پکے کے ڈاکوئوں کا کچے کے ڈاکووں پر حملہ

سندھ، بلوچستان اور صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع ڈیرہ اسمعٰیل خان کے کچھ علاقے جن کی سرحدیں پنجاب سےملتی ہیں کچے کے علاقے کہلاتے ہیں ۔ دریائے سندھ ، ستلج اور دیگر معاون دریاوٗں کے سیلابی پانی سے آباد علاقوں اورزرعی زمینوں کی حفاظت کیلئے بنائے گئے طویل پشتوں کی وجہ سے کچے کا علاقہ ہر سال سیلابی ریلوں کی زد میں آتاہے اسلیے صوبائی حکومتیں وہاں کسی قسم کی آباد کاری نہیں کرتیں اور نہ ہی اِن وسیع و عریض علاقوں کیلئے کوئیبجٹ مختص کرتی ہیں ۔ کچے کے علاقے پانی کی بہتات کی وجہ سے انتہائی زرخیز اور گھنے جنگلات پر مشتمل ہیںجہاں محفوظ جگہوں پر آبادیاں بھی ہیں ۔دریائے سندھ کے اطراف صوبہ سندھ کے کچے کا سارا علاقہ سندھی ، وڈیروں اور نوابوں کی ملکیت ہے اور اِن علاقوںمیں یہ لوگ پتھاری داروں کے ذریعے حکومت کرتے ہیں ۔
پتھاری دار جرائم پیشہ افراد کے خاندانوں کو اِن علاقوں میں آباد کرتے ہیں اور اِن کی حفاظت کا ذمہ بھی لیتے ہیں۔سندھ میں کچے کے علاقے کو (کے۔ٹی) کہتے ہیں جہاں وڈیرہ شاہی نظام چلتا ہے ۔ یہ لوگ پکے کے علاقوں میں چوریاںاور ڈاکے ڈالنے کے علاوہ اغواٗ کاری کرتے ہیں اور الیکشن کے موسم میں یہ لوگ پولیس کی حفاظت میں وڈیروں اور بااثر شخصیات کیلئے ووٹ بھی ڈالتے ہیں۔ ان علاقوں میں گندم کے علاوہ کیلا، خربوزہ اور تربوزے کی بہتات ہے۔ علاوہاِس کے بھیڑ ، بکریاں اور گائے بھینسوں کے وسیع فارم ہیں جن کی وجہ سے (کے۔ٹی) مالکان کو ہر سال کروڑوں کیآمدنی ہوتی ہے۔ سندھ میں سب سے بڑی کیٹیاں ممتاز اور جتوئی (کے۔ٹی) ہیں ۔ اِن ہی دو کیٹیوں میں ۱۹۸۴۔۸۵ میںبڑا آرمی آپریشن کیا گیا مگر پیپلز پارٹی اور سندھ کی قوم پرست جماعتوں نے اِس آپریشن کی کھل کر مخالفت کی اوراسے سندھیوں کی نسل کشی کا نام دیا۔ اس آپریشن کی ابتداٗ مہڑ کے علاقہ میں ڈاکووں کے ہاتھوں دو فوجی افسروںکی شہادت کے بعد ہوئی جن کے نام میجر داود اور کیپٹن یوسف نیازی تھے۔ مہڑ لاڑکانہ روڈ پر ڈاکو بسیں لوٹ رہے تھےکہ دونوں افسر جن کے ہمراہ صرف چار جوان تھے اتفاقاً اسی سڑک پر مہڑ سے لاڑکانہ جا رہے تھے ۔ مسافروں پرتشدد اور لوٹ مار دیکھتے ہوئے دونوں افسروں اور جوانوں نے ڈاکووں پر حملہ کر دیا ۔ کم تعداد اور کم اسلحہ ہونے کےباوجود ڈٹ کر لڑے اور دس سے زیادہ ڈاکووں کو موقع پر ہلاک کرنے کے بعد خود بھی شدید زخمی ہو گئے ۔ لاڑکانہ سےکمک پہنچنے سے پہلے ہی میجر داود شہید ہو گئے اور کیپٹن یوسف خان نیازی جرمنی میں دورانِ علاج خالقِ حقیقی سےجا ملے۔ڈاکووں کو سندھ پولیس ، سیاستدانوں ، وڈیروں اور غیر ملکی ایجنٹوں کی حمائت حاصل تھی ۔ ڈاکووں نے سندھ کےدریائی علاقوں کی آبادیوں پر منظم حملے کیے اور آباد کاروں کے گاوں جلا دیے ۔ پنجابی اور اردو بولنے والے مہاجرکسانوں کی فصلیں جلا ڈالیں اور اُن کی عورتیں اور بچے اغواٗ کر لیے ۔ ڈاکو اس قدر منظم ، تربیت یافتہ اور مسلح تھےکہ اُن کے ایک گروپ نے جنرل علی قلی خان خٹک جو تب بریگیڈیٗر تھے کے کانوائے پر حملہ کر دیا ۔ اُس کانوائے کیساری گاڑیاں جلا ڈالیں اور حفاظتی دستے کے بہت سے جوان لڑتے ہوئے شہید ہو ئے۔ بریگیڈیر علی قلی خان دو جوانوںکے ہمراہ کافی دیر لڑنے کے بعد اندھیرے کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے جنگل میں روپوش ہو گئے اسی رات اطلاع ملنے پر کمانڈرایس ایس جی بریگیڈ یر سید طارق محمود ایک مختصر فورس لیکر ہیلی کاپٹر کے ذریعے جائے حادثہ کے قریب اُترے ۔ایس ایس جی کے اس مختصر دستے نے ڈاکووں کی کمین گاہ پر چھاپہ مار کاروائی کرتے ہوئے پتھاری دار کو ہلاک کردیا اور ڈاکو تتر بتر ہو گئے۔ اگلی صبح سورج طلوع ہونے سے پہلے بریگیڈیر علی قلی خان خٹک کو بھی بحفاظتریسکیو کر لیا گیا جس کے بعد میجر جنرل عبدالوحید کاکڑ (سابق آرمی چیف) کی قیادت میں آرمی آپریشن شروع ہواجو بڑی حد تک کامیاب رہا۔ ہزاروں کی تعداد میں مغوی عورتیں ، مرد ، بچے اور بوڑھے رہا ہوئے اور بڑی تعداد میںاسلحہ برآمد ہُوا۔ اطلاع کے مطابق اس آپریشن میں الذولفقار تنظیم کے کیمپ تباہ ہوئے اور بڑی تعداد میں کارکن ہلاکبھی ہوئے۔ اِس سلسلے کا آخری آپریشن سندھ کے ضلع قمبر اور بلوچستان کے ضلع خضدار کے درمیان واقع کوہِکیرتھر کے سب سے اونچے مقام کھنجی میں کمانڈر ایس ایس جی بریگیڈیر طارق محمود (ٹی ۔ ایم ) کی قیادت میں ہُوا۔کھنجی ایک وسیع اور دلکش مناظر کا حامل بڑا میدان ہے جہاں ڈاکووں نے دادن نامی شخص کی زیر نگرانی بڑا گاوںآباد کر رکھا تھا ۔ کھنجی ایک پُر فضا ٗ مقام ہے جہاں کھجوروں ، انگوروں اور اناروں کے باغات اور جگہ جگہ پانی کےچشمے ہیں ۔ سارا علاقہ زرخیز ہے اور ہر قسم کی فصلیں پیدا ہوتی ہیں ۔ دادن کی اس ریاست میں ڈاکووں کو عیاشیکے سارے سامان میسر تھے ۔ ہر ڈاکو نے کئی کئی خوبصورت اغواٗ شدہ عورتیں رکھی ہوئیں تھیں جن میں سے اکثر کےبچے بھی تھے ۔ کھنجی کی ریاست ابن سبا کی جنت کا نمونہ تھی اور شاید اب بھی ہو ۔
ڈاکووں کو سندھ پولیس ، سیاستدانوں ، وڈیروں اور غیر ملکی ایجنٹوں کی حمائت حاصل تھی ۔ ڈاکووں نے سندھ کےدریائی علاقوں کی آبادیوں پر منظم حملے کیے اور آباد کاروں کے گاوں جلا دیے ۔ پنجابی اور اردو بولنے والے مہاجرکسانوں کی فصلیں جلا ڈالیں اور اُن کی عورتیں اور بچے اغواٗ کر لیے ۔ ڈاکو اس قدر منظم ، تربیت یافتہ اور مسلح تھےکہ اُن کے ایک گروپ نے جنرل علی قلی خان خٹک جو تب بریگیڈیٗر تھے کے کانوائے پر حملہ کر دیا ۔ اُس کانوائے کیساری گاڑیاں جلا ڈالیں اور حفاظتی دستے کے بہت سے جوان لڑتے ہوئے شہید ہو ئے۔ بریگیڈیر علی قلی خان دو جوانوںکے ہمراہ کافی دیر لڑنے کے بعد اندھیرے کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے جنگل میں روپوش ہو گئے اسی رات اطلاع ملنے پر کمانڈرایس ایس جی بریگیڈ یر سید طارق محمود ایک مختصر فورس لیکر ہیلی کاپٹر کے ذریعے جائے حادثہ کے قریب اُترے ۔ایس ایس جی کے اس مختصر دستے نے ڈاکووں کی کمین گاہ پر چھاپہ مار کاروائی کرتے ہوئے پتھاری دار کو ہلاک کردیا اور ڈاکو تتر بتر ہو گئے۔ اگلی صبح سورج طلوع ہونے سے پہلے بریگیڈیر علی قلی خان خٹک کو بھی بحفاظتریسکیو کر لیا گیا جس کے بعد میجر جنرل عبدالوحید کاکڑ (سابق آرمی چیف) کی قیادت میں آرمی آپریشن شروع ہواجو بڑی حد تک کامیاب رہا۔ ہزاروں کی تعداد میں مغوی عورتیں ، مرد ، بچے اور بوڑھے رہا ہوئے اور بڑی تعداد میںاسلحہ برآمد ہُوا۔ اطلاع کے مطابق اس آپریشن میں الذولفقار تنظیم کے کیمپ تباہ ہوئے اور بڑی تعداد میں کارکن ہلاکبھی ہوئے۔ اِس سلسلے کا آخری آپریشن سندھ کے ضلع قمبر اور بلوچستان کے ضلع خضدار کے درمیان واقع کوہِکیرتھر کے سب سے اونچے مقام کھنجی میں کمانڈر ایس ایس جی بریگیڈیر طارق محمود (ٹی ۔ ایم ) کی قیادت میں ہُوا۔کھنجی ایک وسیع اور دلکش مناظر کا حامل بڑا میدان ہے جہاں ڈاکووں نے دادن نامی شخص کی زیر نگرانی بڑا گاوںآباد کر رکھا تھا ۔ کھنجی ایک پُر فضا ٗ مقام ہے جہاں کھجوروں ، انگوروں اور اناروں کے باغات اور جگہ جگہ پانی کےچشمے ہیں ۔ سارا علاقہ زرخیز ہے اور ہر قسم کی فصلیں پیدا ہوتی ہیں ۔ دادن کی اس ریاست میں ڈاکووں کو عیاشیکے سارے سامان میسر تھے ۔ ہر ڈاکو نے کئی کئی خوبصورت اغواٗ شدہ عورتیں رکھی ہوئیں تھیں جن میں سے اکثر کےبچے بھی تھے ۔ کھنجی کی ریاست ابن سبا کی جنت کا نمونہ تھی اور شاید اب بھی ہو ۔ کھنجی جانیوالے تینوں راستے انتہائے مشکل اور دشوار گزار تھے ۔ ایک راستہ لاڑکانہ اور قمبر کی طرف سے، دوسراجھل مگسی اور تیسرا خضدار کی تحصیل ضدی کی طرف تھا ۔ خضدار کی طرف سے ایک خفیہ راستہ ڈاکووں نےخود بنا رکھا تھا جو اونٹوں اور گدھوں کے ذریعے سامان لانے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ دادن ایک سیاسی ورکر بھیتھا جس کے دوستانہ تعلقات ساسولی، بزنجو ، مگسی ، مینگل اور زہری وڈیروں اور سرداروں سے بھی تھے ۔
بظاہر وہ طویل القامت ، ملنسار اور انتہائی پُر کشش ، تعلیم یافتہ بلوچ سردار تھا جو دیکھنے میں ہرگز ڈاکو نہیں لگتاتھا ۔ جن دنوں راقم بہا ٗوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں زیرِ تعلیم تھا اورمیرے کچھ طالبِ علم ساتھی جن کا تعلقبلوچستان سے تھا کی دعوت پر بلوچستان کی سیاحت کا موقع ملا تو اتفاقاً خضدار میں قیام کے دوران سینیٹر سرداریوسف خان ساسولی کے ڈیرے پر پیپلز پارٹی کے سینیٹر سردار دادن خان سے بھی ملاقات ہوئی۔ سینیٹر دادن خان کیکہانی اُنہیں دوستوں کی زبانی معلوم ہوئی تو حیرانگی کے ساتھ بے یقینی کی کیفیت بھی طاری ہو گئی ۔راوی کے بیان کے مطابق کمانڈر ایس ایس جی کا معلومات حاصل کرنے کا الگ طریقہ تھا ۔ وہ انٹیلی جنس رپورٹوں پریقین نہ کرتے تھے۔ کمانڈر ایس ایس جی نے پیر پگاڑا صاحب کے کچھ خاص مریدوں ، پیر صاحب رانی پور اورنوابزادہ سلیم اکبر بُھگٹی کے علاوہ سکھر جیل میں کچھ قیدیوں سے ملاقات کی۔ لاڑکانہ سرکٹ ہاوٗس میں اپنےافسروں سے مشاورت کی اور آپریشن کی تیاری شروع کر دی۔ اس آپریشن سے کچھ روز قبل دِلی میں وزیرِ اعظم اندراگاندھی کا قتل ہو چکا تھا اور صدرِ پاکستان جنرل محمد ضیا الحق نے دو روز پہلے ہی لاڑکانہ کا دورہ کیا تھا۔ اُندنوں صدارتی ریفرنڈم کے سلسلہ میں صدر صاحب سندھ سمیت سارے ملک میں طوفانی دوروں پر تھے کچھ چاپلوسسیاستدان اور صحافی انہیں تبلیغی دوروں کا نام دے رہے تھے۔ بیگم نصرت بھٹو اُن دِنوں المرتضٰی میں ہی قیام پذیرتھیں جسے پیپلز پارٹی والے نظر بندی کہتے تھے۔ سرکٹ ہاوٗس کے قریب ہی کھوڑو ہاوٗس میں جناب نثار کھوڑو اورمحترمہ حمیدہ کھوڑو بھی مقیم یا نظر بند تھے۔ نثار کھوڑو کا تعلق پیپلز پارٹی اور حمیدہ کھوڑو سندھ نیشنل الائنسسے وابستہ جناب ’جی ۔ایم سید‘ کی سندھو دیش تحریک کی حامی تھیں ۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں وہصوبائی وزیرِ تعلیم بھی رہیں ۔ محترمہ حمیدہ کھوڑو ایک بڑی علمی اور ادبی شخصیت تھیں جس کی وجہ سے سندھاور پنجاب کے علمی اور ادبی حلقوں میں اُن کی بڑی عزت تھی۔ محترمہ مہتاب اکبر راشدی کا تعلق بھی سندھو دیشتحریک سے تھا مگر وہ پیپلز پارٹی میں بھی یکساں مقبول تھیں ۔
سکھر شہر میں پیر صاحب پگاڑا کی مریدنی اور افغان ہوٹل کی مالکہ محترمہ خورشید افغان بھی متحرک تھیں ۔جمالی حکومت میں وہ سکھر سے ایم ۔ این ۔ اے منتخب ہوئیں اور حکومتی مشیر بھی رہیں ۔ کھنجی آپریشن سے پہلےکمانڈر ایس۔ایس۔جی نے اپنے افسروں کے ہمراہ ’سن‘ کا بھی دورہ کیا اور جناب جی ایم سید سے ملاقات کی۔ پیرصاحب آف رانی پور سے وہ پہلے ہی مل چکے تھے جسکا خاطر خواہ اثر اس آپریشن پر ہُوا۔ سندھ میں ڈاکو ہو یا پھرکسی بھی عہدے یا رتبے کا شخص۔ سوائے بھٹو اور زرداری خاندان کے باقی عوام و خواص وڈیروں، میروں، جاگیرداروں اور سیاستدانوں سے بڑھ کر سیدوں اور پیروں کی عزت و احترام کرتے ہیں ۔ آپریشن سے پہلے اِن ملاقاتوں کانفسیاتی اور سیاسی اثر بھی ہُوا۔ سندھ بھر میں جہاں جہاں ڈاکووٗں کے ٹھکانے تھےوہ خود ہی خالی کر کے حیڈرآباد،کراچی اور پنجاب میں اپنے اپنے علاقوں میں چلے گئے۔ ڈاکووٗں کے منظم گروہوں کی بھی ایک بین الصوبائی تنظیم ہےجو ایک موثر سوشل ، انٹیلیجنس اور آپریشنل کاروائیوں پر نظر رکھتی ہے۔ پشاور سے کراچی جانیوالی زمینی ٹریفک اوراُس پر لدے سامان اور سواریوں کی تفصیل فراہم کی جاتی تاکہ موزوں جگہ پر بسوں کو لوٹا جائے یا دیگر سامان پرٹرک ڈرائیوروں سے بھتہ وصول کیا جائے ۔ اِن ہی میں سے کچھ گروپ سمگلروں کو محفوظ راستے مہیا کرتے ہیں اورحفاظتی گارڈ بھی فراہم کرتے ہیں ۔پولیس اور مقامی سیاستدان اِن سے روزینہ ، ماہانہ اور سالانہ وصول کرتے ہیں ۔ یہی لوگ اعلٰی اشرافیہ کو عیش وعشرت کے لوازمات فرہم کرتے ہیں اور بدلے میں قانون کی گرفت سے محفوظ رہتے ہیں ۔
ڈاکووٗں ، سیاستدانوں ، گدی نشینوں اور ہر قسم کے مافیاٗ کا بھی ایک باہم اور گہرا تعلق ہے۔ بحریہ ٹاوٗن کے ملک ریاض اور باری برادران کے درمیان چپقلش شروع ہوئی تو چکوال سے آئے ایک گدی نشین نے دونوں کے درمیان صلح کروادی۔ ہمارے علاقہ میں سب سے بڑی برادری جنجوعہ تو کہلواتی ہے مگر راجپوتی کے زمرے میں نہیں آتی۔ چھ گاوٗں پرمشتمل یہ قبیلہ ڈھانگری بالا ضلع میر پور (آزاد کشمیر) کے مشہور روحانی فیض پوری خاندان کا مرید ہے۔ سجادہنشین دربار عالیہ ڈھانگری شریف حضرت قبلہ صاحبزادہ عتیق الرحمٰن فیض پوری (مرحوم) سابق وزیر مذہبی امورالیکشن کے موقع پر موضع ساہ تشریف لائے اور اپنے مریدین سے پوچھا کہ کیا تم لوگ سورۃ یسٰین پڑھتے ہو۔ مریدیننے ہاں میں جواب دیا تو (استغفر اللہ) پیر صاحب نے فرمایا کہ پھر تم صرف یسٰین نام کے امیدوار کو ووٹ دو۔ حیرتکی بات ہے کہ حلقہ نرماہ کے چھ گاوٗں پر مشتمل آبادی پیر صاحب کے حکم کی تعمیل کرتی ہے اور یسٰین نامی شخصکو نہ صرف ووٹ دیتی ہے بلکہ مالی معاونت بھی کرتی ہے۔ اِسی طرح سندھ اور بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں علماٗکے سیاسی فتوے اثر رکھتے ہیں جو ڈاکووٗں ، سیاستدانوں اور مافیاٗ سے منسلک کاروباری خاندانوں کیلئے سہولتکاری کا باعث ہیں۔کھنجی آپریشن سے پہلے ایس ایس جی کے جوانوں نے جیکب آباد ، کشمور ، گڑھی یسٰین اور لاڑکانہ کے دیہی اوردریائی علاقوں میں سرچ آپریشن کیا مگر کسی بھی جگہ کوئی مزاحمت نہ ہوئی۔ لوگوں نے ایس ایس جی کے جوانوںکو دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا اور ڈاکووٗں کے خالی کردہ ٹھکانے بھی دِکھلائے۔ دیہاتیوں نے سیاستدانوں اوروڈیروں کے جبر کی داستانیں سنائیں کہ کسطرح اُن سے زبر دستی ووٹ ڈلوائے جاتے ہیں ، اُن سے غلامانہ سلوک کیاجاتا ہے، اُن کی عورتوں اور بچیوں کی عزت پامال کی جاتی ہے اور بدلے میں اُنہیں روٹی اور زندہ رہنے کا حق دیا جاتاہے۔ اکثر لوگ جنرل ضیا الحق کے دورہ سندھ پر بے حد خوش تھے اور پوچھتے تھے کہ کیا سائیں ضیاالحق بھٹو سائیںکے بعد ہمارا بادشاہ ہو گا؟ سنا ہے پگاڑو سائیں بھی اِس کے ساتھ ہے۔ اللہ سائیں اِسے سلامت رکھے ۔ (جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے