مسئلہ کشمیر پندرہ سو سال پرانا

پہلگام واقعے نے پاکستان اور بھارت کے درمیان پہلے سے جاری چپقلش کو مزید بڑھا دیا ہے۔ دونوں ملکوں کے عوام مشتعل ہیں اور فوجیں جنگ کیلئے تیار ہیں مگر بھارت کی بدقسمتی کہ عالمی سطح پر اسے وہ پذیرائی نہیں ملی جسکا وہ سوچ رہا تھا اور سفارتی سطح پر بھی ندامت اٹھانا پڑی۔
بھارت کی چانکیائی چالیں اب اسی کے گلے پڑ رہی ہیں مگر یاد رہے کہ بھارت کبھی بھی باز نہیں آئے گا اور کوئی نہ کوئی فتنہ کھڑا کرتا رہے گا ۔ مودی نے پہلا الیکشن ہندووتا کے نام پر اور دوسرا پاکستان کیخلاف دہشت گردی کے جھوٹے الزامات کی بنیاد پر لڑا اور کامیاب ہوا ۔ بھارتی دانشور راج دیپ سردیسی نے پانچ سو صفحات پر مشتمل کتاب ووٹ انڈیا(The Election that surprised india2024) میں مودی کی سیاست ، شخصیت ، چالاکیوں ، چالبازیوں اور عوام کو کامیابی سے بیوقوف بنانے کی صلاحیتوں کا نچوڑ پیش کیا ہے ۔ یہ کتاب پاکستانی الیکشن کمیشن کیلئے بھی انتہائی مفید ہوسکتی ہے مگر ہمارے ہاں کا ماحول ذرا مختلف ہے ۔ مودی کا خیال تھا کہ پچھلی کارروائیوں کے نتیجے میں وہ دنیا میں مقبول ترین لیڈر اور بھارتیوں کیلئے بھگوان کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں اس لئے ’’ اب کی بار چار سو پار‘‘ اور آئیگا تو مودی ہی جیسے نعروں کا پرچار ہوا ۔ بھارتی ٹیلی ویژن اینکروں ، صحافیوں اور اخباروں نے پروپیگنڈا مہم شروع کردی اور ہر طرف جیت کے شادیانے بجنے لگے ۔
راج دیپ سردیسی لکھتے ہیں کہ مودی کو پہلا جھٹکا بنارس کے باسی اور اسٹیج پر مزاحیہ ادکاری کرنے والے اداکار شیام رنگیلا نے دیا ۔ رنگیلا نے مودی کے مد مقابل الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا تو پتہ چلا کہ رنگیلا مودی کی نسبت عوام میں زیادہ مقبول ہے ۔ حکومت نے بڑی مشکل سے پریزائڈنگ آفیسر پر دبائو ڈال کر رنگیلا کے کاغذات نامزدگی غلط ثابت کردیئے ورنہ مودی کی وہ جگ ہنسائی ہوتی کہ دنیا یاد رکھتی ۔
مودی کی بڑی مشکل سے عزت بچی اور مخلوط حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے ۔ مخلوط حکومتیں ہمیشہ خطرے سے دوچار رہتی ہیں اور اتحادیوں کی مانگیں پوری کرنا حکومت کیلئے مشکل ہوجاتا ہے ۔ اگلے الیکشن میں کامیابی کیلئے مودی نے کوئی تو کھیل کھیلنا ہے اور بہترین کھیل ہندو مسلم دشمنی اور پاکستان پر الزام تراشی کے سوا اور کچھ بھی نہیں ۔ ایسی صورتحال میں پاکستان میں سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کی راہین ہموار کرنا ضروری ہے ۔سندھ تاس معاہدہ ہو یا شملہ معاہدہ پانی پر پاک بھارت کشیدگی کبھی ختم نہ ہوگی اور آخر کار جنگ ہی اس کا حل ہوگا ۔ سیاسی اور معاشی استحکام کے علاوہ قومی سوچ و جذبے میں کمی بھی ہمارے لئے بڑا مسئلہ ہے ۔ جب تک ہم کالا باغ ، بھاشا اور دیگر آٹھ ڈیموں کو ترجیحی بنیادوں پر تعمیر نہیں کرتے ہماری معیشت ، صنعت و زراعت تباہی و بربادی کی طرف مائل رہے گی ۔
ٹرمپ صاحب نے فرمایا ہے کہ مسئلہ کشمیر پندرہ سو سال پرانا ہے شاید انہوں نے ٹھیک ہی کہا ہو چونکہ اس وقت ہمیں عالمی لیڈروں کے بیانات کی اشد ضرورت ہے اگرچہ پندرہ سو سال پہلے ہندوستان نام کا کوئی بڑا ملک دنیا کے نقشے پر نہ تھا مگر یہ خطہ زمین ہند کے نام سے جانا جاتا تھا ۔پندرہ سو سال پہلے کشمیر پر راجہ منگلادت کی حکمرانی تھی جس کی سرحد آموں دریا سے لے کر بحرہ عرب اور تبت سے دریائے جمنا تک پھیلی ہوئی تھی ۔ اسلامی دور آیا تو کشمیر پر راجہ رنا دت کی حکومت تھی ۔ سندھ کا راجہ داہر اس کا باجگزار تھا اور کشمیر کی سرحد دریائے گاگرہ تک تھی ۔ چچ نامہ کے مصنف نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ محمد بن قاسم ملتان سے آگے نہیں گیا اور اس نے کشمیر کے راجہ کو خیر سگالی کا پیغام بھجوایا ۔ کشمیر کی غلامی کا دور پانچ سو سالہ ہے جب یوسف شاہ چک کو اکبر نے بات چیت کے بہانے اٹک بھلا کر قید کرلیا ۔ چک خاندان کی نا اہلیوں کی وجہ سے کشمیر میں شیعہ سنی فساد کے نتیجے میں ریاست کا شیرازہ بکھر گیا اور مغل کشمیر پر قابض ہوگئے۔ بہرحال ٹرمپ صاحب نے اچھا بیان دیا ہے کہ اب ہمارے لیڈروں کو ، دانشوروں کو تاریخ کا مطالعہ کرنا ہوگا ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے