عمران خان جنرل حمید گل( مرحوم )کی مشاورت اور خواہش پر سیاسی میدان میں اُترا مگر جنرل حمید گل اُس کی تربیت نہ کر سکے ، صحافی ہارون الرشید اور اسی فکر و ذھن کے لوگ اسکی تربیت پر مامور ہوئے مگر عمران خان کی نفسیات پر ناسوتی کمالات اور سیاسیات کا کچھ اثر نہ ہوا۔ اس سے پہلے جنرل حمید گل میاں نواز شریف کی تربیت پر ناکام تجربہ کر چکے تھے۔ جناب نواز شریف وزیر اعظم بنے تو جنرل حمید گل نے اُن کے والد سے ملاقات پر مشورہ دیا کہ جب تک آپ کا بیٹا وزیرِاعظم ہے آپ کوئی نئی فیکٹری نہ لگائیں جنرل حمید گل کہتے تھے کہ مجھے یہ سنکر حیرت ہوئی جب میاں شریف نے کہا کہ ‘‘جنرل صاحب آپ کمال کرتے ہیں اب تو فیکٹریاں لگانے کا وقت آیا ہے’’ شاید یہی وجہ تھی کہ جنرل حمید گل جیسے محب وطن اور مستقبل پر نظر رکھنے والے دانشور نے عمران خان پر زیادہ وقت ضائع نہ کیا۔صفحہ نمبر 155پر لکھتے ہیں کہ پاکستان اور عمران خان کے گرد دنیا بھر کی شیطانی قوتیں گھیرا تنگ کر رہی ہیں اور نو کے شیطانی ٹولے کے علاوہ زندگی کہ ہر شعبے سے تعلق رکھنے وا لی چالیس با اثر شخصیات پاکستان مخالف قوتوں کی آلہ کار ہیں۔ اہم عالمی شخصیات کا نفسیاتی تجزیہ ہر ملک کی خفیہ ایجنسی کے منشور میں شامل ہوتا ہے اور وہ اس پر انتہائی باریک بینی سے کام کرتی ہیں ۔ وہ اِن شخصیات کی زندگی کے مثبت اور منفی پہلووٗں پر مزید تحقیقات کر کے اُن کے متعلق ایک لائحہ عمل تیار کرتی ہیں تاکہ بوقتِ ضرورت اُنھیں اپنے دام میں پھنسا کر یا پھر اُنھیں منظر سے ہٹا کر من پسند شخصیات کو آگے لایا جا سکے ۔وہ اِس طریقہ واردات میں عمرا ن خان سے پہلے ماوٗزے تنگ اور احمد سوئیکارنو پر لکھی کتابوں ، کالموں اور مضامین کی مثال دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ محبِ وطن اور عوام دوست قائدین کی چند شخصی کمزوریوں کو عوام درگزر کرتے ہیں ۔ عمران کی ناکام شادیوں ،ریحام خان کی کتاب اور جسٹس افتخار چودھری کے مقدمے کا عوام پر کوئی اثر نہ ہوا ۔ اسی طرح اپوزیشن اور میڈیا کے الزامات بھی بے اثر ثابت ہوئے مگر اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ عمران خان منفی پراپگنڈے اور غیر ملکی قوتوں کی سازشوں سے مکمل محفوظ ہے۔
160صفحہ پر لکھا ہے کہ عمران خان کی ٹیم ملکی اور غیر ملکی قوتوں کے پراپگنڈے کا موثر جواب دینے سے قاصر ہے۔ عمرا ن خان کی جماعت میں باہمی اتحاد کا فقدان ہے جو کسی بڑے حادثے کا باعث ہو سکتی ہے۔ پارٹی لیڈروں کی کرپشن اور عوام کش پالیسیوں سے خود عمران خان بے خبر ہے جس کی ذمہ داری بھی عمران خان پر ہی عائدہوتی ہے۔چودھری غلام عباس (مرحوم)کی کتاب کشمکش کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ چودھری صاحب نے قائد اعظم سے پوچھا کہ آپ کا جانشین کون ہے ؟ لکھتے ہیں کہ اس سوال پر قائد اعظم برہم ہوئے اور پھر کچھ لوگوں کا نام لیکر فرمایا کہ جو کچھ ہم دِن کی روشنی میں کرتے ہیں وہ رات کے اندھیرے اس کی تفصیل ماوٗنٹ بیٹن کو بھجوا دیتے ہیں ۔ تم خود ہی فیصلہ کر لو کہ اِن میں سے کون قابلِ اعتماد ہے۔چودھری صاحب لکھتے ہیں کہ پھر میں نے پوچھا کہ مسلم لیگ کیا ہے؟ فرمایا ‘‘میں، میری بہن فاطمہ، میرا سیکرٹری خورشید اور میرا ٹائیپسٹ ـ’’ مسلم لیگ اِن چار ستونوں کا نام ہے جو کامیابی کی ضمانت ہیں ۔دیکھا جائے تو عمران خان کے بھی تین چار ہی ساتھی ہیں مگر وہ کامیابی کی ضمانت نہیں ہو سکتے۔ عمران خان میں جتنی بھی خوبیاں ہوں وہ قائد اعظمؒ جیسی بصیرت کا مالک نہیں ۔اگرچہ عمران خان کے مخالفین میں حکومتِ برطانیہ ، لارڈ ماونٹ بیٹن ، نہرو ، گاندھی، باچا خان ، عبدالصمد اچکزئی، شیخ عبداللہ، امیر افغانستان، یونینسٹ پارٹی، جی ایم سید ،کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا اور جمعیت علمائے اسلام ہند جیسی مضبوط سیاسی جماعتیں ، حکومتیں اور شخصیات نہیں مگر جتنے مخالفین ہیں اُنکا سامنا بھی آسان نہیں ۔
آخری کمانڈر انچیف جنرل گل حسن کے حوالے سے لکھا ہے کہ قائد اعظم بحثیت گورنر جنرل آف پاکستان بمبئی سے کراچی آئے تو اُن کے جہاز نے کراچی کے ماڑ ی پور اڈے پر اُترنا تھا۔ جہاز نے اُترنے کے بجائے ہوائی اڈے کا چکر لگایا اور پھر فضا ء میں بُلند ہو گیا۔ قائد اعظمؒ نے پوچھا گل پائیلٹ سے پوچھو وہ لینڈ کیوں نہیں کر رہا ۔ میں نے عرض کی جناب آپ کی قوم ہوائی اڈے پر آپ کے استقبال کے لیے اُمڈ آئی ہے اور لوگ رَن وے پر چڑھ آئے ہیں ۔ پولیس بے بس ہے وہ اُنہیں قابو نہیں کر سکتی۔ قائد نے غصے سے کہا ‘‘یہ قوم نہیں کراوڈ ہے اسے ڈسپلن سکھانے کی ضرورت ہے’’ قائد اعظم ؒ نے سچ کہا تھا ۔ ہر لیڈر کا اولین فریضہ قومی ڈسپلن سکھلانا اور خود ڈسپلن کا مظاہرہ کرنا ہے۔ بد قسمتی سے قائد اعظمؒ کے بعد جتنے لیڈر آئے وہ نہ تو اپنا کردار پیش کر سکے اور نہ ہی قوم کو نظم و ضبط سکھلانے کی کوشش کی۔ قائداعظمؒ کے بعد لیڈرشپ عملاً ختم ہوگئی اور لیڈروں کی جگہ ‘‘کراوڈ لورز’’ آئے جنکا کام قوم کو فرقوں اور ٹکڑوں میں تقسیم کرنا اور حکمرانی کرنا ہے۔اِس باب میں لکھا ہے کہ عمران خان کے بچاوٗ کا واحد حل اپنا رویہ اور اپنی ٹیم بدلنا ہے۔ ورنہ اُس کی ہر خوبی اور اچھی خواہش موجودہ بے حِس، عوام دشمن ، کرپٹ، بد اعتماد اور ابنِ الوقت ٹیم کی موجودگی میں برائی میں بدل جائے گی۔ قومی ادارے ہاتھ اُٹھالینگے یا پھر خود جرائم کا حصہ بن جائینگے۔ ملک بد نظمی اور افراتفری کا شکار ہو جائیگا اور عوام کا سیاست اور جمہوریت سے اعتماد اُٹھ جائیگا۔ ہو سکتا ہے کہ سیاسی جماعتیں ، سیاسی لیڈر، اُن کا حامی میڈیا اور مافیا عوامی غیض و غضب کا نشانہ بن کر اپنا وجود ہی کھو بیٹھے ۔ البتہ ان دیکھی قوتیں متحرک ہونگی اور مکمل تباہی و بربادی کے بعد بحالی کا سفر شروع ہو گا۔
کتاب کا اگلا باب ‘‘پاکستان حالتِ جنگ میں ’’ ہے ۔ علامہ محمد اسد کی تصنیف ‘‘روڈ ٹو مکہ’’ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ علامہ جس جرمن اخبار کیلئے کام کرتے تھے اُن کی خواہش تھی کہ آپ مشرق بعید کا تفصیلی دورہ کریں اور اِن ممالک کے سیاسی ، سماجی اور معاشی حالات اور مستقبل کے حوالے سے ایک جامع رپورٹ مرتب کریں ۔ علامہ لکھتے ہیں کہ دِلی آکر میں نے علامہ اقبالؒ سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا تو شاعرِ مشرق نے کہا کہ آئیندہ کا کیا پروگرام ہے؟میں نے مشرق بعید جانے کا ذکر کیا تو علامہ اقبالؒ نے فرمایا کہیں جانے کی ضرورت نہیں دِلی میں مسلم لیگ کے دفتر میں بیٹھ کر پاکستان کیلئے کام کرو۔ میں نے حیرت سے پوچھا کہ پاکستان کا تو دور دور تک کوئی نام و نشان ہی نہیں۔ ہندو لفظ پاکستان کا مذاق اُڑاتے ہیں اور مسلم لیگ نوابوں اور جاگیر داروں کی جماعت مشہور ہے۔ یہ لوگ بگھیوں اور کاروں کے سِوا زمین پر پاوٗں نہیں رکھتے اور وسیع حویلیوں اور محل نما مکانوں میں رہتے ہیں ۔علامہ نے جواب دیا کہ فیصلہ ہو چکا ہے۔ پاکستان بن کر رہے گا۔علامہ اسد لکھتے ہیں کہ علامہ اقبالؒ کا حکم سن کر میں حیران ہوا اور مسلم لیگ کیلئے کام کرنے لگا۔ اُن دِنوں علامہ اقبالؒ بیمار تھے اور سینکڑوں لوگ اُن سے ملنے جاتے اور یہی پیغام لاتے کہ اجلاس باطنی میں فیصلہ ہو چکا ہے اور پاکستان بن کر رہے گا۔ چودھری غلام عباس (مرحوم) لکھتے ہیں کہ پاکستان کا قیام ایک معجزہ ہے۔ 23مارچ 1940کے دِن قراردادِ پاکستان منظور ہوئی اور محض سات سال کے عرصے میں تکمیلِ پاکستان ہو گئی۔ سندھ جی ایم سید اور بلوچستان انگریزوں کا نگرسیوں اور پاکستان مخالف دھڑوں کے نرغے میں تھا۔ جاگیر داروں اور وڈیروں کی اپنی سیاست تھی مگر عام لوگ انگریزوں سے نفرت کرتے تھے۔ وہ پُُر اُمید تھے کہ پاکستان کی صورت میں اُنھیں انگریزوں اور اُن کے حامی نوابوں ، جاگیر داروں ، پیروں اور وڈیروں سے نجات مل جائے گی۔ پیر صاحب پگاڑو کی شہادت اور جنرل چارلس نیپئر کے مظالم اُن کے دِلوں پر نقش تھے۔
کانگریسی دھڑوں اور پاکستان مخالف قوتوں نے انگریز سے مل کر بلوچستان اور سرحد میں ریفرنڈم کی چال چلی مگر ناکام ہو گئے۔ 29 جون1947کے دِن قبائیلی جرگے نے فیصلہ کرنا تھا کہ 30جون کے ریفرنڈم کا حتمی اعلان کیا جائے ۔ بلوچ قبائیلی سرداروں کو طرح طرح کی مراعات اور سہولیات کی ترغیب دی جا رہی تھی اور کانگریسی ٹولہ پوری طرح متحرک اور پُر اُمید تھا ۔ جرگہ میں جانے سے پہلے سردار دودا خان مری نے ہنستے ہوئے کہا کہ آج پٹھانوں اور بلوچوں میں پاکستان جیتنے کا مقابلہ ہے۔دیکھتے کون بازی لے جاتا ہے۔
سردار اپنی نشستوں پر بیٹھے تو انگریز حکومت کا نمائندہ مسٹر جیفرے فاتحانہ انداز میں جرگہ ہال میں داخل ہوا اورسٹیج پر جاکر وائسرائے کا پیغام پڑھ کر سنانے لگا۔ نواب محمد خان جوگیزئی نے مسٹر جیفرے کو روک کر کہا کہ یہ پیغام ہم پہلے ہی پڑھ چکے ہیں ۔ شاہی جرگے نے پاکستان کے حق میں فیصلہ کر دیا ہے۔ ہاں اگر کسی کو اعتراض ہے تو وہ ایک طرف کھڑا ہو جائے۔ سردار دودا خان مری نے پاکستان کے حق میں تقریر شروع کی تو چار سرداروں نے کھڑے ہو کر کہا کہ ہم پہلے سے خان آف قلات کیساتھ وعدہ کر چکے ہیں ۔ اسپر میر جعفر خان جمالی اور سردار محمد خان جوگیزئی نے کہا کہ خان آف قلات پاکستان کے حق میں فیصلہ کر چکے ہیں ۔ یہ سنکر ہال تالیوں سے گونج اُٹھا اور ہال کے باہر طلباٗ تنظیموں نے پاکستان زندہ باد اور قائد اعظم ؒ زندہ باد کے فلک شگاف نعرے بُلند کیے۔یہ سنکر مسٹر جیفرے نے مایوسی سے کہاکہ ٹھیک ہے میں ابھی وائسراے کو تار بھجوادیتا ہوں کہ بلوچستان کے عوام نے پاکستان کے حق میں فیصلہ کر دیا ہے۔اس فیصلے کے باوجود بلوچستان میں غیر ملکی طاقتیں متحرک رہیں اور ملک کے اندر بیٹھے اپنے ایجنٹوں اور سیاستدانوں کی مدد سے بلوچستان میں آگ و خون کا کھیل کھیلتی رہیں ۔ پاکستان قائم ہوتے ہی 1948میں خان آف قلات کے بھائی پرنس عبدالکریم نے پہلی بغاوت کی۔ بلوچستان میں کبھی بغاوتوں کا سلسلہ بند نہیں ہوا اور نہ ہی صوبائی اور مرکزی حکومتوں نے کبھی اسے سنجیدگی سے لیا۔ شریف خاندان نے جتنی دولت لاہور اور زرداری نے سندھ کی کاغذی ترقی اور اشتہار بازی پر لگائی اگر اس سے آدھی دولت بلوچستان کے چار شہروں کوئٹہ ، سبی، قلات اور خضدار پر لگاتے تو بلوچستان میں ہونے والی بغاوتیں ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتیں ۔حکومت ِ پاکستان نے جتنا سرمائیہ بلوچی سرداروں کو باہم لڑانے، پھوٹ ڈلوانے ، بغاوتیں کروانے اور پھر کچلنے ، سرداروں ، وڈیروں ، نوابوں ، صوبائی اور مرکزی حکومتوں کے ممبروں اور سینیٹروں کو خریدنے پر لگایا اگر یہی سرمائیہ کسی جامع منصوبہ بندی ، کرپشن، کمیشن اور کک بیک سے پاک طریقے سے لگایا جاتا تو کم آبادی ، وسیع رقبے اور قدرتی دولت سے مالا مال بلوچستان پاکستان کی شان اور پہچان بن جاتا ۔ عمران خان کی آمد کا صرف ایک ہی فائدہ ہوا ہے کہ اُس نے کرپشن کے قلعوں کی دیواریں تو ہلا دیں ہیں مگر وہ اُنہیں مسمار نہیں کر پائیگا۔ عمران خان کے اقتدار کی بُنیادیں کمزور ہیں ۔ اُس کی آمد سے پہلے ہی بلوچستان میں ‘‘باپ’’ پارٹی کا قیام نہ صرف عمران خان بلکہ آنیوالی ہر حکومت کو ڈانواں ڈول رکھنے کا مستقل بندوبست ہے۔ سندھ میں ایم کیو ایم کو بلدیہ فیکٹری کے قتلِ عام سے وقتی نجات مل گئی ہے مگر اصل حقائق مٹانا سیاستدانوں ، انتظامیہ اور عدلیہ کے بس کی بات نہیں ۔ یہی تلوار تا فیصلہ نواز لیگ کے سر پر بھی لٹکتی رہے گی اور ماڈل ٹاوٗن کے قتلِ عام کا کبھی نہ کبھی شریف خاندان اور اُن کے جانثاروں کو حساب دینا ہو گا۔سندھ میں کرپشن اور اداروں کی تباہی کب تک بربریت کی اندھیری دیوار کے پیچھے چھپی رہے گی۔ 1947میں اِن ہی سندھی ، بلوچی اور سرحدی پٹھانوں نے نوابوں ، وڈیروں ، جاگیر داروں ، کانگریسیوں ، ملاوٗں ، انگریزوں اور قائد اعظم ؒ کے مخالفین کو خاموشی اور استقلال کے ہتھیار سے شکست دی مگر قیادت کے فقدان نے اُنہیں انگریزوں کے بعد انگریزوں کے غلاموں کی غلامی میں دے دیا۔
(جاری ہے)