آئینہ گفتار، آئینہ کردار

حضرت میاں محمدبخشؒ فرماتے ہیں:
مر مرہک بناون شیشہ تے مار وٹہ ہک بھندے
دُنیا اُتے تھوڑے ہوندے قدر شناس سخندے
انسان کا کردار و گفتار اُس کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ اقبال ؒ نے میاں محمد بخشؒ کے اسی بیان کو اِن الفاظ میں پیش کیا:
نگاہ بُلند سخن دلنواز جاں پُر سوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کیلئے
انسان کتنا ہی بڑا عالم و دانشور یا کسی اعلٰی عہدے پر فائز کیوں نہ ہو اُس کی زبان اُسے گنواروں اور بد اطواروں کی صف میں لا کھڑا کرتی ہے۔ کسی دانشور کا قول ہے کہ منہ سے نکلے دو لفظ انسان کے کردار کو داغدار کرنے کیلئے کافی ہوتے ہیں۔ بُردباری اور تحمل مزاجی کا اظہار گفتار سے ہی ہوتا ہے۔ کردار کا آئینہ گفتار کی چمک کا محتاج رہتا ہے اور قدر شناسی سخن شناسوں کے کردار کا جوہر ہے۔جسونت سنگھ علامہ محمد اقبالؒ کو اپنا گرو تسلیم کرتے ہیں۔ جسونت سنگھ نے اپنی داستان حیات میں لکھا کہ قائد اعظمؒ محمد علی جناح کی سوانح اقبالؒ سے بہتر کسی نے نہیں لکھی۔ اقبالؒ نے قائداعظمؒ کی سوانح حیات صرف ایک ہی شعر میں سمو کر کتابوں کی اہمیت کم کر دی۔ اقبالؒ کا یہ شعر ساری دُنیا کے قائدین کے اوصاف کا احاطہ کرتا ہے اور جس شخص میں یہ تین خوبیاں نہ ہوں وہ کسی قوم کی قیادت کے قابل نہیں ہوتا۔ اگر کوئی شخص اِن تین خوبیوں سے مزین نہ ہو اور کسی بھی طریقے سے حکمران یا کسی اعلٰی عہدے پر فائز ہو جائے تو وہ اُس قوم، قبیلے یا ادارے کی تنزلی کا باعث بن جاتا ہے۔ کم ظرف، بد کلام، بد اطوار، بے حس اور عام لوگوں کے دُکھ درد اور تکالیف نہ سمجھنے والا شخص خود غرض، مفاد پرست، بے مروت، کمینہ صفت، کینہ پرور اور شرم و حیا ء کے دائرے سے باہر ہوتا ہے۔ امام غزالیؒ اور ابنِ خلدون نے لکھا ہے کہ ایسا شخص حکمران بن جائے تو وہ حرام اور غلیظ مال کھاتا اور اپنے قریب بیٹھے لوگوں کو کھلاتا ہے۔ حرام و غلیظ مال سے مراد عام لوگوں کا حق جن میں یتیم۔۔۔۔بیوائیں، غریب و مساکین اور بے سہارا لوگ شامل ہیں جنکا رزق اللہ نے صاحب اقتدار، صاحب اختیار اور صاحب استعداد لوگوں کے ذمے کیا ہے۔ حکمران کا اولین فرض عام لوگوں کے حقوق کا تحفظ اور کفالت ہے۔ اگر کوئی حکمران ایسا نہیں کرتا تو وہ خائن ہے۔
دُنیا میں ہر جگہ عام لوگوں کی تعداد ہمیشہ ہی خواص کی نسبت ذیادہ ہوتی ہے۔ اِن لوگوں میں محنت کش، مزدور، کسان اور ہنر مند شامل ہوتے ہیں جو ملک و ملت کی خوشحالی کا باعث بنتے ہیں۔ اِن کی کمائی سے ملکی نظام چلتا ہے اور سپاہ کی ضروریات پوری کی جاتی ہیں۔ اِن ہی عام لوگوں میں سے ایک شخص کو میر کارواں یعنی حکمران منتخب کیا جاتا ہے جو صاحب کردار اور شیریں گفتار ہو۔ جسے عام لوگوں کی ضروریات اور مصائب کا نہ صرف احساس ہو بلکہ اُنہیں حل کرنے کا ہُنر بھی آتا ہو۔ جس میں جرائم کا سدِ باب کرنے کی صلاحیت اور احکامات پر سختی سے عمل کروانے کی ہمت و جراٗت ہو۔ جو شخص امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کی صلاحیت رکھتا ہووہی ”اولیٰ الامر“ کے مرتبے پر فائز ہونے کا حقدار ہے۔ یہ شخص جب ان ہی اوصاف سے مزین ایک جماعت کا چناوٗ کرتا ہے اور اُنہیں ریاست کے جملہ امور چلانے اور حفاظت کرنے والے اداروں کا سربراہ مقرر کرتا ہے تو ریاست کی ھیت از خود اسلامی فلاحی ریاست کا نمونہ بن جاتی ہے۔
اولیٰ الامر اور اُس کے معاونین جن میں وزیر، مشیر، سرکاری افسر و اھلکار اور اس طرح دیگر اداروں کے سربراہان جن میں فوج اور عدلیہ شامل ہیں کے سربراہان کا چناوٗ خالصتاً قابلیت اعلیٰ اخلاقی، انسانی اوصاف، اخلاص، فضیلت اور عصبیت کے معیار پر ہو تب ہی ریاست کا نظام مثالی ہو سکتاہے۔ اولامر اور ان امور پر مامور افراد کا غلط چناوٗ اگر عوام الناس کریں تو وہ خود مجرم اور سزا کے حقدار ہیں۔ اگر اولامر خود اپنے درجے سے گر کر سفاکیت، حرص و ہوس میں مبتلا ہو جاتا ہے اور بھر اپنے جیسے اور اپنے سے بھی بد تر لوگوں پر مشتمل جماعت کا چناوٗ کرتا ہے تو ایسے شخص کی اطاعت اور اُس کی جماعت کے نافذ کردہ احکامات سے رو گردانی ہر شخص پر واجب ہے۔ یونانی فلاسفہ میں جمہور کا یہی سیاسی نظریہ ہے کہ قدرت نے انسان کو آزاد پیدا کیا ہے۔ مقتدر اعلیٰ یا اقتدار اعلیٰ کا نظام چلانے والے امراٗ و فقہا اُنھیں ایسے قوانین کا پابند نہیں کر سکتے جو اُن کے حقوق سلب کرنے کا باعث ہوں۔ آگے چلکر دیگر فلاسفہ حکماٗ نے بھی اِسی نظریے کو دوام بخشا اور فرد کی معاشرے اور ریاست میں اہمیت کو افضل قرار دیا۔ علمائے سیاسیات و عمرانیات میں سے بیشتر نے فرد کو معاشرے سے بہتر اور معتبر اکائی قرار دیا ہے مگر اقبالؒ نے معاشرے کی فضیلت پر زور دیا ہے۔
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
موریلی لکھتا ہے کہ موذی امراض کی وجہ ایک ہی شخص بنتا ہے۔ اگر اُس کے مرض کی تشخیص بر وقت ہو جائے اور اُسے دیگر افراد سے الگ کر دیا جائے تو ایک شخص کا علاج آسانی سے ہو سکتا ہے۔ ایک گندی مچھلی سارے جل کو گندا کرنے کا باعث بنتی ہے اور ایک بُرا اور بد اطوار شخص معاشرے کے بھگاڑ کے لیے کافی ہوتا ہے۔ ٹالسٹائی لکھتا ہے کہ بد خو، بد اخلاق اور حریص شخص کی حکمرانی سے بہتر ہے کہ کسی عزت دار، انسان دوست، نرم خو اور عادل حکمران کی غلامی قبول کر لی جائے۔ وہ لکھتا ہے کہ عوام الناس کا المیہ یہ ہے کہ جب تک وہ فریب کار، دھوکہ باز اور ڈاکو صفت حکمرانوں کی حقیقت سے واقف ہوتے ہیں تب تک وقت کا پہیہ گھوم چکا ہوتا ہے اور عوام جبر سہنے اور اپنی عزت نفس کی قربانی دینے کے عادی ہو چکے ہوتے ہیں۔
مسلم مفکر الکندی نے ہر پیشے سے منسلک افراد کی نفسیات کا الگ الگ تجزیہ کیا ہے۔ وہ عام عورتوں، کنیزوں، شہزادیوں، طوائفوں، تاجروں اور عام لوگوں کی نفسیات کے متعلق لکھتے ہیں کہ تاجروں اور طوائفوں کی نفسیات میں کافی حد تک مماثلت ہوتی ہے۔ مسلمان تاجروں کے زمرے میں لکھتے ہیں کہ وہ کبھی گھٹیا مال نہ خریدتے ہیں اور نہ ہی فروخت کرتے ہیں۔ تجارت اور گلہ بانی پیغمبری پیشہ ہے مگر تاجروں کے بھیس میں لٹیرے اور ڈاکو ناپ تول میں کمی اور گھٹیا مال کو اصل شکل دیکر فروخت کرتے ہیں۔ وہ تجارت میں اجارہ داری، فریب کاری، ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کو حرام خوری قرار دیتے ہیں۔
جس طرح طوائف بن سنور کر اپنی اصل حقیقت چھپا لیتی ہے اور گاھکوں کا دل لبھاتی اُن کی جیبیں اور پھر تجوریاں خالی کر دیتی ہے اسی طرح منافع خور تاجروں کے مختلف روپ ہوتے ہیں۔ وہ کبھی سچ نہیں بولتے اور نہ ہی انسانیت کے جذبے سے سرشار ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ قابلِ بھروسہ نہیں ہوتے اور اُن کی خو آئیندہ نسلوں میں منتقل ہو جاتی ہے۔
عاقبت گرگ ذادہ گرگ شود
گرچہ با آدمی بندرگ شود
(شیخ سعدیؒ)
بھیڑیے کا بچہ بھیڑیا ہی رہتا ہے اگرچہ اُس کی پرورش انسانوں میں ہی کیوں نہ ہو۔
محمد ایوب کی کتاب ”صائمہ“ کے ابتدائی صفحے پر ”دولباخ“ کا قول نقل کیا گیا ہے۔ اس کتاب کا انتساب اھلِ وطن کے نام ہے جو کاروباری سیاستدانوں اور خود غرض حکمرانوں کو نجات دھندہ تصور کیئے امن، عدل اور خوشحالی کی اُمید پر زندہ ہیں۔”دولباخ“ کا قول ہے کہ کاروباری طبقہ دُنیا کا خطرناک ترین طبقہ ہے جو بر وقت مکار لومڑیوں اور خونخوار بھیڑیوں کی طرح شکار کی تلاش میں رہتا ہے۔ اسکا دین و ایمان، اخلاق، اخلاص، انس و محبت منافع خوری کے دائرے میں مقید ہوتا ہے۔ یہ طبقہ دوستی کرتا ہے نہ دشمنی مول لیتا ہے۔ وہ صرف سستے داموں عمدہ مال خریدتا اور مہنگے داموں گھٹیا مال بیچتا ہے۔ وہ نہ منصف ہوتا ہے نہ ہی مصلح۔ خستہ حال ریاست اور بکھرا ہُوا معاشرہ کاروباری لوگوں کیلئے دُنیا میں سب سے بڑی منڈی ہے۔ ایسی ریاست اور معاشرے میں بسنے والے لوگ اپنا سب کچھ بیچنے کو تیار ہو جاتے ہیں بشرطیکہ اُنہیں پیٹ بھرنے کیلئے روٹی مل جائے۔ کاروباری طبقہ اگر اقتدار پر قابض ہو جائے تو وہ سب سے پہلے ملک دشمنوں کو اپنے کاروبار میں شرکت کی دعوت دیتا ہے اور عوام کو خوشحالی کی اُمید دلا کر اُنھیں لوٹ لیتا ہے۔ وہ محصولات میں اضافہ کرتا ہے اور محاصل اپنے کاروباری دوستوں اور خاندان پر خرچ کرتا ہے۔ ایسے حکمرانوں کے دور میں عوام فاقے کرتے ہیں تاکہ چند لوگ عیش و عشرت کی زندگی بسر کر سکیں۔ آج پاکستان جس دوراہے پر کھڑا ہے اور عوام جس کرب میں مبتلا ہیں یہ سب کاروباری سیاست کا ہی نتیجہ ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے