ریاست میں اداروں کا قیام اور ضرورت

علامہ جلال الدین سیوتی کا قول ہے کہ مسلمانوں نے نو بہ نو انداز میں تین ہزار علوم قرآن پاک سے اخذ کیے ۔ اس قول کا بیان مقدمہ ابنِ خلدون کے صفحہ نمبر 54پر موجود ہے۔ علماٗ نے اس بیان کی تشریح میں لکھا ہے کہ ریاست کا وجود افراد کے قیام اور اُن کی بود و باش سے مربوط ہے ورنہ زمین کا بنجر و بیابان ٹکڑا ریاست نہیں ہو سکتا۔ ریاست کی تاریخ کے بیان میں ابنِ خلدون لکھتے ہیں کہ تاریخ اقوام اور حکمرانوں کے قصے، قصیدے اور احکامات کا نام نہیں بلکہ انسانوں کی فکری ، علمی، نظری، مذہبی ، سیاسی اور سماجی جدوجہد اور رویوں کا منظم بیان یا ریکارڈ ہے۔ بیان کردہ عمل و جستجو سیاست کے بغیر متحرک نہیں ہو سکتی اور نہ ہی اِن اعمال کا کوئی مثبت پہلو اجاگر ہو سکتا ہے۔ سیاست ہی وہ عمل ہے جس میں کشش، جستجو اور فکری و نظریاتی تحریک کو متحرک کرنے کی روح پائی جاتی ہے۔ فقہا و علمائے سیاست و عمرانیات کے مطابق عمرانیات کا علم سب سے افضل ہے جو انسانوں کو دیگر حیوانات سے الگ اور افضل مخلوق ہُونے کا احساس دلاتا ہے۔ عمرانیات افضل علم ہے اور عمرانیات کی سب سے مستند ، معتبر اور سچی کتاب قرآن حکیم ہے۔
اللہ نے قرآن کو علم و حکمت کی کتاب اور تمام ظاہری و باطنی علوم کا منبع و مخزن قرار دیا ہے ۔ علامہ جلال الدین سیوتی کے اس بیان کی جرمن محقیقن نے تصدیق کرتے ہوئے لکھا کہ مسلمان علماٗ و حکماٗ نے ڈیڑھ لاکھ نہیں بلکہ ڈیڑھ سو علوم قرآن حکیم سے اخذ کیئے ۔مبصرین کا خیال ہے کہ اگر ڈیڑھ سو علوم کو پرکھا جائے تو اسکا جوہر بیس جدید علوم جن میں پندرہ سائنسی اور پانچ دیگر علوم مرتب ہوتے ہیں مگر سائنس و ٹیکنالوجی کے اس دور میں فی الحال دس علوم بھی کار فرما نہیں۔ دُنیا کی جدید لیبارٹریاں ، تھنک ٹینک اور جدید علوم سے آراستہ یونیورسٹیاں ان ہی علوم پر دن رات محنت سے علم و ہنر کے نئے اسلوب وضع کرنے کی جستجو میں ہیں۔سوال یہ ہے کہ مسلمان علماٗ اور حکماٗ نے جو کچھ قرآن کریم سے اخذ کیا وہ صرف مسلمانوں کی میراث نہ تھا بلکہ اہلِ مغرب و مشرق کا بھی اُن پر اتنا ہی حق تھا کہ وہ اِن علوم سے اخذ کردہ نتائج پر تحقیق سے فائدہ اُٹھا سکیں ۔
سورۃ کہف آیت 109میں فرمایا کہ اگر سارے سمندر سیاہی بن جائیں اور تم اللہ کی باتیں لکھو تو تمہیں مزید اتنے ہی سمندر درکار ہونگے مگر اللہ کی باتیں پھر بھی ختم نہ ہونگی ۔ پھر درختوں ، قلموں اور سمندروں کا بھی ذکر ہے۔ پھر پہلی وحی کا آغاز بھی اسی سے ہُوا کہ پڑھ اُس ربّ کے نام سے جس نے مخلوق کو پیدا کیا اور انسان کو جمے ہوئے خون سے ۔ پڑھ تیرا ربّ بڑا کریم ہے جس نے علم سکھایا قلم سے اور سکھایا آدمی کو جو وہ نہ جانتا تھا ۔ سورۃ التین آیت 5میں فرمایا کہ ہم نے بنایا آدمی کو خوب انداز ے پر اور پھینک دیا اُسے سب سے نچلے درجے پر (اُس کے اعمال کے نتیجے میں)۔ آیت 6میں فرمایا مگرجو یقین لائے اور اچھے عمل کیئے اُن کیلئے بڑا اجر و ثواب ہے۔
یقیناً جناب غامدی اور جہلمی صاحب قرآن کے بڑے قاری اور احادیث کے بیان پر دسترس رکھنے والے تو ہیں مگر وہ مخلوق کو جوڑنے کے بجائے اپنے نظریے اور اختراحی تشریحات کی بنا پر امت میں تفریق کا باعث ہیں ۔ آج امت کا مسئلہ سردیوں یا گرمیوں کے روزے، نماز و تراویح نہیں اور نہ ہی گھڑی دیکھ کر روزہ افطار کرنے اور آذان کا انتظار نہ کرنا ہے۔ پانچ نمازوں کی جگہ تین نمازیں پڑھنا اور دو کو باہم ملا دینا بھی مسئلہ نہیں اور نہ ہی خورشید ندیم جو آجکل رحمت الالعالمین اتھارٹی کے چیرمین ہیں اور جناب غامدی کے معتقد ہیں کا متبادل بیانیہ دین کی خدمت ہے ۔ آج امت کا سب سے بڑا مسئلہ علم سے دوری، سیاسی عدم استحکام ، فرقہ پرستی اور زر پرستی ہے۔ علامہ جلال الدین سیوتی کے بیان کردہ ڈیڑھ لاکھ اور جرمن محققین کے ڈیڑھ سو علوم کی مستند اور رہنما کتاب قرآن کریم آج بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہے اور تاقیامت موجود رہے گی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ غامدی اور جہلمی سکول آف تھاٹ قرآن سے اخذ کردہ ڈیڑھ لاکھ یا پھر ڈیڑھ سو علوم کی روشنی میں اہلِ اسلام کی اور عالم انسانیت کی خدمت سے قاصر ہیں ۔ آخر متبادل بیانیے والا شخص رحمت الالعالمین اتھارٹی کا سربراہ کیسے ہو سکتا ہے۔ اللہ رَب العالمین اور حضورؐ رحمت العالمین ہیں ۔ اگر کوئی شخص حب اللہ اور حُبِ رسولؐ میں اپنی عبادات میں اضافہ کرتا ہے ، بیس تراویح کا اہتمام کرتا ہے ایک منٹ کے وقفے سے آذان کی ادائیگی پر روزہ افطار کرتا ہے یا بند کرتا ہے ۔ اللہ کے حکم کے مطابق وضو کرتا اور نماز کے اوقات کی پابندی کرتا ہے اور سنتیں بھی ادا کرتا ہے تو اِس میں کیا حرج ہے ؟؟ اگر علماٗ کا متبادل بیانیہ دیکھا جائے تو دیگر مذاھب میں جو خرابیاں پیدا ہوئیں اور لوگوں نے عبادات میں کمی کرتے کرتے نمازیں ہی ترک کر دیں ، زکوٰۃ و عشر کی جگہ چیرٹی اور این جی اوز نے لے لی مگر دین اسلام میں ایسا ممکن نہیں اور نہ ہی کروڑوں معتقدین اور یو ٹیوب سے حاصل ہُونے والے ڈالر مسلمانوں کے دلوں سے حب اللہ اور حُبِ رسولؐ محو کر سکتے ہیں۔ پاکستان کے سابق وزیر اعظم نے اسلامی تاریخ اور قرآنِ پاک کو تعلیمی سلیبس کا حصہ بنانے کی کوشش کی، القادر ریسرچ یونیورسٹی کی بنیاد رکھی اور امام شازلیؒ ریسرچ سینٹر قائم کرنے کی کوشش کی تو سارے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کہرام مچ گیا کہ ہائے اب ہمارے بچوں پر قرآن کا بوجھ پڑھ جائیگا ۔ عبادات میں تخفیف کا نتیجہ ہمیشہ ترک عبادات کی صورت میں نکلتا ہے چونکہ شیطان انسان کو تن آسانی اور تزکیہ نفس و مجاہدہ قلبی سے دور رکھنے کی کوشش میں رہتا ہے۔ ہر دو معلمین و مبلغین اسلام نے کبھی تزکیہ نفس کی بات ہی نہیں کی اور نہ ہی قرآن کی تعلیمات کو سائنسی اصولوں پر پرکھنے کا درس دیا ہے ۔ یہ بات دُنیا کا ہر عالم و محقق جانتا ہے کہ جدید سائنسی علوم کی بنیاد مسلمانوں نے رکھی جن کے معلم حضرت جعفر صادق ؓ تھے ۔ بدخشاں سے بہاولپور کے مصنف محمد ایوب نے مغربی فلاسفہ و حکماٗ کی کتابوں کے حوالوں سے لکھا ہے کہ آج جو کچھ اہلِ مغرب کے پاس ہے اُس کے اصل معلم عرب مسلمان ہی تھے۔ جسطرح یونانی فلاسفہ و حکماٗ کے ادھورے کاموں کو ابنِ رُشد ، ابنِ خلدون اور امام غزالی ؒ نے مکمل کیا اور اُن ادھورے اور فرسودہ خیالات کی قرآنی علم کی روشنی میں اصلاح کی اسی طرح مسلم علماٗ و حکماٗ کے ہر لحاظ سے کامل اور مکمل علمی خزانے کے وارث اہلِ مغرب ٹھہرے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے علماٗ و فقہاٗ نے اپنی علمی میراث سے کیوں منہ موڑ رکھا ہے اور اُمت کو یکجہتی کا سبق دینے کے بجائے فرقوں میں بانٹ کر متبادل بیانیے گھڑنے اور شہرت و شہوت کے دلدل میں دھنسنے کا پیشہ اختیار کر لیا ہے۔ مناظروں اور علمی مقابلوں سے دین نہیں پھیلتا اور نہ ہی اصلاح و فلاح کا راستہ متعین ہوتا ہے۔ ابنِ خلدون لکھتے ہیں کہ کسی قوم کے زوال کی تین نشانیاں ہیں ۔ اول اشراف کا ضُعف ، دوئم سپاہ کا تشدد اور سوئم عیش و عشرت ۔ مولانا مودودی ؒ کا بیان ہے کہ ریاست میں ہر برائی کی ذمہ دار حکومت ہوتی ہے چونکہ فوج، پولیس، انتظامی ادارے اور عدالتی نظام حکومت چلاتی ہے۔ ججوں ، اعلیٰ عہدے داروں اور امور سلطنت چلانے والے اداروں کے سر براہان کا تعین حکومت کرتی ہے ۔ اگر حکومت بد دیانت، بد کردار اور بد اطوار افراد پر مشتمل ہو گی تو ریاست کا نظام گراوٹ اور بد امنی کا شکار رہے گا ۔مولانا مودودیؒ کے خطبات پر مبنی کتابچے میں لکھا ہے کہ جب خزانے کی چابیاں غلط ہاتھوں میں تھما دی جائیں تو رہزنوں اور رہنماوٗں کا فرق مٹ جاتا ہے ۔ بد قسمتی سے عوام رہزنوں اور رہنماوٗں میں فرق کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ انتخابات کی صورت میں آنیوالے حکمران جسطرح حکمرانی کرتے ہیں اُس میں اچھائی اور بہتری کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ میں نے اپنی تحریروں میں شیخ سعدیؒ کا یہ قول کئی بار نقل کیا ہے کہ:
عاقبت گرگ ذادہ گرگ شود
گرچہ با آدمی بزرگ شود
بھیڑیے کا بچہ بھیڑیا ہی رہتا ہے اگرچہ اُس کی پرورش آدمیوں میں ہی کیوں نہ ہو۔ ہمارے ہاں میکاولین اور چانکیائی سوچ و فکر رائج ہے اور سیاسی جماعتیں اور سیاسی خاندان اسی سوچ و فکر کے حامل ہیں ۔ شہرت، شہوت ، لالچ ، تکبر و رعونت اِن جماعتوں کے عہدیداروں اور حکمرانوں کی فطرت کا لازمہ بلکہ بڑی حد تک عقیدہ ہے۔ قائداعظمؒ ، خواجہ ناظم الدین جنھیں سکندر مرزا چیف مُلا لکھتا ہے کہ بعد حسین شہید سہروردی کے علاوہ کوئی بھی ایسا حکمران ایسا نہیں جسکی سوچ چانکیائی اور میکاولین نہ ہو۔ جو عام آدمی کا خون چوسنے ، شہرت و شہوت، لالچ و تکبر اور رعونت کے دلدل میں دھنسا ہوا نہ ہو۔
جس ریاست کا نظام ایسے لوگوں کی گرفت میں ہو اُس کے وجود کا قائم رہنا کسی معجزے سے کم نہیں ۔ بد قسمتی سے مملکتِ خداداد کا نظام چلانے والے ادارے سوائے حکمرانوں کی خواہشات پوری کرنے اور سفلی و استدراجی سوچ و فکر میں حکمران خاندانوں کے ہم آہنگ ہونے کے کوئی فریضہ سر انجام دینے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
المیہ یہ بھی ہے کہ علماٗ اور صوفیا ٗ ہونے کے دعوے دار بھی اسی نظام کا حصہ ہیں اور کائینا تی ریاست اور اس کے اداروں کی تشریح کرنے میں ناکام ہیں۔
(جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے