یومِ یکجہتی کشمیر

یوم ِ آزادی کشمیر تو ستر سالوں سے منایا جاتا رہا ہے اور اِس دن کی وساطت سے ہمیشہ تین باتوں کا تکرار رہا۔ اوّل کشمیر پر طویل عرصہ تک ڈوگرا ظالمانہ راج قائم رہا مگر چودہ اگست 1947کے دن جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو اہلِ کشمیر نے بھی ڈوگرہ راج سے آزادی کی جدوجہد شروع کی جسے بھارت نے قبول نہ کیا اور اپنی فوجیں کشمیر میں اُتار کر آدھے سے زیادہ کشمیر پر جبراً قبضہ کر لیا ۔ دوئم مجاہدِ ملت سردار ابراہیم خان اور مجاہدِ اوّل سردار عبدالقیوم خان نے تحریکِ آزادی کشمیر کا آغاز کیا اور مقامی مجاہدین جن میں غالب اکثریت سدھن قبیلے کی تھی کی مدد سے موجودہ آزاد کشمیر کا علاقہ فتح کیا ۔ تیسری بات یہ کہ مجاہدین جہاد آزادی کو ہمیشہ سے ہی حکومتِ پاکستان کی سیاسی، مالی اور عسکری معاونت حاصل رہی ہے ۔ روزِ اوّل سے ہی حکومتِ پاکستان کشمیر کا مقدمہ مقامی اور عالمی سطح پر لڑتی آئی ہے۔ اِس سلسلہ میں پاکستان اور بھارت کے درمیان 1947، 1965اور 1971 میں تین جنگیں لڑی گئیں ۔ سیاہ چن اور 1999کی کارگل جنگ کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے کہ ان جنگوں کا بُنیادی مقصد آزادی کشمیر ہی تھا۔آزاد کشمیر ، پاکستان اور دُنیا بھر میں جہاں جہاں پاکستانی اور کشمیری تارکین وطن آباد ہیں وہاں یومِ یکجہتی کشمیر جسکا آغاز امیر جماعتِ اسلامی پاکستان مرحوم قاضی حسین احمد نے کیا اور پھر سابق وزیراعظم پاکستان مرحومہ بینظیر بھٹو نے بھی اِس کی تائید کی جسے بڑے جوش اور جذبے سے منایا جاتا ہے ۔ یوم یکجہتی کشمیر ہر سال پانچ فروری کو احتجاجاً منایا جاتا ہے چونکہ بھارت نے کشمیر پر اپنی فوجیں اُتار کر قبائیلی لشکر کو پسپائی پر مجبور کیا تھا۔ہم یومِ آزادی کشمیر اور یوم ِ یکجہتی کشمیر تو مناتے ہیں مگر یہ نہیں بتلاتے کہ سانحہ جموں سمیت کشمیر میں رونما ہوئے اِن سانحات اور خونی حادثات کا ذمہ دار کون ہے؟ پریس کے پراپیگنڈے اور مفاد پرست صحافیوں اور تحریکِ آزادی کشمیر کے خود ساختہ قائیدین نے اپنی تشہیر اس انداز سے کی کہ خود کشمیری ہی اپنی غلامی کی داستان بھول گئے ہیں ۔
ہماری من گھڑت تاریخ اور سرکاری خرچ پر پلنے والے تاریخ دانوں اور مصنفوں نے تاریخ کشمیر پر حملہ کیا اور ساری دُنیا کو باور کروایا کہ کشمیر ڈوگرہ شاہی سے لیکر سردار محمد ابراہیم اور مجاہدِ اوّل عبدالقیوم خان کے ادوار تک ہی محدود ہے اور اِن دو فریقوں کے درمیان ہی کو جھگڑا تھا جسے بھارتی مداخلت نے بگاڑ دیا۔ کشمیر کی پانچ ہزار سالہ مستند تاریخ ، اس کی عظمت رفتہ اور اس کی تہذیب و ثقافت پر کسی کا کبھی دھیان ہی نہیں گیا۔ کوئی نہیں جانتا کہ کشمیری تہذیب قدیم چینی تاریخ سے ہم آھنگ ہے جسکا آغاز پینتالیس ہزار سال پہلے ہوا ۔ اگرچہ ناگ تہذیب کے کچھ آثار آج بھی وادی نیلم میں موجود ہیں جو کسی طرح آزاد کشمیر کے ایک وزیر جنکا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا کے دست بد سے محفوظ تو رہے مگر مقامی لوگوں نے اُنہیں اکھاڑ کر چُھپا لیا۔پولیٹیکل اینڈ کلچرل ہسٹری آف کشمیر جلد اوّل صفحہ نمبر4پر ـ پی این کے بامزئی نے لکھا ہے کہ قدیم یونانی تاریخ دانوں نے کشمیر کی سیاحت کی اور اُسکا نام کیسپیر یا Kasperia لکھا ۔ہیرو ڈوٹس اسے کیسپاتا ئیروس Kaspatyrosاور ھیگا یایوس Hakataiosنے اسے کیسپالائیروس لکھا۔
578ء میں چینی سیاحوں توپنگ اور سنگ یان نے اسے شی می ShieMiکا نام دیا ۔ 631ء میں ھیون تسانگ نے کشمیر کا نام کیاشی می لو لکھا۔ کشمیری اور گلگتی آج بھی کشمیر کو کشیر ، بلتی کھچلKhachal اور درد اسے کشروٹ کہتے ہیں۔ درد آج بھی گلگت اور بالائی مانسہرہ سے لیکر جنوبی گلگت کے علاقوں میں آباد ہیں ۔ گلگت کے ایک علاقہ کا نام کشروٹ ہے جہاں مجاہدِ آزادی کشمیر کرنل مرزا حسن کا گھر ہے ۔ 1883قبل مسیح سے پہلے کشمیر کئی راجواڑوں میں تقسیم تھا جبکہ موجودہ وادی نیلم تک کا علاقہ قدیم چین کا حصہ رہا ہے ۔ شمال اور شمال مشرقی کشمیر تبت کا حصہ رہا جبکہ پہلا کشمیری حکمران راجہ گوند بھی تبتی شہزادہ تھا۔ راجہ گوند نے سارے راجواڑے فتح کیے اور قدیم کشمیر کو ایک بار پھر عظیم سلطنت میں بدل دیا ۔پنڈت کلہن کے مطابق کشمیر کی متمدن تاریخ کا ٓغاز 2450قبل مسیح میں ہُوا ۔ 1239ء تک 21کشمیری خاندانوں نے یہاں حکومت کی جبکہ ایک غیر ملکی (ایرانی) خاندان (شاہ میری) کشمیر پر قابض ہُوا۔ صدرالدین رنچن شاہ کشمیر کا پہلا مسلمان حکمران تھا جبکہ یعقوب شاہ چک آخری بادشاہ تھا۔ 1586میں مغلوں نے کشمیر پر قبضہ کیا اور آج پانچ صدیوں سے کشمیر غلام ہے۔کشمیر پر مغلوں کے بعد افغانوں پھر سکھوں اور آخر کار مقامی ڈوگرہ خاندان نے انگریزوں کی مدد سے قبضہ کیا مگر یہ کہنا غلط ہُو گا کہ کشمیری ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہے اور غلامی کی زندگی پر اکتفا کر لیا۔ موجودہ تحریکِ آزادی کشمیر کا آغاز1919ء میں ہُوا جسے 1947ء میں ایک سازش کے تحت نیا رُخ دے دیا گیا۔ دراصل تحریک آزادی کشمیر پر پہلا حملہ شیخ عبداللہ نے پشاور کے طویل دورے کے بعد کیا اور مسلم کانفرنس کو تقسیم کر کے نیشنل کانفرنس کی بنیاد ڈالی ۔ شیخ عبداللہ نے پنڈت نہرو کی ایما پر پشاور کا طویل دورہ کیا جہاں اُس کی ملاقات باچا خان ، عبدالصمد اچکزئی ، امیر کابل کے نمائندے اور جمعیت علمائے اسلام ہند کے وفود سے ہُوئی ۔ لاہور آکر شیخ عبداللہ نے نوائے وقت کے حمید نظامی ، فیض احمد فیض ، میکش، مولانا ظفر علی خان ، ایم ڈی تاثیر اور لاہوری پریس کے نمائیندگان سے مشاورت کی۔ شیخ عبداللہ اِس کے بعد دلی چلاگیا اور نہرو سے ملاقات کے بعد 1938میں مسلم کانفرنس سے علیحدگی اور نیشنل کانفرنس کے قیام کا اعلان کیا۔اگر ہم سانحہ کشمیر کا مختصر جائیزہ لیں اور 5فروری کی حقیقت اور اسکے ذمہ داران کا ایمانداری سے تجزیہ کریں تو اِس حادثے کے اصل ذمہ داران ہم خودہیں ۔
میں اس تحریر کی وساطت سے اہلیان ِ کشمیر اور پاکستان خاصکر نوجوانوں کو میجر (ر) میر افضل خان کی تحریر (حضورِ پاک ؐ کا سپاہی) جسے روزنامہ نوائے وقت نے 21دسمبر 2003ء کو اشاعت پذیر کیا کے علاوہ انوار ایوب راجہ کی ‘‘لینھٹا’’ سردار شوکت حیات کی گمگشتہ اقوام اور زاہد چوہدری کی پاکستان کی سیاسی تاریخ کے علاوہ حالات محاذ جھنگڑ دھرم سال جسے فورمین سراج الدین نے ہمدرد سٹیم پریس راولپنڈی سے شائع کروایا کے علاوہ چودھری غلام عباس کی سوانح عمری کشمکش کا مطالعہ کرنے اور سیاستدانوں اور تنخواہ دار مفاد پرست صحافیوں اور دانشوروں کے چنگل سے نکل کر آزادی کشمیر کیلئے ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں کے پیش نظر نئی منصوبہ بندی کرنے کی دعوت دوں گا ۔مغلوں ، افغانوں ، سکھوں اور ڈوگروں کے بعد 1947ء میں قبائیلیوں نے بھی جبرو ظلم و درندگی کی کوئی حد نہ چھوڑی۔
ہم 76سالوں سے قبائیلیوں کے گیت گا رہے ہیں اور غازی ملت اور مجاہدِ اوّل کے قصے تو پڑھ رہے ہیں مگر یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ قائداعظم ؒ کے کشمیر منصوبے کو کس نے برباد کیا اور مسئلہ کشمیر کو نہ صرف اُلجھایا بلکہ سونے کی طشتری میں رکھ کر کشمیر نہرو کے حوالے کیا۔ کسی نے کبھی غازی ملت اور مجاہدِ اوّل سے نہیں پوچھا کہ پونچھ گیریژن میں محصور تین ڈوگرہ کمپنیوں کی کون حفاظت کرتا رہا اور چھ ماہ تک تین سدھن بریگیڈوں ، ایک باغ بریگیڈ جسکی قیادت مجاہدِ اول کر رہے تھے ، ایک ریگولیٹر جس کے کمانڈر بریگیڈئیر اکبر تھے اور چار ہزار نفوس پر مشتمل قبائلی بریگیڈ بغیر گولی چلائے پونچھ کے باہر کیوں بیٹھا رہا ۔ کیوں نہیں پوچھا جاتا کہ قائداعظم ؒ کو بے خبر رکھتے ہوئے پندرہ ہزار قبائلی کشمیر میں کیوں داخل کیے گئے جنھوں نے مظفر آباد شہر اور پھر اوڑی شہر اور میہورا پاور اسٹیشن جلانے اور لوٹ مار کرنے کے بعد 48گھنٹے تک بارہ مولہ کے باہر بیٹھ کر بھارتی فوج کی آمد کا کیوں انتظار کیا۔ 22اکتوبر 1947ء کے دِن جنرل گریسی نے قائداعظم ؒ کو بتایاکہ5ہزار قبائلی کشمیر میں داخل ہو گئے ہیں اور مقامی آبادی پر حملہ آور ہیں۔ مہاراجہ کشمیر کی کل فوج 9انفنٹری بٹالین پر مشتمل تھی جو بغاوت کے بعد پہلے ہی تتر بتر ہو چکی تھی ۔ اگرچہ سرینگر میں ایک سکھ بٹالین موجود تھی مگر وہ پانچ ہزار کے لشکر کا مقابلہ نہ کر سکتی تھی ۔ اگر قبائلی واقع ہی کشمیر کی آزادی کیلئے آئے تھے تو وہ 48گھنٹے تک لہ کیوں بیٹھے رہے اور پھر بھارت کی طرف سے صرف تین سکھ کمپنیوں کے آتے ہی بھاگ کیوں گئے؟ سوال یہ بھی ہے کہ جنگ صرف بارہ مولہ اور پونچھ تک ہی محدود نہ تھی شمال سے کرنل حسن مرزا اور کیپٹن باہر آئی بیکس اور ٹائیگر فورس کی قیادت کرتے ہوئے گلگت بلتستان اور کارگل فتح کرتے ہوئے سونامرگ تک پہنچ چکے تھے جبکہ حیدری فورس کے کمانڈر کرنل اکمل، میجر محمد حسین ۔ کیپٹن حق مرزا اور کرنل رحمت اللہ ، کیپٹن سکندر راجوری سے لیکر پیر پنجال اور شوپیاں تک قابض ہو چکے تھے مگر حکومت پاکستان نے کبھی اُنہیں کوئی مدد نہ دی اور نہ ہی موسم سرما تک اِن کا حال پوچھا۔ سارا پراپیگنڈہ پونچھ اور پونچھ کے باہر بیٹھے سات بریگیڈ تک محدود تھا جو موسم خراب ہونے اور بھارتی فوج کی آمد کا انتظار کر رہے تھے۔
چھمب اور بھمبھر بریگیڈئر حبیب الرحمٰن فتح کر چُکے تھے اور لیفٹینٹ مظفر خان شہید (ستارہٗ جراٗت) (دوبار) نے نوشہرہ میر پور روڈ پر گھات لگا کر بھارتی بریگیڈ کا حملہ پسپا کر دیا تھا۔ دوسرا بھارتی بریگیڈ چڑہوئی کے راستے گل پور پر قبضہ کرنے نکلا تو مظفر خان نے اسے بھی پسپا کر دیا جسکی وجہ سے بھارتی بریگیڈ پلندری اور کوٹلی خالی کرتے ہوئے واپس نوشہرہ چلا گیا۔ اُسی طرح پونچھ پر بھارت نے حملہ موخر کرد یا مگر حکومت نے اس طرف کوئی دھیان نہ دیا ۔ اکتوبر 1947ء سے لیکر اکتوبر 1948ء تک کشمیر کا دوتہائی علاقہ مقامی مجاہدین آزاد کروا چکے تھے جبکہ سرینگر جان بوجھ کر اور عالمی سازش کے تحت بھارت کے قبضے میں رہنے دیا گیا ۔ اگر حق مرزا ، کیپٹن بابر اور کرنل حسن مرزا کو پتہ ہوتا کہ وہ تین اطراف سے سرینگر کو گھیر کر بیٹھے ہیں تو وہ کسی پوچھے بغیر ہی سرینگر پر قابض ہو جاتے ۔ مگر ہمارے حکمرانوں نے انھیں بے خبر رکھا تاکہ برف باری شروع ہوتے ہی نہتے اور بے سروسامان مجاہدین مفتوعہ علاقہ خالی کرکے کشمیر بھارت کے حوالے کر آئیں ۔ پھر ایسا ہی ہوا اور یوں بھارت نے بغیر کسی مزاحمت کے کشمیر پر قبضہ کر لیا۔
یاد رکھیں آزادی کا واحد راستہ جہاد ہے۔ جب تک یہ قوم افسانوں پر یقین کرتی رہے گی اور حقیقت سے دور رہے گی اُسے کبھی آزادی کا سانس نصیب نہ ہو گا۔ آزاد کشمیر پر مسلط موجودہ حکمران پیپلز پارٹی اور نواز لیگ سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے مسلط کردہ سیاسی مافیا کے سرغنہ اور ڈوگروں کے بد ترین جانشین ہیں۔ برادری ازم اور کرپشن کے ناسور نے تحریکِ آزادی کشمیر کے تابوت کو ہمیشہ کیلئے دفن کر دیا ہے۔ غنڈہ گردی کشمیری سیاست کا بنیادی عنصر ہے۔ سیمیناروں ، جلسوں ، جلوسوں اور تقریروں سے آزادی حاصل نہیں ہوتی ۔ بھارتی ‘‘را’’ کے سابق چیف ایس ۔ کے۔ دلت نے واضع الفاظ میں بھٹو کی کشمیر پالیسی پر لکھا ہے اور یہی پالیسی جناب زرداری اور میاں نواز شریف کی ہے۔ کشمیر پر قابض سیاسی ٹولے کو آزادی سے کوئی غرض نہیں ۔ اگر مودی اُنھیں آزاد کشمیر پر مسلط رہنے، عیش و عشرت ، کرپشن اور جرائم کرنے کا اختیار دے دے تو اُنھیں وہ بھی قبول ہو گا۔ بھارتیوں کو ان کی حقیقت پہلے ہی پتہ ہے۔ بیرون ملک جا کر یہ لوگ کیا گل کھلاتے ہیں اور کن کن سے ملتے ہیں دُنیا اس سے واقف ہے۔ آو ٗ سچ کو اُجاگر کریں اور حقیقی آزادی کی طرف توجہ دیں ۔ یہ کام نوجوانوں کا ہے جو اقبال ؒ کا شاہین اور قائد اعظم ؒ کی تمنا کا ثمر ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے