ہوئے اور اپنے علم سے انسانیت کی تذلیل کرنے والوں کے متعلق سورۃ انعام آیت 70میں فرمایا کہ اُن کی مثال اُس شخص جیسی ہے جو جنگل میں شیطان کے بہکاوے میں آکر بھٹک گیا۔ اُس کے ساتھی اُسے سیدھے راستے پر آنے کے لیے آواز دے رہے ہیں مگر اُسے کوئی سمجھ نہیں آ رہی ۔
علمائے حق کے مطابق ہر علم کے مثبت و منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جو خیر و شر کی صورت میں فرد اور معاشرے کے کردار و عمل کو متاثر کرنے کا باعث بنتے ہیں ۔ جدید ٹیکنالوجی میں مصنوعی ذہانت سر فہرست ہے جس نے فرد اور معاشرے کا روحانی اور اخلاقی معیار نہ صرف محدود بلکہ خاتمے کے قریب کر دیا ہے۔ آج کا انسان خالق کے وجود سے کٹ کر ٹیکنالوجی کے رحم و کرم پر ہے۔ وہ اقوام جو ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کی منازل طے کر رہی ہیں دیگر اقوام پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں ۔ گلوبل ویلج کے نظریے کو ٹیکنالوجی کی مدد سے ہی پروان چڑھایا گیا اور آج دُنیا کی نصف سے زیادہ آبادی ٹیکنالوجی کی قوت سے گلوبل ویلج میں شامل ہو چُکی ہے ، جان ڈیوی اور دیگر مغربی مفکرین کے مطابق گلوبل ویلج کے نظریے کی عملی صورت دُنیا پر ایک ہی مذہب اور عقیدے کو رائج کرنے اور بِن باپ کے بچوں کی تعداد میں اضافے سے ہی ممکن ہو سکتی ہے۔
تہذیبوں کے تصادم کے مصنف نے بھی اِس نظریے کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ مغربی مفکرین کی مشترکہ رائے کے مطابق اسلام اور تاوٗ ازم جدید نظریات اور ٹیکنالوجی کے پھیلاوٗ اور حتمی نتائج کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ۔
چین کی دور اندیش اور مستقبل بین قیادت کو جلد ہی احساس ہو گیا تھا کہ مغرب ، امریکہ اور اُن کی حامی اقوام نو آبادیاتی نظام کے تجربے کو نئی شکل دیتے ہوئے ٹیکنالوجی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے اور ساری دُنیا پر اپنا معاشی اور معاشرتی نظام مسلط کرنے کی منصوبہ بندی کر چُکی ہیں ۔ ہنری کسنجر نے اپنی مشہور عام تحریروں ‘‘ورلڈ آرڈر’’ اور ‘‘ہنری کسنجر آن چائینہ’’ میں اسی بات کا اعادہ کیا ہے۔ اسلامی نظریے کے تناظر میں کسنجر نے ‘‘اسلامک ورلڈ آرڈر ’’ کے ابتدائی دور سے لیکر عرب بہار اور اُس کے بعد کے حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا کہ فرقہ واریت ، بادشاہی نظام حکمرانی، مسلم فرقوں اور حکومتوں کے باہمی جھگڑے ، رنجشیں ، نفرتیں اور نظریہ جہاد کی مختلف انداز میں تشریحات جزیرہ نما عرب میں کسی مضبوط اور مستحکم قوت کی راہ میں مستقل رکاوٹیں ہیں ۔ جب تک یہ الجھاوٗ کسی نتیجے پر پہنچتا پیغمبروں ، انقلابوں اور نظریات کی یہ سر زمین عالمی سطح پر تیزی سے رائج ہونے والے ورلڈ آرڈر ، یعنی جدید نظریات اور ٹیکنالوجی کی قوت سے مسلط کردہ رجحانات کا حصہ بن چُکی ہو گی ۔
ہنری کسنجر نے ابتدائی اسلامی دور پر طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے خلافت عثمانیہ کے عروج و زوال پر توجہ مرکوز کی چونکہ خلافت عثمانیہ کے زوال نے ہی پیغمبروں کی سر زمین پر مغربی اور امریکی تسلط کی راہیں ہموار کیں ۔
ہنری کسنجر نے نو آبادیاتی نظام اور اِس نظام کے تسلط اور عالمی سازشوں کا ذکر نہیں کیا۔ اِسی طرح اسرائیل کے قیام اور جزیرہ نما عرب میں اشراف کے ضعف اور اہلِ مغرب کی مسلط کردہ اشرافیہ کو بھی قابل توجہ نہیں سمجھا۔ کسنجر نے روس کے بعد امریکہ ایران تعلقات ، قدامت پسندی ، روایات اور تاریخ کے تسلسل پر بحث کرتے ہوئے ایرانی تاریخ و ثقافت کی اہمیت پر خاص توجہ دیتے ہوئے لکھا کہ تاریخ سے جڑی اقوام زوال پذیر ہونے کے بعد از سرِ نو تعمیر و ترقی کے سفر پر چل نکلتی ہیں ۔ مسئلہ فلسطین اور جزیرہ نما عرب میں امن کے قیام کو بھی زیر بحث لایا مگر کسی ٹھوس لائحہ عمل اور قیام امن کا کوئی حل تجویز نہ کیا ۔ ظاہر ہے کہ اہلِ مغرب اور امریکہ کیلئے عربوں کی زبوں حالی اور باہمی انتشار و خلفشار ہی جدید عالمی نظام کے مکمل غلبے و تسلط کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔
دورِ نبوی ؐ کے بعد عرب اسلام کے مشعل بردار بنے تو دین اسلام کی روشنی نے قدیم چینی ، ہندی ، ایرانی ، مصری، یونانی اور رومن تہذیبوں کے آثار مٹانے کے بجائے اُنھیں علم و حکمت ، امن و مساوات کی قوت سے نہ صرف زندہ رکھا بلکہ اُنھیں بھی اپنی تحقیق و عمل کا حصہ تسلیم کر لیا۔ عرب مفکرین نے قدیم تہذیبی ادوار کو تاریخ کا حصہ قرار دیا اور اُن کے وضع کردہ علوم کی تصحیح کرتے ہوئے فکر انگیز اور قابلِ عمل بنا دیا ۔ خلافت راشدہ سے لیکر سلطنت عثمانیہ کے عروج تک نظریہ اسلام ہی دُنیا کے پیشتر حصے پر امن ، خوشحالی ، اخوت و مساوات کی روشنی پھیلاتا رہا ۔ مغربی محققین ، سائنسدان اور مفکرین بھی اسلام کے نظام حکمرانی اور علمی تحقیقات کے معترف ہیں ۔
وہ اِس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہم نے اسلام کو تو یورپ سے نکال دیا مگر اسلامی نظام، نظریے اور قرآن کریم سے اخذ کردہ علوم کو نہ صرف اپنا لیا بلکہ عرب سائنسدانوں کی تحقیقات کو جدید علوم کی روشنی میں اپنی قوت اوروسعت کا ذریعہ بنا لیا۔
مسلمانوں نے زمانے کیساتھ چلنے اور الہی احکامات کی روشنی میں قرآن سے توجہ ہٹا کر تفرقہ بازی کی راہ اپنائی تو مسلسل خسارے کے اندھیروں میں اُترتے گئے ۔
(جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے