ملکہ سبا کہنے لگی ملنے اور بات کرنے میں کیا حرج ہے۔ جاتی ہُوں اور سنتی ہُوں کہ کیا کہتا ہے ۔ ملکہ کے نام حضرت سلمان کے خط کی ابتداٗ ہی اللہ کے نام سے ہوئی جو ستارہ پرست ملکہ کیلئے اللہ خالق و مالک کا حکم ماننے اور اُس کی رحیمی و کریمی تسلیم کرنے کا پیغام تھا۔ ملکہ کا خط پر غور کرنا، اپنی کابینہ یعنی سرداروں کا اجلاس طلب کرنا ، سرداروں سے مشورہ کرنا اور پھر بحثیت حکمران اپنا فیصلہ صادر کرنا اور حضرت سلیمانؑ سے ملنے کا ارادہ کرنا ظاہر کرتا ہے کہ ایک ریاست کے خدوخال کیا ہوتے ہیں ، اُس کے ادارے کیسے کام کرتے ہیں ، عوام کی خوشحالی کیسے ممکن ہو سکتی ہے، ریاست کے حکمران اور قوم کے قائد کے اوصاف کیا ہیں ؟ قائدانہ اور مدبرانہ صلاحیتوں کا اظہار کیسے ہوتا ہے ، سفارتکاری ، صلہ رحمی اور سیاسی گفت و شنید کے کیا فوائد ہیں ۔
اس سے پہلے سورۃ الدخان کا حوالہ دیا گیا جب حضورؐ کی دُعا کے اثر سے ریاست مکہ جو دُنیا کی پہلی ریاست تھی ، جس کے ادارے مضبوط ، مستحکم اور اداروں کے سربراہان دنیا کے عقلمند ترین ، معاملہ فہم اور ساری دُنیا کے حالات اور تواریخ کا علم رکھنے والے تھے ۔ یہ لوگ عرب کے مشہور تاجر، جنگجو اور انتہائی سخت گیر رویوں کی وجہ سے مشہور تھے ۔ قحط کی وجہ سے معاشی بُحران پیدا ہوا تو سیاسی عدم استحکام کی فضا پیدا ہو گئی ۔ پانچ سالہ قحط نے اہلِ مکہ کو ہر لحاظ سے بد حال کر دیا چونکہ دیگر عرب قبائل نے ان سے لین دین بند کر دیا ۔ ریاست مکہ کی حدود سے باہر یمامہ کے رئیس حضرت ثمامہ بن آسالؓ جو حلقہ اسلام میں داخل ہو چکے تھے نے اہلِ مکہ کو غلے کی ترسیل بند کر دی۔ یمامہ انتہائی رزخیز خطہ تھا جہاں گندم ، جوار اور جو کی پیداوار سے سارے عرب قبائل فائدہ اُٹھاتے تھے ۔ اہلِ مکہ کے یمامہ سے قریب ہونے کی وجہ سے غلے کی فکر سے ہمیشہ آزاد رہنے کے عادی تھے ۔ معاشی پریشانی لاحق ہوئی تو اہلِ مکہ نے ابو سفیان کی سربراہی میں ایک وفد حضور ؐ کی خدمت میں بھیجا ۔ ابو سفیان نے درخواست کی کے ہم جانتے ہیں کہ آپ ؐ حق پر ہیں ۔ اگر ہم آپ کے پیغام کی مخالفت نہ کریں تو عرب کے خونخوار قبائل ہم پر حملہ آور ہو جائیں گے۔ ابو سفیان نے کہا کہ آپؐ تو اللہ کے نبیؐ اور رسولِ رحمت ہیں ۔ آپؐ کی موجودگی میں مخلوق کا فاقوں مرنا آپؐ کی شان سے مطابقت نہیں رکھتا ۔
قرآنِ کریم میں ایسا ہی احوال نجران کے بادشاہ ابو حارثہ بن علقم کا ہے جس کا ذکر سورۃ آلِ عمران آیت 45میں ہوا ہے ۔ یہ ریاست رومی سرحد پر واقع تھی اور بڑی حد تک رومیوں کے زیرِ اثر تھی ۔ ریاست کے حکمران کو ریاست مدینہ کی طرف سے خطرہ محسوس ہوا تو بادشاہ نے حضورؐ کے نام خط میں لکھا کہ بیشک آپؐ اللہ کے نبی اور رسول ہیں ۔ ہمیں آپؐ سے صلہ رحمی کی توقع ہے ۔ اگر ہم دینِ اسلام قبول کرتے ہیں تو رومی سب سے پہلے ہماری معیشت کو تباہ کر دیں گے یا پھر حکومت کا تختہ اُلٹ کر ملک میں افراتفری اور بد امنی کا ماحول پیدا کر دیں گے ۔ ان دونوں واقعات کے جواب میں اللہ نے فرمایا کہ تمہیں عرب قبائل اور دوسری جانب رومیوں کا خوف ہے جن کی حیثیت معمولی ہے جبکہ اللہ برتر ، طاقتور ، پیدا کرنیوالا اور مارنے والا ہے ۔ اللہ جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے۔ اصل بادشاہی اللہ کی ہے ۔
قرآنِ کریم میں بیان ہُوئے اِس واقع کی روشنی میں دیکھا جائے تو آج سارا عالم اسلام ایک ایسے خوف میں مبتلا ہے جسکا تدارک بظاہر ممکن نہیں ۔ مسلمان امیر ہو یا غریب ، بادشاہ ہو یا فقیر وہ عملاً تہی دست ، محتاج اور غلام ہے۔ سورۃ فتح آیت 5میں فرمایا آسمانوں اور زمین کے لشکر اللہ کے ہیں۔ اللہ کے لشکروں میں راحتیں اور نعمتیں بھی ہیں اور پھر عذاب اور تباہی بھی ہے ۔ قرآنِ کریم میں کئی بار فرمایا کہ کون ہے جو بارشیں برساتا ہے۔ مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے ، تمہارے لیے طرح طرح کے میوے اور فصلیں پیدا کرتا ہے ۔ سورۃ بنی اسرائیل آیت 70اور 71میں فرمایا ‘‘ہم نے اولادِ آدم کو عزت دی ، اسے جنگلوں اور دریاوٗں میں سواریاں دیں، صاف ستھری صحت مند اور پاکیزہ غذائیں دیں ، پہاڑوں میں چھپنے کے ٹھکانے دیے ’’۔ پھر فرمایا ‘‘انسان انتہائی ناشکرہ اور احسان فراموش ہے’’۔
اگر ہم ہواوٗں اور پانیوں کے لشکروں پر غور کریں ایک دور کی سپر پاور قومِ عاد جو آج کی بڑی مادی طاقتوں کے مقابلے میں زیادہ طاقتور تھی ہواوٗں کے لشکر کا مقابلہ نہ کر سکی ۔ اُن کے مضبوط ، عالیشان مکان اور محل اُنھیں نہ بچا سکے ۔ جو جہاں تھا ریت کے طوفان میں دب کر مر گیا۔ فرمایا اُن کی حالت ایسے تھی جیسے کھجور کے سوکھے پیڑ۔ فرمایا میرا دستور نہ ٹلتا ہے نہ بدلتا ہے ۔ آج دُنیا بھر کے مسلمان اللہ کے دستور کے باغی اور طاغوتی طاقتوں کے احکامات کی بجا آوری میں تحفظ کے خواہاں ہیں۔ وہ بھول گئے کہ اصل قوت، طاقت اور سلطنت اللہ کی ہے۔
قومِ لوط، نوح، اصحابِ رس اور ُتبہ کیساتھ کیا ہُوا۔ آج ہمارے علماٗ اور عوام مولانا غامدی کے متبادل بیانیے اور مرزا صاحب جہلمی کی تعلیمات و تشریحات میں اُلجھ کر عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں ، نئی پالیسیوں اور حکمتِ عملیوں سے بے خبر جدید اسلام کے جدید مولویوں کے مقلدین کی تعداد بڑھانے کی جستجو میں ہیں ۔
سنا ہے مولانا غامدی اور مرزا صاحب جہلمی کی ریٹنگ میں شدید مقابلہ چل رہا ہے اور دونوں کے مقلدین کی تعداد کروڑوں سے تجاوز کرنیوالی ہے۔ یوٹیوب چینلوں پر اتنی تعداد دونوں صاحبان کیلئے کروڑوں نہیں تو لاکھوں ڈالر کمائی کا بھی تو وسیلہ ہے ۔ ایک طرف عالمی حالات تیزی سے بدل رہے ہیں اور دوسری طرف مولانا جہلمی داتا صاحب ؒ اور دیگر بزرگانِ دین کو روحانی حملوں کی دعوت دے رہے ہیں ۔ فرماتے ہیں کہ اب میں آگیا ہوں سب کی خبر لونگا۔ پتہ نہیں مرزا صاحب کو نسے مغل ہیں ۔ تاریخ رشیدی کے مطابق مغل دراصل ترک منگول ہیں ۔ کیرن آرم سٹرانگ کو بھی اس سے اتفاق ہے ۔ اُس کے مطابق ترک منگول اور دیگر جو آرین کہلوائے دراصل قوم عاد کے وہ قبیلے ہیں جو پچیس ہزار سال پہلے صحرائے عرب سے نکل کر موجودہ روس اور ترکی کے درمیان آباد ہُوئے ۔ ‘‘بدخشاں سے بہاولپور’’ اور ‘‘سات سو سال بعد’’ کے مصنف نے انھیں کتب کے حوالے سے لکھا کہ ڈھائی ہزار سال پہلے ہی عرب گڈریے جو ا ٓریا کہلوائے روسی سطح مرتفع سے نکل کر چین ، یورپ اور ہند کی طرف نکلے۔ مرزا حیدر دوغلات کی تاریخ رشیدی کے حوالے سے لکھا ہے کہ ترک منگولوں کی بھی دو نسلیں تھیں جن میں جاٹا اور کارواناں مغل دو الگ قبیلے تھے ۔ جاٹا منگول قبلائی خان کی نسل سے تھے جنکا پہلا مسلمان حکمران تیمور تغلق تھا جس نے ایک عالم اور ولی اکمل کے ہاتھ پر بیعت کی اور حلقہ بگوس اسلام ہُوا۔ تاریخ کے مطابق کارواناں مغلوں میں سب سے پہلے امیر تیمور کے دادا نے اسلام قبول کیا مگر تاریخ کے اس بیان کی دیگر مصنفین نے تردید کی ہے۔ شیخ شرف اُلدین کی تاریخ جو امریکہ میں ‘‘وارز اینڈ بیٹلز’’ کے نام سے ترجمہ ہوئی کے شواہد مختلف ہیں۔
اب پتہ نہیں کہ جناب مرزا جہلمی منگولوں کی کس نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور کونسے منگول ہیں۔ اُن کا جنگجوحانہ رویہ واقعی مغلانہ ہے مبلغانہ نہیں ۔ اُنہیں پتہ ہی ہو گا کہ حضرت عثمان علی ہجویری (داتا گنج بخشؒ ) کا تعلق بھی غزنی سے ہے۔ غزنی محمود بُت شکن کا دالخلافہ رہا ہے اور پٹھانوں سے پہلے یہ مقام ترکوں کا شہر کہلواتا تھا۔ محمود غزنوی بھی ترک تھا اور اُسی کے دور میں داتا صاحب لاہور تشریف لائے۔ ہم نہ تو عالم دین ہیں اور نہ ہی ولی یا درویش ۔ مگر یہ جانتے ہیں کہ روحانیت ہمیشہ مادیت پر غالب رہتی ہے ۔ تیمور اور یلدرم دونوں ہی ترک تھے۔ تیمور لکھتا ہے کہ میں یلدرم پر نہ تو حملہ آور ہُوا اور نہ ہی اُس سے ٹکرانا چاہتا تھا۔ اُس کے بیٹے نے تکبر میں آ کر میرے لشکر کے ایک حصے پر حملہ کیا اور مارا گیا۔ میرے صلح کے پیغام پر بھی یلدرم کا جوش ٹھنڈا نہ ہُوا اور نتیجہ جنگ کی صورت میں نکلا۔ اگرچہ میں نے اسے قید کر لیا مگر اُس کے بیٹے کو چھوڑ دیا تا کہ وہ اپنا لشکر دوبارہ تیار کر لے اور یورپی مہم سر کر سکے۔
علمی تکبر علمی نفسیات کا ہی حصہ ہے جس میں خیر کا عنصر نہیں ہوتا ۔ مرزا صاحب جہلمی کا اگر داتا صاحب ہجویری کا ٹکراوٗ ہو گیا تو خدشہ ہے کہ جہلمی صاحب کسی پنجرے میں بند نہ ہو جائیں ۔ ہمارے کھڑی شریف والے حضرت میاں محمد بخش ؒ بھی جہلمی ہی کہلواتے ہیں۔ آپ نے اپنا پتہ بھی جہلم کے حوالے سے ہی لکھا ہے ۔
ـ‘‘جہلم گھاٹوں پربت پاسے میرپورے تھیں دکھن’’
‘‘کھڑی ملک وچ لوڑن جہڑے طلب بندے دی رکھن’’
میاں صاحب ؒ رومی کشمیر عارف کھڑی نے علمی نفسیات اور تکبر کے متعلق لکھا ہے کہ
‘‘پڑھنے دا تو مان ناں کریاں نہ کر پڑھیا پڑھیا’’
‘‘اُو جبار قہار کہاوی متے روڑھ چھڈی دودھ کڑھیا’’
حضرت امام غزالی ؒ نے سیاست کے درجات میں پیغمبروں کے بعد عالموں اور مواحذوں کی سیاست کا ذکر کیا۔ مبصرین نے اسے علمائے حق اولیائے کاملین کی سیاست لکھا ہے جو علم ، اخلاقیات ، تدبر ، حلم اور بردباری سے عام لوگوں کی تربیت کرتے ہیں ۔ اُن کے دِلوں سے نفرت ، تکبر ، بغض ، حسد اور کینہ پروری کو محو کرتے اور باہمی اخلاص و محبت کے رشتے میں پیوست کر دیتے ہیں ۔ بد قسمتی سے ہمارے نام نہاد اساتذہ اور ماہرین نے سیاست کا ترجمہ پولیٹکس کیا ہے جو سرا سر غلط اور بے معنی ہے۔ سیاست عربی کا لفظ ہے جو فارسی میں شامل ہُوا ۔ یعنی اسکا مخزن عربی اور بیان فارسی ہے۔ اسکا مطلب جوڑنا ۔ باہم ملانا، تفرقہ ختم کرنا، صلح رحمی اور اخلاص ہے۔
پولیٹکس لاطینی زبان کا لفظ ہے جسکا مطلب خون چوسنے والی مخلوق جیسے چچڑ، جھونک، مکھی، جوں اور اسی طرح کی مخلوق ہے ۔
(جاری ہے)