جلتی ریل کے مسافر

ملکی حالات پر اچانک نا اُمیدی، لاقانونیت اور مایوسی کے گہرے بادلوں کا چھا جانا ہر محبِ وطن پاکستانی کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو امریکہ گئے تو اخباروں میں ایک تصویر چھپی کہ بلاول ائیر پورٹ پر اکیلے بیٹھے کسی دوست کا انتظار کر رہے ہیں۔ بلاول تب کسی سرکاری عہدے پرفائیز نہ تھے اور نہ ہی اُن کا کوئی سرکاری پروٹوکول تھا مگر دوست بھی کوئی لا پرواہ شخص تھا جو ایک ایٹمی قوت کی حامل واحد مسلم اور گریٹ گیم کا میدان کہلوانے والی ریاست کے ولی عہد کیلئے نہ تو پھولوں کا گلدستہ لیکر آیا اور نہ ہی خود آیا۔ شاید میری سوچ غلط ہو مگر لگتا یوں ہے کہ یہ دوست کوئی بہت ہی کایاں اور گنڑیاں شخص تھا جو جان بوجھ کر ایسا تاثر دے رہا تھا کہ جناب بلاول ویسے ہی ہوا پانی بدلنے اور سیر سپاٹے کیلئے امریکہ آئے ہیں۔ بلاول کا یہ انتہائی اہم دورہ اسطرح غیر اہم کر دیا گیا کہ کسی کی اسطرف توجہ ہی نہ ہو۔ بلاول واپس آئے تو پی۔ڈی۔ایم بن گئی اورپھر پیپلز پارٹی نے بظاہر پی۔ڈی۔ایم سے علیحدگی اختیار کر لی۔یہ علیحدگی ریل کی پٹڑیوں کی صورت اختیار کر گئی۔ جو ساتھ ساتھ تو چلتی ہیں مگر کبھی باہم نہیں ملتیں، کانٹا بدلنے والا اگرچہ انتہائی نچلے درجے کا سرکاری ملازم ہوتا ہے مگر اُس کا کام ریلوے کے منسٹر اور چیف انجینئر سے بھی بڑا ، حساس اور انتہائی نازک ہوتا ہے۔ وہ پٹڑیوں پر دوڑتی گاڑی کو سرخ جھنڈی دکھا کر روک لیتا ہے اور سبز جھنڈی دکھا کر جانے کی اجازت دیتا ہے۔ وہ کانٹا بدل کر چلتی گاڑی کو ایک پٹڑی سے دوسری پر ڈال دیتا ہے اور اگر کانٹا غلط بدل دے تو دو چلتی گاڑیوں کو ہیڈ آن ٹکرا دیتا ہے یا پھر کسی کھڑی ٹرین پر چڑھا کر سینکڑوں انسانوں کی جان لے لیتا ہے۔
تجزیہ کریں تو ہمارے ملک میں اقتدار کی گاڑی بھی اسی طرح چلتی اور چلائی جاتی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دو پٹڑیوں کی مانند اگرچہ باہم نہیں ملتیں مگر دونوں کی منزل ایک ہی ہوتی ہے۔ دونوں جانب سیاستدان ہی ہوتے ہیں اور ہر پارٹی کا اپنا منشور ہوتا ہے مگر منزل ا پ یا ڈاوٗن ایک ہی پلیٹ فارم ہوتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ دونوں طرف سیاستدان ہی ہوں، بہروپیے تاجر، لٹیرے اور مفاد پرست عوام الناس کا خون چوسنے والی جھونگیں نہ ہوں۔ وہ عوام سے کیے ہوئے عمرانی معاہدے (آئین) کے پاسدار اور قانون پر عمل کرنے اور کروانے والے ہوں تا کہ عوام الناس اُنھیں اولامر تسلیم کرتے ہُوئے اُن کی عزت و احترام کرنے پر فخرمحسوس کر یں۔ اگرچہ ہمارا ملک ایک آزاد اسلامی ریاست کہلواتا ہے جس کے آئین پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے الفاظ لکھے گئے ہیں جو تقریباً چوبیس کروڑ انسانوں کے حقوق کا پاسدار تو تسلیم کیا گیا ہے مگر عمل ایک فیصدبھی نہیں ہوتا۔ اس کی اصل وجہ اقتدار کی گاڑی ہی ہے جو آج تک برطانوی استعمار کی بچھائی پٹڑی پر چل رہی ہے۔ برٹش انڈین حکومت نے دُنیا کی امیر ترین ریاست ہند کو جسطرح لوٹا اور مقامی آبادی کا نہ صرف ہر طرح سے استحصال کیا بلکہ اُنہیں ایک دوسرے کے خلاف ایسا نبرد آزما کیا کہ علاقائی، لسانی، قبائیلی اور نسلی تعصبات آج ہمارے سیاسی کلچر کا حصہ اور سیاستدانوں کے ہاتھوں میں سب سے بڑا اور موثر ہتھیار ہے۔
بلاول کی ٹرین (پی پی پی)ڈاون تھی جو مہنگائی کے خلاف چلی اور پھر کسی گمنام سٹیشن پر جا کر رُک گئی۔ بلاول نے کچھ دیر آرام کیا تو آصف علی زرداری کی ٹرین خاموشی سے اسلام آباد پہنچ گئی۔ مسافر اُترے، قلیوں نے سامان اُٹھایا اور سندھ ہاوٗس میں ڈیرے ڈال دیے۔ پھر امریکہ سے کوئی چِٹھی آئی جسے کبھی سچ اور کبھی جھوٹ کہا گیا۔ لیڈر کہتے تھے سچ اور پھر اُن میں سے کچھ نے فتویٰ دے دیا کہ اگر سچ بھی ہے تو اُسے جھوٹ تصور کیا جائے۔ عام لوگوں نے فتوے کو ہی ترجیح دی چونکہ وہ ایسے فتووٗں اور فتنوں کے عادی ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ فتوی نہ مانا جائے تو فتنہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ اور فتنہ قتل سے بھی بڑا گناہ ہے اللہ تعالیٰ کا بھی یہی فرمان ہے۔ فتنہ شر کا باعث ہے اور شر شیطان کی چال ہے۔ یہ خط کوئی پہلی بار تو نہیں آیا تھا۔ ایسے خطوط تو آتے رہتے ہیں۔ کبھی محبت بھرے اور کبھی نفرت بھرے۔ کبھی دھمکی آمیز اور کبھی صلح آمیز۔ اصول تو یہی ہونا چاہیے کہ خطوں کے راز خفیہ رکھے جائیں تا کہ فتنہ و فساد ٹل جائے۔ خطوں کی اپنی تاریخ اور تاریخی اہمیت ہے۔ ریل گاڑیوں میں بھی ایک ڈاک کا ڈبہ ہوتا ہے۔ شاید اب بھی ہو۔ گاڑی میں تو کھانے کا ڈبہ بھی ہوتا تھا جو بینظیر صاحبہ کے پہلے دورِ حکومت میں زرداری صاحب نے اُتروا دیا تھا۔زرداری ٹرین کے مسافر سندھ ہاوٗس سے پی۔سی ہوٹل منتقل ہوئے تو پی۔ٹی۔آئی کی ٹرین چلتے چلتے رُک گئی۔ ٹرین رُکی تو بلوئے شروع ہو گئے۔ مہنگائی، بد امنی، بے چینی، بھگدڑ، افرا تفری اور بے یقینی کی کیفیت نے ہر شخص کو پریشان کر دیا۔ پی۔ ٹی۔ آئی کی گاڑی سے اُترنے والے اقتدار کی گاڑی میں جا بیٹھے تو کسی نے یہ تک نہ پوچھا کہ تمہارے ٹکٹ استعمال شدہ اور پُرانے ہیں مگر اُنہیں پہلے سے بہتر ڈبوں اور سیٹوں پر بٹھادیا گیا۔جو مروت کے مارے تھے وہ جلتی گاڑی میں بیٹھے رہے۔ کچھ جھلس گئے، کچھ مر گئے۔ کچھ جھلس رہے ہیں اور کچھ مر رہے ہیں۔ وہ جو نازک اندام تھے اور پلیٹ فارم پر کھڑے تھے وہ سب موقع پرست تھے۔اُن میں سے کچھ بھاگ رہے ہیں کچھ بھاگنے والے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ سب پہلے ہی بھگوڑے تھے۔ بے ٹکٹے مسافروں کا کیا وہ کبھی بھی بھاگ سکتے ہیں۔
اقتدار کی گاڑی چل تو رہی ہے مگر جل بھی رہی ہے۔ ڈرائیور اناڑی او رنا قابل اعتبار ہے۔ بد قسمتی سے یہ اپ ٹرین ہے جو سمندر کی طرف رواں ہے۔ کانٹا بدلنے والا بھی کوئی نہیں نہ کوئی گارڈ جھنڈی دِکھلانے والا ہے۔ یہ چوبیس کروڑ مسافروں سے بھری ٹرین ان دیکھی منزل کی طرف دوڑ رہی ہے۔ خطرہ ہے کوئی گھیمبر جیسا حادثہ نہ ہو جائے۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ انجن میں زیادہ تیل نہیں۔ تیل ختم ہوا تو ریل گاڑی رُک جائے گی۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو اور سانگی جیسا حادثہ ٹل جائے۔ رضا علی عابدی نے ریل کہانی میں لکھا ہے کہ ہندوستان میں باسٹھ ہزار کلو میٹر ریل کی پٹریاں بچھائی گئیں تھیں۔ پتہ نہیں پاکستان کے حصے میں کتنی تھیں اور اب کتنی رہ گئی ہیں۔ فاونڈری والے حکمران بنے تو بہت سی پٹڑیاں اکھاڑ دی گئیں۔ چکوال پنڈی ریل کار بند ہوئی تو مرحوم ڈاکٹر اجمل نیازی نے اس پر ”ماتمی“ کالم لکھے۔ عنوان تھا ”گڈی کوُک پئی مریندی ایے“ یہ دُکھی مگر رومینٹک کالم تھے، میانوالی اور بنوں ٹرین بھی ختم ہو گئی اور گڈی آئی گڈی آئی نارووال دی بھی اب جموں سے نہیں آتی اس لیے پٹڑی فاونڈری والوں کے کام آ گئی۔
5 184 میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے برطانوی سرمائیہ داروں کو پانچ فیصد سود پر ایسٹ انڈین ریلوے کمپنی پر سرمائیہ کاری پر قائل کر لیا۔ اُس دور میں یہ سود کا سب سے بڑا ریٹ تھا جس کی مثال دُنیا میں نہیں ملتی۔ ”An Era of Darkness“ کا مصنف ششی تھرور لکھتا ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی اور پھر برٹش انڈین حکومت نے چین کے بعد دوسری بڑی خوشحال اور امیر ترین سلطنت مغلیہ کو لوٹا اور پھر کبھی سود اور کبھی ترقیاتی منصوبوں کی آڑ میں ساری دولت انگلینڈ منتقل کر دی۔ کھیل تو اب بھی جاری ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ریلوں کی جگہ میٹرو، موٹر ویز اور درجنوں ایسے منصوبے ہیں جن میں سود پر حاصل کی گئی کھربوں ڈالر کی سرمائیہ کاری میں آدھی سے زیادہ رقم کک بیک، کمیشن اور منی لانڈرنگ جیسے طریقوں اور منصوبوں کے ذریعے واپس برطانوی، امریکی، اماراتی اور دیگر غیر ملکی بینکوں میں چلی جاتی ہے۔
”ٹرین ٹو پاکستان“ خشونت سنگھ کا شاہکار ناول ہے۔ آہوں، سسکیوں، جلتی بستیوں، اُجڑتے شہروں، قتل و غارت گری کی طویل داستانوں، قراۃ العین حیدر کے آگ کے دریاوں کے بیچو بیچ ”ٹرین ٹو پاکستان“ جیسی عشق و محبت کی داستان ایک الگ اور انوکھے روپ میں بیان کرنا خشونت جیسے قلمکار کا ہی فن ہے۔اس ٹرین میں سینکڑوں مسلمان مرد، عورتیں اور بچے سوار تھے۔ سکھوں نے ٹرین پُل سے گرانے کا منصوبہ بنایا۔ تیاری مکمل ہو گئی مگر کسی کو خبر نہ تھی کہ اِس ٹرین میں ایک سکھ کی مسلمان محبوبہ بھی سوار ہے جو ہجرت کر کے پاکستان جا رہی ہے۔ سکھ نے عشق مجازی سے سر شار ہو کر محبوبہ کی خاطر جان دے کر ٹرین بچا لی۔ آخر میں لکھا ہے ”انجن اُسپر چڑھا کھڑا تھا۔ اُس پر گولیوں کی باڑ ماری گئی۔ آدمی ٹوٹ کر بکھر گیا۔ رسی اُس کے گرتے ساتھ ہی ٹوٹ گئی۔ گاڑی اُس کے اوپر سے گزرتی ہوئی سیٹی بجاتی پاکستان کی طرف بڑھتی گئی“۔سکھ نے سکھوں کے ساتھ لڑ کر جان دے دی اور اپنی محبوبہ کو پاکستان بھیجنے میں کامیاب ہو گیا۔ ٹرین کا جو حشر ہوا اور اب تک ہو رہا ہے اُس کا احوال تو سامنے ہے۔ ہو سکتا ہے کہ جناب بلاول ایک بار پھر امریکہ جائیں اور ٹرین بچانے کا بھی کوئی گُر سیکھ لیں۔ سکھ کی مسلمان محبوبہ کہاں گئی پتہ نہیں کہیں وہ ریل کی پٹڑیوں کی طرح نیلام تو نہیں ہو گئی تھی۔ قدرت اللہ شہاب کی ”یا خُدا“ میں ایسے چاند چہروں اور نازک اندام شہزادیوں کا ذکر ہے جنہیں پاکستانی سیٹھوں، نودولتیے امیروں اور ڈیرے دار سیاستدانوں نے دو روپے نقد اور دو وقت کی روٹی کے عوض خریدا اور اپنی شیورلیٹ لمبی لمبی کاروں میں بٹھا کر لے گئے۔ سیٹھوں، سرمائیہ داروں اور نو دولتیے سیاستدانوں کا کاروبار ہر جگہ ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ اُدھر سکھوں اور ہندوں نے آگ کے دریا بہائے اور ِادھر مسلمانوں نے وہی روپ دھار لیا۔ دیکھیے اب کیا ہوتا ہے۔ ٹرین پھر جل رہی ہے اور چل بھی رہی ہے۔ یہ سب قدرت کے ہاتھ میں ہے شاید کوئی وطن سے عشق کرنے والا اپنی جان پر کھیل کر ٹرین بچا لے۔ گاڑی مسلسل کوک مار رہی ہے مگر کوئی سن ہی نہیں رہا۔ اب تو کوئی لکھنے والابھی نہیں رہا کہ:۔
”گڈی کوک پئی مریندی اے“

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے